Tuesday, March 29, 2011

ماں جی

ماں جی

قدرت اللہ شہاب 

ماں جی کی پیدائش کا صحیح سال معلوم نہ ہو سکا جس زمانے میں لائل پور کا ضلع نیا نیا آباد ہو رہا تھا پنجاب کے ہر قصبے سے مفلوک الحال لوگ زمین حاصل کرنے کے لئے اس نئی کالونی میں کھنچے چلے آ رہے تھے عرفِ عام میں لائل پور ۔جھنگ ۔سرگودھا وغیرہ کو ۔بار۔ کا عکاقہ کہا جاتا تھا ۔
اُس زمانے میں ماں جی کی عمر دس بارہ سال تھی اس حساب سے اُن کی پیدائش پچھلی صدی کے آخری دس پندرہ سالوں میں کسی وقت ہوئی ہوگی۔ماں جی کا آبائی وطن تحصیل روپڑ ضلع انبالہ میں ایک گاؤں منیلہ نامی تھا والدین کے پاس چند ایکڑ اراضی تھی ۔ان دنوں روپڑ میں دریائے ستلج سے نہر سر ہند کی کھدائی ہو رہی تھی نانا جی کی اراضی نہر کی کھدائی میں ضم ہو گئی روپڑ میں انگریز حاکم کے دفتر سے ایسی زمین کے معاوضے دیئے جاتے تھے نانا جی دو تین بار معاوضے کی تلاش میں شہر گئے لیکن سیدھے آدمی تھے کبھی اتنا بھی معلوم نہ کرسکے کہ انگریز کا دفتر کہاں ہے اور معاوضہ وصول کرنے کے لئے کیا قدم اُٹھانا چاہیے۔انجامِ کار صبر و شکر کر کے بیٹھ گئے اور نہر کی کھدائی میں مزدوری کرنے لگے ۔ان ہی دنوں پرچہ لگا کہ بار میں کالونی کھل گئی ہے اور نئے آبادکاروں کو مفت زمین مل رہی ہے نانا جی اپنی بیوی دو ننھے بیٹوں اور ایک بیٹی کا کنبہ ساتھ لے کر لائل پور روانہ ہوگئے سواری کی توفیق نہ تھی اس لئے پاپیادہ چل کھڑے ہوئے ۔
نانی اور ماں جی کسی کا سوت کات دیتیں یا مکانوں کی چھت اور دیواریں لیپ دیتیں لائل پور کا صحیح راستہ کسی کو نہ آتا تھا جگہ جگہ بھٹکتے تھے اور پوچھ پوچھ کر دنوں کی منزل ہفتوں میں طے کرتے تھے۔ڈیڑھ دو مہینے کی مسافت کے بعد جڑانوالہ پہنچے پاپیادہ اور محنت مزدوری کی مشقت سے سب کے جسم نڈھال اور پاؤں سوجے ہوئے تھے یہاں پر چند ماہ قیام کیا نانا جی دن بھر غلہ منڈی میں بوریاں اُٹھانے کا کام کرتے نانی چرخہ کات کر سوت بیچتیں اور ماں جی گھر سنبھالتیانہی دنوں بقرعید کا تہوار آیا نانا جی کے پاس چند روپے جمع ہوگئے تھے انہوں نے تین آنے ماں جی کو بطور عیدی دئیے ۔زندگی میں پہلی بار ماں جی کے ہاتھ اتنے پیسے آئے تھے انہوں نے بہت سوچا مگر اِس رقم کا کوئی مصرف اُن کی سمھجھ میں نہ آ سکا ۔وفات کے وقت اُن کی عمر کوئی اسسی برس کے لگ بھگ تھی لیکن ان کے نزدیک سو روپے دس روپے مانچ روپے کے نوٹوں میں امتیاز کرنا آسان کام نہ تھا عیدی کے تین آنے کئی روز ماں جی کے دوپٹے کے ایک کونے میں بندھے رہے جس روز وہ جڑانوالہ سے رخصت ہو رہی تھیں ماں جی نے گیارہ پیسے کا تیل خرید کر مسجد کے چراغ میں ڈال دیا ۔باقی ایک پیسہ اپنے پاس رکھا اُس کے بعد جب کبھی گیارہ پیسے پورے ہو جاتے وہ فوراً مسجد میں تیبھجوا دیتیں ساری عمر جمعرات کی شام کو وہ اس عمل پر بڑی وضعداری سے پابند رہیں ۔رفتہ رفتہ بہت سی مسجدوں میں بجلی آ گئی لیکن لاہور اور کراچی جیسے شہروں میں بھی اُنہیں ایسی مسجدوں کا علم رہتا جن کے چراغ اب بھی تیل سے روشن ہوتے تھے ۔
وفات کی شب بھی ماں جی کے سرہانے ململ کے رومال میں بندھے ہوئے چند آنے موجود تھے غالباً یہ پیسے بھی تیل کے لئے جمع کر رکھے تھے کیونکہ وہ جمعرات کی شب تھی۔
ل ں جو ایک چھوٹے سے جھونپڑے پر مشتل تھا ۔ان چند آنوں کے علاوہ ماں جی کے پاس نہ کچھ اور رقم تھی نہ کوئی زیور اسبابِ دنیا میں اُن کے پاس گنتی کی چند چیزیں تھیں ۔تین جوڑے سوتی کپڑوں کے۔ایک جوڑا دیسی جوتا۔ایک جوڑی ربڑ کے چپل۔ایک عینک۔ایک انگوٹھی جس میں تین چھوٹے چھوٹے فیروزے جڑے ہوئے تھے ایک جائے نماز ایک تسبیح اور باقی اللہ اللہ۔پہننے کے تین جوڑوں کو وہ خاص اہتمام سے رکھتی تھیں ،ایک زیب تن کیا تو ایک اپنے ہاتھوں سے دھو کر تکئے کے نیچے رکھا رہتا تھا تاکہ استری ہوجائے تیسرا دھونے کے لئے تیار اس کے علاوہ اگر چوتھا کپڑا ان کے پاس آتا تھا تو وہ چپکے سے ایک جوڑا کسی کو دے دیتیں تھیں ،اسی وجہ سے ساری عمر اُنہیں سوٹ کیس رکھنے کی حاجت نہ ہوئی لمبے سے لمبے سفر پر روانہ ہونے کے لئے انہیں تیاری میں چند منٹ سے زیادہ نہ لگتے تھے کپڑوں کی پوٹلی بنا کر اُنہیں جائے نماز میں لپیٹا جاڑوں میں اُونی فر اور گرمیوں میں ململ کے دوپٹے کی بُکل ماری اور جہاں کہیے چلنے کو تیار۔سفرِ آخرت بھی اُنہوں نے اسی سادگی سے اختیار کیا میلے کپڑے اپنے ہاتھوں سے دھو کر تکئے کے نیچے رکھے نہا دھو کر بال سُکھائے اور چند ہی منٹوں میں زندگی کے سب سے لمبے سفر پر روانہ ہوگئیں جس خاموشی سے دنیا میں رہی تھیں اُسی خاموشی سے عقبیٰ کو سدھار گئیں غالباً اسی موقع کے لئے وہ اکثر یہ دعا مانگا کرتیں تھیں کہ اللہ تعالیٰ ہاتھ چلتے چلاتے اُٹھا لے اللہ کبھی کسی کا محتاج نہ کرے ۔
کھانے پینے میں وہ کپڑے لتے سے بھی زیادہ سادہ اور غریب مزاج تھیں اُن کی مرغوب ترین غذا مکئی کی روٹی دھنئیے پودینے کی چٹنی کے ساتھ تھی باقی چیزیں خوشی سے تو کھا لیتی تھیں لیکن شوق سے نہیں ہر نوالے پر اللہ کا شکر ادا کرتی تھیں پھلوں میں کبھی بہت ہی مجبور کیا جائے تو کیلے کی فرمائش کرتی تھیں البتہ ناشتے میں دو چائے کے پیالے اور تیسرے پہر سادہ چائے کا ایک پیالہ ضرور پیتی تھیں کھانا صرف ایک وقت کھاتیں تھیں اکثر وبیشتر دوپہر کا ،گرمیوں میں عموماً مکھن نکالی ہوئی پتلی نمکین لسسی کے ساتھ ایک آدھ سادہ چپاتی اُن کی محبوب خوراک تھی،دوسروں کو کوئی چیز رغبت سے کھاتے دیکھ کر خوش ہوتی تھیں اور ہمیشہ یہ دعا کرتیں تھیں کہ سب کا بھلا،خاص اپنے یا اپنے بچوں کے لئے اُنہوں نے براہِ راست کبھی کچھ نہ مانگا پہلے دوسروں کے لئے دعا مانگتیں تھیں اور اُس کے بعد مخلوقِ خدا کی حاجت روائی کے طفیل اپنے بچوں یا عزیزوں کا بھلا چاہتی تھیں ،اپنے بیٹوں یا بیٹیوں کو انہوں نے اپنی زبان سے کبھی میرے بیٹے یا میری بیٹی کہنے کا دعویٰ نہیں کیا ہمیشہ اُن کو اللہ کا مال کہا کرتیں تھیں۔
کسی سے کوئی کام لینا ماں جی پر بہت گراں گزرتا تھا اپنے سب کام وہ اپنے ہاتھوں خود انجام دیتی تھیں اگر کوئی ملازم زبردستی اُن کا کوئی کام کر دیتا تو اُنہیں ایک عجیب قسم کی شرمندگی کا احساس ہونے لگتا تھا اور وہ احسان مندی سے سارا دن اُسے دعائیں دیتی رہتی تھیں ۔سادگی اور درویشی کا یہ رکھ رکھاؤ کچھ تو قدرت نے ماں جی کی سرشت میں پیدا کیا تھا کچھ یقیناً زندگی کے زیر وبم نے سکھایا تھا ۔جڑانوالہ میں کچھ عرصہ قیام کے بعد جب وہ اپنے والدین اور بھائیوں کے ساتھ زمین کی تلاش میں لائل پور کالونی کی طرف روانہ ہوئیں تو اُنہیں کچھ معلوم نہ تھا کے اُنہیں کس مقام پر جانا ہے۔اور زمین حاصل کرنے کے لئے کیا قدم اُٹھانا چاہیے۔ماں جی بتایا کرتی تھیں کے اُس زمانے میں اُن کے ذہن میں کالونی کا تصور ایک فرشتہ سیرت بزرگ کا تھا جو کہیں سرِ راہ بیٹھا زمین کے پروانے تقسیم کر رہا ہوگا کئی ہفتے یہ چھوٹا سا قافلہ لائل پور کے علاقے میں پاپیادہ بھٹکتا رہا۔لیکن کسی راہگزر پر اُنہیں کالونی کا خضر صورت رہنما نہ مل سکا۔آخر تنگ آکر اُنہوں نے چک نمبر تین سو بیانوے جو ان دنوں نیا آباد ہو رہا تھا ڈیرے ڈال دئیے لوگ جوق در جوق وکالونی میں آباد ہونے کا شائد یہی طریقہ ہوگا۔چنانچہ انہوں نے ایک چھوٹا سا احاطہ گھیر کر گھاس پھونس کی جھونپڑی بنائی اور بنجر اراضی کا ایک قطعہ تلاش کرکے کاشت کی تیاری کرنے لگے انہی دنوں محکمہ مال کا عملہ پڑتال کے لئے آیا نانا جی کے پاس الاٹمنٹ کے کاغذات نہ تھے چناچہ اُنہیں چک سے نکال دیا گیا اور سرکاری زمین پر ناجائز جھونپڑا بنانے کی پاداش میں اُن کے برتن اور بستر قرق کر لئے ۔عملے کے ایک آدمی نے چاندی کی دو بالیاں بھی ماں جی کے کانوں سے اُتروالیں ایک بالی اُتارنے میں ذرا دیر ہوئی تو اس نے زور سے کھینچ لی جس سے ماں جی کے بائیں کان کا زیریں حصہ بری طرح پھٹ گیا۔
چک نمبر تین سو بیانوے سے نکل کر جو راستہ سامنے آیا اس پر چل کھڑے ہوئے گرمیوں کے دن تھے دن بھر لو چلتی تھی پانی رکھنے کے لئے مٹی کا پیالہ بھی پاس نہ تھا جہاں کہیں کوئی کنواں نظر آتا ماں جی اپنا ڈوپٹہ بھگو لیتیں تاکہ پیاس لگنے پر اپنے چھوٹے بھائیوں کی پیاس ڈوپٹہ نچوڑ کر بجھا سکیں ۔اس طرح وہ چلتے چلتے چک پانچ سو سات پہنچے جہاں ایک جان پہچان کے آباد کار نے نانا جی کو اپنا مزارع رکھ لیا۔نانا جی ہل چلاتے تھے نانہاں آکر آباد ہو رہے تھے نانا جی نے اپنی سادگی میں یہ سمجھا کہ مویشی چرانے لے جاتیں اور ماں جی کھیتوں سے گھاس اور چارہ کاٹ کر زمیندار کی بھینسوں اور گایوں کے لئے لایا کرتی تھیں اُن دنوں اُنہیں اتنا مقدور بھی نہ تھا کہ ایک وقت کی روٹی بھی پوری طرح کھا سکیں کسی وقت جنگلی بیروں پر گزارہ ہوتا تھا کبھی خربوزے کے چھلکے اُبال کر کھا لیتے تھے کبھی کسی کھیت میں کچی انبیاں گری ہوئی مل گئیں تو اُن کی چٹنی بنا لیتے تھےایک روز کہیں سے تورئیے اور کلتھے کا ملا جلا ساگ ہاتھ آ گیا۔
نانی محنت مزدوری میں مصروف تھی ماں جی نے ساگ چولہے پر چڑھایا جب پک کر تیار ہو گیا اور ساگ کو الن لگا کر گھوٹنے کا وقت آیا تو ماں جی نے ڈوئی ایسے زور سے چلائی کہ ہنڈیا کا پیندا ٹوٹ گیا اور سارا ساگ بہہ کر چولہے میں آپڑا ماں جی کو نانی سے ڈانٹ پڑی اور مار بھی رات کو سارے خاندان نے چولہے کی لکڑیوں پر گرا ہوا ساگ اُنگلیوں سے چاٹ چاٹ کر کسی قدر پیٹ بھرا ۔
چک نمبر پانچ سو سات نانا جی کو خوب راس آیا چند ماہ کی محنت مزدوری کے بعد نئی آباد کاری کے سلسلے میں آسان قسطوں پر اُن کو ایک مربع زمیں مل گئی رفتہ رفتہ دن پھرنے لگے اور تین سال میں اُن کا شمار گاؤں کے کھاتے پیتے لوگوں میں ہونے لگا جوں جوں فارغ البالی بڑھتی گئی تو آبائی وطن کی یاد ستانے لگی چناچہ خوشحالی کے چار پانچ سال گزارنے کے بعد سارا خاندان ریل میں بیٹھ کر منیلہ کی طرف روانہ ہوا ریل کا سفر ماں جی کو بہت پسند آیا وہ سارا وقت کھڑکی سے منبہت سے ذرے اُن کی آنکھوں میں پڑ گئے جس کی وجہ سے کئی روز تک وہ آشوبِ چشم مییں مبتلا رہیں ۔اس تجربے کے بعد اُنہوں نے ساری عمر اپنے کسی بچے کو ریل کی کھڑکی سے باہر منہ نکالنے کی اجازت نہ دی۔
ماں جی ریل کے تھرڈ کلاس ڈبے میں بہت خوش رہتی تھیں ہم سفر عورتوں اور بچوں سے فوراً گھل مل جاتیں سفر کی تھکان اور راستے کے گرد وغبار کا اُن پر کچھ اثر نہ ہوتا ۔اِس کے برعکس اونچے درجوں میں بہت بیزار ہو جاتیں ایک دو بار جب اُنہیں مجبوراً ائیر کنڈیشن ڈبے میں سفر کرنا پڑا تو وہ تھک کر چور ہوگئیں اور سارا وقت قید کی صعوبت کی طرح اُن پر گراں گزرا۔
منیلہ پہنچ کر نانا جی نے اپنا آبائی مکاں درست کیا عزیز واقارب کو تحائف دیئے دعوتیں ہوئیں اور پھر ماں جی کے لئے بر ڈھونڈنے کا سلسلہ شروع ہو گیا ۔اس زمانے میں لائل پور کے مربع داروں کی بڑی دھوم تھی اُن کا شمار خوش قسمت اور باعزت لوگوں میں ہوتا تھا چناچہ چاروں طرف سے ماں جی کے لئے پے در پے ہ بپیام آنے لگے یوں بھی اُن دنوں ماں جی کے بڑے ٹھاٹھ باٹ تھے برادری والوں پر رعب گاٹھنے کے لئے نانی جی اُنہیں ہر روز نئے کپڑے پہناتیں اور ہر وقت دلہنوں کی طرح سجا کر رکھتی تھیں ۔کبھی کبھار پرانی یادوں کو تازہ کرنے کے لئے ماں جی بڑے معصوم فخر سے کہا کرتی تھیں اُن دنوں میرا تو گاؤں میں نکلنا تک دوبھر ہوگیا تھا میں جس طرف سے گزر جاتی لوگ ٹھٹھک کر کھڑے ہوجاتے اور کہا کرتے یہ خیال بخش مربع دار کی بیٹی جا رہی ہے ۔دیکھئیے کون سا خوش نصیب اسے بیاہ کر لے جائے گا ۔
ماں جی ! آپ کی اپنی نظر میں کوئی ایسا خوش نصیب نہیں تھا ؟
ہم لوگ چھیڑنے کی خاطر اُن سے پوچھا کرتے۔
توبہ توبہ پُٹ ! ماں جی کانوں پر ہاتھ لگاتیں میری نظر میں بھلا کوئی کیسے ہوسکتا تھا ہاں میرے دل میں اتنی سی خواہش ضرور تھی کہ اگر نجھے اہر نکال کر تماشہ دیکھتی رہیں اس عمل میں کوئلے کایسا آدمی ملے جو دو حروف پڑھا لکھا ہو تو خدا کی بڑی مہربانی ہوگی۔
ساری عمر میں غالباً یہی ایک خواہش تھی جو ماں جی کے دل میں خود اپنی ذات کے لئے پیدا ہوئی ۔اس کو خدا نے یوں پورا کر دیا کہ اسی سال ماں جی کی شادی عبداللہ صاحب سے ہوگئی اُن دنوں سارے علاقے میں عبداللہ صاحب کا طوطی بول رہا تھا وہ ایک امیر و کبیر گھرانے کے چشم وچراغ تھے لیکن پانچ چھ برس کی عمر میں یتیم بھی ہوگئے اور بے حد مفلوک الحال بھی۔جب باپ کا سایہ سر سے اُٹھا تو یہ انکشاف ہوا کہ ساری آبائی جائیداد رہن پڑی ہے چانچہ عبداللہ صاحب اپنی والدہ کے ساتھ ایک جھونپڑے میں اُٹھ آئے ۔زر اور زمین کا یہ انجام دیکھ کر اُنہوں نے ایسی جائیداد بنانے کا عزم کر لیا جو مہاجنوں کے ہاتھ گروی نہ رکھی جا سکے چناچہ عبداللہ صاحب دل وجان سے تعلیم حاصل کرنے میں منہمک ہوگئے ۔وظیفے پر وظیفہ حاصل کر کے اور دو دو سال کے امتحان ایک سال میپاس کرکے پنجاب یونیورسٹی کے میٹریکولیشن میں اول آئے اُس زمانے میں غالباً یہ پہلا موقف تھا کے کسی مسلمان طالب علم نے یونیورسٹی امتحان میں ریکارڈ قائم کیا ہو۔
اُڑتے اُڑتے یہ خبر سر سید کے کانوں میں پڑ گئی جو اس وقت علی گڑھ مسم کالج کی بنیاد رکھ چکے تھے اُنہوں نے اپنا خاص منشی گاؤں میں بھیجا اور عبداللہ صاحب کو وظیفہ دے کر علی گڑھ بلا لیا یہاں پر عبداللہ صاحب نے خوب بڑھ چڑھ کر اپنا رنگ نکالا اور بی ۔اے کرنے کے بعد انیس برس کی عمر میں وہیں پر انگریزی۔عربی ۔فلسفہ اور حساب کے لیکچرر ہوگئے۔
سرسید کو اس بات کی دُھن تھی کہ مسلمان نوجوان زیادہ تعداد میں اعلیٰ ملازمتوں پر جائیںچناچہ انہوں نے عبداللہ صاحب کو سرکاری وظیفہ دلوایا کہ وہ انگلستان جا کر آئی ۔سی۔ایس کے امتحان میں شریک ہوں ۔پچھلی صدی کے بڑے بوڑھے سات سمندر پار کے سفر کو بلائے ناگہانی سمھجتے تھے عبداللہ صاحب کی والسہ نے بیٹے کو ولایت جانے سے منع کر دیا عبداللہ صاحب کی سعادت مندی آڑے آئی اور اُنہوں نے وظیفہ واپس کر دیا۔
اس حرکت پر سرسید کو بے حد غصہ بھی آیا اور دکھ بھی ہوا۔اُنہوں نے لاکھ سمجھایا۔بھجھایا۔ڈرایا لیکن عبداللہ صاحب ٹس سے مس نہ ہوئے ۔
کیا تم اپنی بوڑھی ماں کو قوم کے مفاد پر ترجیحح دیتے ہو سر سید نے کڑک کر پوچھا۔
جی ہاں ۔عبداللہ صاحب نے جواب دیا۔
یہ ٹکا سا جواب سُن کر سرسید آپے سے باہر ہوگئے کمرے کا دروازہ بند کرکے پہلے اُنہوں نے عبداللہ صاحب کو لاتوں مکوں تھپڑوں اور جوتوں سے خوب پیٹا اور کالج کی نوکری سے برخوست کرکے یہ کہہ کر علی گڑھ سے نکال دیا ”اب تم ایسی جگہ جا کر مرو جہاں سے میں تمھارا نام بھی نہ سن سکوں ۔

عبداللہ صاحب جتنے سعادت مند بیٹے تھے اتنے سعادت مند شاگرد بھی تھے نقشے پر انہیں سب سے دور افتادہ اور دشوار گزار مقام گلگت نظر آیا چناچہ وہ ناک کی سیدھ گلگت پہنچے اور دیکھتے ہی دیکھتے وہاں گورنری کے عہدے پر فائز ہو گئے۔جن دنوں ماں جی کی منگنی کی فکر ہو رہی تھی انہی دنوں عبداللہ صاحب بھی چھٹی پر گاؤں آئے ہوئے تھے قسمت میں دونوں کا سنجوگ لکھا ہوا تھا ان کی منگنی ہوگئی اور ایک ماہ بعد شادی بھی ٹھہر گئی تاکہ عبداللہ دلہن کو اپنے ساتھ گلگت لے جا سکیں۔
منگنی کے بعد ایک روز ماں جی اپنی سہیلیوں کے ساتھ پاس والے گاؤں میں میلہ دیکھنے گئی ہوئی تھیں اتفاقاً یا شائد دانستہ عبداللہ صاحب بھی وہاں پہنچ گئے ۔ماں جی کی سہیلیوں نے اُنہیں گھیر لیا اور ہر ایک نے چھیڑ چھیڑ کر اُنہیں ماں جی کو کچھ پیش کرنے کو کہا اُنہوں نے پانچ روپئے پیش کئے لیکن ماں جی نے انکار کر دیا بہت اصرار بڑھ گیا تو مجبوراً ماں جی نے گیارہ پیسے کی فرمائش کی۔
اتننے پوچھا۔
اگلی جمعرات کو آپ کے نام سے مسجد میں تیل ڈلوادوں گی ۔ماں جی نے جواب دیا۔
زنداگی کے میلے میں بھی عبداللہ صاحب کے ساتھ ماں جی کا لین دین صرف جمعرات کے گیارہ پیسوں تک ہی محدود رہا۔اس سے زیادہ رقم نہ کبھی انہوں نے مانگی نہ اپنے پاس رکھی۔گلگت میں عبداللہ کی بڑی شان وشوکت تھی خوبصورت بنگلہ ۔وسیع باغ ۔نوکر چاکر۔دروازے پر سپاہیوں کا پہرہ جب عبداللہ صاحب دورے پر باہر گھیر لیا اور ہر ایک نے چھیڑ چھیڑ کر اُنہیں ماں جی کو کچھ پیش کرنے کو کہا اُنہوں نے پانچ روپئے پیش کئے لیکن ماں جی نے انکار کر دیا بہت اصرار بڑھ گیا تو مجبوراً ماں جی نے گیارہ پیسے کی فرمائش کی۔
اتنے بڑے میلے میں گیارہ پیسے لے کر کیا کرو گی۔عبداللہ صاحب نے پوچھا۔
اگلی جمعرات کو آپ کے نام سے مسجد میں تیل ڈلوادوں گی ۔ماں جی نے جواب دیا۔
ے بڑے میلے میں گیارہ پیسے لے کر کیا کرو گی۔عبداللہ صاحب زنداگی کے میلے میں بھی عبداللہ صاحب کے ساتھ ماں جی کا لین دین صرف جمعرات کے گیارہ پیسوں تک ہی محدود رہا۔اس سے زیادہ رقم نہ کبھی انہوں نے مانگی نہ اپنے پاس رکھی۔گلگت میں عبداللہ کی بڑی شان وشوکت تھی خوبصورت بنگلہ ۔وسیع باغ ۔نوکر چاکر۔دروازے پر سپاہیوں کا پہرہ جب عبداللہ صاحب دورے پر باہر
جب روس میں انقلاب برپا ہوا تو لارڈ کچز سرحدوں کا معائنہ کرنے گلگت آئے۔اُن کے اعزاز میں گورنر کی طرف سے ضیافت کا انتظام ہوا ۔ماں جی نے اپنے ہاتھ سے دس بارہ قسم کے کھانے پکائے کھانے لذیذ تھے لارڈ کچز نے اپنی تقریر میں کہا ۔مسٹر گورنر جس خانساماں نے یہ کھانے پکائے ہیں برائے مہربانی میری طرف سے آپ اُن کے ہاتھ چوم لیں۔دعوت کے بعد عبداللہ صاحب فرحاں وشاداں گھر لوٹے تو دیکھا کہ ماں جی باورچی کھانے کے ایک گوشے میں چٹائی پر بیٹھی نمک اور مرچ کی چٹنی کے ساتھ مکئی کی روٹی کھا رہی ہیں۔
ایک اچھے گورنر کی طرح عبداللہ صاحب نے ماں جی کے ہاتھ چومے اور کہا ۔اگر لارڈ کچز یہ فرمائش کرتے کہ وہ خود خانساماں کے ہاتھ چومنا چاہتا ہے تو پھر تم کیا کرتیں ؟
میں۔۔۔۔۔
ماں جی تنک کر بولیں ۔میں اُس کی مونچھیں پکڑ کر جڑ سے اُکھاڑ دیتی ۔پھر آپ کیا کرتے ؟
میں ۔۔۔ عبداللہ صاحب نے ڈرامہ کیا۔۔۔۔۔۔
میں اُن مونچھوں کو روئی میں لپیٹ کر وائسرائے کے پاس بھیج دیتا اور تمیہں ساتھ لے کر کہیں اور بھاگ جاتا جیسے سرسید کے ہاں سے بھاگا تھا۔
ماں جی پر ان مکالموں کا کچھ اثر نہ ہوتا تھا لیکن ایک بار۔۔۔۔۔۔۔۔
ماں جی رشک وحسد کی اس آگ میں جل بھن کر کباب ہو گئیں جو ہر عورت کا ازلی ورثہ ہے۔
گلگت میں ہر قسم کے احکامات گورنری کے نام پر جاری ہوتے تھے جب یہ چرچا ماں جی تک پہنچا تو انہوں نے عبداللہ صاحب سے گلہ کیا ۔بھلا حکومت تو آپ کرتے ہیں لیکن گورنری گورنری کہہ کر مجھ غریب کا نام بیچ میں کیوں لایا جاتا ہے خوامخواہ ۔
عبداللہ صاحب علی گڑھ کے پڑھے ہوئے تھے رگِ ظرافت پھڑک اُٹھی اور بے اعتنائی سے فرمایا ،بھاگوان،یہ تمہارا نام تھوڑی ہے گورنری تو دراصل تمھاری سوکن ہے جو رات دن میرا پیچھا کرتی ہے۔مذاق کی چوٹ تھی عبداللہ صاحب نے سمجھا بات آئی گئی ہو گئی کین ماں جی کے دل میں غم بیٹھ گیا اس غم میں وہ اندر ہی اندر کڑھنے لگیں کچھ عرصہ بعد کشمیر کا مہاراجہ پرتاپ سنگھ اپنی مہارانی کے ساتھ گلگت کے دورے پر آیا ۔ماں جی نے مہارانی کو اپنے دل کا حال سنایا مہارانی بھی سادہ عورت تھی جلال میں آ گئی ۔ہائے ہائے ہمارے راج میں ایسا ظلم ،میں آج ہی مہاراج سے کہوں گی کہ وہ عبداللہ صاحب کی خبر لیں۔جب یہ مقدمہ مہاراج پرتاپ سنگھ تک پہنچا تو اُنھوں نے عبداللہ صاحب کو بلا کر پوچھ گچھ کی ۔عبداللہ صاحب بھی حیران تھے کہ بیٹھے بٹھائے یہ کیا افتاد آن پڑی لیکن جب معاملے کی تہہ تک پہنچے تو دونوخوب ہنسے آدمی دونوں ہی وضعدار تھے چناچہ مہاراجہ نے حکم نکالا کہ آئندہ سے گلگت کی گورنری کو وزارت اور گورنر کو وزیر وزارت کے نام سے پکارا جائے ۔جنگ آزادی تک گلگت میں یہی سرکاری اصطلاحات رائج تھیں۔
یہ حکم نامہ سن کر مہارانی نے ماں جی کو بلا کر خوشخبری سنائی کہ مہاراج نے گورنری کو دیس نکالا دے دیا ہے ۔اب تم دودھوں نہاؤ پوتوں پھلو۔کبھی ہمارے لئے بھی دعا کرنا۔
مہاراجہ اور مہارانی کے کوئی اولاد نہ تھی اس لئے وہ اکثر ماں جی سے دعا کی فرمائش کرتے تھے ۔اولاد کے معاملے میں ماں جی کیا واقعی خوش نصیب تھیں ؟ یہ ایک ایسا سوالیہ نشان ہے جس کا جواب آسانی سے نہیں سوجھتا۔
ماں جی خود ہی تو کہا کرتیں تھیں کہ اُن جیسی خوش نصیب ماں دنیا میں کم ہی ہوتی ہے لیکن اگر صبر و شکر تسلیم ورضا کی عینک اُتار کر دیکھا جائے تو اس خوش نصیبی کے پردے میں کتنے دکھ کتنے غم کتنے صدمے نظر آتے ہیں ۔اللہ میاں نے ماں جی کو تین بیٹے اور تین بیٹیاں عطا کیں دو بیٹیاں شادی کے کچھ عرصے بعد یکے بعد دیگرے فوت ہو گئیں سب سے بڑا بیٹا عین عالمِ شباب میں انگلستان جا کر گزر گیا۔کہنے کو تو ماں جی نے کہہ دیا کہ اللہ کا مال تھا اللہ نے لیا لیکن کیا وہ اکیلے میں چھپ چھپ کے خون کے آنسو نہ رویا کرتی ہوں گی۔
جب عبداللہ صاحب کا انتقال ہوا تو اُن کی عمر باسٹھ سال اور ماں جی کی عمر پچپن سال تھی ۔سہہ پہر کا وقت تھا عبداللہ صاحب بان کی کھردری چارپائی پر حسبِ معمول گاؤ تکیہ لگا کر نیم دراز تھے ماں جی پائنیتی پر بیٹھی چاقو سے گنا چھیل چھیل کر ان کو دے رہی تھیں وہ مزے مزے سے گنا چوس رہے تھے اور مذاق کر رہے تھے پھر یکایک وہ سنجیدہ ہو گئے اور کہنے لگے ،بھاگوان شادی سے پہلے میلے میں میں نے تمہیں گیارہ پیسے دئیے تھے کیا اُن کو واپس کرنے کا وقت نہیں آیا ؟ ماں جی نے نئی نویلی دلہنوں کی طرح سر جھکا لیا اور گنا چھیلنے میں مصروف ہو گئیں۔
ان کے دل میں بیک وقت بہت سے خیال اُمڈ آئے ،ابھی وقت کہاں آیا ہے سرتاج شادی کے پہلے گیارہ پیسوں کی تو بڑی بات ہے لیکن شادی کے بعد جس طرح تم نے میرے ساتھ نباہ کیا ہے اس پر میں نے تمہارے پاؤں دھو کر پینے ہیں۔اپنی کھال کی جوتیاں تمہیں پہنانی ہیں ۔ابھی وقت کہاں آیا ہے میرے سرتاج۔
لیکن قضا وقدر کے بہی کھاتے میں وقت آچکا تھا جب ماں جی نے سر اُٹھایا تو عبداللہ صاحب گنے کی قاش منہ میں لئے گاؤ تکیہ پر سو رہے تھے ماں جی بہتیرا بلایا ہلایا چمکارا لیکن عبداللہ صاحب ایسی نیند سو گئے تھے جس سے بیداری قیامت سے پہلے ممکن ہی نہیں ۔
ماں جی نے اپنے باقی ماندہ دونوں بیٹوں اور ایک بیٹی کو سینے سے لگا کر تلقین کی ۔بچہ رونا مت ،تمہارے ابا جی جس آرام سے رہے تھے،اُسی آرام سے چلے گئے اب رونا مت اُن کی روح کو تکلیف پہنچے گی۔کہنے کو تو ماں جی نے کہہ دیا کہ اپنے ابا کی یاد میں نہ رونا ورنہ ان کو تکلیف پہنچے گی ۔لیکن کیا وہ خود چوری چھپے اُس خاوند کی یاد میں نہ روئی ہوں گی جس نے باسٹھ سال کی عمر تک اُنہیں ایک الہڑ دلہن سمجھا اور جس نے ” گورنری ” کے علاوہ اور کوئی سوکن اُن کے سر پر لا کر نہیں بٹھائی ۔
جب وہ خود چل دیں تو اپنے بچوں کے لئے ایک سوالیہ نشان چھوڑ گئیں جو قیامت تک اُنہیں عقیدت کے بیاباں میں سرگرداں رکھے گا۔
اگر ماں جی کے نام پر خیرات کی جائے تو گیارہ پیسے سے زیادہ ہمت نہیں ہوتی لیکن مسجد کا ملا پریشان ہے کہ بجلی کا ریٹ بڑھ گیا ہے اور تیل کی قیمت گراں ہو گئی ہے۔
ماں جی کے نام پر فاتحہ دی جائے تو مکئی کی روٹی اور نمک مرچ کی چٹنی سامنے آتی ہے لیکن کھانے والا درویش کہتا ہے کہ فاتحہ درود میں پلاؤ اور زردے کا اہتمام لازم ہے۔
ماں جی کا نام آتا ہے تو بے اختیار رونے کو جی چاہتا ہے ۔لیکن اگر رویا جائے تو ڈر لگتا ہے کہ ماں جی کی روح کو تکلیف نہ پہنچے اور اگر ضبط کیا جائے تو خدا کی قسم ضبط نہیں ہوتا۔


--

Friday, March 25, 2011

ایک انوکھا سرقہ’قصہ ایک مناجات کی چوری کا‘

ایک انوکھا سرقہ’قصہ ایک مناجات کی چوری کا‘

مطیع الرحمن عزیز(دہلی)

 اردو شاعری کی تاریخ میں ایسے کئی واقعات ہیں کہ کسی نے مشاعرہ میں کسی دوسرے شاعر کا کلام اپنے نام سے سنا دیا۔بعض اوقات ایسے لطیفے بھی ہوئے کہ صاحبِ صدر یا مہمانِ خصوصی کا کلام پڑھنے والے نے دیدہ دلیری کے ساتھ اپنے نام سے سنا دیا۔اب چونکہ اخبارات،کتابوں اور رسالوں کے ذریعے اشاعت کے وسیع مواقع سامنے آگئے ہیں تو دوسروں کا کلام اپنے نام سے چھپوانے والے بھی دیدہ دلیری کے ساتھ یہ کام کر رہے ہیں۔ہم اس وقت سائبر عہد میں جی رہے ہیں۔یہاں کسی کی معمولی سے معمولی یا بڑی سے بڑی کوئی چوری بھی زیادہ دیر تک چھپی نہیں رہ سکتی۔پھر سمجھ میں نہیں آتا کہ چوری کرنے والے لیے ایسا کام کیوں کرتے ہیں جس کا انجام آخر کار شرمندگی اور رسوائی ہی ہوتا ہے۔اس سلسلہ میں شاعری چوری کرنے کی بے شمار مثالوں کے ساتھ نثر چوری کرنے کی بھی کئی مثالیں دی جا سکتی ہیں۔لیکن میں طوالت سے بچنے کے لیے آج صرف ایک چوری کا ذکر کروں گاجو اس لحاظ سے انوکھی ہے کہ یہ کسی غزل یا نظم کی نہیں بلکہ”مناجات بدرگاہ قاضی الحاجات“کی چوری کا قصہ ہے۔ حمد،نعت و مناجات کا سلسلہ شاعرانہ قابلیت جتا کر شہرت سمیٹنے سے زیادہ اللہ اور اس کے رسول کی رضا و خوشنودی سمیٹنے سے تعلق رکھتا ہے۔اب کیا چوری کے کلام سے اللہ اور اس کے رسول کو خوش کیا جا سکتا ہے؟
مناجات کے سرقہ کی تازہ واردات کی نشان دہی سے پہلے بتانا چاہوں گا کہ میرے والدِ بزرگوارعزیزالرحمن عزیز سلفی صاحب ایک عرصہ سے شعر موزوں کرنے کا شغف رکھتے تھے۔میں نے ان کا کلام جمع کرکے اور اسے مناسب طریقے سے ترتیب دے کر گزشتہ برس جنوری ۰۱۰۲ء(محرم الحرام ۱۳۴۱ھ)میں شائع کرایا تھا۔اس مجموعہ کا نام”پرواز“ ہے اور اسے دہلی کے معروف اشاعت گھر ایجوکیشنل پبلشنگ ہاو¿س نے شائع کیا تھا۔اس مجموعہ کے صفحہ نمبر ۵۴ پر ان کی ایک مناجات بہ عنوان ”مناجات بدرگاہ قاضی الحاجات“(۷جولائی ۸۷۹۱ئ)شامل ہے۔جس کے سات اشعارپیش ہیں۔
اے خدائے دوجہاںلم ےزل،مرے جرم پر نہ عذاب دے
تو غفور ہے تو رحےم ہے، نہ جہنمی کاخطاب دے
مےں فقےر بےکس و بے نوا، مےں نحےف لاغر و ناتواں
مری منزلےں ہےںکٹھن بہت، مرے عزم مےںتب وتاب دے
بھرا ظلمتوںسے ہے ےہ جہاں، نہےںراہ مےںکوئی روشنی
تری راہ جس سے مےںپاسکوں،مرے ہاتھ مےںوہ شہاب دے
وہ گھڑی کہ عالم حشر مےں، ملے آدمی کو کتابچہ
کرم اے خدا مرے حال پر، مرے داہنے مےںکتاب دے
اے شہنشہِ ارض وسما، تری بارگہ مےں ہے التجا
مری لغزشوں کو معاف کر، مری نےکےوںکاثواب دے
مری جستجو مری آرزو، مری زندگی مری بندگی
مےںبھٹک رہا ہوںتودرپہ لا، نہ عتاب کر نہ عتّاب دے
مےںعزےز ہوں تو عزےزگر، مےں ہوں تشنہ لب تو خےال کر
ترا عشق جس سے نکھر سکے ، وہی جام دے وہ شراب دے
   نہایت افسوس کے ساتھ مجھے یہ بتانا پڑ رہا ہے کہ اس مناجات کو عبدالرب ثاقب صاحب نے ”مرے جرم پر نہ عذاب دے“کے عنوان کے ساتھ شائع کرایا ہے۔کمال یہ ہے کہ مناجات کے آخری شعر میں جہاں عزیزالرحمن عزیز سلفی صاحب نے اپنے نام کی مناسبت سے ”مےںعزےز ہوں تو عزےزگر“کہہ کر مقطع میں تخلص کا ستعمال کیاہے،عبدالرب ثاقب صاحب نے اسے بھی جوں کا توں اڑا لیا ہے۔اس سے بھی زیادہ افسوس کی بات یہ ہے کہ اس مناجات کی چوری کی واردات کرنے والے دوست نے جمعیت اہل حدیث کے پندرہ روزہ اخبار”ترجمان“دہلی میں اسے شائع کرایا ہے۔ایک بار نہیں بلکہ دو بار۔پہلے یکم جنوری تا ۵۱جنوری ۱۱۰۲ءکے شمارہ میں اور پھر ۶۱ تا ۱۳ مارچ ۱۱۰۲ءکے شمارہ میں ۔اس طرح کے سرقے زیادہ دیر تک چھپ نہیں سکتے تو عبدالرب ثاقب صاحب نے اپنے آپ کے ساتھ ایسی زیادتی کیوں کی؟
  میں ریکارڈ کی درستی کرنے کے ساتھ امید کرتا ہوں کہ عبدالرب ثاقب صاحب اپنے اس انوکھے سرقہ پر کھلے عام معافی مانگیں گے اور جمعیت اہل حدیث کے اخبار”ترجمان“دہلی میں بھی اس پر معذرت شائع کرکے اصل حقیقت آشکار کی جائے گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

طرس بخاری بحیثیت مزاح نگار

طرس بخاری بحیثیت مزاح نگار
پطرس بخاری

   لکھنوٴ یونیورسٹی میں داخل ہوئے ایک مہینہ گزرا تھا کہ ایک دن لائبریری میں مشفق وصی رضا نے میرے ہاتھ میں ڈکنس کی ایک ناول دیکھ کر کہا ”اگر سچ مچ ہنستے ہنستے لوٹ لوٹ جانا چاہتے ہو تو مضامین پطرس پڑھو“میں سن کر چپ ہورہا۔ میں یونیورسٹی میں انگریزی ادب کی علویت کا اور اردو ادب کی اتنی ہی پستی کا احساس لے کر داخل ہوا تھا۔ ساتھ ہی ساتھ میں اگر صاحبِ ذوق تھا نہیں تو اس قدر بنتا ضرور تھا کہ اعلیٰ ترین تصانیف کے علاوہ ہر معمولی تصنیف سے نفرت کا اظہار کرنا فرض سمجھتا تھا۔ پھر اس وقت میری ایک اور بھی بڑی خاص رائے تھی جو میرے جاننے والوں میں کچھ مقبول سی ہوچکی تھی وہ یہ کہ جسمانی امراض بھی ادبی تاثرات سے دور کئے جا سکتے ہیں اور کیونکہ پیٹ کی خرابی اس وقت ایک عام مرض تھا جس میں، میں مبتلا تھا اس لئے اپنے نظریہ کی مثال میں یہ کہا کرتا تھا کہ پیٹ خراب ہو تو ڈکنس کی ناولیں پڑھو، پیٹ ٹھیک ہوجائے گا۔ چنانچہ میرے ہاتھ میں ڈکنس کی ناول دیکھ کر وصی رضا نے یہی تصور کیا تھا کہ جیسے میں دوا کی شیشی لے جا رہا ہوں۔ اور جیسے لوگ انگریزی دوا کی شیشی ہاتھ میں دیکھ کر ڈاکٹر کا نام پوچھ کر اکثر کہتے ہیں بھئی کیا ڈاکٹری دوالئے پھرتے ہو حکیم کا علاج کراؤ جلد فائدہ ہوگا۔ اسی طرح وصی رضا نے بھی ڈکنس کی بجائے پطرس کے علاج کا مشورہ دیا مگر جیسے جدید لوگ حکیم کے علاج کا نام آتے ہی صاف ٹال دیتے ہیں اور مشورہ دینے والے کو نیچی نگاہ سے دیکھتے ہوئے چلے جاتے ہیں۔ ویسے ہی میں نے وصی رضا کو دیکھا اور اپنا رستہ لیا۔
    پطرس نام عجیب تھا۔ کوئی عیسائی ہے؟ نہیں عیسائی عبرانی نام سے عربی نام پر اُتر آنے کی ذلت برداشت نہیں کرسکتا۔ کوئی لونڈا لپاڑی ہوگا جس نے یہ تخلص رکھ لیا اور پھکڑ بازی کرتا ہوگا۔ وصی رضا اردو کے لکھنے والوں کو اچھالا کرتے تھے۔ بات یہ تھی کہ وہ اردو بہت زیادہ جانتے تھے مگر انگریزی میں تھے کورے، اس لئے پطرس کو ڈکنس کی بجائے پیش کرکے ہم کو دھوکے میں ڈالنا چاہتے تھے۔
    مگر کچھ عرصہ کے بعد معلوم ہوا کہ پطرس کوئی لونڈا لپاڑی نہیں جس استاد نے ہمیں انگریزی ہیومر کو سمجھنا سکھایا تھا۔ وہ اور پطرس کیمبرج میں ساتھی تھے۔ پطرس اصل میں پروفیسر بخاری تھے جو ہندوستان کے سب سے بہتر تعلیمی ادارے یعنی گورنمنٹ کالج لاہور میں انگریزی ادب پڑھاتے تھے فوراً ہمیں یقین آگیا کہ وہ ضرور جانتے ہوں گے کہ ہیومر کیا چیز ہے مگر ان کا ہیومرسٹ ہونا ابھی تک شبہ میں تھا۔
    مگر جادو وہ جو سر چڑھ کر بولے۔ جادو سر چڑھ کر بولتا ہے ہم مانیں چاہے نہ مانیں وہ سر پر چڑھ ہی بیٹھے گا۔ اور پھر ہم کو اسے ماننا ہی پڑے گا ایک جادو اقبال تھا۔ ”شکوہ“ و ”جواب شکوہ“ پڑھتے ہی ہمارے سر پر ایسا سوار ہوا کہ قیامت کے دن بھی سوار ہی نظر آئے گا۔ دوسرا جادو پطرس، اس کے سر پر سوار ہونے کا قصہ سنیئے۔
پطرس بخاری کو ایمی تمغه مل گیا هے
    کوئی نصاب کی کتاب تھی۔ اس میں ”کتے“ نظر آیا۔ کتے ہمارے لئے بھی عجیب ہی جانور تھے۔ ہمیں ان سے اس قدر ڈر لگا کرتا تھا کہ جس گلی میں داخل ہوتے تو پہلے دیکھ لیتے کہ دور دور تک کوئی کتا تو نظر نہیں آرہا ہے اور اگر نظر آتا تو اس گلی میں کبھی قدم آگے نہ بڑھاتے۔ ہمارے دوست اس بات پر ہمارا مذاق اڑایا کرتے۔ ہمارے بزرگ ڈانٹا کرتے۔ کتے سے ڈر ہمارے اندر فطری تھا۔ پھر ہم نے اسٹیونس کی کتاب ”ٹرلولیزوتھ اے ونکی“ پڑھی اس نے ایک جگہ کتوں سے خوف کا پُرلطف ذکر کیا۔ ہمیں بڑی تقویت ہوئی کہ ایک تو ساتھی ملا۔   اس پس منظر کو ساتھ لئے ہوئے جب میری نظر ”کتے“ اور اس کے نیچے پطرس پر پڑی تو کیا بتائیں کیا ہوا۔ فوراً کتاب لے کر بیٹھ گیا او رپڑھنے لگا۔ پہلے ہی جملے نے جادو مارا۔ علم الحیوانات کے پروفیسر سے پوچھا، سلوتریوں سے دریافت کیا۔ خود سر کھپاتے رہے لیکن کبھی سمجھ میں نہ آیا کہ آخر کتوں کا فائدہ کیا ہے۔ اچھل کر دل بول اٹھا ”قسم استاد کی ہیومر یہ ہے“ کہیں کوئی غلط نہ سمجھ لے ہیومر جملوں اور فقروں کی چیز نہیں ہے یہ ایک نقطہٴ نظر، مزاج کے حقائق سے تصادم، زندگی میں ایک مخصوص کیفیت کے احساس کا نام ہے۔ اس جملے میں ہیومر نہیں۔ اس سے ہیومر شروع ہورہا ہے۔ جملہ ایک نئی نظر، ایک نئی ہستی، ایک نئی ادا، ایک نئے عالم خیال، ایک نئی بے ڈھنگی دنیا کی طرف اشارہ کر رہا ہے۔ یہ کتوں کے ایک نئے عجائبات خانے کا راستہ بتا رہا ہے۔
 ”دیکھئے یہ نئے ”کتے“ آگئے۔ ”یہ کتے کیا کرتے ہیں؟“ وفا دار جانور؟ واہ کیا وفاداری ہے کہ شام کے سات بجے سے جو بھونکنا شروع کیا تو لگاتاربغیر دم لئے صبح کے چھ بجے تک بھونکتے چلے گئے۔ لیجئے یہ کتوں کا مشاعرہ گرم ہے۔ کم بخت بعض تو دوغزلے اور سہ غزلے لکھ کر لائے ہیں۔ ہنگامہ گرم ہے۔ پطرس آرڈر آرڈر پکار رہا ہے کچھ اثر نہیں مجبور ہو کر کہتا ہے اب ان سے کوئی پوچھے کہ میاں تمہیں ایسا ہی ضروری مشاعرہ کرنا تھا تو دریا کے کنارے کھلی ہوا میں جا کر طبع آزمائی کرتے، یہ گھروں کے درمیان آکر سوتوں کو سستانا کون سی شرافت ہے۔“
    دیکھئے اور ”کتے“ قومیت کے دلدادہ کتے۔ پتلون کوٹ کو دیکھ کر بھونکنے لگ جاتے ہیں۔ کیسے قوم پرست ہیں۔
    انگریزوں کے کتے ان کی شائستگی دیکھئے۔ ایک نازک اور پاکیزہ آواز میں بخ بخ کر رہے ہیں۔ چوکیداری کی چوکیداری موسیقی کی موسیقی اور ہمارے کتے۔ بے تالے کہیں کے نہ موقع دیکھتے ہیں نہ وقت پہچانتے ہیں گلے بازی کئے جاتے ہیں۔
    ظاہر ہے کہ پطرس سے ان کے تعلقات کشیدہ ہی رہے ہیں۔ مگر مسٹر پطرس۔ بااخلاق انسان ہیں طبعی شرافت ان پر غالب آہی جاتی ہے۔ ہم انہیں بزدل ہرگز نہ سمجھیں گے۔ ہاں ان کے حال سے بےحال ہونے پر ہماری نظر ہے۔ آیة الکرسیی کی جگہ دعائے قنوت پڑھنے لگے ہیں۔ رات کے وقت ٹھیٹر سے واپس آرہے ہیں… اتنے میں ایک موڑ پر سے جو مڑے تو سامنے ایک بکری بندھی تھی۔ ذرا تصور ملاحظہ ہو۔ آنکھوں نے اسے بھی کتا دیکھا۔ ایک تو کتا اور پھر بکری کی جسامت کا۔ گویا بہت ہی کتا بہت ہی کتا بہت ہی کتا۔ با۔با۔با۔با۔ بس ہاتھ پاؤں پھول گئے، چھڑی کی گردش دھیمی ہوتے ہوتے ایک نہایت ہی نامعقول زاویے پر ہوا میں کہیں ٹھہر گئی۔ سیٹی کی موسیقی بھی تھرتھرا کر خاموش ہوگئی لیکن کیا مجال جو ہماری تھوتھنی کی مخروطی شکل میں ذرا بھی فرق آیا ہو۔ گویا ایک بےآواز لے ابھی تک نکل رہی ہے۔ طب کا مسئلہ ہے کہ ایسے موقعوں پر اگر سردی کے موسم میں بھی پسینہ آجائے تو کوئی مضائقہ نہیں بعد میں پھر سوکھ جاتا ہے“۔ بابابابابا۔ اُف۔ اُف۔ ہم نے بھی کچھ ایسا ہی محسوس کیا مگر اب اس پر ہنستے ہنستے لوٹے جا رہے ہیں پطرس سچ مچ ہیومرسٹ ہے، پیدائشی ہیومرسٹ ہے۔
    مگر وہ طبعاً محتاط ہے ورنہ کسی کتے نے اسے کاٹ لیا ہوتا اور آج اس کا مرثیہ چھپ رہا ہوتا مگر… جب تک ”کتے“ موجود ہیں اور بھونکنے پر مصر ہیں سمجھ لیجئے کہ ہم قبر میں پاؤں لٹکائے بیٹھے ہیں…بھونکنا عجیب چیز ہے۔ اس کے اصول نرالے ہیں۔ متعدی مرض ہے۔ ہر سن کے کتے کو لاحق۔ دو دو تین تین تولے کے کتے بھی بھونکنے سے باز نہیں آتے۔ ”اور پھر بھونکتے ہیں چلتی موٹر کے سامنے آکر گویا اسے روک ہی تو لیں گے“… بھونکنا عجیب چیز ہے۔ پطرس کے تمام قوےٰ کو معطل کردیتا ہے۔ لیجئے بھونکنے کا ایک اور منظر۔ پہلا منظر مشاعرہ ہوچکا۔ اب ایک پورا خفیہ جلسہ باہر سڑک پر آکر تبلیغ کا کام شروع کر رہا ہے۔ پطرس سڑک پر ہے۔ آپ کہیےہوش ٹھکانے رہ سکتے ہیں؟ بہرصورت کتوں کی یہ پرلےدرجے کی ناانصافی میرے نزدیک ہمیشہ قابل نفرین رہی ہے۔  پطرس کو غصہ آگیا۔ پوری مجلس کا یوں متفقہ ومتحدہ طور پر سینہ زوری کرنا ایک کمینہ حرکت ہے۔ یہ الفاظ اس کے منہ سے نکل ہی گئے۔ آخر حد ہوتی ہے مگر کسی کتے کی دل شکنی اسے منظور نہیں۔ یہ مضمون کسی عزیز ومحترم کتے کی موجودگی میں باآواز بلند نہ پڑھا جائے۔
    خیر ذلیل کتوں کو چھوڑیئے۔ خدا ترس کتے دیکھئے مسکینی وعجز ملاحظہ ہو۔ سڑک کے بیچو بیچ غوروفکر کے لئے لیٹا ہوا ہے۔ گاڑی کے بگل کوئی اثر نہیں کرتے۔ کسی نے چابک مارا تو ایک گز پرے جا لیٹا۔ بائیسکل ایسی چھچھوری چیزوں کے لئے راستہ چھوڑ دینا فقیری کی شان کے خلاف سمجھتا ہے۔ رات کے وقت اپنی دم کو تابجدامکاں سڑک پر پھیلا کر رکھتا ہے۔ اس سے محض خدا کے برگزیرہ بندوں کی آزمائش مقصود ہوتی ہے۔ اگر ان کی دم پر کسی نے پاؤں رکھ دیا تو راتوں خواب میں بے شمار کتے پاؤں سے لپٹے نظر آئے۔
    پطرس کے دل میں ان سے انتقال لینے کی آگ ہے اگر خدا اسے بھونکنے اور کاٹنے کی طاقت عطا کر دے تو سب کتوں کو کسولی پہنچا دے۔ کاٹنا اور بھونکنا۔ یہی دو طاقتیں ہیں۔ انگریزی میں ایک مثل ہے کہ ”بھونکتے ہوئے کتے کاٹا نہیں کرتے“ یہ بجا سہی لیکن کون جانتا ہے کہ ایک بھونکتا ہوا کتا کب بھونکنا بند کردے اور کاٹنا شروع کردے۔ واہ واہ کیا بات کہی ہے اس کے بعد مضمون کو آگے نہ جانا چاہیئے۔
    یہ سب کیا ہوا۔ ایک مخصوص اپنے پر ہنسانے والی ہستی دکھائی دی۔ اس نے اپنے تئیں دکھایا۔ والله کیا آدمی ہے ہمیں جیسا ہے بالکل ہمارا ساتھی ہمزاد۔ اور اس نے کتے دکھائے۔ عجیب حالات کے کتے… دیکھئے وہ دروازے پر گلی میں کتے بھونک رہے ہیں۔ آس۔ آس۔ یہ کیا ہوا۔ یہ سب پطرس کے کتے ہوگئے۔ جو کتا دکھائی دیتا ہے وہ پطرس کا کتا ہے ہم پطرس ہیں وہ ہمارا کتا ہے۔ یہ جادو ہے۔ ہمارا نقطہٴ نظر ہی بدل گیا۔ اسے ہیومر کہتے ہیں اردو کا کوئی لفظ اس لفظ کے معنی نہیں ادا کرسکتا۔
    اب سنئے کہ اس مضمون کو پڑھ کر ہمارا کیا حال ہوا… ہمارے اندر سب سے بڑی بیماری یہ ہے کہ ہم پر کتابوں کا جنون سوار ہوا کرتا ہے اس کی شدت کا اندازہ یوں کیجئے کہ اگر کسی رات کو کسی کتاب کا جنون ہم پر سوار ہو تو ہم بازار جاکر کتابوں کی دوکان کے تالے توڑ کر کتاب نکال کر گھر لے آئیں گے اور بغیر اس کو ختم کئے دم نہ لیں گے… تو بس صاحب مضامین پطرس کا جنون ہم پر سوار ہوا فوراً بازار پہنچے اور ایسی جلدی کتاب لے کر واپس آئے کہ معلوم ہوتا تھا کہ کتاب چرا کے بھاگے ہیں۔
    اب پطرس میری نگاہ میں پکا ہیومرسٹ تھا۔ اردو کا واحد ہیومرسٹ۔ بلکہ وحدہ لاشریک ہیومرسٹ“ او رپھر ایک ہی جلوے میں ہم سودائی ہوچکے تھے۔ کتابوں کا سودا بہت اچھی چیز ہے اور ادھر سودا ہوا اور اُدھر وصل میسر ہوگیا۔ اتنی آسانی کسی اور عشق میں نہیں ہوتی۔ غرض ہم اور پطرس من تو شدم تومن شدی ہوگئے۔
    دیباچہ شروع کیا۔ یہ کتاب ہمیں کیسے ملی؟ ایک مضمون تو مفت ملا۔ اتنا پطرس پر احسان ہوا۔۱۱۷/۱ احسان پطرس پر۔ باقی کتاب ہم نے چرائی؟ جس بے تابی کے ساتھ اس کو لے کر ہم گھر آرہے تھے۔ وہ محکمہ پولیس کے لحاظ سے چوری کے زمرے میں آتی ہے۔ چوری اور بھاگنا لازم وملزوم ہیں تو ہم نے اگر پوری چوری نہیں تو آدھی چوری ضرور کی۔ ہمارا آدھا ذوق داد کے قابل ضرور ٹھہرتا ہے۔ مگر یہ کتاب تو ہم خرید کر لائے ہیں اس لئے ہمیں اپنی حماقت کوحق بجانب ثابت کرنا ضروری ہے۔
پطرس بخاری کا با کسی سڑک پر
    ہماری حماقت حق بجانب ہے۔ ہم حماقت کو حق بجانب یعنی حقیقت سے ملا جلا دیکھ کر ہی تو اس کتاب پر عاشق ہوئے اسی کو تو ہیومر کہا جاتا ہے ہمارے نزدیک ہیومر کی سب سے بہتر تعریف اتفاقاً ایک بڑے ہیومرسٹ کے قلم سے نکل گئی۔ یہ ہیومرسٹ تھیکرلے ہے۔ اور اس نے اپنی کتاب انگلس ہیومرسٹز میں سو افٹ ”Swift“ پر لکھتے لکھتے یہ فقرہ چھوڑ دیا۔ Truth Torsy - Turvy, At Once True And Absurd. یہ بات وہی ہے حماقت کو حق بجانب ثابت کرنا، حق بجانب کو حماقت ثابت کرنا۔ پطرس پر اتفاق سے وہی کچھ کہہ گیا جو تھیکرلے اتفاق ہی سے کہہ گیا۔ ہمیں یقین ہے کہ کوئی سچا مصنف خود نہیں لکھا کرتا۔ قلم تو اس کے ہاتھ میں ہوتا ہے مگر چلاتی اس کو کوئی روحانی چیز ہے۔ اور یہ روحانی چیز اپنی موج خرام سے ایسے گل کترجاتی ہے جن کا احساس مصنف کے شعور کو بھی بعد میں ہی شاید کبھی ہوتا ہے۔ چنانچہ ہیومیر کی روح جب پطرس کا قلم چلا رہی تھی تو اس نے حقیقت کو حق بجانب کرنے والا فقرہ کر دیا۔ یہ روح جسے یونانی علم اصنام میں مومس Momus کہتے ہیں یہی کرتی ہے۔ حقیقت اور حماقت کو اس طرح گڈمڈ کرتی چلی جاتی ہے کہ نہ حقیقت کھلے اور نہ حماقت ثابت ہو۔ یہ روح ہمارے پھکڑ نگاروں سے کبھی چھو کر نہیں گزرتی ان کی حماقتوں کو پڑھئے ہنسی کی ایک لہر دوڑے گی۔ مگر ذرا غور کیجئے تو ان کی حماقت حماقت ہی رہ جائے گی۔ بالکل ناممکن۔ غلط بات من گڑھت۔ لونڈوں کو ہنسانے کے لئے ٹھیک ہے۔ اس پر ہنسنا بدمذاقی ہے مگر پطرس تو مومس سے ہم کنار ہے اس کے خامے کی آواز نوائے مومس ہے۔
    اب بتائیے کہ پطرس کیا ہے؟ اتہ پتہ مل گیا۔ اس کے کتے دیکھے اس کو کتے بناتے دیکھا۔ اسے خود ہنستے دیکھا اس کا دیباچہ پڑھا اب اس پہیلی کو بوجھنے میں کیا کسر ہے۔ ایک بات سمجھ میں آئی۔ یہ کہ پطرس جو کچھ بھی ہے مگر ہے دیکھنے کی چیز اور برتنے کی چیز۔ شیکسپیئر کاپک Puck اس کے کان میں کہہ رہا ہے اس کی روح کے کان میں کہہ رہا ہے۔ O Lord What Fools These Mortals Be اور اس کا قلم چل رہا ہے وہ مارٹل ہے اس کے چاروں طرف سب مارٹلز ہیں وہ فول ہے اور اس کے چاروں طرف سب فول ہیں۔ یہی دنیا ابھرتی آرہی ہے۔
    ”ہاسٹل میں پڑھنا“ وہ طالب علم ہے اس کا مقصد حیات یہ ہے کہ ہاسٹل میں پڑھے۔ اس کے گھر والوں کو دیکھئے۔ کھاتے پیتے مسلمان لوگ۔ لڑکے کو تعلیم دلاتے ہیں مگر تعلیم کے مقصد اور تعلیمی اداروں کے حالات سے بالکل بےبہرہ ہیں۔ صاحبزادے کے لئے تعلیم گاہ تفریح گاہ کے ہم معنے ہے۔ سب سے زیادہ تفریح ہاسٹل میں پڑھ کر ہوسکتی ہے۔ اس لئے اس کی کوشش ہے کہ کوئی سال ایسا آجائے کہ ہاسٹل میں داخل ہوسکے۔ اس لئے متواتر فیل ہی ہوتے رہنے میں ان کو دلچسپی ہے۔ ادھر ان کے سرپرستوں کو یہ غلط فہمی ہے کہ ہاسٹل کوئی بری جگہ ہے والدین کی نگاہ میں ہاسٹل کو علم اور اخلاق کا اعلیٰ ترین مرکز ثابت کرنے کی کوشش برابر مضحکہ خیز ہو ہو کر رہ جاتی ہے وہ جس جس طرح فیل ہوا ہے وہ کوئی غیرمعمولی بات نہیں ایسے بالکل ایسے کتنے لڑکے ہماے ذہن میں ہیں ان سب کا وہ ذواضعاف اقل مشترک ہے وہ ہمارے مشاہدے کی زبردست مضحکہ خیز حقیقت ہے۔
    ”سویرے جو کل آنکھ میری کھلی“ وہی طالب علم ہے پڑھنے سے اس کی دلچسپی کا حال دیکھئے۔ پڑھنا امتحان کے لئے ہے تیاری کے لئے سویرے اٹھنا ہے۔ لا لہ جی اس کے پڑوسی مضحک حد تک مستعد اور منہمک ہیں۔ اس کو صبح جگانے کے سین اور اس کے جاگ کر سوجانے کے حالات وغیرہ کسی طالب علم نے نہیں دیکھے ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ہر طالب علم میں کچھ نہ کچھ ایسی باتیں ہوتی ہیں۔ پطرس اس میں فرد ہے۔
    ہماری مضحک تعلیمی جدوجہد کی تصویر پوری ہوگئی۔ پطرس نے اپنے تئیں الٹ پلٹ کر اور اپنے چاروں طرف کی دنیا کو الٹ پلٹ کر سب کچھ دکھا دیا اور خوب خوب ہنسایا۔
    لیجئے خانگی زندگی کے حالات دیکھئے ”اردو کی آخری کتاب ماں کی مصیبت“ یہ ایک عام بےڈھنگا گھر ہے ”میں ایک میاں ہوں“ میاں بیوی کے درمیان تعلقات۔ میاں کے دوستوں پر بیوی کے اعتراضات۔ بیوی بھی عام ہی چیز ہے اس کا جدید تعلیم یافتہ فرماں بردار میاں ہے۔ بیوی کے میکے جانے پر خوش ہے کہ ہر قسم کی آزادی ملی۔ لیکن پھر بھی بیوی کے گھر میں نہ ہونے سے گھبرا کر اسے تار دے دیتا ہے۔ کیا موقعے سے بیوی گھر پہنچتی ہے۔ کمال ہے!
    اب سیاسی زندگی کا کھیل دیکھئے ”مرید پور کا پیر“ لیڈر کیسے بنتا ہے اور کیسے بنایا جاتا ہے۔ شروع میں ایک طرح بنایا جاتا ہے۔ اب اسے لیڈر بنتے ہی بن پڑتی ہے۔ آخر میں تقریر کرتے میں اسے کیسا بنایا جاتا ہے اسے بھاگتے ہی بن پڑتی ہے۔ واہ رے لیڈر تم لیڈری کی حقیقت ہو۔
    کالجوں کو دیکھئے انکسار کے مجسمے علم کے مرفو پروفیسر پطرس کو دیکھئے اور ان کے شاگردان رشید کے اٹھنی فی کس نذرانہ پیش کرنے پر غور کیجئے اور پھر ملک معظم وغیرہم کے تحائف پر ان کی شہادت دیکھئے۔ لگے ہاتھوں کیمبرج یونیورسٹی میں ”میل اور میں“ کے فن سے بھی آگاہ ہوجائیے…“رفتہ رفتہ مجھے اس فن میں کمال حاصل ہوگیا جس روانی اور نفاست کے ساتھ میں ناخواندہ کتابوں پر گفتگو کرسکتا تھا اس پر میں خود حیران رہ جاتا تھا اس سے جذبات کو آسودگی نصیب ہوئی۔ والله کیا بات کہی ہے۔ کیمبرج سے لوگ یہی فن سیکھ کر آتے ہیں کیمبرج کی تعلیم کا شاید یہی نچوڑ ہے۔
پطرس بخاری کے بیٹا اور نواسا
    ادب زندگی پر تنقید ہے؟ میتھور آرنالڈ نے اس بات کوکچھ ضرورت سے زیادہ انسپکٹر مدارس کے الفاظ میں ادا کیا ہے۔ جس سے کچھ بات ٹھیک نہیں بنتی دکھائی دیتی۔ ورنہ جو کچھ اس نے محسوس کیا تھا وہ ٹھیک ہی تھا زندگی کی وہ چیز جو فنکار ہمیں دیتے آئے ہیں اسے پطرس نے بھی ہمیں دے دیا ہے۔ اب اگر نظریہٴ حیات، نصیب العین، پول کھولنا، مفکرانہ سنجیدگی وغیرہ قسم کے حماقت زدہ الفاظ کا ذکر کیجئے تو جواب یہی ملتا ہے کہ اگر زندگی کے مکمل نقش میں کوئی نظریہ ہے، نصب العین ہے، کسی چیز کے پول کھولنے کی ضرورت ہے کوئی اخلاقی سیاسی وغیرہ قدر یا قدریں ہیں تو وہ پطرس کے یہاں بھی ہیں ورنہ ان کے ذکر پر پک کا جملہ یاد کیجئے اور خاموش ہوجائیے۔ یہ شیکسپیئر والا ہیومر ہے۔ صاف خاص ہیومر طنز وغیرہ کی گندگی سے پاک:
بے ادب پامنہ اینجا کہ عجب درگاہست
    اب دیکھئے پطرس کیا ہے۔ سب مضامین کو ملا لیجئے اور دیکھئے کیا نکلتا ہے۔ الف لیلے میں ایک قصہ ہے جس میں ایک لڑکا سمندر کے کنارے ایک بوتل پڑی پاتا ہے۔ اس بوتل کو کھولتا ہے تو اس میں سے ایک جن نکلتا ہے جو لڑکے کو کھا جانے کو تیار ہوتا ہے۔ پطرس بھی ویسا ہی ایک جن ہے، مگر یہ جن آدم خور نہیں ہے آدم خوردہ ہے۔ یہ ہمیں نہیں کھاتا اپنے تئیں ہم کو کھلاتا ہے۔ اس کو پھر شیشے میں نہیں اتارا جاسکتا۔ یہ الف لیلیٰ والا احمق جن تو ہے نہیں کہ ایک لڑکے کے کہنے پر پھر بوتل میں واپس ہوجائے۔ اور ہم اسے بوتل میں واپس جانے کو کہیں ہی کیوں۔ وہ تو ہماری خوراک ہے۔ بڑے مزے کی خوراک ہے۔
    یہی بہادر جن سردانٹیز کے دماغ سے ڈن کوئزٹ کی صورت میں روزینانت پر بیٹھ کر سانکوپانزا کوساتھ لے کر ڈلسینہ کے عشق میں سرد آہیں بھرتا ہوا دنیا کو فتح کرنے نکلا ہے۔ یہی اب پطرس کی صورت میں نمایاں ہوا ہے۔ جدید دور کے سب ہتھیار اس کے پاس ہیں۔ جدید تعلیم، کیمبرج کی ڈگری، پروفیسر کا عہدہ۔ اس کی ڈلسینہ روشن آراء ہے جس کو وہ آہ سرد کا تار بھیجتا ہے۔ اس کا بھی ایک سانکوپانزا ہے یعنی کبوتر باز مرزا صاحب جو روشن آراء کے فقروں، کبوتر بازی اور تاش بازی کے منظروں سے نمایاں ہوتا ہوا ”سینما کا عشق“ میں کمال کے ساتھ اُبھرتا ہے۔ یاد رکھئے پطرس ایسا جن ہے جو اپنے تئیں ہلکان کرتا ہے چنانچہ اس کا سانکو اس کو پریشان کرنے میں کمال رکھتا ہے۔ سینما جانا فرض۔ بغیر مرزا صاحب کو ساتھ لئے بن نہیں پڑتی۔ تماشا شروع ہوجانے کے بعد پہنچنا لازمی ٹھہرا۔ اب اندھیرے کی مہم شروع ہوتی ہے۔ ڈن کوئزٹ کی نچکیوں والی مہم! اُف اُف واہ مرزا خوب پھانستے ہو۔
    مگر مرزا کا پھانسنا بڑی مفید چیز ہے۔ پھانس پھانس کر ہی سہی مگر مرزا ہی نے تو پطرس کو شہسوار بنایا ہے۔ مرزا ہی نے تو اسے وہ سواری دی ہے جس کو دیکھ کر روز نیانیت بچک کر ڈن کے قابو سے باہر ہواتی ہے۔ اور ایسی بھاگتی ہے کہ پھر نہیں نظر آتی۔ وہی مرحوم جس کی یاد اردو زبان کے ساتھ وابستہ ہوگئی ہے بلکہ اردو زبان کے ثبات کی ضامن ہے۔
    کیا سواری ہے؟ مشین بنانے والے انسان کی قابلیت کا معجزہ! جدید دور کی سب سے زیادہ تعجب انگیز سواری، اگر ڈن کوئزٹ آج کل تشریف لائیں تو انہیں آج کل کی سب سے زیادہ تعجب میں ڈال دینے والی سواری بائیسکل کے سوا اور کوئی نہ دکھائی دے گی۔ یہ ہوا پر اڑنے والی پٹریوں پر چلنے والی پیٹرول کی غلام سواریاں کیا رقم ہیں!
    پطرس اس معجز نما سواری کو دنیائے ادب کی مضحک ترین سواری بنا کر پیش کرتے ہیں۔ یہ مرزا صاحب کا تحفہ ہے نہیں مومس دیوتا کا عطیہ ہے۔ رات ہی میں آگئی ہے اور اپنے ساتھ ایک پرزے کسنے کا اوزار بھی لائی ہے۔ یہ اوزار ہی اس کا علاج دردِ دل بلکہ اس کی روح ہے۔ کیا شکل پائی ہے۔ دیکھنے سے تو اتنا تو ثابت ہوجاتا ہے کہ بائیسکل ہے لیکن مجمل ہئیت سے یہ صاف ظاہر ہوتا ہے کہ پل اور راہٹ اور چرخہ اور اسی طرح کی جدید ایجادات سے پہلے کی بنی ہوئی ہے۔ مل اور راہٹ اور چرخہ اس کے مقابلے میں جدید ایجادات ہیں۔
    اور اس کی چال بھی کیا کمال ہے پطرس آخر اس پر سوار ہوا۔ پہلا ہی پاؤں چلایا تو ایسا معلوم ہوا کہ کوئی مردہ اپنی ہڈیاں چٹخا چٹخا کر اپنی مرضی کے خلاف زندہ ہورہا ہے۔ بائیسکل اپنی آوازوں میں گم ہے۔ ان آوازوں کے مختلف گروہ تھے، چین چان چون قسم کی آوازیں زیادہ تر گدی کے نیچے اور پچھلے پہیّے سے نکلتی تھیں۔ کھٹ کھڑ کھڑر کے قبیل کی آوازیں مڈ گارڈوں سے آتی تھیں۔ چرچرخ چرچرخ کی قسم کےسُر زنجیر اور پیڈل سے نکلتے تھے۔
    جوڑو بند کی حرکات ملاحظہ ہوں۔ زنجیر! ”میں جب کبھی پیڈل پر زور ڈالتا تھا زنجیر میں ایک انگڑائی سی پیدا ہوتی تھی جس سے وہ تن جاتی تھی اور چڑ چڑ بولنے لگتی تھی“ اور پھر ڈھیلی ہوجاتی تھی“۔
    پہیّہ! پچھلا  پہیّہ گھومنے کے علاوہ جھومتا ہے یعنی ایک تو آگے کو چلتا ہے اور اس کے علاوہ داہنے سے بائیں اور بائیں سے داہنے کو بھی حرکت کرتا ہے۔ چنانچہ سڑک پر جو نشان پڑ جاتا تھا اس کو دیکھ کر ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے کوئی مخمور سانپ لہرا کر نکل گیا ہے۔
    مڈگارڈ! مڈگارڈ تھے تو سہی لیکن پہیّوں کے عین اوپر نہ تھے ان کا فائدہ صرف یہ معلوم ہوتا تھا کہ انسان شمال کی سمت سیر کو نکلے اور آفتاب مغرب میں غروب ہورہا ہو تو مڈگارڈوں کی بدولت ٹائر دھوپ سے بچے رہیں گے۔
    اگلے پہئے کے ٹائر میں ایک بڑا سا پیوند لگا تھا جس کی وجہ سے پہیہ ہر چکر میں ایک دفعہ لمحہ بھر کو زور سے اوپر اُٹھ جاتا تھا اور میرا سر پیچھے کو یوں جھٹکے کھا رہا تھا جیسے کوئی متواتر تھوڑی کے نیچے مکے مارے جا رہا ہو۔
    اس کی چال میں ارتقا ءبھی ہے۔ جب اُتار پر بائیسکل ذرا زیادہ تیز ہوئی تو فضا میں ایک بھونچال سا آگیا اور بائیسکل کے کئی اور پرز ے جو اب تک سورہے تھے بیدار ہو کر گویا ہوئے… اُف اُف ایبک نظموں کے گھوڑے کیا اُڑیں گے۔ یہ سائیکل بالکل آسمان سے اُتری ہے…مومس نے پطرس کے لئے یہ براق بھیجا ہے!
پطرس بخاری کا مقبره
    کیا قیامت کی بائیسکل ہے اس کے سامنے مستریوں کی پسپائی کے سین اور خریداروں کی ہارمان لینے کی بات چیت! یہ عہد الزبتھ کا انگلینڈ ہے۔ ہمارا ڈن کوئزٹ بائیسکل کے دو حصے ہاتھوں میں لئے ہوئے آفاق پر چلا آرہا ہے۔ پک،سرجان فالسٹاف کیا کہتا ہے: Knight of the broken bicycle master shallow.
    ہمیں اس سے کوئی مطلب نہیں کہ پروفیسر بخاری کہاں پیدا ہوئے کہاں کہاں رہے اور کہاں مرے۔ ہم چاہتے تو ان سے ملتے مگر اس کا موقع نہ ملا۔ اچھا ہی ہواہمیں ان سے کیا مطلب تھا ہمیں پطرس سے غرض ہے اور رہے گی یہ شخص رہتی دنیا تک رہنے والا ہے۔ عہد الزبتھ کا ایک فرد ہے اس کا لاہور سرجان فالسٹاف کا لنن ہے۔یہ لاہور لاہور ہی ہے آگے کچھ نہیں اس کے پاس ایک دریا لیٹا رہتا ہے۔ بہنے کا شغل عرصے سے بند ہے۔ حملہ آوروں کی آماجگاہ ہے۔ یوپی کے حملہ آور دلی کے راستے سے یہاں آتے ہیں اور اہل زبان کہلاتے ہیں۔ اس کے حدود اربعہ منسوخ ہوچکے۔ آب وہوا کا سوال نہیں اُٹھتا۔ آب کی جگہ پائپوں میں ہائیڈروجن اور آکسیجن اور ہوا کی جگہ گرد اور خاص حالات میں دھواں ملتا ہے، عہد الزبتھ کی سڑکیں ہیں، پھسلا دینے والے ٹانگے ملتے ہیں۔ مکانوں پر اشتہارات کے پلسٹر پر پلسٹر لگائے جاتے ہیں۔ یہاں کی صنعت وحرفت اسی حد تک رسالہ بازی ہے جیسے الزبتھ کے زمانہ میں ڈرامہ بازی تھی۔ ہر برانچ پر یہاں بھی اسی طرح ایک انجمن موجود ہے۔ جیسے شیکسپیئر کے لنڈن میں تھیٹر موجود تھے۔ یہاں کی بہترین پیداوار طلباء ہیں اور قسم قسم کے ہیں اور پروفیسر ہونے کے لئے شرط ہے کہ ”دودھ پلانے والے جانوروں میں سے ہوں“یہاں کے لوگ بہت خوش طبع ہیں پک کے پرستار ہیں اور پک کا اوتار پطرس ہے۔
    پطرس کا کام کھیل دکھانا ہے لفظوں کا کھیل۔ فقروں کا کھیل۔چست جملوں کاکھیل، وٹ (WIT) کا کھیل کھیلتا ہے۔ مگر یہ اس کا خاص کھیل نہیں۔ اس کا کھیل پک کا کھیل ہے موقعوں کا کھیل، ڈرامائی حالات کا کھیل، ہر مضمون یہی کھیل دکھاتا ہے۔
   ہاسٹل میں پڑھنے والا والدین کو شخصیت کا مطلب سمجھا رہا ہے!
”سویرے آنکھ کھولنے والا پلنگ پر لیٹا لالہ جی کے دروازے پر کھٹ کھٹ سن رہا ہے۔ جاگنے کی کوشش ہائے۔ ہائے۔
    ”یعنی بہت ہی کتا!“
    ”باپ انگوٹھا چوس رہا ہے“۔
    فرمانبردار میاں چور بنا ہوا ہے…برقعہ پوش…منہ سے برقعہ الٹا تو روشن آرا
    مرید پور کا پیر تقریر کر رہا ہے۔ پیارے ہم وطنو…!
    پروفیسر پطرس پر عقیدت کی اٹھنیاں چڑھائی جا رہی ہیں۔
    سینما کے اندھیرے میں آب حیات کی تلاش ہو رہی ہے۔
    ایک کنٹب ناخواندہ کتابوں پر گفتگو کی مشق کر رہا ہے۔
    ”مرحوم کی یاد میں“ یہ تماشا لمبا ہے۔ سین نمبر ایک۔ مرزا سے گفتگو، سین نمبر دو۔ سائیکل کا معائنہ۔ سین نمبرتین۔ رفتار کا ایبک منظر۔ نمبر چار۔ مرمت کی دوکان۔ نمبر پانچ۔ فروخت۔ نمبر چھ۔ ٹوٹی بائیسکل والا ہیرو۔ نمبر سات۔ ہوئے کیوں نہ غرق دریا۔
    لاہور لاہور ہی ہے۔
    کھیل ختم۔
    ختم؟
    یہ کھیل ختم نہیں ہوتا۔ ”پطرس کا تماشا دیکھ۔ پطرس کا تماشا دیکھ!“ ہم گلوب تھیٹر سے بول رہے ہیں۔ اب آپ پک لافانی کا تماشہ دیکھیں گے جو پطرس نے پیش کیا ہے…یہ پروگرام ہرمیٹر سینڈ پر ہر وقت سنا جا سکتا ہے اور سننے سے زیادہ دیکھا جاسکتا ہے۔
    اس کھیل کے سلسلے میں ایک نیا اعلان سن لیں۔ اردو ادب میں منشیان تنقید یا تنقید بابو برساتی مینڈکوں کی طرح پھیل رہے ہیں پطرس کے کھیل کو یہ ہرگز نہ دیکھیں ورنہ…پک نے ان کے لئے اب تک کوئی سزا تجویز نہیں کی۔
    ان میں سے ایک بڑے بابو کو پکڑا گیا ہے۔ وہ عرصہ ہوا اپنے ابا کو فرسٹ کلاس کا اور اقبال کو انٹر کلاس کا ٹکٹ دے گئے تھے۔ اس وقت انہیں معاف کر دیا گیا تھا۔ مگر اب ان کی جرائم پیشگی پختہ ہوگئی اور نظر موٹی ہوگئی۔ انہوں نے اردو کی مزاحیہ نگاری پر بھی ایک نظر ڈالی ہے اور پطرس پر جو کچھ کہا اس کی سزا ان کو اچھی طرح دی جائے گی۔
محمد احسن فاروقی

Tuesday, March 15, 2011

بَو بَو جی

بَو بَو جی


 
یادوں کے ویران ساحلوں پر بکھری ریگِ دیروز پر پابرہنہ آوارہ گردی بعض اوقات تو معجزے بی دکھا دیتی ہے ان ساحلوں کی ریت سے کبھی کبھار تو ایسے موتی بھی مل جاتے ہیں کہ جن کی چمک دل و دماغ کی کائنات کو اپنے نور سے فروزاں کیے دیتی ہے۔ ان بظاہر بے حیات ساحلوں پر میری آوارہ گردی کا معجزہ ایک دن  ایک صندوقچے کی صورت ظاہر ہوا جس پر جلی حروف میں"بَو بَو جی" کنداں تھا۔  لفظوں کی یہ تسبیح اسی صندوقچے کے موتیوں سے پرووی گئی ہے۔

وقت کا پہیہ دوڑتے دوڑتے چادرِ زمان و مکان میں ایسی سلوٹیں ڈال چُکا ہے کہ بَو بَو سے مُتعلق واقعات کی زمانوی اور مکانی ترتیب بے معنی اور لا یعنی ہو چُکی ہے۔ لیکن بہرحال اتنا ضرور یاد ہے کہ اُنیس سو ستر کی دھائی کے شروع میں ہمارے دادا جان نے واہ فیکٹری کی ملازمت سے پینشن لینے کے بعد حسن ابدال میں ایک کرائے کے گھرمیں رہنا شروع کر دیا۔

میرے حافظے میں محفوظ  ہماری دادی جان کی اولین یادوں میں سے پہلی یاد اسی گھر سے وابستہ ہے۔ دادی جان کو سب بڑے بےبے کہتے تھے، یہ لفظ ہم بچوں کے توتلے نُطق کے جادو کے اثر سے بَوبَو بن گیا۔

یہ گھر حسن ابدال کے جنوب مشرقی مُضافات میں، وقت کی دھڑکنوں سے بھی قدیم پہاڑ، ولی-قندھاری، کی چوٹی کے سایے سے اک گُوناں پہلو تہی کرتی ہوئی ایک فرنگی دور کی کُشادہ حویلی تھی، جس کے دالان میں یک رویہ گہرے کلیجی رنگ کے ستونوں کے بیچوں بیچ آرام کُرسی پر چاندی سے زیادہ سفید اور برف سے زیادہ چمکیلے بال لیے حضرت دادا جان اخبار پڑھتے اور ہم بہن بھائی ہمہ وقت دھما چَوکڑی مچایا کرتے تھے۔

یہں پر مُجھے یاد ہے کہ بَو بَو  نے ایک دفعہ باورچی خانے میں سوئی گیس کے چُولہے پر روٹیاں پکانے کے لیے معمول سے قدرے چھوٹا تَوا کیا رکھا کہ میں سراپا احتجاج ہو گیا اور رونے لگا، امر واقعہ یہ ہے کہ بندہ بچپن سے ہی اُن معدودے چند اصحاب میں شُمار ہوتا ہے جن کی ناقص رائے میں حیاتِ انسانی کا مقصد بڑی وضاحت سے قرطاسِ دسترخوان پر مُرغن و لذیذ غذاؤں کی روشنائی سے جلی حروف میں تحریر ہوچُکا ہے اور جب کاتب تقدیر نے ہی یہ لکھ دیا تو بھلا میں آپ یہ قُدرت کہاں رکھتے ہیں کہ اس میں سرِ مُو کوئی تبدیلی کے مُرتکب ہوں۔ عُرف عام میں یوں ہے کہ عاجز خوش خوراکی کی طرف مائل ہے۔ قصہ مُختصر کہ میرے رونے دھونے پر بَو بَو نے پوچھا کہ "آخر تم کیوں روتے ہو، کون سی قیامت ٹوٹ پڑی ہے؟" بس  میں نے آنکھین ملتے ہوئے دل کا حال کہہ دیا کہ آپ نے تَوا چھوٹا رکھا ہے میرے حصّے کی دو روٹیاں حقیقت میں معمول کی دو روٹیوں سے کم ہوں گی ۔۔۔ بس کیا تھا کہ بَو بَو جان تو آگ بگولا ہو گئیں اور لگیں امی کو کوسنے دینے کہ بچوں کی روٹیاں گننا کفران نعمت ہوتا ہے وغیرہ وغیرہ ۔

بوبو کا اصل نام صفیہ بیگم تھا اور غالباً سیالکوٹ سے تعلق تھا، مہین و کمزور سا پیکر، گال پچکے ہوئے اور بالا تخصیص موسم ایک جامنی رنگ کی اوونی شال اوڑھے رکھتی تھیں۔ جسم کے ہر جوڑ سے ہمیشہ درد کی شکایت کرتی تھیں اس آمیزہء آب و گِل پہ موجود ہر مرہم بوبو کے دوایوں والے صندوق میں موجود تھی لیکن بوبو کو تو بس آیوڈیکس سے ہی آرام آتا تھا۔ آیوڈیکس بھی ایک عجیب مرہم ہے جس کے بارے میں میرا یقین ہے کہ یہ مریض کا علاج اصل درد کو بھُلا کر اپنی بدبو سے بچاؤ کے اسباب میں مصروف رکھ کر کرتی ہے۔ اس لیے بوبو کا بستر ہمیشہ آیوڈیکس سے مُتعفن رہتا۔

میرے بڑے بھائی سے بَو بَو بےوقوفی کی حد تک پیار کرتیں اور اس بات پر ان کا ایمان تھا کہ وہ کسی قسم کی کوئی غلطی نہیں کر سکتا اور اگر کرے بھی تو کیا ہے خاندان کے نام کا پہلا وارث ہے اسلیے اس کو تو سات قتل بھی مُعاف ہیں۔ اگر بھائی صاحب نے محلّے میں کسی کا سر پھوڑا تو بوبو نے فوراً یہ منطق پیش کردی کہ میرا پوتا تو بتھروں سے کھیلتا ہے اب اگر کوئی حرام کا ڈہکن اپنا سر سامنے لے آئے تو کیا سر پھٹے گا نہیں اور آخر میں یہ ٹہوکا بھی دیا کہ کیا زمانہ آگیا ہے مائیں اپنے بچوں کو گلی میں چھوڑ کہ خود سارا دن خواتین رسالہ پڑہتی رہتی ہیں۔ بھائی صاحب اگر سکول میں کسی مضمون میں فیل ہوئے تو بوبو نے ماسٹر صاحب کو دُشمن سادات بتایا اور یہ بحث وہیں ختم کردی۔  بوبو کا ازار بند تو بس بھائی صاحب کا ایک بنک تھا جس میں ہر روز ایک روپیہ کا حساب کتاب ہوتا، بوبو ہمیشہ اس ازاربند میں ایک روپیہ رکھتی تھیں جس کو یہ صاحب جب جی کرتا نکال اُڑتے۔

واہ کینٹ کے علاقے بستی کاریگراں میں چوریوں کا سلسلہ بہت بڑھ گیا تو لوگوں نے چوروں سے نمٹنے کیلئے چوکیدار رکھے اور پہرے داریوں کا سلسلہ چل پڑا بوبو کے سادہ دل و دماغ نے اس مسئلے کا عجب ہی حل ڈھونڈا۔ آپ نے ہم بچوں کو گھر کے کونے کھدروں اور سٹور میں لگے پیٹیوں کے قُظب مینار میں سے سٹین لیس سٹیل کے گلاس اکٹھے کروائے اور رات کو گھر کے ہر دروازے کے سامنے متعدد گلاس ایک خاص ترتیب میں رکھ دئیے گئے۔  ہمارے دادا جان ایک تہجُد گُزار بزرگ تھے وہ آنکھ اس دُنیا میں نہ ہوگی جس نے دادا جان کو تہجد سمیت کوئی اور نماز قضاء کرتے دیکھا ہو۔  دادا جان رات کو تہجد کے لیے بیدار ہوئے اور وضو کیلئے غُسل خانے کا قصد کیا، آپ اس سے بالکل بے خبر تھے کہ گھر میں دھاتی گلاسوں سے  مُرتب ایک پیچیدہ بساط بچھی ہوئی ہے آپ نے دبے پاؤں جو ایک دروازہ کھولا تو اس دروازے کے گلاس نے دیگر گلاسوں کو مُطلع کیا اور سبھی نے فرش بوس ہو کر سیمنٹ کے فرش پر ایک سازینہ شروع کردیا، اس بوکھلاہٹ میں دادا جان کی زُبان بند اور باقی سب بھی وادئی خواب سے ہڑ بڑا کے اُٹھے کسی نے بلب آن کیا تو کوئی کرکٹ کا بلا اُٹھائے آن پہنچا اُدھر دادی جان کا شور "اُٹھو چور ہے جانے نہ پائے" جب سب کی آنکھیں اچانک پھیلنے والے سیل نور کی عادی ہوئیں تو سب نے دادا جان سے پوچھا "کس نے دیکھا چور، کدھر گیا چور" داد جان کا تانبے جیسا رنگ غُصے سے دہکنے لگا، جب یہ واضح ہوگیا کہ یہ بچوں کی شرارت نہیں بلکہ بوبو کے ذہن کی اختراع ہے تو اس دہکتے چہرے سے اب الاؤ اُبلنے لگے اور ہم میں سے کسی میں اتنی ہمت نہ ہوئی کہ اب اس تصادم کا منطقی نتیجہ بھی دیکھ سکیں۔

بوبو ایک فراغ دل اور پیسے کو ہاتھ کی میل جاننے والی ہستی تھیں، اُدھر دادا جان سیال کوٹ میں کئی مربعے اراضی تباہ ہوجانے کے بعد حد درجہ مُحتاط اور نسبتاً کنجوس واقع ہوئے تھے۔  یہ دو مُتضاد عادات دو ایسے قُطبین تھے جو ایک چھت کے نیچے آباد تھے اور جن کا فطری تصادم بہرحال قریباً ہر روز ہی ہوتا تھا۔ اس سلسلے میں ایک قصّہ بھی سُن لیں۔ بوبو ایک دفعہ بہت بیمار ہوئیں تو امّی بوبو کی تیمارداری کیلئے گئیں اور کسی کام سے امّی کو باورچی خانے جانا پڑا جہاں امی کی نظر ایک پُرانی تام چینی کی پلیٹ پڑی جس کے درمیان میں اب ایک سوراخ بن چُکا تھا، امّی وہ پلیٹ لے کر بوبو کے پاس آئیں اور پوچھا کہ اس کا کیا کروں بوبو بیزاری سے بولیں "اس میں رسی ڈالو اور اس پلیٹ کو اپنے سُسر کے گلے میں جا لٹکاؤ" امی نے بہرحال یہ حُکم نہ مانا پر یہ کہانی ہمارے دادا اور بوبو کی پیار بھری نوک جھونک کے قصّے کے طور پر آج بھی سُنای جاتی ہے۔


بوبو کی ذات کا ایک پہلو ہیرے کی چمک کی طرح نُمایاں تھا اور وہ تھا  
اہل بیتِ رسول سے عشق۔ آپ دل و جان سے یہ سمجھتی تھیں کہ بحالت سجدہ  امام علی اور امام حُسین کے قتل کے بعد نماز فرض نہیں رہی اس لیے آپ ماتمِ حُسین کو ہی نماز کا بدل جانتی اور مانتی تھیں، ان کی تقویم میں ہر مہینے کا نام مُحرم الحرام تھا، ان کیلئے روزے میں پیاس کی شدّت کا احساس تو بس تیممِ تشنگئ حُسین تھا فرماتیں کہ حسین کی پیاس یاد کروا رہا ہے اوپر والا،  جس وقت اور جہاں بھی پانی کا ذکر آتا یہ دشتِ تشنگئی حُسین میں گُم ہو جاتیں اور بلا ارادہ ایک ہاتھ سے سینہ کوبی کرتے ہوئے اپنی عبادت ادا کرتیں، ایسا نہ کرنے والے پر بلاتخصیص مذہب و فرقہ تبرا فرماتیں۔  فنونِ لطیفہ کی ہر اُس قسم جس میں پانی کا ذکر ہوتا یا پانی کو پیش کیا جاتا اُس کو  نوحہ سمجھتی تھیں۔

ایک روز ہم لڑکوں نے اُنہیں ایک اندھیری کوٹھری میں پُرانے دیو ہیکل ریڈیو پر ملکئہ ترنم نور جہاں کے مشہور پنجابی گیت "وگدی ندّی دا پانی، مُڑ کے تے فیر نئیں آوندا" پر حالتِ وجد میں محو گریہ و سینہ کوبی دیکھا تو ہم نے دبی دبی ہنسی ہنستے ہوئے ریڈیو کو بند کیا اور اپنے تئیں اُن کو آگاہ کیا کہ
"بَو بَو جی یہ نوحہ نہیں گانا ہے آپ کیوں امام حُسین کا ماتم کر رہی ہیں اسپر"
بَو بَو نے بڑی بے اعتنائی سے کہا "تمھیں کیا پتہ، جس گانے میں پانی کا ذکر ہو وہ گانا کہاں رہتا ہے وہ تو  بس میرے امام کا نوحہ بن جاتا ہے" ہم ہنستے ہنستے کسی اور کام میں جا لگے اور بعد ازاں یہ واقعہ ہم نے سب کو مزے لے لے کر
سُنایا۔

بَو بَو کو خُلد آشیانی ہوئے اکتیس برس ہو چُکے ہیں میں اب امریکہ میں اپنے بیوی بچوں سمیت ایک زمانے سے آباد ہوں اب کبھی جو دفتر جاتے ہوئے  اپنے آئی-پاڈ میں قید گانوں کی شکل میں کُہنہ یادوں کو سُنتے سُنتے جب بھی کبھی "وگدی ندّی دا پانی، مُڑ کے تے فیر نئیں آوندا" سُنتا ہوں تو ایک ہاتھ سے ہلکا ہلکا سینہ کوبی کرتا ہوں اور سوچتا ہوں کہ میری بظاہر سادہ لوح اور سیدھی سادھی دادی کتنی راست القلب انسان تھیں اور بے اختیار محسن نقوی کا یہ شعر اپنی پوری معنوی تفسیر کے ساتھ میرے دل کی غارِ حرا میں نازل ہونے لگتا ہے

سیلاب دیکھتا   ہوں  تو آتا ہے یہ خیال
پانی بھٹک رہا  ہے،  تلاشِ حُسین میں


بَوبَو اُنیس سو اناسی میں لاتعداد بیماریوں سے لڑتے لڑتے اس پلک بسیرے کو چھوڑ وہاں جا بسی کہ جہاں سے جو خبر لانے گیا وہ
پھر نہ مُڑا۔

وے لوگ تم نے ایک ہی شوخی میں کھو دیے
پیدا کیے تھے چرخ نے جو خاک چھان کر
(میر)

=================================================
جرار جعفری
 
ڈینور کولوراڈو
یکم جنوری دو ہزار گیارہ عیسوی۔
 
حواشی
  • ریگِ دیروز  کی اصطلاح ن۔م۔ راشد کی نظم "ریگِ دیروز" سے لی گئی ہے۔



--

Wednesday, March 9, 2011

BI BI

SHOKIYAN





--

موج صد رنگ

موج صد رنگ

علی ظہیر //حسن فرخ
اللہ نے کہا ہے:۔‘‘کسی بات کا حق ہونا ہی اس کی حقانیت کی سب سے بڑی دلیل ہے کیوں کہ حق کے معنی ہی قائم و ثابت رہنے کے ہیں اور جو قائم و ثابت رہنے والی ہے۔اس کے لیے اس کے قیام و ثبات سے بڑھ کر اور کونسی دلیل ہو سکتی ہے اور جب یہ کہا جائے کہ علی ظہیر شاعر ہے تو اس کے لیے بھی کسی دلیل اور شہادت کی ضرورت نہیں ، کیوں کہ بجائے خود ایک سچ ہے کہ علی ظہیر شاعر ہے، چنانچہ اس نے کہا ہے:۔
علی کے نام سے کھلتے ہیں دروازے ہزاروں
ظہیرؔ اب تو انہیں کا نام میں جپتا رہوں گا
اتنے یقین کے ساتھ اعتقاد کی بات یا تو مومن کر سکتا ہے، یا شاعر… ہاں اگر یہ کہا جائے علی ظہیر اچھا شاعر ہے، تو اس کا جواز پیش کرنا اور شہادت دینا ضروری ہوگا کہ وہ اچھا شاعر کس طرح ہے؟ غالب نے کہا تھا:۔
ہیں اور بھی دنیا میں سخنور بہت اچھے
کہتے ہیں کہ غالب کا ہے انداز بیاں اور
یعنی انداز بیاں ‘دوسروں سے مختلف ہو، تو اچھی شاعری کی یہ پہچان ہے۔ تو کیا علی ظہیر کی شاعری کا ‘‘انداز بیان’’ دوسروں سے مختلف ہے، مابعد جدیدیت محض بعض نقادوں کی انانیت کا حصہ ہے۔ ساختیات اور پس ساختیات نظریہ سازی کی کوشش کو بھنڈر سرقہ ثابت کر چکے ہیں ، تاہم یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ دور روحانی حسیت کے گہرے جذبوں سے سرشار ہے، جسے حضرت علی کرم اللہ و وجہہ کے باب علم کی جذب و مستی میں نہاں کرنے سے تعبیر کیا جا سکتا ہے، جن کا نام جپنے کو ظہیر نے روحانیت کے دروازوں کو وا کرنے کی سبیل بنا لیا ہے۔
چنانچہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے ارباب طریقت کے اسرار کی طرف اشارے اور بے حقیقت چیزوں کی تشبیہہ دیتے ہوئے کہا ہے:
انما الدنیا کضل زائل
او کضیف بات لیلا فار تحل
دنیا گویا زائل ہونے والا سایہ ہے
او کبرق لاح فی افق الامل
یا خواب ہے جسے سونے والے نے دیکھا
یا برق ہے جو افق امید پر چمکی
علی ظہیر کا انداز بیاں اوروں سے یوں مختلف ہے کہ وہ کہتے ہیں :
ندی اور وقت دونوں ایک ہی ہیں
ظہیر ان کی روانی ایک ہی تھی
ندی متحرک اور رواں ہونے کے باوجود، صدیوں سے ایک ہی راہ پر اور ایک سمت بہتی ہے لیکن وقت مستقل صفت نہیں رکھتا، نہ ساکت ہے، نہ جامد ہے، نہ رواں ہے، نہ متحرک ہے، نہ عیاں ہے، نہ نہاں ہے۔ پھر کیا ہے؟ وہ تو بس وقت ہے، جس کا نہ ندی سے تقابل کیا جا سکتا ہے،نہ رفتار اور فاصلے سے، نہ’ تصور زماں و مکاں سے مگر ظہیر نے دونوں کو نہ صرف ایک کہا بلکہ ان کی روانی کو بھی ایک کہا ہے۔ کیوں کہ بقول اقبال:۔
وقت کی تقویم میں عصر رواں کے سوا
اور زمانے بھی ہیں جن کا نہیں کوئی نام
اسی طرح ندی کی گہرائی، اس کے زیر و بم، اس کی روانی کبھی تیز کبھی سست، اس کی تہہ میں دفن ہزاروں ، لاکھوں راز ‘کنکر’ سیپیاں ہزاروں طرح کی زندگیاں ، جن سے کوئی واقف نہیں اور کوئی نہیں جانتا کہ کتنے زمانوں سے قائم ہیں اور پہاڑوں سے نکل کر راہ بنانے سے قبل، وہاں جو کچھ بھی تھا، کیا وہ اب بھی ہے، یا اس نے اپنے بازو پھیلا کر ندی کو راستہ دے دیا ہے۔ ظہیر نے ان ہی حقائق کی روشنی میں ندی اور وقت دونوں کو ایک ہی کہا ہے۔ یہی وہ انداز بیاں ہے جو ظہیر کی شاعری کا وصف ہے اور اسی دلیل کی بنیاد پر کہ اس کا انداز بیان مختلف ہے ظہیر کو اچھا شاعر کہا جا سکتا اور مانا جا سکتا ہے۔ اسی تناظر میں ایک نظم ہے۔ کھلا ہوا ایک منظر’’:
سوچ پہ کیسے کوہ گراں آویزاں ہیں
عقل پہ کیسی میلی میلی دھول جمی ہے
بارش ہو
اک زوردار سی بارش ہو
کوہ گراں بادل بن جائیں
دھول بٹے
صبح درخشاں
عقل و فکر کا منظر ہو
پھر تم ہو
اور پھر جام و سبو کی محفل ہو
کچھ صحن و چمن ہریالی ہو
یہ دھول ہٹے
یہ کوہ اڑیں
صاف درخشاں منظر ہو
اس نظم میں ابہام اور علائم نہیں ہیں ، لیکن سوچ پہ کوہ گراں کا آویزاں ہونا اور عقل پہ دھول کا جمنا، وہ بھی میلی میلی دھول… اور پھر شاعر کی یہ خواہش کہ بارش ہو زور دار بارش کیوں ؟ تاکہ کوہ گراں ، بادل بن جائیں ۔ کوہ گراں کا بادل بننا، علامت بھی نہیں ہے تشبیہہ بھی نہیں ، صرف شاعر کی خواہش ہے، اس کی زور دار بارش کی خواہش جس سے کبھی تو کھیتیاں لہلہانے لگتی ہیں اور کبھی کھڑی فصلیں تباہ ہو جاتی ہیں ۔ آخر شاعر کیوں شدید بارش کا خواہش مند ہے؟ کیوں کہ وہ سمجھتا ہے کہ موجودہ سماجی ، معاشی حالات ذہنوں پر بے حسی اور سفاکی کے بھاری بوجہ کا باعث بن گئے ہیں اور ذہنوں پر کوہ گراں بن کر آویزاں ہو گئے ہیں اور طرفہ ستم یہ کہ عقل پر لاعلمی، بے وفائی، جہالت اور منافقت کی گہری دھول جم گئی ہے جو کسی معمولی ذریعہ سے صاف نہیں کی جا سکتی۔ اسی لیے وہ زور دار بارش کی خواہش کرتا ہے اور چاہتا ہے کہ ذہنوں پر جو کوہ گراں ہے وہ بادل بن جائے اور برس پڑے، جس سے موجودہ اقتصادی کساد بازاری کی دھول عقل و فکر کے صاف درخشاں منظر کے طور پر پوری کائنات پر ابھر آئے۔ اس کے بعد کے جشن اور مسرت کی عکاسی آخری چھ سطروں میں کی گئی ہے۔ اس طرح ظہیر نے ابہام اور علایم کے استعمال کے بغیر لفظوں کو نئی معنویت دی ہے وہ بھی سادہ و آسان اور روزمرہ کے لفظوں کے استعمال کے ذریعہ یہ بھی علی ظہیر کے اچھا شاعر ہونے کی ایسی شہادت ہے جس کے سچ ہونے میں کوئی شک نہیں کیا جا سکتا۔ اس طرح اگر ظہیر کو بہت اچھا یاسب سے اچھا شاعر کہا جائے تو اس کے لیے ضروری ہو جاتا ہے کہ دلائل اور شہادتوں ہی سے نہیں بلکہ ہم عصر شاعروں کے ان کے ساتھ، ان کی شاعری کے ساتھ ان کی شاعری کے مزاج اور تیور کے ساتھ زبان کے استعمال کے انداز اور لہجے کے ساتھ علی ظہیر کی شاعری میں ان سبھی عناصر کا تقابل کیا جائے اور عصری حسیّت کے تمام عناصر کا تجزیہ کیا جائے اور دوسرے شاعروں کے تخلیقی منصب کا تجزیہ اور تقابل کر کے علی ظہیر کو بہتر اور بلند تر ثابت کیا جائے ۔ اس مختصر مضمون میں ان سارے پہلوؤں کا احاطہ نہیں کیا جا سکتا۔ یہ کہتے ہوئے میں اپنی بات ختم کرتا ہوں کہ علی ظہیر شاعر ہیں ، اچھے شاعر ہیں ۔ ان کی آٹھ (8 ) تصانیف میں سے‘‘موج صد رنگ’’ ان کا چوتھا مجموعہ کلام ہے جسے ایجوکیشنل بک ہاؤس ، دہلی نے شائع کیا ہے۔ 120 صفحات کی اس جملہ کتاب کی قیمت ہے 150 روپے ہے جسے حیدرآباد میں ہدیٰ بک ڈپو پرانی حویلی سے حاصل کیا جا سکتا ہے۔(سمت)۔
***
  
سید اعجاز شاہین ، دبئ ،متحدہ عرب امارات

ساقی کا شوربہ

ساقی کا شوربہ
ساقی فاروقی کی خودنوشت ''آپ بیتی/پاپ بیتی''پر ایک بے تکلف تبصرہ
اجمل کمال
ساقی فاروقی کی خودنوشت ''آپ بیتی/پاپ بیتی'' کراچی کے رسالے ''مکالمہ'' اور بمبئی کے رسالے ''نیاورق'' میں قسط وارچھپنے کے بعد پچھلے دنوں کراچی سے شائع ہوئی ہے۔ (اس کتاب کے آخری صفحے پر اطلاع دی گئی ہے کہ یہ پہلی جلد ہے اور پڑھنے والوں کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ دوسری جلد کا بے چینی سے انتظار شروع کر دیں۔)اس سے پہلے تقریباًاسی عنوان سے اشفاق نقوی کی خودنوشت ''پاپ بیتی'' (ذیلی عنوان: ''ایک اور طرح کی آپ بیتی'') لاہور سے شائع ہو چکی ہے۔ چونکہ دونوں کتابوں کے مصنفوں نے یہ عنوان مشتاق احمد یوسفی کے ایک مشہور فقرے سے اٹھایا ہے، اس لیے پڑھنے والوں کے لیے اس بات کی کوئی خاص اہمیت نہیں رہتی کہ یوسفی لنگرسے ان دونوں عاجزوںمیں سے کس نے پہلے لقمہ گیری کی اور کون چبائے ہوے نوالے کا سزاوار ٹھہرا۔ البتہ یہ بات سوچنے کی ہے کہ یوسفی کی تراشی ہوئی اس اصطلاح پر (جو اپنے سیاق و سباق سے الگ کیے جانے پر کسی قدر ماند پڑ جاتی ہے)اس پُرجوش چھیناجھپٹی کی وجہ کیاہے۔ایک وجہ یہ ممکن ہے کہ جوش ملیح آبادی کی ''یادوں کی برات'' کے بعد سے اردو کے 'خودنوشت بازوں' میں خود پر انواع واقسام کی تہمتیں لگانے اور اپنے آپ کو 'پاپ کی گٹھڑی' بنا کر پیش کرنے کا چسکا زوروں پر ہے۔
 
راجندرسنگھ بیدی نے اپنے مضمون ''آئینے کے سامنے'' کے سرنامے کے طور پر یہ جملے لکھے تھے: ''فادر روزاریو نے گناہ گار جاہن سے کہا: تم یہاں اعتراف کرنے آئے تھے، مگرتم نے تو ڈینگیں مارنی شروع کر دیں۔''خودنوشتوں اور یادداشتوں میں ڈینگیں مارنا یعنی اپنی جنسی کامرانیوں کے اصلی یا تخئیلی قصے لکھناظاہر ہے بلاجواز نہیں ہوتا۔ ایک تو زیادہ سے زیادہ ہستیوںسے ہم بستری کی تفصیلات (بشرطیکہ تحریر کی خوبی بھی شامل حال ہو)روایتی طور پر پڑھنے والوں کی بڑی تعدادکومتوجہ اورراغب کرنے کا امکان رکھتی ہیں۔ دوسرا جواز یہ ہے کہ ان حکایاتِ لذیذکی بدولت خودنوشت ہم چشموں میں (خصوصاً ہم عمر ہم چشموں میں) رشک کے جذبات ابھار کر مصنف کے نفسِ امارہ کی تسکین کا ذریعہ بنتی ہے۔تاہم، ان دونوں باتوں کا اطلاق ساقی کی کتاب پر قطعی نہیں ہوتا۔

کتاب کی پشت پر ساقی کی اہلیہ گن ہلڈ (یعنی ان کے عزیز دوستوں کی گنڈی بھابی) کی اتاری ہوئی ایک تصویر شائع کی گئی ہے جس میں وہ خود کپڑے اتارے ،جگ وائن کی ایک 'گدّر' گول مٹول بوتل کو ایک ہاتھ سے دبوچے بیٹھے، چشمے کی اوٹ سے کیمرے کو تاکتے دکھائے گئے ہیں۔ دوسرا ہاتھ میز پر دھرا ہے۔ ان میں سے کسی ہاتھ کو جنبش ہے یا نہیں، اس کا پتا ساکت تصویر سے نہیں لگتا (غالباً نہیں ہے، ورنہ ساغربھرا ہوا کیوں دکھائی دیتا) لیکن چشمہ لگی آنکھوں میں یقینا کچھ نہ کچھ دم معلوم ہوتا ہے۔ عریانی اور شراب سے لبریز یہ تصویر کتاب کے مشمولات کے بارے میں کچھ اس قسم کی توقعات ضرور بیدار کرتی ہے جیسی ان کا حاصلِ کلام شعر (یار زنا بھی اچھی چیز، نشہ بھی اچھی چیز/دونوں اچھی چیزیں باری باری کیا کرو)، لیکن ان کی خودنوشت ان توقعات کو اسی حد تک پورا کرتی ہے جس حد تک مذکورہ بالا شعر غزل کے تقاضوں کو۔ کتاب پڑھنے پر ان کی تحریر کی اگر کوئی منفرد خصوصیت نمایاں طور پر سامنے آتی ہے تووہ ان کا بڑبولاپن ہے جس کا اظہار وہ اپنے اس قبیل کے بیانات میں کرتے ہیں: ''یہ تو سچ ہے کہ میں نے ایک بھرپور زندگی گزاری ہے اور اپنے ہم عصروں کے مقابلے میں شاید کچھ زیادہ ہی بھرپور، مگر... '' وغیرہ (13) اور یہ کہ ''اردو کے مرحومین اور'موجودین' ادیبوں میں شاید میں واحد آدمی ہوںجس نے مذہب اور جنس کے مسائل پر، بلاخوف و خطر، نہایت تفصیل سے اور خاطرجمعی سے، اپنے سوچ بچار کی روشنی میں، اپنی آرا کا تحریراً اظہار کیا ہے۔'' (50)لیکن ساقی کے ان مجرد دعووں کو (مجرددونوں معنوں میں) نظر انداز کیے ہی بنتا ہے، کیونکہ کتاب کے متن سے اس قسم کی کسی شے کی تائید نہیں ہوتی۔ 

مذہب کے شعبے میں ساقی کی ایک عظیم واردات پر تبصرہ ذرا آگے چل کر ہو گا، مگرجہاں تک ان کی بیان کردہ جنسی کارگزاری کا تعلق ہے وہ، اٹھارہ معاشقوں والے شاعرِانقلاب کا کیا ذکر،ساقی کے بہت سے ہم عصروںکے مقابلے میں بھی انّیس ہی نظر آتی ہے۔ ان نیم پیشہ ور خواتین کو چھوڑ کر جن میں سے ایک کو حیدرآباد (سندھ) کے ایک خستہ حال ہوٹل میں بقول خود ''آٹوگراف دیتے ہوے'' وہ پکڑے گئے تھے(136)، ان کی یادداشتوں میں ان کی صرف ایک ''معشوقہ'' کاتفصیلی ذکر ملتا ہے جو اُن کے ایک''نہایت عزیز دوست کی بیوی بھی تھیں (بلکہ اب تک ہیں)'' (118)اورجن کے ساتھ انھیںکوئی چھ آٹھ مہینے تک گنڈے دار ہم بستری کرنے کا موقع ملا۔ لیکن ایک تو بقول خودساقی کے، '' اس میں حاشاوکلا میرا کوئی قصور نہیں۔میں تو ایک معمولی اناڑی کنوارا تھا اور عضوِ شرم کو صرف قارورے اور خودوصلی کے لیے استعمال کرتا تھا ۔ مگر اس 'عفیفہ' نے پہلی بار دوسرے مصارف بھی بتائے...'' (120) دوسرے یہ کہ زلفِ بھاوج کے تنہا ساقی ہی اسیر نہ تھے، ان کے کئی دیگر عزیز دوست بھی ان کے زلف شریک بھائی تھے، گویا یہ ایک قسم کی برادرانہ یا جماعتی سرگرمی تھی (یا صالحین کا ورزشی وتربیتی کیمپ کہہ لیجیے) اور اوپر کے اقتباس کی روشنی میں اسے پورا کا پورا ساقیِ بے قصور کے کھاتے میں ڈالنا انصاف سے بعید ہو گا۔ اسی اقتباس میں ''خودوصلی'' کی دلچسپ ترکیب برتی گئی ہے، جو مشت زنی کے عملِ صالح کے لیے ساقی نے خود وضع کی ہے؛ یہ صرف ان کی زبانی اختراع نہیں، خودنوشت میں اس کے ذکر کی تکرار سے معلوم ہوتا ہے کہ اسے کم و بیش ان کے ضابطہئ حیات کا درجہ حاصل رہا ہے۔اس ''سیردستی'' کے علاوہ اگر ان کی نظم و نثر میں کسی مشغلے کا ذکر تکرار سے ملتا ہے تووہ ''سیرچشمی'' یعنی اپنی نظر کے دائرے میں آنے والی عفیفاؤں سے (بلااجازت بلکہ اکثران کے علم میں لائے بغیر) نظربازی کا مشغلہ ہے (اور تو یاں کچھ نہ تھا، ایک مگر دیکھنا)۔خلاصہ یہ کہ ساقی کی بزعم خود پاپ بیتی سے معلوم ہوتا ہے کہ شاعری کے شعبے کی طرح اس میدان میں بھی ان کی کارکردگی معاصراوسط سے گری ہوئی ہی رہی (تہذیب اور ذوقِ جمال سے گرے ہوے ہونے کی بات کو فی الحال جانے دیجیے)۔اس کے پیش نظر اگر وہ اپنے جنسی عضو کو ''عضوِ شرم'' کا نام دیتے ہیں تو کیا غلط کرتے ہیں۔

لیکن جیسا کہ چیک ناول نگار میلان کنڈیرا نے 1984کے لگ بھگ ایک انٹرویو کے دوران اپنے ناولوں میں تفصیل سے بیان کردہ جنسی عمل کے مناظر کی بابت ایک سوال کے جواب میں کہا تھا، ''ان دنوں جب جنسیت پر کوئی پابندی باقی نہیں رہی، محض بیان، محض جنسی اعتراف، اپنی کشش کھو بیٹھا ہے، اور طبیعت اکتا جاتی ہے...میرے خیال میں جسمانی محبت کے منظر سے ایک بہت تیز روشنی پھوٹتی ہے جو بالکل اچانک طور پر کرداروں کا سارا ذاتی جوہر منکشف اور ان کی وجودی صورت حال کا لب لباب پیش کر دیتی ہے۔'' (ترجمہ: محمد عمر میمن؛''آج: دوسری کتاب''، کراچی، 1987) تاہم بیانیے سے یہ تخلیقی کام لینے کے لیے زندگی کا جو تجربہ اورتخیل اور زبان پر جو قدرت درکار ہے اس کی امید ساقی فاروقی جیسے 'نابالغہئ روزگار' سے وابستہ کرنا ایسا ہی ہے جیسے ان کے ایک معزز ہم عصر اورفیڈرل بی ایریا کے ملک الشعرا استاد محبوب نرالےؔ عالم کے کلام میں میرتقی میر کی سی دقیقہ رسی پانے کی توقع کی جائے۔اس کے کئی اسباب ہیں۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ ساقی کے مزاج کو کلیشے سے غیرمعمولی طبعی مناسبت ہے، تصورِدنیا (worldview) اور زبان کے استعمال دونوں کے لحاظ سے۔ جہاں تک زبان کا سوال ہے ان کی زیرتبصرہ خودنوشت میں واہ رے میں، واہ رے وہ، اجمال کی تفصیل، جل تو جلال تو، اﷲ دے اور بندہ لے،غلط آسن، سہاگن،بے چاری فاختہ، گدّرگدّر، ہلکورے لینا، ڈہک ڈہک کے رونا جیسے سوکھے جھاڑجھنکاڑ کی اتنی افراط ہے کہ پڑھتے ہوے طبیعت بے طرح الجھنے لگتی ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ مصنف نے نثر لکھنے کی ابتدائی تربیت سعید امرت یا اسی سطح کے کسی اور عظیم فنکار کے قدموں میں بیٹھ کر حاصل کی ہے۔ نتیجہ یہ کہ جب کبھی کسی کردار کا نقشہ یا کسی صورت حال کا منظر کھینچنے کی مہم درپیش ہوتی ہے تو ساقی اس سلسلے میں بالکل بے دست وپا دکھائی دیتے ہیں۔اہم اور غیراہم تفصیلات میں تمیز نہ کرنا، وقت بے وقت یاد آ جانے والے کسی بھی اچھے برے (زیادہ تر برے) مصرعے یا شعرکو، موقع محل کا لحاظ رکھے بغیر، بے دھڑک کسی بھی جملے کے بیچوں بیچ ٹھونک دیناوغیرہ ان کی نثر کی عام خوبیاں ہیں۔ رہا ان کا تخیل تو وہ اس قدر کند بلکہ کھٹّل ہے کہ پرانے دھرانے، پٹے اور پچکے ہوے سانچوں سے باہر جھانکنے کی سکت ہی نہیں رکھتا۔البتہ ان کے اسلوب کی سب سے نمایاں بات ان کی بدزبانی ہے جسے وہ بیان کی رنگینی سمجھ کر اتراتے ہیں اور جو بعض موقعوں پر چرکینی سے لگّا کھانے لگتی ہے۔ (واضح رہے کہ یہاں اشارہ محض تشبیہ و استعارہ کے متعفن ہونے کی طرف ہے، زبان کے تخلیقی استعمال کی مہارت کی جانب نہیں، جس میں چرکین مرحوم کا رتبہ ظاہر ہے ساقی جیسوں سے کہیںبلند ہے۔)

یہ بدزبانی ایک ایسی خصوصیت ہے جسے وہ (علاوہ اور چیزوں کے) کراچی کے اس ریڈیائی و ادبی گروہ کے متعدد ارکان کے ساتھ مشترک رکھتے ہیں جس کے سرگروہ سلیم احمد تھے ، البتہ کچھ عرصہ پہلے تک اس میدان میں سلیم احمد کے برادرِخورد شمیم احمد کو پورے گروہ میں اولیت کا شرف حاصل تھا۔ ساقی کی تصنیفِ غیرلطیف کو پڑھ کر اندازہ ہوا کہ کریہہ اللسانی کے اس مقابلے میں انھوں نے نہ صرف اپنے بزعم خود رقیب (دراصل بھاوج شریک بھائی) کو گزوں پیچھے چھوڑ دیا ہے بلکہ کہیں کہیں تو، مشفق خواجہ کے الفاظ میں، موصوف کی بدزبانی ان کی اپنی بدباطنی تک پر غالب آ گئی ہے۔اس گروہ میں، جسے کراچی کے ادبی حلقوں میں ''ریوڑِسلیمی '' کے نام سے بھی یاد کیاجاتا ہے، اس بنیادی اصول کو جزوایمان کا درجہ حاصل تھا(اور اس کے باقی ماندہ ارکان میں اب تک حاصل ہے) کہ اگر کسی بھلے آدمی کے بارے میں کوئی بھونڈا اور بے ہودہ فقرہ اونچی آواز میں کہہ دیا جائے تو محفل پر سناٹا چھا جاتا ہے اور فقرہ بازی کا شکار ہونے والا خفیف ہو کر رہ جاتا ہے۔ساقی کے ہاں اس کی بے شمار مثالوں میں سے ایک دیکھیے: ''خدا اسے ]مشفق خواجہ کو[اور شمس الرحمن ]فاروقی[ کو سلامت رکھے۔ صبح سویرے اٹھتے ہی، کلّی اور استنجا کر کے ان کی درازیِ عمر کی دعا مانگتا ہوں۔ وہ اس لیے کہ مجھ سے پہلے یہ کم بخت مرمرا گئے تو مجھے شاعروں کے نام، ا ن کی تاریخِ پیدائش وغیرہ کون بتائے گا۔ان کواسی طرح کی چوتیاپنتی کے کاموں کے لیے زندہ رکھنا چاہتا ہوں۔ آہ کہ ان بدمعاشوں کو معلوم نہیں کہ وہ کس کی دعاؤں کے سبب اب تک زندہ ہیں۔'' (118) مشفق خواجہ، جیساکہ آپ جانتے ہی ہوں گے، اس عبارت کے شائع ہونے کے کچھ عرصے بعد رحلت کر گئے۔

بیان کا یہ اسلوب ایجاد تو محسود حریفوں اور دشمنوں کے لیے کیا گیا تھااور انھی پرمنصوبہ بند طریقے سے استعمال بھی کیا جاتا رہا ہے،لیکن اس ریوڑ کے ارکان ایک دوسرے کی بھی میانیوں میں سوراخ کرنا، غالباً ریاضت کے طور پر، بلاتکلف جاری رکھتے ہیں۔ ایک دوسرے کے ان ''نہایت عزیز دوستوں''کے پیچیدہ اور دلچسپ باہمی تعلقات کو ساقی کی اصطلاح میں ''بھائی چارگی'' کہا جاتا ہے۔ اسے اس سے ملتے جلتے ایک اور لفظ ''بھائی چارے'' کا مترادف سمجھنے کی غلطی نہ کیجیے گا، وہ اور چیز ہے۔ بھائی چارگی کے معنی ہیں، بھائیوں کے ہاتھوں طاری ہونے والی بے چارگی۔واقعہ یہ ہے کہ حسنِ صورت کے لحاظ سے تو اس گروہ کے ارکان تقریباً سب کے سب مذکورہ بالا برادرانِ خورد وکلاں ہی کی طرح بخشے ہوے ہیں، لیکن حسنِ ظن سے خود کوایک دوسرے کا 'برادرانِ یوسف' سمجھتے اور حتی الوسع ویسا ہی سلوک کرتے ہیں۔مگرانصاف کی بات یہ ہے کہ جہاں تک صورت شکل کا سوا ل ہے ساقی کو باقی سے انیس نہیں، بیس ہی کہنا ہو گا۔ اس کی تصدیق ان کی اس تصویر سے بخوبی کی جاسکتی ہے جس کا اوپر ذکر کیا گیا ہے۔ اس تصویر سے اور بھی کئی اندازوں کی تصدیق ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر بیرون ملک مقیم برصغیر کے باشندوں ( اردو کے شاعرادیب مراد ہیں) کے بارے میں یہ بات کہی جاتی رہی ہے کہ ان میں سے جو شخص جس سنہ میں ولایت میں وارد ہوا اسی سنہ میں حنوط شدہ (mummified) یا بلکہ متحجر (fossilised)حالت میں آج تک دیکھا جا سکتا ہے۔ساقی کے معاملے میں یہ بات بالکل درست ہے۔ اب وائن کے اس جگ ہی کو ملاحظہ کیجیے جس سے موصوف اس قدر اتراہٹ کے ساتھ بغلگیر دکھائے گئے ہیں، دنیا کی کسی اور زبان میں آپ نے کبھی نہ دیکھا ہو گا کہ کسی مصنف نے اپنی کتاب کے لیے تصویر اترواتے وقت بوتل گلاس وغیرہ کو یوں اوچھے کے تیتروںکی طرح باہر باندھ رکھا ہو۔(ساقی کے ایک عزیز دوست اسد محمد خاں نے اس قسم کی حرکت کے لیے exterior decoration کی پُرمعنی اصطلاح تراش رکھی ہے۔)
لیکن اگر فوسل کے طور پر دیکھا جائے تو ساقی کی تصویر میں کوئی عجیب بات نظر نہیں آتی۔ ساقی 1963میں (قصائی اور سبزی فروش کے جعلی ورک پرمٹ پر) مہاجرت اختیار کرنے کے بعد سے لندن میں مقیم ہیں۔ اس قیام کی تفصیل خود انھی سے سنیے: ''اپنے مکان کا نمبر آج بھی یاد ہے: 100 Dastagir Colony, Karachi.۔یہ نمبر مجھے اس لیے یاد ہے کہ میں ٣٣ سال سے 100 Sunny Gdns. Road, London.میں اپنے آخری ایام پورے کر رہا ہوں۔ 

میں نے اپنے سارے چھوٹے چھوٹے بم یہیں سے چھوڑے۔''(37) صرف مکان کا نمبر ہی جوں کا توں نہیں، موصوف کی ذہنی، اخلاقی اور جذباتی نشوونما بھی وقت کے اسی مقام پرٹھٹھری ہوئی کھڑی ہے جب وہ اپنی مالی حالت سدھارنے کی غرض سے ولایت سدھارے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ ان کی رخصتی سے قبل کے اُن دنوں میں (یعنی شراب پر پابندی کا قانون لاگو ہونے سے چودہ پندرہ برس پہلے بھی) ان کے محلے کے چھٹ بھیّوں اورلفنگوں میں شیخی بگھارنے اور ایک دوسرے پر دھاک بٹھانے کے لیے بڑھ چڑھ کر اور بڑھاچڑھا کر شراب نوشی کا ذکر کرنے کا رواج تھا۔ انگلستان میں امتناع کا قانون اب تک نہیں آیا،اگر کبھی آیا بھی تو اس وقت تک ساقی اپنی آخری عمر پوری کر چکے ہوں گے، لیکن اس کھلے معاشرے میں برسوں رہے چلے آنے کے باوجود گھٹی ہوئی طبیعت کی 'دستگیری' کا وہی عالم ہے کہ جو تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اپنی متعدد رشحات قلم میں (مثلاً زہرہ نگاہ کی کتاب ''شام کا پہلا تارا'' پر اپنے تبصرے کے بیچوں بیچ) خود کو اسی قدیم زمان و مکاں میں تصور کر کے ،بے اختیار اور باربار پکار اٹھتے ہیں کہ ''وسکی چڑھ رہی ہے!''

اس بدمذاقی (اورچنددرچند دیگر قباحتوں)سے اگر آپ کسی طرح قطع نظر کر سکیں تو ساقی کی کتاب سے وہی کام لیا جا سکتا ہے جو علوم کے میدان میں فوسلز یعنی متحجر مخلوقات و نباتات وجمادات سے لیا جاتا ہے۔ میں نے ان کی خودنوشت کو اسی زاویے سے پڑھا اور آئندہ صفحات میں اسی مطالعے کے چند نتائج آپ کے سامنے پیش کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں ۔ ساقی، اپنے بیان کے مطابق، 1935میں اس دنیا میں وارد ہوے، 1948میں مشرقی پاکستان پہنچے، 1952میں کراچی میں نزول فرمایا اور 1963 میں مذکورہ بالا راستے سے لندن روانہ ہو گئے۔ اس بدنصیب مملکتِ خداداد میں ان کے قیام کا عرصہ وہ ہے جس کے دوران یہ ملک ، خصوصاً کراچی شہر، گہری معاشرتی تبدیلیوں کا مرکز رہا۔ تبدیلیوں کے اس پیچیدہ عمل کی پوری کہانی تو فکشن ہی میں سما سکتی ہے، لیکن جہاں تک تنک مایہ اردو فکشن کا تعلق ہے، آج تک ایسا کامیابی سے ہو نہیں پایاہے۔قرۃ العین حیدر کا ناولا''ہاؤسنگ سوسائٹی'' (جو ان کی تحریروں میںغالباً بلندترین درجہ نہیں رکھتا) اس کی اکادکا مثالوں میں سے ایک ہے۔ شوکت صدیقی کے ناولوں وغیرہ میں وہ گہرائی اور بصیرت نہیں ملتی جو اس بڑے معاشرتی انقلاب کا احاطہ کرنے کے لیے درکار ہے۔ مختلف ادیبوں کی چند ایک عمدہ کہانیوں اور مضامین میں اس کی جھلکیاں البتہ دکھائی دیتی ہیں، یاپھر مشتاق احمد یوسفی کی بلندپایہ کتابیں، خصوصاً ''زرگزشت'' اور ''آب گم'' ہیں، لیکن انھیں کسی ادبی صنف کے خانے میں قید کرنا دشوار ہے، اور یوں بھی یوسفی کی تحریر کا بنیادی تخلیقی مقصود حقیقت نگاری سے مختلف ہے۔
 
ساقی افسانے وغیرہ نہیں لکھتے۔ لڑکپن میں اس شعبے میں خامہ فرسائی کی تھی، لیکن امتدادِزمانہ نے وہ افسانے ان پر تو کیا، ہم سب پر ترس کھا کر تلف کر دیے۔ بقول خود، ''اردو دنیا جسے میری شاعری کا عذاب سہنا تھا میرے نثری عتاب سے صاف بچ گئی۔'' (64) تاہم،جیساکہ آپ کے سامنے ہے، یہ نثری عذاب اب ان کی 'پاپ نویسی' کی صورت میں نازل ہو چکا ہے۔ لیکن فکشن کی غیرموجودگی میں کسی بھی سطح کی ان آپ بیتیوں کی اہمیت بڑھ جاتی ہے جن میں اس مخصوص دور میں گزارے ہوے دنوں کا براہ راست بیان ملتا ہو۔ ساقی کی خودنوشت بھی اسی اعتبار سے اہمیت رکھتی ہے۔ جہاں تک گہرائی اور بصیرت وغیرہ کا تعلق ہے، اس کا بہتان تو ساقی پر وہی شخص لگا سکتا ہے جسے ان الفاظ کی آبروریزی مقصود ہو (مثلاً وہ خود)۔اپنی خودنوشت میںساقی نے خود پر دو بڑے بہتان لگائے ہیں جن میں سے ایک کا تعلق ''جدیدیت'' سے ہے اور دوسرے کا ''احساسِ جمال'' سے۔ اگلے صفحات میں میں یہ واضح کروں گا کہ موصوف کس طرح ان دونوں الزامات سے مکمل طور پر بری کیے جانے کے سزاوار ہیں۔ لیکن اس قسم کی سطحی تحریروں میں بھی یہ وصف تو ہوتا ہی ہے کہ لکھنے والا اپنی زندگی کی یادداشتیں قلم بند کرتے ہوے ناگزیر طور پر اپنے خاندان والوں، یاروںدوستوں وغیرہ کا بھی تذکرہ کرتا جاتا ہے، جس کے محتاط تجزیے سے اس دور میں پائے جانے والے معاشرتی رجحانات کو، جزوی طور پر ہی سہی،سمجھنے میں مدد مل سکتی ہے۔

لیکن کوئی خودنوشت نگار (ساقی کے لفظوں میں ''خودنوشت باز'') جس زاویے سے واقعات اور افراد کو دیکھتا اور بیان کرتا ہے اور اس کی تحریر میں جو تعصبات کارفرما ہوتے ہیں، ان کو سمجھنے کے لیے اس کے ورلڈویو یا تصوردنیا سے واقف ہونا ضروری ہے اور یہ بھی جاننا ضروری ہے کہ مصنف کی عام شہرت کس قسم کی ہے۔ جہاں تک ساقی کا تعلق ہے، غزل کا عمومی اور خصوصی ذوق رکھنے والے قارئین انھیں ان درجنوں شاعروں میں سے ایک کے طور پر جانتے ہیں جن کی مردہ اور نیم مردہ غزلیں اردو کے متعدد ادبی رسالوں میں ان جیسی اور ان سے بہتر غزلوں کے انبار میں برسوں سے دفن ہوتی چلی آ رہی ہیں۔ان کی چار چھ نظموں میں یقینا غزلوں کے مقابلے میں کسی قدر جان دکھائی دیتی ہے، مگر اس کا سبب (جس کی طرف یوسفی بھی توجہ دلا چکے ہیں) یہ ہے کہ ان میں بعض بے زبان جانداروں(بلّے، مینڈک،سؤر وغیرہ) کا ذکر آتا ہے۔ 

لیکن ذرا ہلاجلا کر دیکھنے پر یہ بیشترساقی کی اصطلاح میں ''انٹاغفیل'' (13)ہی نکلتے ہیں۔مجموعی طور پر ساقی کی منظومات (غزلیں، نظمیں، نثری نظمیں)شاعری کا بال بیکا نہیں کر سکیں۔ ایسی بات نہیں کہ ساقی کو پڑھنے والوں کی بے لاگ نگاہ میںاپنے مقام کی آگہی نہ ہو؛بھلا ظالم لوگ اس آگہی سے کہیں محفوظ رہنے دیتے ہیں! دنیاوالوں کے اسی سلوک سے مجبور ہو کر ساقی اپنے سرپرست سلیم احمد کے سامنے (ڈہک ڈہک کے)روتے اور ان کے گلے میں بانہیں ڈال کر کہا کرتے تھے کہ ''سلیم بھائی یہ دنیا بڑی کمینی ہے۔''(113) لیکن مجبوری کی اس آگہی کے باوجود ان کی سرتوڑ کوشش رہتی ہے کہ کہیں غنڈہ گردی اور دہشت انگیزی کی مدد سے، اور کہیں چاپلوسی اور زمانہ سازی کے ذریعے اپنے مقام میں کسی قسم کی بلندی کا التباس پیدا کر سکیں۔ اوپر دیے گئے اس اقتباس میں ساقی نے ان ''چھوٹے چھوٹے بموں'' کا ذکر کیا ہے جو وہ وقتاًفوقتاً صادر فرماتے رہے ہیں۔ ان کو خودکش دھماکے کہیے تو بجا ہے۔اس سلسلے میں ان کا طریقہئ واردات یہ ہوتا ہے کہ بڑے اور محترم ادیبوں اور شاعروں کی چھوٹی بڑی بھیڑ جمع کر کے اک شانِ بے نیازی کے ساتھ خود کو ان سے ٹکرا دیا جائے، یا عظیم تخلیق کاروں کے بارے میں لنگوٹیے یاروں کی سی بے تکلفی اور بدتمیزی کا انداز اختیار کیا جائے، کہ شاید بعض کم حوصلہ قاری مرعوب ہوکر ساقی کے بارے میں کسی خو ش گمانی کا شکار ہو جائیں۔ اور اگر ایسا نہ ہو تو کم از کم اس دھماکے سے یہ عظما ہی ہلاک ہو جائیں۔ وہ تو خیرہوئی کہ اپنے ساتھ متواتر شغلِ سیردستی کرتے رہنے کے باعث ان کی شخصیت کے ساتھ بندھے ہوے ''چھوٹے چھوٹے بم'' اس قدر آلودہ ونمدار ہو چکے ہیں کہ ان دھماکوں کے نتیجے میں تہلکہ کبھی نہ ہوا، دھواں اور تعفن البتہ پھیلتا رہا۔ ساقی کے چند دلچسپ چھوٹے چھوٹے بم دھماکے ملاحظہ کیجیے:

اِدھر کے لوگوں میں میرتقی میر،حسرت موہانی اور یاس یگانہ چنگیزی ایسوں اور اُدھر کے لوگوں میں بیت ہوفن، ایزرا پونڈ، اور ڈی ایچ لارنس جیسوں سے اپنے مزاج کو ہم آہنگ پاتا ہوں۔(173) میں نے مصرع لکھنے کی کاری گری انیس، اقبال اور یگانہ (اردو) اور ایلیٹ، آڈن، تھامس (انگریزی) سے سیکھی (افسوس کہ یہی دو زبانیں آتی ہیں) اور hopefullyاس فن کو آگے بڑھایا ہے۔ (46)نرودا کے ہم عصر پارّا کے مشورے پر(you have to improve on the blank page) عمل کرتا چلا گیا۔یعنی آٹھ دس افسانے خود ہی معطل کیے۔ بقیوں میں کاٹ چھانٹ اور کتربیونت کی قینچی چلائی۔ ترمیم و اضافے کے بعد (میرے حساب سے) افسانے اتنے نکھر آئے کہ ان کی پہلی کاپی پھاڑ کے پھینک دی۔ اور وہ بھی اس خیال سے کہ آنے والے مورخین، ہیمنگوے اور ایلیٹ کی طرح، کہیں میرے پہلے ڈرافٹ کی کاپیاں تلاش کر کے، میری سادہ تحریروں (humble writings)کا سراغ نہ لگا لیں۔(63) میری خوش قسمتی ہے کہ جدید اردو شاعری کے دو بڑوں ]راشد اور فیض[ سے خاصے گہرے تعلقات رہے۔... ہماری محبتیں سرعت سے اس لیے بھی بڑھیں کہ اردو کی قدیم و جدید شاعری ایک طرح سے قدرمشترک تھی۔ وہ دونوں مجھ سے زیادہ جانتے تھے مگر بیس انیس والا ہی فرق تھا۔ پینسٹھ پینتیس والا نہیں۔پھر لندن میں ایک دوسرے کے ساتھ زیادہ سے زیادہ وقت ہم نے اس لیے بھی گزارا کہ یہاں تخلیقی تنہائی تھی۔ہماری کوشش ہوتی کہ ہم ہفتے میں تین بار ضرور ملیں یعنی راشد صاحب اور میں یا فیض صاحب اور میں۔فیض صاحب سے آخری دنوں میں اکیلی والی ملاقاتیں ختم ہو گئیں۔ ہم زیادہ تر دوسرے ادیبوں کے گھروں میں یا محفلوں میں ہی ملتے کہ کئی دوسرے بھی آن بسے تھے۔(138)انیس اور اقبال پھر یگانہ اور راشد کے مصرعوں کا صوتیاتی نظام مجھے بہت پسند تھا کہ میرے ]بھوتیاتی[ مزاج سے لگا کھاتا تھا۔میرکی لہکتی ہوئی اور غالب کی دہکتی ہوئی آواز نے پریشان کر رکھا تھا۔

 I mean the better Meer and the better Ghalib. اس لیے کہ ان کے ہاں بھی سخنِ فضول کی کمی نہیں۔ (40)اپنے نوجوان ہم عصروں یعنی اپنے بعد آنے والوں سے اتنا ضرور کہنا چاہوں گا کہ میں شاعری میں اقلیت کا نمائندہ ہوں۔ غالب کی طرح، راشد کی طرح، میراجی کی طرح، اخترالایمان کی طرح ، ممکن ہے میرا بھوت مرنے کے پچاس سال بعد قبر سے نکلے، ممکن ہے نہ نکلے، ...ممکن ہے اس وقت تک تم سب بھی ]بھی![مجھے بھول چکے ہو...مگر اتنا ضرور یاد رکھنا کہ میں ...'' blah blah blah (29)
جی نہیں، ساقی فاروقی کو ہوش کے ناخن لینے کا مشورہ دینا قطعی غیرضروری ہو گا۔ یہ بات وہ خود بھی اچھی طرح جانتے ہیں کہ ان کا مقام سلیم احمد، شیدا گوالیاری،بخش لائلپوری،استاد اخترانصاری اکبرآبادی،جمیل الدین عالی، نگار صہبائی، راغب مرادآبادی وغیرہ وغیرہ ہی کے درمیان کہیں واقع ہے جن میں سے ہر ایک کا بھوت، ان کی ''ڈیم فول شاعری'' (27) کے تصدق میں، عضوِ شرمندگی کی مانند متعلقہ قبر میںمنھ چھپائے ابدالآباد تک پڑا رہے گا اور کسی انسانی آبادی کا رخ کرنے کی ہرگز جسارت نہ کرے گا۔ اس وقت غالباً وہ وسکی کے مدوّر لبالب پیپے میں کچھ دیر پڑے ڈبکیاںکھانے کے بعد نکلے ہیں اورباہر ''ہلکورے لیتی'' ٹھنڈی ہوا میںمست، دُم کی نوک پر ایستادہ ہو کرنعرہ کناں ہیں کہ ''لاؤ کہاں ہے بلّی، اس کی تو...'' (یہ ایستادگی غالباًکسی قاری ''ظاہر'' قاسمی یا مولوی عذیرہاشمی کے فراہم کردہ کشتوں کی برکت سے ممکن ہوئی اوربحمداﷲاب تک جاری ہے۔)پریشان ہونے کی ضرورت نہیں، وسکی ہی تو ہے، چڑھ گئی ہے تو جلدیابدیراتر بھی جائے گی۔
خیر، تعفن برطرف،اس کا احساس ساقی کو خود بھی ہے کہ ان کی شان میں محولہ بالا قسم کی باتیں کوئی اور کرتا تو ان کے معنی مختلف ہوتے ۔ لیکن بھلا کوئی اور ایسی حماقت کرنے ہی کیوں لگا۔مشفق خواجہ نے ہمیشہ انھیں یہی سمجھانے کی کوشش کی کہ ساقی کی تعریف میں کچھ کہنے سے پڑھنے والوں کی نظر میں ساقی کی حیثیت تو کیا بہتر ہو گی خود کہنے والے کی حیثیت مشکوک ہو جائے گی، اور یہ بھی کہ ساقی کی ضرورت سے زیادہ سرپرستی کرنے کے باعث لوگ پہلے ہی انھیں ''خواجہ سگ پرست'' کہنے لگے ہیں۔ اس کے باوجود،جب کبھی ساقی کو وسکی چڑھی ہوئی نہیں ہوتی یا وہ دُم پر کھڑے ہوے نہیں ہوتے، تو اِس کی اُس کی چاپلوسی کرنے سے باز نہیں آتے کہ کسی سے کوئی تعریفی یا نیم تعریفی فقرہ ہاتھ آ جائے جسے پکی سیاہی میں چھپوا کر اسے مفت میں رسوا اور خود کو مفتخر کر سکیں۔

 اپنے پہلے مجموعہئ کلام ''پیاس کا صحرا'' میں انھوں نے ذاتی خطوط سے اور اِدھراُدھر سے لوگوں کے فقرے چن کر ''غیبت کا شامیانہ'' کے عنوان سے اکٹھے کر دیے تھے۔ اس کے بعد سے لوگ اور محتاط ہو گئے اور خطوں میں بھی ایسی کوئی بات لکھنے سے احتراز کرنے لگے جسے ساقی کی کندذہنی کی دھندلی روشنی میں تعریف پر مبنی سمجھا جا سکے ۔ یہی وجہ ہے کہ اپنے اگلے مجموعے ''رادار'' میں جب انھوں نے مذکورہ شامیانہ پھر سے ایستادہ کرنے کی کوشش کی تو محراب گل افغان نامی ایک تبصرہ نگار نے (غالباً قلمی نام تھا) اسے ''غیبت کا کنٹوپ'' قرار دیا، اور ساتھ ہی یہ بھی کہہ دیا کہ افسوس یہ ساقی کے سر پر پھر بھی فٹ نہیں آئے گا۔دنیا نے سچ مچ ساقی کے ساتھ برا سلوک کیا ہے؛ مگر خیر، کون کہہ سکتا ہے کہ وہ اس سلوک کے مستحق نہیں۔پھر سعید امرت کے قدموں کی برکت سے ان کی رمزآشنائی اس بلا کی ہے کہ اپنے بارے میں ہجوِملیح پر مبنی فقرے بھی تعریفی سمجھ کر نقل کرتے ہیں اور مگن رہتے ہیں۔ بھائی چارگی یہ کہ ان میں سے بیشتر تیر جس کمیں گاہ سے آتے ہیں وہاں ان کے اپنے ہی بھائی بند براجمان ہوتے ہیں۔ مثلاً:


سلیم احمد: ''ساقی، شاید اس وقت میں موجود نہ ہوں گا جب تمھارا شمار اردو کے عہدجدید کے سب سے بڑے شاعروں میں ہو گا۔ لیکن مجھے یقین ہے کہ تم ضرور مجھے یاد کرو گے۔ تمھارا سلیم بھائی...'' (114) تم اپنی اس قسم کی شاعری ]'ہجوِ مہمانانِ عزیز'، 'سید سلیم احمد' وغیرہ[کو اہمیت نہیں دے رہے ہولیکن مجھے تو اس میں تمھاری سنجیدہ شاعری سے زیادہ جان نظر آتی ہے۔''(113)
جمیل الدین عالی:اس محفل میں اس رات میں نے یہ دونوں نظمیں سنائیں۔ مصرعوں کی کاٹ اور بنت ایسی تھی کہ عالی جی نے کہا، ''تم اپنا تخلص عرفی کر لو۔'' میں نے کہا، ''میں عرفی کو مزید مشہور نہیں کرنا چاہتا۔'' اور بات آئی گئی ہو گئی۔(130)
راشد اور فیض نے، ساقی کی تمام خوشامددرآمد اور حاضرباشی کے باوجود، کبھی ایسی کوئی بات نہ کہی جسے ساقی اپنے حق میں (گویا ان کے خلاف) استعمال کر سکیں۔شراب وہ دونوں بھی پیتے تھے، لیکن اسے سنبھالنا بھی جانتے تھے۔ رند اور ساقی میں کچھ نہ کچھ فرق تو ہونا ہی چاہیے۔جہاں تک مشتاق احمد یوسفی کا تعلق ہے، تووہ غالباً شراب سے شغل ہی نہیں کرتے۔اور سب سے بڑھ کر یہ کہ یہ حضرات جانتے ہیں کہ کیا کہہ رہے ہیں:


میں چلنے لگا تو وسکی بہت چڑھ چکی تھی اس لیے جب زہرا نگاہ نے کہا کہ میں فراز کو چھوڑتا جاؤں تو میں نے نشے کا حوالہ دیے بغیر بہانہ کیا، ''بہن، میں انھیں اپنی گاڑی میں نہیں بٹھا سکتا کہ جوں ہی کوئی خراب شاعر بیٹھتا ہے گاڑی کا ایک پہیہ ہلنے لگتا ہے۔'' یہ کہہ کر چلا گیا۔ دوسرے دن ملنے پہنچا تو فیض صاحب نے کہا، ''تمھارے بیٹھنے سے تمھاری گاڑی کے دو پہیے تو مستقل ہلتے ہوں گے۔'' (173) 
میرے پیارے دوست مشتاق احمد یوسفی نے میرے بارے میں کہیں لکھا ہے کہ ''پڑھت اس قیامت کی کہ ایک ایک لفظ کو زندہ کر کے سامنے لا کھڑا کرتے ہیں۔'' اس میں اتنا اضافہ اور کرنا چاہوں گا کہ لکھت بھی ویسی ہی ہے۔(41)
یہ اضافہ کرنا بلاشبہ ساقی کا، بلکہ ان ہی کا، حق ہے، لیکن اگر اس سے قبل وہ مشفق خواجہ یا شمس الرحمن فاروقی کو فون کر لیتے تو وہ انھیں یہ مشورہ ضرور دیتے کہ اپنے اضافے میں ''ویسی'' کی جگہ ''ایسی ویسی'' کر لیں۔

جدید دور میں بسنے والے کسی شخص کو سمجھنے کی ایک اہم کلید یہ ہے کہ عورتوں کے بارے میں اس کے نقطہئ نظر سے واقفیت پیدا کی جائے۔ ساقی کے سلسلے میں یہ طریقہ اختیار کرنے پر پتا چلتا ہے کہ خواہ جسمانی طور پر وہ اکیسویں صدی میں مقیم ہوں، لیکن ان کے ذہن اور احساس کی سطح پر وہی پرچھائیاں نقش کالحجر ہیں جن کا تعلق دقیانوس علیہ الرحمہ کے عہدِزریں سے ہے۔ان کے نزدیک وجودِزن کے چند گنے چنے مصارف یہ ہیںکہ ان کی 'قدیم خانی' تصویر کائنات اور رکیک گفتگو میں رنگ بھرا کرے اور ان کی انواع و اقسام کی (بیشتر اسفل درجے کی) احتیاجات کو پورا کیا کرے۔


اس وسیع خاندان (extended family) ...میں صرف ہم مرد شاعروادیب ہی شامل نہیں تھے بلکہ ہماری مائیں، بہنیں، بھابیاں، بیویاں بھی برابر کی ساجھے دار تھیں۔ اُس زمانے میں بھی ان میں سے اکثر ہم سے پردہ نہ کرتیں یا آدھا پردہ کرتیں یا زیادہ سے زیادہ دکھاوے کا پردہ کرتیں۔ ہم جس تس کے ہاں ڈیرہ ڈال دیتے بغیر وارننگ کے...اور یہ سگھڑ نامحرم ایک دو گھنٹے کے نوٹس پر ہمارے ناؤنوش کا انتظام کر دیتیں... ہماری دقیانوسی تہذیب میں شکریہ ادا کرنے کی رسم نہیں بلکہ اسے اس لیے معیوب سمجھا جاتا ہے کہ 'شکریہ' سے اجنبیت کی بو آتی ہے(یہاں مغرب میں تو جنسی اختلاط کے بعد بھی مرد عورت ایک دوسرے کا شکریہ ادا کرتے ہیں)۔آج میں یہ سطریں لکھ کر ان تمام خواتین کا، مرحوم و موجود، شکریہ ادا کر رہا ہوں جنھوں نے ہمارے پیاسے ہونٹوں اور بھوکے پیٹوں کی نگہ داری کی۔ان کی محبتیں نہ ہوتیں تو ہماری آنتیں اینٹھ جاتیں اور ذہن ماؤف ہو جاتے۔ (104-5)


کانے پردے اور مفت کے ''ناؤنوش'' پر پلے ہوے تنک حوصلہ جسم کے دیگر شرمناک اعضاکے مفادات کی دیکھ بھال، جیساکہ آپ مختصراً دیکھ چکے ہیں اور تفصیلاً آگے ملاحظہ کریں گے،بھاوج کے ذمے ہوتی تھی۔ بہنوں کے مصارف کچھ یوں تھے:
میںباہروالی چارپائی پر دراز تھا اور منّو (محفوظ کی گیارہ بارہ سالہ بہن) میری پیٹھ اور کمر پر کود رہی تھی، ان کا درد کم کرنے کے لیے، اس لیے کہ اسے اٹھنی درکار تھی۔ (یہی کام میں اپنی چھوٹی بہنوں سنجیدہ اور شاہدہ سے بھی کرواتا اور اٹھنی ہی دیتامگر ان کا بوجھ بڑھنے لگا تھا اور وہ میرا کچومر نکال دیتیں۔ میری پیٹھ، کمر اور کولھوں پر کودنے والی آصف جمال کی گیارہ سالہ دل آویز اور بانکی بہن عطیہ بھی تھی جو انیس بیس سے پہلے ہی مر گئی مگر میری یادوں میں زندہ ہے۔)(100)


ساقی یہ بتانا بھول گئے کہ کودنے وغیرہ کی یہ خدمات ان کے عزیز دوستوں کو بھی (تبادلے یا وٹے سٹے کی بنیاد پر) دستیاب تھیں یا نہیں۔خیر، ان گوناگوں خدمات کو چھوڑ کر رشتہ دار خواتین کا ایک اور استعمال ساقی کی سمجھ میں آتا ہے، جویوں تو ہماری تہذیب کی سینہ بہ سینہ (اور بعض اوقات برسرِمحفل) زبانی روایت کادرخشاں جز ہے لیکن ساقی اس کی درخشانی کوجہاں تہاں تحریر میں لانے سے بھی نہیں چوکتے ، یعنی یہ کہ ان ''سہاگنوں''کے ذریعے دوستوں اور دشمنوں کی ''ماں بہن'' کی جائے۔ اس فن لطیف میں ساقی کے کارناموں سے ظاہر ہوتا ہے کہ ذہنی ناداری کے سبب گالیوں کے ضمن میں بھی بے چارے کو کلیشے پر ہی گزارا کرنا پڑتا ہے۔ البتہ جہاں تک ساقی کائنات کے اعلیٰ تر مدارج کے بارے میں سوچنے کی اہلیت رکھتے ہیں، وہاں اسی نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ''شاید خدا اپنی کم تر مخلوق 'عورت' کو اس قابل نہیں سمجھتا کہ اسے پیغمبری کا شرف بخشے۔'' (51-2) پیغمبروں کو تو جانے دیجیے، کسی شاعریا ادیب عورت کا سامنا ہونے پر بھی ساقی پہلے تو بھابیانہ امکانات کی ٹوہ میں رہتے ہیں، لیکن اس طرف سے مایوس ہونے پر جھٹ اسے اونچی آواز میں بہن (یا خالہ یا بٹیا) کہنے لگتے ہیں تاکہ کسی کو کوئی ایساویسا شک نہ گزرے۔


تاہم،اپنے وسیع خاندان سے آگے قدم رکھتے ہی ساقی کھل کھیلنا شروع کرتے ہیں (یعنی جس حد تک کھل کھیلنا ان کے بس میں ہے)۔ اس سلسلے کا آغاز ان کی کم سنی ہی میں ہو گیا تھا، یعنی ایک اوسط درجے کے زمیندار گھرانے میں جنم لینے والے اس کپوت کے پاؤں (بلکہ ہاتھ) پالنے ہی میں نظر آنے لگے تھے:

 
گاؤں کے کئی نوجوان...جن کے تازہ بہ تازہ گونے ہوئے تھے یا جن کی بہنیں جوان تھیں، ان کی خواہش ہوتی کہ ان کی بیاہتائیں اور نوجوان بہنیں ان کی غیرموجودگی میں 'بندوقوں والی ڈیوڑھی' میں سوئیں۔...ان نوجوانوں کی تمنا کا سبب یہ تھا کہ بدمعاشوں اور زانیوں سے ان کی ملکیتیں محفوظ رہیں۔...میں پانچ سال سے سات سال کی عمر تک اپنی متجسس انگلیوں کولذت کی ٹریننگ دیتا رہا۔...جب دادی، اماں، چچی اور پھوپی نیند کے خرابے میں اتر جاتیں تب میں بستر کے نشیب سے ابھر کے رات کی معزز مہمانوں کی چارپائیوں کی طرف چلا جاتا۔ جانگیا اور انگیا سے ان سخی بدنوں کی صاحب سلامت نہیںتھی اس لیے صرف چولیوں اور ساریوں اور ان کے نیچے چھپے ہوئے خزانوں سے ملاقات ہوتی۔ سیردستی ہو جاتی اور اگر آنگن میں چاندنی چھٹکی ہوتی تو سیرچشمی بھی۔...ان تین چار برسوں نے، سنِ بلوغ سے پہلے ہی، شہوانی جذبات کی پرورش کی ہوگی اور میری جنسی شخصیت کی تعمیر میں حصہ لیا ہو گا۔(18)


ان ننھی ننھی سیردست انگلیوں سے جو جنسی شخصیت تعمیر ہو ئی وہ ساقی کی کتاب میں صاف جھلکتی دکھائی دے رہی ہے۔ لیکن یہ بات 1940کی دہائی کی ہے، جب زیرجاموں کا رواج غالباً برصغیر کے دیہات میں رعیت ہی نہیں، زمیندار طبقے کی عورتوں تک بھی نہیں پہنچا تھا۔علاوہ ازیں، چاندنی شایدہر رات تو اس بھلے زمانے میں بھی نہیں چھٹکتی تھی، اور زنان خانے میں ایک اسپِ تازی کی لات کے تازیانے سے ساقی کی بینائی پہلے ہی، یا انھی دنوں، متاثر ہو چکی تھی) (17، ایسے میں وہ یہ پتا کیونکر لگاتے تھے کہ رات کی معزز مہمانوں کی چارپائیاں کہاں سے شروع ہوتی ہیں، یہ راز کھولنا ساقی نے مناسب نہیں سمجھا۔خیر اس سے کچھ ایسا فرق بھی نہیں پڑتا، اس قسم کی نابالغ سیردستیوں سے نیند کے خرابے میں اترے ہوے سخی بدنوں کا کیا بگڑ سکتا تھا، ان کی تو آنکھ تک نہ کھلتی تھی۔
1948کے بعدچار برس تک ساقی ، اپنے ایک حقیقی اور تین عددرشتے کے بھائیوں کی معیت میں، ڈھاکہ کے ایک اردومیڈیم اسکول کے ہوسٹل میں اپنی ہفت پہلو شخصیت کی تعمیر کرتے رہے۔ بھائی چارگی کی ابتدائی تربیت بھی وہیں ہوئی۔ ان کی شخصیت کاشہوانی پہلو ایک سنڈاس کی طرف کھلتا تھاجس میں ان کے بھائیوں کی شخصیتیں بھی ساجھے دار تھیں:


مکان سے باہر بھی ایک سنڈاس تھا جو اس مکان کے ہندو مالکان نے اپنے نوکروں کے لیے بنایا ہو گا۔ سینئر طلبہ باری باری د ن کا کم از کم ایک گھنٹا وہیں ضائع کرتے۔ اس لیے کہ چہاردیواری سے اُدھر ایک بنگالی خاندان کا گھر تھا۔ جس میں سولہ سترہ سال کی دو لڑکیاں بھی رہتی تھیں۔ وہ ادھ رَسے پستانوں اور گدّر سرین کی مالک تھیں۔ ان کے گھر کے بیچ ایک کنواں تھا جہاں وہ روزانہ یا ہر دوسرے روز غسل کی مرتکب ہوتیں۔ ہم سب روزنِ شکستہ سے ان کے ''کم بخت دل آویز خطوط''...کا مطالعہ کرتے اور ''خودوصلی'' کرتے۔...اس وقت مجھے چھاتیوں سے زیادہ کولھوں سے رغبت تھی۔ انہی کی یاد میں پینتیس سال بعد میں نے اپنا مزے دار 'مضمون نما' ''ایک پشت کی مدافعت میں'' لکھا تھا... (27) 


اس کے بعد انھوں نے اپنا یہ 'مضمون نما'یا 'مضمونچہ' پورا کا پورا نقل کیا ہے۔یہ دراصل 'شخصیت نما' ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ پینتیس سال کے عرصے میں تعمیر کی کارروائی کہاں تک پہنچی۔اس مضمونچے کا راقم الحروف ''وائن کی بوتل کھولتے ہوئے'' ایک عورت کی ''پشت کی مدافعت'' (یعنی اس کے ساتھ عقب سے سیرچشمی) اور گدّر سرینوں کے تصور کے بل پر نثری خودوصلی کرنے میں مشغول ہے۔ وہ عورت، ظاہر ہے اس تمام کارروائی سے بے خبر ، سنک میں صبح کے جھوٹے برتن دھو رہی ہے۔ ذراسی دیر میں یہ'مزے دار' مدافعتی کارروائی تکمیل کو پہنچے گی اور اس کے بعد برتن دھونے کے عمل کا بھی تمت بالخیر ہو جائے گا۔ برتن دھونے والی اپنی خدمات کی اجرت (اٹھنی یا جتنی بھی) وصول کر کے باہر (یا اندر) چلی جائے گی، اور را قم الحروف اپنی خودوصلی کی کتابت کر کے اس وصلی کی فوٹواسٹیٹ کاپیاں اپنے معزز دوستوں کو ڈاک سے روانہ کرنے نکل کھڑا ہوگا۔ ان میں سے ایک مکتوب الیہ کی داد بھی، جسے پا کر ساقی کی ''انا پھول کر کپا ہو گئی تھی'' (27) جزوِ پاپ بیتی ہے:


ساقی، صبح کی ڈاک سے تمھارا مضمونچہ ملا۔ ہم دونوں (یعنی ادریس بھابی اور یوسفی صاحب)دو تین بار پڑھ چکے ہیں۔عجب قیامت کی نثر لکھی ہے۔ قیامت تک خوش رہو مگر یاد رکھو کہ اس قسم کی داد وہی دے سکتا ہے جس نے نثر اور کولھے دونوں برتے ہوں۔
اس اقتباس میں بریکٹوں میں لکھے ہوے الفاظ ساقی کا اضافہ ہیں جن کا جواز اس کے سوا کیا ہو سکتا ہے کہ وہ اس قسم کی داد کو ضرورت سے کم پا کر دگنا کرنا چاہتے ہیں۔خیرداددینے والوں سے یہاں بحث نہیں، البتہ جہاں تک مضمونچے کے مصنف کا تعلق ہے معلوم ہوتا ہے اس نے نثر کو بھی کم و بیش اتنے ہی فاصلے سے برتا جتنی دور سے کولھوں کو۔ساقی کی جنسی شخصیت کی تعمیر کے ایک اگلے مرحلے کی خبر یوں ملتی ہے:


آگے آگے بھابی اور گنڈی پیچھے پیچھے عالی جی اور میں خراماں خراماں ریستوران کی طرف روانہ ہوئے۔راستے میں ایک نہایت خوب صورت چہرے نے ہمارے قدم پکڑ لیے۔ہم نے اسے روک کر اس کی نیلی آنکھوں، سنہرے بالوں اور آدھی رانوں تک کٹی ہوئی منی اسکرٹ کی ہواداری پر رطب اللسانی کی۔اسے لجاتا شرماتا چھوڑ کر ہم آگے روانہ ہوئے۔(133)
لیکن چونکہ ساقی اپنی سیرچشمی وغیرہ کے اہداف کو عموماًاپنی موجودگی سے بے خبر ہی رکھنا پسند کرتے ہیں،گمان غالب ہے کہ مذکورہ عفیفہ کو روکنے اور رطب اللسانی کرنے کی توفیق عالی کی شخصیت کو ہوئی ہو گی جن کا ذکر ایک اورجگہ یوں آتا ہے:
نواب جانی ]عالی خاں[کا فون آیا تو معلوم ہوا کہ وہاں ان کی ملاقات سویڈن کی ایک مطلقہ خاتون انگرڈ سے ہوئی۔میں نے فون بیوی کے حوالے کیا۔ گنڈی نے کھانے پر بلا یا۔ دوسرے دن وہ انگرڈ کے ساتھ آئے۔ نہایت قبول صورت خاتون تھیں۔ گنڈی کو پسند آئیں مگر میں اپنے حد سے بڑھے ہوے احساسِ جمال کے باعث اُس عزیزہ کے چہرے پر چنے ہوئے ایک عظیم مسّے کوقبول نہ کر سکا کہ صرف تل کا دیوانہ ہوں، شاید مسّے کی رفاقت میری سرشت میں نہیں، مگر عالی جی جب جب لندن آتے ہیںتو مسّے کو فون کرتے ہیں یا سویڈن کا چکر لگاآتے ہیں۔ خیال اغلب ہے کہ ان کا مثانہ کم زور ہے۔(133)


مثانے کے ذکر سے اندازہ ہوتا ہے کہ ساقی کے لیے ان امور کو قارورے وغیرہ سے الگ کر کے دیکھ پانااب تک دشوار ہے۔ اس میدان میں ان کے تبحرعلمی کی ایک دلچسپ جھلک وہاں ملتی ہے جہاں وہ راشد کی وفات کے بعد لکھے ہوے مضمون میں ان کی نجی زندگی کے ایک گوشے کا انکشاف کرتے ہیں:
]راشد[ heterosexual تھے اور ہیلن نے انتہائے شوق میں ان پر محبت کے سارے دروازے وا کر دیے تھے۔ (151)
''سارے دروازے وا کر دیے تھے'' سے معلوم ہوتا ہے کہ غالباً oral اور anal سرگرمیوں کی طرف اشارہ ہے، لیکن heterosexual؟ مشفق خواجہ، افسوس، وفات پا گئے، مگر شمس الرحمن فاروقی تو خدا کے فضل اور ساقی کی دعاؤں سے اب تک زندہ ہیں۔ کتاب کی ضخامت بڑھانے کے لیے اس پرانے مضمون کوشامل کرنے سے پہلے ساقی نے ان کو فون کر کے ضرور پوچھ لیاہوگا کہ اس لفظ کا یہی صرف ہے ۔
ساقی کی اب تک کی جنسی زندگی کا عروج تو وہ واقعات تھے جن کا ذکر بھاوج نامہ میں آتا ہے، لیکن ولایت کا رخ کرنے سے پہلے جب وہ پاسپورٹ بنوانے حیدرآباد گئے تو ان کی زندگی میں یہ حسین موڑ بھی آیا:


میں نہادھو کر نچلی منزل میں ''نئی قدریں'' کے دفتر میں چلا جاتا اور 'استاد اخترانصاری' کے ساتھ ان کے دفتر میں ہی ناشتا کرتا۔ مجھے ہوٹل میں ٹھہرے ہوئے ابھی تیسرا دن ہو گا کہ ایک نہایت خوب صورت سولہ سترہ سالہ میٹرک کی طالبہ 'استاد' کا آٹوگراف لینے کے لیے آئی۔ وہ برقع پہنے ہوئے تھی۔ اس کا الٹا ہوا نقاب، پرکترے بال اور کرنجی آنکھیںدل میں آج بھی گڑی ہوئی ہیں۔...دوسرے دن وہ لڑکی اپنی دو سہیلیوں کے ہمراہ میرا آٹوگراف لینے کے لیے آئی۔پھر تو خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ ہر روز ہی ان میں سے کوئی نہ کوئی لڑکی 'آٹوگراف' لینے کے لیے پہنچ جاتی۔ ... ایک دن میں اپنے کمرے میں 'آٹوگراف'دے رہا تھا کہ دروازے پر دستک ہوئی۔ بے چاری لڑکی نے سراسیمگی کے عالم میں جلدی جلدی اپنی شلوار پہنی۔ میں نے جیسے تیسے پتلون چڑھائی۔ اس ساری کارروائی میں دو تین منٹ سے زیادہ نہیں لگے ہوں گے۔ دروازہ کھلا تو اخترانصاری اکبرآبادی اور حمایت علی شاعر مسکراتے ہوئے کمرے میں داخل ہوئے۔ اس تازہ گرفتار فاختہ نے نہایت سعادت مندی سے کہا، ''حمایت چچا سلام'' ... حمایت نے بھی نہایت شفقت سے سلام کا جواب دیا، ''خوش رہو بیٹی''۔ ایک دو منٹ کے بعد یہ غنچہئ نوشگفتہ اپنے رنگ اوڑھ کے اور اپنی خوش بو چھوڑ کے چلا گیا۔ حمایت نے بتایا کہ یہ ان کے ہمسایوں کی لڑکی تھی اور انھیں کے محلّے میںرہتی ہے ]کذا[۔ استاد نے قہقہہ لگاتے ہوئے فرمایا کہ ہم دونوں کنجی والے سوراخ سے سارا تماشا دیکھ رہے تھے۔ غرض کہ ان دونوں سخن وروں کے باعث میں نے حیدرآباد میں 'آٹوگراف' دینے بند کیے اور دو چار دن بعد ہی کراچی لوٹ آیا۔(136)
جہاں تک استاداخترانصاری اکبرآبادی کا تعلق ہے، انھوں نے ارزاں نرخ پر آٹوگراف دینے کا یہ سلسلہ کچھ عرصہ اور جاری رکھا، پھر غیرضروری پا کر موقوف کر دیا اوربرسوں بعد اسی ہوٹل میں اپنی آخری عمر پوری کر کے رخصت ہوے۔خدا ان کی مغفرت کرے اور جب ساقی سنی گارڈنز روڈ کے سو نمبر میں اپنی آخری عمر پوری کر چکیںتو ان کی بھی۔

اعتراف کے بہانے ڈینگیں مارنے والا گناہ گار جاہن جو کچھ بھی ہو، اردو کا شاعر غالباً نہیں تھا، اس لیے کیا عجب کہ اس کا کام اتنا دشوار نہ رہا ہو۔ جہاں تک موخرالذکر کا تعلق ہے، اس دلچسپ مخلوق پر یوسفی ہی کا ایک اور فقرہ نسبتاً زیادہ خوبی سے روشنی ڈالتا ہے: ''تم جسم شاعر کا مگر جذبات گھوڑے کے رکھتے ہو۔'' (گویا، بقول ساقی، یہ بلا بھی یوسفی کے عاشقوں ہی کے سر آئی۔) ساقی سمیت اس زمرے کے زیادہ تر افراد کے جنسی عزائم ان کی توفیق اور حیثیت سے فزوں تر ہی دکھائی دیں گے۔ ویسے اس باب میں کچھ دخل یقینا شومیِ قسمت کا رہا ہو گا، اور کچھ ہمت کی کمی کا بھی(کہ توفیق بہ اندازہئ ہمت ہے...)لیکن یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ سماجی حالات بھی،نوجوان شاعروں اور ان کے ہم عمر دوسروں کے لیے، کچھ ایسے سنگلاخ تھے جن کے نتیجے میں (بقول راشد، میر ہو، مرزا ہو، میراجی ہو) سب کے حصے میں بیشتر نارسا ہاتھ کی نمناکی ہی آتی رہی۔

 
میرومصحفی و مرزا کو تو پھربھی جماجمایا معاشرہ ملاتھا جہاں کم عمری میں نکاح کر دیے جاتے تھے اور غیرنکاحی اور رومانی سرگرمیوں کے لیے (اگر استطاعت ہو تو) داشتائیں اور رکھیلیں رکھنے کی اجازت اور سماجی گنجائش تھی۔ شاعری کی ریاستی سرپرستی کے سوتے جوں جوں سوکھتے چلے گئے، اردو شاعر عموماًمالی طور پر قلاش اورروزگار کے سلسلے میں پریشان دیکھے جانے لگے اور (جاگیردار گھرانوں کے ان فرزندوں کو چھوڑ کر جنھیں شاعری کی بھی لت تھی اور جن کی درازدستی کی زد میں بیویوں اور رکھیلوں کے علاوہ بندوقوں والی ڈیوڑھی میں حفاظت کی غرض سے سلائی جانے والی رعیت کی بہوبیٹیاں بھی آتی تھیں) ان میں سے بیشتر کا جنسی میدان عمل عم زادوںاور کوٹھے کی طوائفوں تک محدود ہو گیا۔ جدید تعلیم کادوردورہ شروع ہوا تو نوخیز جنسی امنگیں رکھنے والے شاعروںکو اسکول کالج آتی جاتی نوعمر لڑکیاں(لڑکیاں بھی کہاں، لڑکیوں کی جھلکیاں) دکھائی دینے لگیں۔تانگے اور لاری میں لائی لے جائی جاتی یہ لڑکیاں عموماً شلوار قمیص، برقعے اورنقاب میں ملفوف ہوتی تھیں، چنانچہ کتابیں تھامے ہاتھوں اور شلوار کے پائینچے سے پمپی کی کناری تک پیروں کے ذرا سے حصے کا دیدار ہی ندیدہ شاعرانہ نگاہوں کے حصے میں آتا تھا (سواے اس کے کہ کبھی کبھار ہوا کے جھونکے کی مہربانی سے نقاب سرک جاتی)۔چند مربع انچ نسوانی جلد کے اسی گریزپا نظارے پر انھیں خودوصلی کا بھی بندوبست کرنا ہوتا تھا اور اسی تنگ رقبے پر اپنی شخصیت اور شاعری کی عمارت بھی اٹھانی ہوتی تھی۔ اردو شاعروں کی ضرب المثل نارسائی زیادہ تر اسی دور سے یادگار ہے جب نوعمر لڑکوں لڑکیوں کے اکٹھے پڑھنے کا رواج نہیں ہوا تھا، اور روزگار کی جگہوں پر نوجوان مردوں اور عورتوں کے یکجا ہونے کی منزل ابھی خاصی دور تھی۔


ساقی فاروقی کو جس زمانے میں بالغ ہونے کا موقع ملا (یہ بات جانے دیجیے کہ انھوں نے اس موقعے کے ساتھ کیا کیا) وہ پچھلے ادوار کی بہ نسبت خاصا تبدیل ہو چکا تھا۔ کراچی یونیورسٹی، جس نے انھیں داخلہ دینے کی غلط بخشی کی، لڑکوں اور لڑکیوں کو ساتھ بٹھا کر پڑھانے لگی تھی، لیکن ساقی نامعلوم وجوہ سے وہاں سے سال بھرہی میں رخصت ہو گئے۔ ان کی یادداشتوں میں یہ ذکر تو ملتا ہے کہ انھوں نے اپنے ابا کو مذبح خانوں کے انچارج کی سرکاری نوکری کے سلسلے میں ملنے والی وین میں اپنے ساتھ پڑھنے والے لڑکوں لڑکیوں کو مختلف علاقوںسے چن چن کر یونیورسٹی پہنچانے کی خدمت کچھ عرصے تک انجام دی، لیکن یہ معلوم نہیں ہوتا کہ انھوں نے کسی اپنی ہم عمر، ہم جماعت یا ہم جامعہ لڑکی کے ساتھ مجامعت تو درکنار،سیرچشمی وغیرہ سے آگے کی کوئی کم یادگار منزل ہی طے کی ہو۔اسی طرح معاشرتی تبدیلی کے عمل کے نتیجے میں دفتروں اور کارگاہوں میں نوجوان مردوں اور عورتوں کوساتھ کام کرنے اور ایک دوسرے سے متعارف ہونے کے موقعے دستیاب ہونے لگے تھے،لیکن تعلیم اور اہلیت کے بغیر اور سفارش کے زور پرساقی کو جن سرکاری دفتروںمیں چھوٹی موٹی ملازمت ملی وہاں شاید خواتین کا گزر نہ تھا، اور یوں بھی ساقی کی مفروضہ ''ادبی سرگرمیوں'' کا آغاز ہو چکا تھا، اس لیے وہ یا تو دفتر میں موجود ہی نہ ہوتے یا اپنے ان شاہکار افسانوں کو سرکاری کاغذوں پر نقل کرنے میں منہمک رہتے جنھیں دفتر کے سپرنٹنڈنٹ نے ضبط کر کے اردو ادب کو ایک اور عذاب سے بچا لیا۔ (63-5) ساقی خود بھی ان مواقع سے صاف بچ گئے جو معاشرے میں اٹھنے والی جدیدیت کی لہروں نے نوجوان مردوں اور عورتوں کو مہیا کیے تھے، کیونکہ جاگیردارانہ قدامت زدگی کی جس مٹی سے ان کا خمیر تیار ہوا تھا اسے ان لہروں کی زد میں گھل کر بہہ جانے کا خطرہ درپیش تھا۔ 

یہی وجہ ہے کہ ساقی کی تمام سرگزشت میں جدید دور کی کسی ایک بھی ایسی عورت کی جھلک دکھائی نہیں دیتی جس سے ان کا کوئی بالغ مکالمہ قائم ہو پایا ہو۔وہ تو کہیے کہ اس وقت تک وہ اطہر نفیس کی عنایت سے سلیم احمد کی محفل کے حاضرباشوں میں سے ہو چکے تھے جن کو حاصل گوناگوں فوائد (perks) میں بھاوج تک رسائی (یا بقول ساقی، ان خاتون کے ہاتھوں مٹی پلید کرانا)بھی شامل تھی، ورنہ جس طرح خودوصلی کرتے ہوے کراچی کے ساحل پر اترے تھے اسی طرح جوں کے توں انگلستان روانہ ہو جاتے۔


ساقی نے اپنی نام نہاد پاپ بیتی کوئی ستر برس کی عمر میں قلمبند کی ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس عمرِدراز میں ساقی کی جنسی فتوحات کا نقطہئ عروج ان کا اپنے ایک عزیزترین دوست کی بیوی کے ساتھ ہم جفت ہونے کے دلچسپ مشغلے میں اپنے بھائیوں (یعنی سلیمی ریوڑ کے دیگر کرداروں) کے ساتھ ہم زلف ہونا تھا۔ان شریک کار بھائیوں میں سے دو کا ذکر ساقی نے کیا ہے، شمیم احمد اور اطہر نفیس۔ لیکن انچولی شریف میں واقع خانقاہ سلیمیہ کے آس پاس کی گلیوں میں ریوڑ کے مختلف عمروں کے متعدد دیگر ارکان بھی بھابی کی اس ساجھے داری میں شامل ہونے یا رہ چکے ہونے کا دعویٰ کرتے اور سسکاریاں لیتے پائے گئے ہیں (کہ ایسی بھرجائی بھی یارب اپنے خاکستر میں تھی)۔ مشکل یہ ہے کہ ساقی نے اپنے عزیزترین دوست (یعنی اپنے ہم ریوڑ بھائی) اور ان کی بیوی (یعنی اپنی بھاوج) دونوں کے نام چھپا لینا مصلحت اور مشرقیت کے عین مطابق جانا (ان مشرقی اقدار کی تفصیل کے لیے دیکھیے سلیم احمد کی طویل نظم ''مشرق'')، اس لیے وثوق سے نہیں کہا جا سکتا کہ ان سب دعوے داروں اور ساجھے داروں کی مراد ایک ہی ہستی سے ہے یا اس راکھ کے ڈھیر میں ایک آدھ چنگاری اور بھی تھی۔ 

ساقی اور ان کے بعض عزیزدوستوں کی فراہم کردہ معلومات کی بنیاد پر تو اتنا ہی کہنا ممکن ہے کہ ان ناداروں کی یہی دولت مشترکہ تھی جس کی بارگاہ میں سرفراز ہونے کی آرزو میں پورا ریوڑ سلیم احمد کی زیرہدایت ٹانگوں میں موسل دباکر صبح شام کودا کرتا تھا۔ریوڑ کے جو ارکان اس بہتی (اور بیشتر ہونہاروں کی عمر کے لحاظ سے کسی قدر بوڑھی) گنگا میں بھی گیلے ہونے کی توفیق نہ رکھتے تھے ، وہ اس اجتماعی سرگرمی کو دیکھ دیکھ کر، آلودہ ہاتھوں سے تالیاں پیٹ پیٹ کر یا ایک دوسرے کی پسلیوں میں لذت آمیز ٹہوکے مارمار کر ہی خود کو شامل باجا تصور کر لیاکرتے تھے۔


ساقی نے اپنے عزیزترین دوست کو ''زید آفریدی'' اور بھاوج کو ''مسز آفریدی'' کا نام دیا ہے جس کی وجہ غالباً آفریدی قبیلے کے کسی فرد سے کوئی حساب چکانا رہا ہو گا۔ چونکہ فاروقی، صدیقی، خان وغیرہ کی طرح آفریدی بھی ایک حقیقی سرنیم ہے اور پڑھنے والوں کوبھلا کیا غرض کہ ساقی کے سفلہ حساب کتاب میں ساجھے دار بنیں، اس لیے میں نے ساقی کی بھاوج کا فرضی نام بدل کر ''مسز ناآفریدی'' کر دیا ہے۔ اس کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ ریوڑ کے جو ارکان موصوفہ سے ہم بستر رہے انھیں ''ناآفریدی قبیلے'' کا لقب دیا جا سکتا ہے۔خیر اب ان خاتون کے اوصاف کی طرف توجہ کیجیے جنھوں نے شمیم احمد، ساقی، اطہر نفیس اور متعدد دیگر ناآفریدگان کی بقول ساقی ''نتھ اترائی'' کی۔ ساقی سے یہ مطالبہ کرنا کہ وہ اس کردار کا جسمانی سراپا یا جذباتی و نفسیاتی شخصیت کا خاکہ کھینچ کر دکھائیں، گویا ساقی کی لسانی و ادبی معذوری کا مذاق اڑانا ہوا۔ ان کے پاس اپنی بھاوج کے بارے میں کہنے کو بس یہ کچھ ہے:
ہوا یوں کہ شمیم احمد، میں اور اطہر نفیس، یکے بعد دیگرے، ایک ہی زلف کے اسیر ہوئے۔...یہ زلف عطیہ بیگم فیضی کی طرح، علم و فراست والے موباف تو نہیں لگاتی تھی مگر ذہانت، جنسی تشنگی اور لگاوٹ والے بیلے اور چنبیلی کے ہار ضرور پہنتی تھی۔ ہم تینوں انھی ہاروں کی خوشبو سے ہارے۔ (118) 


رہا وصل کا بیان تو ا س باب میں بھی ساقی کی نارسائی باقی نقشے کے مطابق ہی ہے۔ فرماتے ہیں: ''میں اس سایہ دار سہاگن کے بسترِ استراحت اور غلط آسن میں علم الابدان کی گتھیاں سلجھانے میں مصروف تھا...'' سعید امرت کی یہ ہدایت غالباً ساقی نے شروع ہی میں پلے باندھ لی تھی کہ مشرقی لوگ ہر طرح کی جنسی سرگرمی کو ''غلط آسن''کے نام سے یاد کرتے ہیں، چنانچہ جب شمیم احمد بہار کالونی کے ایک نیم تاریک گھر میں محمد حسن عسکری کو مالشیے کے ساتھ مشغول دیکھتے ہیں تو اس کا ذکر بھی ساقی کے ہاں ''غلط آسن'' ہی کے بلیغ استعارے میں آتا ہے۔خیر، مذکورہ بالا فقرہ ساقی کی سرنوشت کے جس قصے کا نقطہئ آغاز ہے اس سے ملتاجلتا ایک قصہ ابن انشا کی طویل مثنوی ''قصہ ایک کنوارے کا''کے درج ذیل مصرعوں میں کہیں زیادہ برجستگی اور دلکشی سے بیان ہوا ہے:

لیکن وہ جو بھابی تھی
سو تالوں کی چابی تھی
اِن کو وہ ٹہلاتی تھی
اپنے دوست بلاتی تھی
آج بھی گھر میں بیٹھا تھا
ایک کہیں کا مشٹنڈا
دونوں رازونیاز میں گم
تم میں میں اور مجھ میں تم
یہ جو اچانک آ پہنچے
سر پہ جو اُن کے جا پہنچے
عشق اُس کا کافور ہوا
کودا، پھاندا، دور ہوا

لیکن ساقی اس صورت حال کو یوں بیان کرتے ہیں:

ناگہاں باہر والے دروازے کے کھلنے کی آواز سنائی دی۔...میں نے نہایت پھرتی سے قمیص اور پتلون پہنی اور جوتوں میں پیر ڈالے۔مجھے پچھلے دروازے سے باہر نکال کے اس زودفہم نے کنڈی لگا دی۔ ابھی دس بیس ڈگ بھی نہیں بھرے تھے کہ ہرچیز دھندلی د ھندلی دکھائی دی۔ ملٹن کی طرح ]جی ہاں، یہی لکھا ہے[میری دنیا بھی تاریک ہوتی نظر آئی۔ یاد آیا کہ اپنا چشمہ تو تکیے کے نیچے چھوڑ آیا ہوں۔ ...پورے بلاک کا چکر کاٹتا، جل تو جلال تو کا ورد کرتا اس گھر کے سامنے والے دروازے تک پہنچا۔... ایک دو منٹ کے توقف کے بعد دستک دی۔ دروازہ کھلا تو کیا دیکھتا ہوں کہ شوہرنامدار ہی نہیں بلکہ شمیم احمد بھی براجمان ہیں۔ 

دونوں ساتھ ہی آئے تھے۔علیک سلیک کے بعد لونگ روم سے سیدھا بیڈروم میں چلا گیا۔ تکیے کے نیچے سے عینک اٹھائی۔ واپس لونگ روم میں پہنچا۔ اعلان کیا کہ چشمہ بھول گیا تھا ...اور باہر والے دروازے کی طرف روانہ ہوا۔مسئلے کی نزاکت کو دیکھ کر اس خاتون نے اپنے شوہر زید آفریدی کو مخاطب کر کے واویلا کیا، ''تم نہیں ہوتے ہو تو ساقی مجھے تنگ کرنے کے لیے آ جاتے ہیں۔ان سے کہہ دو کہ تمھاری غیرموجودگی میں ہرگز نہ آیا کریں۔'' میں گھر سے تو نکل آیا مگر اس عزیزہ کی آواز تعاقب کرتی رہی۔جی ہی جی میں تریاچرتر بلکہ تریاچال کی داد دیتا رہا (تریاچرتر نہ جانے کوئے، کھسم مار کے ستّی ہوئے...ایک پوربی کہاوت)۔ (119)
اوپر کے پیراگراف سے تذلیلِ باہمی کے اس دلچسپ تعلق کا کچھ اندازہ ہوتا ہے جو ساقی اور ان کی بھاوج کے درمیان قائم تھا، اور جس کے سلسلے میں آگے چل کر انھیں ناآفریدیوں کے سرخیل (اورشاعرِ ''مشرق'') سلیم احمد کو بھی وصل کا منظر (یا جو کچھ بھی) دیکھنے کے لیے مدعو کرنا تھا اور پھر بھاوج سے ان کا سامنا کرا کے دونوں کو شرمسار کرنا تھا۔


لیکن شاید شرمساری کا ذکر یہاں بے موقع ہے، کیونکہ مذکورہ قبیلے میں اس قسم کے کسی رواج کا سراغ نہیں ملتا۔ وہاں تو بھاوج کا ذکر اس محفل میں (جس کے دیگر اوصاف کا تفصیلی احوال ذرا آگے آئے گا)گرمی پیدا کرنے کا بڑا ذریعہ تھا ۔ یہی وجہ ہے کہ وصل کی لذت انگیز صورت حال کا بیان جوں توں نمٹا کر ساقی پھرتی سے یا جلدی جلدی پتلون جوتے وغیرہ پہننے کی اطلاع دیتے ہیں، جس کے بعد وہ اپنی دلچسپی کے اصل معاملے پر آتے ہیں، یعنی یہ کہ پتلون چڑھانے کے بعد انھوں نے کس کس کے پاس جا کر غلط آسن وغیرہ کے امور پرسرجوڑ کر کیا کیا لذت آمیزباتیں کیں۔ مذکورہ بالاواردات کے بعد ساقی نے قبیلے یا ریوڑ کے جن ارکان کے ساتھ مل کر ذکر کا ثواب سمیٹا ان میں اطہر نفیس، محمود ہاشمی تو تھے ہی، اگلے دن جمال پانی پتی کو بھی صورت حال سے آگاہ کیا گیا۔ محمود ہاشمی کا تبصرہ تھا: '' ابے دبڑو گھسڑو، یوں ہی تربیت ہوتی ہے۔''اطہر نفیس، اور اطلاعات کے مطابق قبیلے کے بعض دیگر دبڑوگھسڑو ارکان بھی، آگے چل کر اسی تربیت گاہِ صالحین سے فارغ ہوے۔برادرِخوردشمیم احمد، جیساکہ ساقی وغیرہ پر بعد کو کھلا، پہلے ہی سے اس نیم شکستہ دیوارپر لام الف لکھ رہے تھے۔ (120)آگے کاحال کچھ یوں ہے:

یہ احساسِ جرم کہ میں نے ایک نہایت نفیس اور دردگسار دوست کا آبگینے بلکہ خوابگینے جیسا دل توڑا اور اس کا اعتبار کھویا]اور کیا اور کیا اورکیا[ ، شب خون مارتا رہا۔ دھیان کی سطح پر ایک اور جل کنبھی تیر رہی تھی۔ یہ خیال کہ مسز آفریدی نے ، اپنے بچاؤ کی کوشش میں جھوٹ بول کر ایسا کھیل کھیلا ہے کہ احباب تو احباب، خود اپنی نظر میں بھی بحالی مشکل سے ہو گی۔ پندار کی شکست نے حواس باختہ کر رکھا تھا۔...غرض کہ رہ و رسم آشنائی پر میری مجروح اناغالب آئی... (120)طے پایا کہ میں شمیم سے مل کر پہلے یہ معلوم کروں کہ میرے چلے جانے کے بعد اس گھر میں ہوا کیا۔ زید آفریدی کس عذاب سے گزرا۔ قیامت آئی کہ نہیں؟ ظاہر ہے اس وقت تک ہم میں سے کسی کو معلوم نہیں تھاکہ عرصہ دو سال سے، مجھ سے کہیں پہلے شمیم بھی اسی آستانے کی ارادت کے سزاوارتھے جس کا میں۔ ]ساقی کے خیال میں سزاوار کے یہی معنی ہیں۔[مجھے کیا پتا تھا کہ دو تین سال بعد اطہر نفیس بھی (معصوم ابن مظلوم) اسی زرخیز زمین پر سجدہ گزار ہوں گے۔غرض کہ آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا تھا۔ شاید یوں کہنا چاہیے کہ مسز آفریدی نے ہماری مٹی پلید کر دی تھی۔(120-1)میں نے بس پکڑی اور جہانگیرروڈ پہنچا۔...سلیم خاں نے کتاب رکھی، ہاتھ ملایا اور چارپائی کے بیچوں بیچ آلتی پالتی مار کے بیٹھ گئے۔ کہنے لگے، ''شمیم نے دو تین گھنٹے پہلے دوپہر والا سارا واقعہ بتا دیا ہے۔''...شمیم ساری رات مجھ پر لعن طعن کرتا رہا اور گفتگو کی تان اس پر ٹوٹی کہ میں ہرگزہرگز مسٹر اور مسز آفریدی کے گھر میں قدم نہ رکھوںورنہ دوستوں میں اور خاندانوں میں بڑی تھئی تھئی ہو گی۔...یہ تو ہم سب کو دو تین ہفتوں کے بعد پتا چلا کہ اس کے جارحانہ رویے کے پیچھے رقابت(jealousy) اور مسترد ہونے کا (rejection) دکھ تھا۔پچھلی بار کراچی گیا تو مشفق خواجہ نے بتایا کہ ایک روز شمیم ان کے پاس آئے تھے اور انھوں نے دل کے داغ اور زخم انھیں بھی دکھائے تھے اور بتایا تھا کہ ہم دونوں(شمیم اور میں) ایک زمانے میں رقیب بھی رہ چکے ہیں۔ (121-2)

اوپر کے اقتباس کا کلیدی فقرہ ہے ''تھئی تھئی ہونا''۔ساقی جیسوں کے لیے تو لغات وغیرہ سے سر پھوڑنا کہاں ممکن ہے، یہ لفظ انھیں مشفق خواجہ یا شمس الرحمن فاروقی نے، جنھیں ساقی نے اسی نوعیت کے کاموں کے لیے زندہ رکھ چھوڑا تھا، سجھایا ہو گا، اور اس سے پہلے فرہنگ آصفیہ کی جلد اول کھول کر اطمینان بھی کر لیا ہو گا۔ وہاں درج ہے: 
تھئی تھئی: ہ۔ اسم مونث۔ اصول موسیقی کی آواز۔ تال۔ سم۔ تالی۔(٢)ناچنے گانے کی آواز۔ تھاپ کی آواز۔
تھئی تھئی ہونا: ہ۔ فعل لازم۔ ناچ رنگ ہونا۔

اس سے ملتاجلتا ایک فقرہ اور بھی ہے، تھُڑی تُھڑی ہونا۔ وہ بھی ہندی الاصل اور فعل لازم ہے، اور فرہنگ آصفیہ کی اسی جلد میں اس کے معنی یوں درج ہیں: ''رسوائی ہونا۔ نفریں ہونا۔اڈُّو اڈُّو ہونا۔ دھتکار اور پھٹکار ہونا۔ لعنت ملامت ہونا۔''مگر ساقی نے بلاشبہ وہی فقرہ لکھا ہے جوبرمحل تھا، اور جس کی داد اُن کے مشیروں کے حصے میں آنی چاہیے۔خیر، خدا کا کرنا یہ ہوا کہ اِدھر ساقی کا اپنے عزیزترین دوست کے گھر میں داخلہ بند ہوا، اُدھر بھاوج نے ہر دوسرے تیسرے روز ''وصالیے'' یعنی ہم بستری کی غرض سے خود ساقی کے گھر آنا شروع کر دیا۔ (یہ آمد اس وقت ہوا کرتی جب ساقی کے ''بھائی بہن اسکول چلے جاتے اور ابا اپنے دفتر اور اماں بدرالنسا خالہ یا منی خالہ یا سلمیٰ خالہ کے ہاں۔''(122) ان بظاہر غیراہم تفصیلات کے بیان سے یہ نتیجہ نہیں نکالنا چاہیے کہ ساقی خود ان سب گھروالوں کو مذکورہ مقامات تک پہنچانے جاتے تھے؛ ساقی صرف یہ اطلاع دینا چاہتے ہیں کہ یہ سب لوگ گھر سے یہی کہہ کر نکلتے تھے؛ دراصل کہاں جاتے تھے یہ ساقی کا دردِسر نہیںتو ہماراآپ کاکیوں ہو۔ )

اب ظاہر ہے کہ کنویں کا پیاسے کے یا گنگا کا پاپی کے پاس چل کر آنا ایسا خارقِ عادت واقعہ تھا کہ قبیلے میں اسے ساقی کی اوقات سے بڑھ کر سمجھا جاتا تھا۔ شہربھر میں پھیلے ہوے ناآفریدگان جوبھاوج کے ذکرِلذیذ میں ذوق و شوق سے شریک تھے، شمیم احمد کی اس چشم دید گواہی پر ہی یقین کرتے تھے کہ بھاوج کے بیان کے مطابق ساقی اپنے عزیزترین دوست کی غیرموجودگی میں ان کے گھر میں گھس کر ان کی اہلیہ کی مرضی کے خلاف ان کو تنگ کیا کرتے تھے۔ شمیم کی وجہ سے شہر میں ساقی کی ''رپوٹیشن خراب ہوتی جا رہی تھی''(122)اور چونکہ موصوف ''اپنی انا کے احیا اور ناانصافی کے تدارک کے لیے اپنی بے رحم محبوبہ کو بھی بخشنے کے قابل نہیں''تھے (123)، اس لیے انھوں نے دس بارہ دن بعد '' سلیم احمد کی کنج میں پناہ لی۔'' اب سلیم خاں کی تھئی تھئی سنیے:
''ساقی خاں! میرا خیال ہے، شمیم اپنی rejectionسے بوکھلایا ہوا ہے۔ وہ مسز آفریدی کا تو کچھ بگاڑ نہیں سکتا، صرف تمھارے بارے میں غلط سلط افواہیں پھیلانے پر قادر ہے۔...میں، تمھارا سلیم بھائی، تمھارا بہی خواہ ہوں، مگر تمھارے دل میں کہیں نہ کہیں یہ بھی ہے کہ میں تم پر شک کر رہا ہوں کہ شمیم کا بھائی ہوں۔اس شک کی بیخ کنی کے لیے ضروری ہے کہ ایک معتبر گواہ پیدا کیا جائے۔'' ... جب میںنے اصرار کیا کہ سلیم احمد خود گواہ بنیں تو وہ مان گئے۔ ... طے پایا کہ اگلے بدھ کو سلیم خاں میرے پاس آئیں گے، یہ دیکھنے کے لیے کہ واقعی وہ خاتون میرے گھر آتی ہیں کہ نہیں۔ ... شمس الرحمن فاروقی کا کزن یونس فاروقی (یعنی افسانہ نگار نجم فضلی) ساتھ والے گھر میں رہتا تھا۔ ہمارے گھروں کے درمیان صرف ایک دیوار حائل تھی۔اس کے باہروالے کمرے میں ایک نہایت کشادہ کھڑکی تھی۔ جس سے گلی میں آنے جانے والوں کا مطا لعہ ہو جاتا۔اگر کوئی عورت ہوتی تو ہماری آنکھیں معانقہ بھی کر لیتیں۔ ...غرض کہ نجم فضلی کو صورت حال سے آگاہ کیا ۔ اس دن اس نے بستر کا رخ اس طرح بدلا کہ کھڑکی کے شیشوں سے اور چہاردیواری کے جھروکوں سے، گلی سے گزرنے والا، ہر آنے جانے والا نظر میں رہے۔...اس سے پہلے سلیم احمد میرے گھر دوتین بار ہی آئے ہوں گے...مجھے ڈر لگا ہوا تھا کہ کہیں رستہ ہی نہ بھول جائیں۔ مگر واہ رے وہ، ٹھیک ساڑھے نو بجے موٹررکشا میں پہنچ گئے۔ بتایا کہ گھر سے یہ کہہ کے نکلا ہوںکہ ریڈیو جا رہا ہوں تاکہ کسی کو شک نہ ہو۔ (123

خیر، سلیم احمد گھر سے جو بھی کہہ کے نکلے ہوں اس سے غرض نہیں،اصل بات یہ ہے کہ انھوں نے نجم فضلی کی کھڑکیوں اور جھروکوں سے ''بے چاری فاختہ'' کی آمد کو ملاحظہ کر کے اپنے برادرخورد کی طرح چشم دید گواہ کا رتبہئ بلند حاصل کر لیا۔چلیے، بہت خوب ہوا۔ بات یہاں ختم ہو جانی چاہیے تھی اور سلیم احمد کو موٹررکشا لے کر واپس گھر یا ریڈیواسٹیشن لوٹ جانا چاہیے تھا، لیکن ساقی کے نزدیک ''بے رحم محبوبہ'' کو ذلیل کر کے اس کے ہاتھوں اپنی تذلیل کا انتقام لینا ''وصالیے'' سے زیادہ اہمیت رکھتا تھا (وصالیے میںساقی کے لیے یوں بھی وہ لطف کہاں جو خودوصلی میں، یا بقول نظیر، جو مردِمجرّد کے مٹھولوں میں مزہ ہے)۔چنانچہ اسکرپٹ کے مطابق:

ابھی میں مسز آفریدی کو گلنار کر ہی رہا تھا کہ...پہلے پھاٹک کھلنے کی آواز آئی پھر دروازے پر دستک ہوئی۔ میں نے کہا، ''سلیم بھائی! دروازہ کھلا ہوا ہے، آ جائیے۔''وہ اندر آ گئے اور میرے بستر پر بیٹھ گئے۔ اس عرصے میں مسز آفریدی کا رنگ گلابی سے زرد ہو چکا تھا، جیسے کسی نے چہرے پر ہلدی مل دی ہو۔سلیم خاں انھیں اور وہ سلیم بھائی کو جانتی تھیں۔ آخرکو ہم ایک ہی کنبے کے لوگ تھے نا! پان سات منٹ تک مکمل نہیں، مکمل جیسی خاموشی طاری رہی، ممکن ہے موسم پر کوئی تبادلہئ خیال ہوا ہو۔...ان بے درد ساعتوں میں مسزآفریدی کی شکایتی اور میری ندامتی نگاہیں کئی بار ملیں۔سلیم بھائی سے رخصتی لے کر وہ میری زندگی سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے چلی گئیں۔(123)
ساقی کو یہ زحمت دینا غیرضروری ہے کہ وہ اپنے کسی زندہ مشیر سے فون پر یا سعید امرت یا مشفق خواجہ کی روح سے براہ راست پوچھ کر بتائیں کہ پان سات منٹ میں کتنی (بے درد یا دردناک) ساعتیں ہوتی ہیں، کیونکہ اس بات کی کوئی اہمیت نہیں۔جہاں تک سلیم احمد کا تعلق ہے،

ان کے نزدیک اصل اہمیت اس امر کی تھی کہ ناآفریدی قبیلے کے تمام ارکان اپنے عزیزترین دوست کی اہلیہ کی ''ذہانت، جنسی تشنگی اور لگاوٹ'' سے اپنی اپنی مٹی پلید کرانے کے معاملے میں باہم لڑائی جھگڑے سے گریز کریں، کیونکہ ساقی کی زندگی سے ''ہمیشہ ہمیشہ کے لیے'' چلے جانے کے بعد بھی ان کی اور ان کے دیگر عزیز دوستوں کی مشترکہ بھاوج کے ہارپھول مرجھانے والے تو تھے نہیں؛ انھیں تو متعدد ناآفریدگان کی زندگیوں میں اپنی آرجار جاری رکھتے ہوے ریوڑ کو یکجا رکھنے کا فرض ادا کرنا تھا۔ اگر قبیلے کے ارکان اسی طرح اس معاملے پر ایک دوسرے کی بقول ساقی ''ماں بہن'' کرنا اور گواہی کے لیے سلیم احمد کو طلب کرنا جاری رکھتے، تو ان کے لیے بڑی مشکل ہو جاتی۔ 

Followers

Powered By Blogger