Tuesday, March 15, 2011

بَو بَو جی

بَو بَو جی


 
یادوں کے ویران ساحلوں پر بکھری ریگِ دیروز پر پابرہنہ آوارہ گردی بعض اوقات تو معجزے بی دکھا دیتی ہے ان ساحلوں کی ریت سے کبھی کبھار تو ایسے موتی بھی مل جاتے ہیں کہ جن کی چمک دل و دماغ کی کائنات کو اپنے نور سے فروزاں کیے دیتی ہے۔ ان بظاہر بے حیات ساحلوں پر میری آوارہ گردی کا معجزہ ایک دن  ایک صندوقچے کی صورت ظاہر ہوا جس پر جلی حروف میں"بَو بَو جی" کنداں تھا۔  لفظوں کی یہ تسبیح اسی صندوقچے کے موتیوں سے پرووی گئی ہے۔

وقت کا پہیہ دوڑتے دوڑتے چادرِ زمان و مکان میں ایسی سلوٹیں ڈال چُکا ہے کہ بَو بَو سے مُتعلق واقعات کی زمانوی اور مکانی ترتیب بے معنی اور لا یعنی ہو چُکی ہے۔ لیکن بہرحال اتنا ضرور یاد ہے کہ اُنیس سو ستر کی دھائی کے شروع میں ہمارے دادا جان نے واہ فیکٹری کی ملازمت سے پینشن لینے کے بعد حسن ابدال میں ایک کرائے کے گھرمیں رہنا شروع کر دیا۔

میرے حافظے میں محفوظ  ہماری دادی جان کی اولین یادوں میں سے پہلی یاد اسی گھر سے وابستہ ہے۔ دادی جان کو سب بڑے بےبے کہتے تھے، یہ لفظ ہم بچوں کے توتلے نُطق کے جادو کے اثر سے بَوبَو بن گیا۔

یہ گھر حسن ابدال کے جنوب مشرقی مُضافات میں، وقت کی دھڑکنوں سے بھی قدیم پہاڑ، ولی-قندھاری، کی چوٹی کے سایے سے اک گُوناں پہلو تہی کرتی ہوئی ایک فرنگی دور کی کُشادہ حویلی تھی، جس کے دالان میں یک رویہ گہرے کلیجی رنگ کے ستونوں کے بیچوں بیچ آرام کُرسی پر چاندی سے زیادہ سفید اور برف سے زیادہ چمکیلے بال لیے حضرت دادا جان اخبار پڑھتے اور ہم بہن بھائی ہمہ وقت دھما چَوکڑی مچایا کرتے تھے۔

یہں پر مُجھے یاد ہے کہ بَو بَو  نے ایک دفعہ باورچی خانے میں سوئی گیس کے چُولہے پر روٹیاں پکانے کے لیے معمول سے قدرے چھوٹا تَوا کیا رکھا کہ میں سراپا احتجاج ہو گیا اور رونے لگا، امر واقعہ یہ ہے کہ بندہ بچپن سے ہی اُن معدودے چند اصحاب میں شُمار ہوتا ہے جن کی ناقص رائے میں حیاتِ انسانی کا مقصد بڑی وضاحت سے قرطاسِ دسترخوان پر مُرغن و لذیذ غذاؤں کی روشنائی سے جلی حروف میں تحریر ہوچُکا ہے اور جب کاتب تقدیر نے ہی یہ لکھ دیا تو بھلا میں آپ یہ قُدرت کہاں رکھتے ہیں کہ اس میں سرِ مُو کوئی تبدیلی کے مُرتکب ہوں۔ عُرف عام میں یوں ہے کہ عاجز خوش خوراکی کی طرف مائل ہے۔ قصہ مُختصر کہ میرے رونے دھونے پر بَو بَو نے پوچھا کہ "آخر تم کیوں روتے ہو، کون سی قیامت ٹوٹ پڑی ہے؟" بس  میں نے آنکھین ملتے ہوئے دل کا حال کہہ دیا کہ آپ نے تَوا چھوٹا رکھا ہے میرے حصّے کی دو روٹیاں حقیقت میں معمول کی دو روٹیوں سے کم ہوں گی ۔۔۔ بس کیا تھا کہ بَو بَو جان تو آگ بگولا ہو گئیں اور لگیں امی کو کوسنے دینے کہ بچوں کی روٹیاں گننا کفران نعمت ہوتا ہے وغیرہ وغیرہ ۔

بوبو کا اصل نام صفیہ بیگم تھا اور غالباً سیالکوٹ سے تعلق تھا، مہین و کمزور سا پیکر، گال پچکے ہوئے اور بالا تخصیص موسم ایک جامنی رنگ کی اوونی شال اوڑھے رکھتی تھیں۔ جسم کے ہر جوڑ سے ہمیشہ درد کی شکایت کرتی تھیں اس آمیزہء آب و گِل پہ موجود ہر مرہم بوبو کے دوایوں والے صندوق میں موجود تھی لیکن بوبو کو تو بس آیوڈیکس سے ہی آرام آتا تھا۔ آیوڈیکس بھی ایک عجیب مرہم ہے جس کے بارے میں میرا یقین ہے کہ یہ مریض کا علاج اصل درد کو بھُلا کر اپنی بدبو سے بچاؤ کے اسباب میں مصروف رکھ کر کرتی ہے۔ اس لیے بوبو کا بستر ہمیشہ آیوڈیکس سے مُتعفن رہتا۔

میرے بڑے بھائی سے بَو بَو بےوقوفی کی حد تک پیار کرتیں اور اس بات پر ان کا ایمان تھا کہ وہ کسی قسم کی کوئی غلطی نہیں کر سکتا اور اگر کرے بھی تو کیا ہے خاندان کے نام کا پہلا وارث ہے اسلیے اس کو تو سات قتل بھی مُعاف ہیں۔ اگر بھائی صاحب نے محلّے میں کسی کا سر پھوڑا تو بوبو نے فوراً یہ منطق پیش کردی کہ میرا پوتا تو بتھروں سے کھیلتا ہے اب اگر کوئی حرام کا ڈہکن اپنا سر سامنے لے آئے تو کیا سر پھٹے گا نہیں اور آخر میں یہ ٹہوکا بھی دیا کہ کیا زمانہ آگیا ہے مائیں اپنے بچوں کو گلی میں چھوڑ کہ خود سارا دن خواتین رسالہ پڑہتی رہتی ہیں۔ بھائی صاحب اگر سکول میں کسی مضمون میں فیل ہوئے تو بوبو نے ماسٹر صاحب کو دُشمن سادات بتایا اور یہ بحث وہیں ختم کردی۔  بوبو کا ازار بند تو بس بھائی صاحب کا ایک بنک تھا جس میں ہر روز ایک روپیہ کا حساب کتاب ہوتا، بوبو ہمیشہ اس ازاربند میں ایک روپیہ رکھتی تھیں جس کو یہ صاحب جب جی کرتا نکال اُڑتے۔

واہ کینٹ کے علاقے بستی کاریگراں میں چوریوں کا سلسلہ بہت بڑھ گیا تو لوگوں نے چوروں سے نمٹنے کیلئے چوکیدار رکھے اور پہرے داریوں کا سلسلہ چل پڑا بوبو کے سادہ دل و دماغ نے اس مسئلے کا عجب ہی حل ڈھونڈا۔ آپ نے ہم بچوں کو گھر کے کونے کھدروں اور سٹور میں لگے پیٹیوں کے قُظب مینار میں سے سٹین لیس سٹیل کے گلاس اکٹھے کروائے اور رات کو گھر کے ہر دروازے کے سامنے متعدد گلاس ایک خاص ترتیب میں رکھ دئیے گئے۔  ہمارے دادا جان ایک تہجُد گُزار بزرگ تھے وہ آنکھ اس دُنیا میں نہ ہوگی جس نے دادا جان کو تہجد سمیت کوئی اور نماز قضاء کرتے دیکھا ہو۔  دادا جان رات کو تہجد کے لیے بیدار ہوئے اور وضو کیلئے غُسل خانے کا قصد کیا، آپ اس سے بالکل بے خبر تھے کہ گھر میں دھاتی گلاسوں سے  مُرتب ایک پیچیدہ بساط بچھی ہوئی ہے آپ نے دبے پاؤں جو ایک دروازہ کھولا تو اس دروازے کے گلاس نے دیگر گلاسوں کو مُطلع کیا اور سبھی نے فرش بوس ہو کر سیمنٹ کے فرش پر ایک سازینہ شروع کردیا، اس بوکھلاہٹ میں دادا جان کی زُبان بند اور باقی سب بھی وادئی خواب سے ہڑ بڑا کے اُٹھے کسی نے بلب آن کیا تو کوئی کرکٹ کا بلا اُٹھائے آن پہنچا اُدھر دادی جان کا شور "اُٹھو چور ہے جانے نہ پائے" جب سب کی آنکھیں اچانک پھیلنے والے سیل نور کی عادی ہوئیں تو سب نے دادا جان سے پوچھا "کس نے دیکھا چور، کدھر گیا چور" داد جان کا تانبے جیسا رنگ غُصے سے دہکنے لگا، جب یہ واضح ہوگیا کہ یہ بچوں کی شرارت نہیں بلکہ بوبو کے ذہن کی اختراع ہے تو اس دہکتے چہرے سے اب الاؤ اُبلنے لگے اور ہم میں سے کسی میں اتنی ہمت نہ ہوئی کہ اب اس تصادم کا منطقی نتیجہ بھی دیکھ سکیں۔

بوبو ایک فراغ دل اور پیسے کو ہاتھ کی میل جاننے والی ہستی تھیں، اُدھر دادا جان سیال کوٹ میں کئی مربعے اراضی تباہ ہوجانے کے بعد حد درجہ مُحتاط اور نسبتاً کنجوس واقع ہوئے تھے۔  یہ دو مُتضاد عادات دو ایسے قُطبین تھے جو ایک چھت کے نیچے آباد تھے اور جن کا فطری تصادم بہرحال قریباً ہر روز ہی ہوتا تھا۔ اس سلسلے میں ایک قصّہ بھی سُن لیں۔ بوبو ایک دفعہ بہت بیمار ہوئیں تو امّی بوبو کی تیمارداری کیلئے گئیں اور کسی کام سے امّی کو باورچی خانے جانا پڑا جہاں امی کی نظر ایک پُرانی تام چینی کی پلیٹ پڑی جس کے درمیان میں اب ایک سوراخ بن چُکا تھا، امّی وہ پلیٹ لے کر بوبو کے پاس آئیں اور پوچھا کہ اس کا کیا کروں بوبو بیزاری سے بولیں "اس میں رسی ڈالو اور اس پلیٹ کو اپنے سُسر کے گلے میں جا لٹکاؤ" امی نے بہرحال یہ حُکم نہ مانا پر یہ کہانی ہمارے دادا اور بوبو کی پیار بھری نوک جھونک کے قصّے کے طور پر آج بھی سُنای جاتی ہے۔


بوبو کی ذات کا ایک پہلو ہیرے کی چمک کی طرح نُمایاں تھا اور وہ تھا  
اہل بیتِ رسول سے عشق۔ آپ دل و جان سے یہ سمجھتی تھیں کہ بحالت سجدہ  امام علی اور امام حُسین کے قتل کے بعد نماز فرض نہیں رہی اس لیے آپ ماتمِ حُسین کو ہی نماز کا بدل جانتی اور مانتی تھیں، ان کی تقویم میں ہر مہینے کا نام مُحرم الحرام تھا، ان کیلئے روزے میں پیاس کی شدّت کا احساس تو بس تیممِ تشنگئ حُسین تھا فرماتیں کہ حسین کی پیاس یاد کروا رہا ہے اوپر والا،  جس وقت اور جہاں بھی پانی کا ذکر آتا یہ دشتِ تشنگئی حُسین میں گُم ہو جاتیں اور بلا ارادہ ایک ہاتھ سے سینہ کوبی کرتے ہوئے اپنی عبادت ادا کرتیں، ایسا نہ کرنے والے پر بلاتخصیص مذہب و فرقہ تبرا فرماتیں۔  فنونِ لطیفہ کی ہر اُس قسم جس میں پانی کا ذکر ہوتا یا پانی کو پیش کیا جاتا اُس کو  نوحہ سمجھتی تھیں۔

ایک روز ہم لڑکوں نے اُنہیں ایک اندھیری کوٹھری میں پُرانے دیو ہیکل ریڈیو پر ملکئہ ترنم نور جہاں کے مشہور پنجابی گیت "وگدی ندّی دا پانی، مُڑ کے تے فیر نئیں آوندا" پر حالتِ وجد میں محو گریہ و سینہ کوبی دیکھا تو ہم نے دبی دبی ہنسی ہنستے ہوئے ریڈیو کو بند کیا اور اپنے تئیں اُن کو آگاہ کیا کہ
"بَو بَو جی یہ نوحہ نہیں گانا ہے آپ کیوں امام حُسین کا ماتم کر رہی ہیں اسپر"
بَو بَو نے بڑی بے اعتنائی سے کہا "تمھیں کیا پتہ، جس گانے میں پانی کا ذکر ہو وہ گانا کہاں رہتا ہے وہ تو  بس میرے امام کا نوحہ بن جاتا ہے" ہم ہنستے ہنستے کسی اور کام میں جا لگے اور بعد ازاں یہ واقعہ ہم نے سب کو مزے لے لے کر
سُنایا۔

بَو بَو کو خُلد آشیانی ہوئے اکتیس برس ہو چُکے ہیں میں اب امریکہ میں اپنے بیوی بچوں سمیت ایک زمانے سے آباد ہوں اب کبھی جو دفتر جاتے ہوئے  اپنے آئی-پاڈ میں قید گانوں کی شکل میں کُہنہ یادوں کو سُنتے سُنتے جب بھی کبھی "وگدی ندّی دا پانی، مُڑ کے تے فیر نئیں آوندا" سُنتا ہوں تو ایک ہاتھ سے ہلکا ہلکا سینہ کوبی کرتا ہوں اور سوچتا ہوں کہ میری بظاہر سادہ لوح اور سیدھی سادھی دادی کتنی راست القلب انسان تھیں اور بے اختیار محسن نقوی کا یہ شعر اپنی پوری معنوی تفسیر کے ساتھ میرے دل کی غارِ حرا میں نازل ہونے لگتا ہے

سیلاب دیکھتا   ہوں  تو آتا ہے یہ خیال
پانی بھٹک رہا  ہے،  تلاشِ حُسین میں


بَوبَو اُنیس سو اناسی میں لاتعداد بیماریوں سے لڑتے لڑتے اس پلک بسیرے کو چھوڑ وہاں جا بسی کہ جہاں سے جو خبر لانے گیا وہ
پھر نہ مُڑا۔

وے لوگ تم نے ایک ہی شوخی میں کھو دیے
پیدا کیے تھے چرخ نے جو خاک چھان کر
(میر)

=================================================
جرار جعفری
 
ڈینور کولوراڈو
یکم جنوری دو ہزار گیارہ عیسوی۔
 
حواشی
  • ریگِ دیروز  کی اصطلاح ن۔م۔ راشد کی نظم "ریگِ دیروز" سے لی گئی ہے۔



--

Followers

Powered By Blogger