ماں جی
قدرت اللہ شہاب
ماں جی کی پیدائش کا صحیح سال معلوم نہ ہو سکا جس زمانے میں لائل پور کا ضلع نیا نیا آباد ہو رہا تھا پنجاب کے ہر قصبے سے مفلوک الحال لوگ زمین حاصل کرنے کے لئے اس نئی کالونی میں کھنچے چلے آ رہے تھے عرفِ عام میں لائل پور ۔جھنگ ۔سرگودھا وغیرہ کو ۔بار۔ کا عکاقہ کہا جاتا تھا ۔
اُس زمانے میں ماں جی کی عمر دس بارہ سال تھی اس حساب سے اُن کی پیدائش پچھلی صدی کے آخری دس پندرہ سالوں میں کسی وقت ہوئی ہوگی۔ماں جی کا آبائی وطن تحصیل روپڑ ضلع انبالہ میں ایک گاؤں منیلہ نامی تھا والدین کے پاس چند ایکڑ اراضی تھی ۔ان دنوں روپڑ میں دریائے ستلج سے نہر سر ہند کی کھدائی ہو رہی تھی نانا جی کی اراضی نہر کی کھدائی میں ضم ہو گئی روپڑ میں انگریز حاکم کے دفتر سے ایسی زمین کے معاوضے دیئے جاتے تھے نانا جی دو تین بار معاوضے کی تلاش میں شہر گئے لیکن سیدھے آدمی تھے کبھی اتنا بھی معلوم نہ کرسکے کہ انگریز کا دفتر کہاں ہے اور معاوضہ وصول کرنے کے لئے کیا قدم اُٹھانا چاہیے۔انجامِ کار صبر و شکر کر کے بیٹھ گئے اور نہر کی کھدائی میں مزدوری کرنے لگے ۔ان ہی دنوں پرچہ لگا کہ بار میں کالونی کھل گئی ہے اور نئے آبادکاروں کو مفت زمین مل رہی ہے نانا جی اپنی بیوی دو ننھے بیٹوں اور ایک بیٹی کا کنبہ ساتھ لے کر لائل پور روانہ ہوگئے سواری کی توفیق نہ تھی اس لئے پاپیادہ چل کھڑے ہوئے ۔
نانی اور ماں جی کسی کا سوت کات دیتیں یا مکانوں کی چھت اور دیواریں لیپ دیتیں لائل پور کا صحیح راستہ کسی کو نہ آتا تھا جگہ جگہ بھٹکتے تھے اور پوچھ پوچھ کر دنوں کی منزل ہفتوں میں طے کرتے تھے۔ڈیڑھ دو مہینے کی مسافت کے بعد جڑانوالہ پہنچے پاپیادہ اور محنت مزدوری کی مشقت سے سب کے جسم نڈھال اور پاؤں سوجے ہوئے تھے یہاں پر چند ماہ قیام کیا نانا جی دن بھر غلہ منڈی میں بوریاں اُٹھانے کا کام کرتے نانی چرخہ کات کر سوت بیچتیں اور ماں جی گھر سنبھالتیانہی دنوں بقرعید کا تہوار آیا نانا جی کے پاس چند روپے جمع ہوگئے تھے انہوں نے تین آنے ماں جی کو بطور عیدی دئیے ۔زندگی میں پہلی بار ماں جی کے ہاتھ اتنے پیسے آئے تھے انہوں نے بہت سوچا مگر اِس رقم کا کوئی مصرف اُن کی سمھجھ میں نہ آ سکا ۔وفات کے وقت اُن کی عمر کوئی اسسی برس کے لگ بھگ تھی لیکن ان کے نزدیک سو روپے دس روپے مانچ روپے کے نوٹوں میں امتیاز کرنا آسان کام نہ تھا عیدی کے تین آنے کئی روز ماں جی کے دوپٹے کے ایک کونے میں بندھے رہے جس روز وہ جڑانوالہ سے رخصت ہو رہی تھیں ماں جی نے گیارہ پیسے کا تیل خرید کر مسجد کے چراغ میں ڈال دیا ۔باقی ایک پیسہ اپنے پاس رکھا اُس کے بعد جب کبھی گیارہ پیسے پورے ہو جاتے وہ فوراً مسجد میں تیبھجوا دیتیں ساری عمر جمعرات کی شام کو وہ اس عمل پر بڑی وضعداری سے پابند رہیں ۔رفتہ رفتہ بہت سی مسجدوں میں بجلی آ گئی لیکن لاہور اور کراچی جیسے شہروں میں بھی اُنہیں ایسی مسجدوں کا علم رہتا جن کے چراغ اب بھی تیل سے روشن ہوتے تھے ۔
وفات کی شب بھی ماں جی کے سرہانے ململ کے رومال میں بندھے ہوئے چند آنے موجود تھے غالباً یہ پیسے بھی تیل کے لئے جمع کر رکھے تھے کیونکہ وہ جمعرات کی شب تھی۔
ل ں جو ایک چھوٹے سے جھونپڑے پر مشتل تھا ۔ان چند آنوں کے علاوہ ماں جی کے پاس نہ کچھ اور رقم تھی نہ کوئی زیور اسبابِ دنیا میں اُن کے پاس گنتی کی چند چیزیں تھیں ۔تین جوڑے سوتی کپڑوں کے۔ایک جوڑا دیسی جوتا۔ایک جوڑی ربڑ کے چپل۔ایک عینک۔ایک انگوٹھی جس میں تین چھوٹے چھوٹے فیروزے جڑے ہوئے تھے ایک جائے نماز ایک تسبیح اور باقی اللہ اللہ۔پہننے کے تین جوڑوں کو وہ خاص اہتمام سے رکھتی تھیں ،ایک زیب تن کیا تو ایک اپنے ہاتھوں سے دھو کر تکئے کے نیچے رکھا رہتا تھا تاکہ استری ہوجائے تیسرا دھونے کے لئے تیار اس کے علاوہ اگر چوتھا کپڑا ان کے پاس آتا تھا تو وہ چپکے سے ایک جوڑا کسی کو دے دیتیں تھیں ،اسی وجہ سے ساری عمر اُنہیں سوٹ کیس رکھنے کی حاجت نہ ہوئی لمبے سے لمبے سفر پر روانہ ہونے کے لئے انہیں تیاری میں چند منٹ سے زیادہ نہ لگتے تھے کپڑوں کی پوٹلی بنا کر اُنہیں جائے نماز میں لپیٹا جاڑوں میں اُونی فر اور گرمیوں میں ململ کے دوپٹے کی بُکل ماری اور جہاں کہیے چلنے کو تیار۔سفرِ آخرت بھی اُنہوں نے اسی سادگی سے اختیار کیا میلے کپڑے اپنے ہاتھوں سے دھو کر تکئے کے نیچے رکھے نہا دھو کر بال سُکھائے اور چند ہی منٹوں میں زندگی کے سب سے لمبے سفر پر روانہ ہوگئیں جس خاموشی سے دنیا میں رہی تھیں اُسی خاموشی سے عقبیٰ کو سدھار گئیں غالباً اسی موقع کے لئے وہ اکثر یہ دعا مانگا کرتیں تھیں کہ اللہ تعالیٰ ہاتھ چلتے چلاتے اُٹھا لے اللہ کبھی کسی کا محتاج نہ کرے ۔
کھانے پینے میں وہ کپڑے لتے سے بھی زیادہ سادہ اور غریب مزاج تھیں اُن کی مرغوب ترین غذا مکئی کی روٹی دھنئیے پودینے کی چٹنی کے ساتھ تھی باقی چیزیں خوشی سے تو کھا لیتی تھیں لیکن شوق سے نہیں ہر نوالے پر اللہ کا شکر ادا کرتی تھیں پھلوں میں کبھی بہت ہی مجبور کیا جائے تو کیلے کی فرمائش کرتی تھیں البتہ ناشتے میں دو چائے کے پیالے اور تیسرے پہر سادہ چائے کا ایک پیالہ ضرور پیتی تھیں کھانا صرف ایک وقت کھاتیں تھیں اکثر وبیشتر دوپہر کا ،گرمیوں میں عموماً مکھن نکالی ہوئی پتلی نمکین لسسی کے ساتھ ایک آدھ سادہ چپاتی اُن کی محبوب خوراک تھی،دوسروں کو کوئی چیز رغبت سے کھاتے دیکھ کر خوش ہوتی تھیں اور ہمیشہ یہ دعا کرتیں تھیں کہ سب کا بھلا،خاص اپنے یا اپنے بچوں کے لئے اُنہوں نے براہِ راست کبھی کچھ نہ مانگا پہلے دوسروں کے لئے دعا مانگتیں تھیں اور اُس کے بعد مخلوقِ خدا کی حاجت روائی کے طفیل اپنے بچوں یا عزیزوں کا بھلا چاہتی تھیں ،اپنے بیٹوں یا بیٹیوں کو انہوں نے اپنی زبان سے کبھی میرے بیٹے یا میری بیٹی کہنے کا دعویٰ نہیں کیا ہمیشہ اُن کو اللہ کا مال کہا کرتیں تھیں۔
کسی سے کوئی کام لینا ماں جی پر بہت گراں گزرتا تھا اپنے سب کام وہ اپنے ہاتھوں خود انجام دیتی تھیں اگر کوئی ملازم زبردستی اُن کا کوئی کام کر دیتا تو اُنہیں ایک عجیب قسم کی شرمندگی کا احساس ہونے لگتا تھا اور وہ احسان مندی سے سارا دن اُسے دعائیں دیتی رہتی تھیں ۔سادگی اور درویشی کا یہ رکھ رکھاؤ کچھ تو قدرت نے ماں جی کی سرشت میں پیدا کیا تھا کچھ یقیناً زندگی کے زیر وبم نے سکھایا تھا ۔جڑانوالہ میں کچھ عرصہ قیام کے بعد جب وہ اپنے والدین اور بھائیوں کے ساتھ زمین کی تلاش میں لائل پور کالونی کی طرف روانہ ہوئیں تو اُنہیں کچھ معلوم نہ تھا کے اُنہیں کس مقام پر جانا ہے۔اور زمین حاصل کرنے کے لئے کیا قدم اُٹھانا چاہیے۔ماں جی بتایا کرتی تھیں کے اُس زمانے میں اُن کے ذہن میں کالونی کا تصور ایک فرشتہ سیرت بزرگ کا تھا جو کہیں سرِ راہ بیٹھا زمین کے پروانے تقسیم کر رہا ہوگا کئی ہفتے یہ چھوٹا سا قافلہ لائل پور کے علاقے میں پاپیادہ بھٹکتا رہا۔لیکن کسی راہگزر پر اُنہیں کالونی کا خضر صورت رہنما نہ مل سکا۔آخر تنگ آکر اُنہوں نے چک نمبر تین سو بیانوے جو ان دنوں نیا آباد ہو رہا تھا ڈیرے ڈال دئیے لوگ جوق در جوق وکالونی میں آباد ہونے کا شائد یہی طریقہ ہوگا۔چنانچہ انہوں نے ایک چھوٹا سا احاطہ گھیر کر گھاس پھونس کی جھونپڑی بنائی اور بنجر اراضی کا ایک قطعہ تلاش کرکے کاشت کی تیاری کرنے لگے انہی دنوں محکمہ مال کا عملہ پڑتال کے لئے آیا نانا جی کے پاس الاٹمنٹ کے کاغذات نہ تھے چناچہ اُنہیں چک سے نکال دیا گیا اور سرکاری زمین پر ناجائز جھونپڑا بنانے کی پاداش میں اُن کے برتن اور بستر قرق کر لئے ۔عملے کے ایک آدمی نے چاندی کی دو بالیاں بھی ماں جی کے کانوں سے اُتروالیں ایک بالی اُتارنے میں ذرا دیر ہوئی تو اس نے زور سے کھینچ لی جس سے ماں جی کے بائیں کان کا زیریں حصہ بری طرح پھٹ گیا۔
چک نمبر تین سو بیانوے سے نکل کر جو راستہ سامنے آیا اس پر چل کھڑے ہوئے گرمیوں کے دن تھے دن بھر لو چلتی تھی پانی رکھنے کے لئے مٹی کا پیالہ بھی پاس نہ تھا جہاں کہیں کوئی کنواں نظر آتا ماں جی اپنا ڈوپٹہ بھگو لیتیں تاکہ پیاس لگنے پر اپنے چھوٹے بھائیوں کی پیاس ڈوپٹہ نچوڑ کر بجھا سکیں ۔اس طرح وہ چلتے چلتے چک پانچ سو سات پہنچے جہاں ایک جان پہچان کے آباد کار نے نانا جی کو اپنا مزارع رکھ لیا۔نانا جی ہل چلاتے تھے نانہاں آکر آباد ہو رہے تھے نانا جی نے اپنی سادگی میں یہ سمجھا کہ مویشی چرانے لے جاتیں اور ماں جی کھیتوں سے گھاس اور چارہ کاٹ کر زمیندار کی بھینسوں اور گایوں کے لئے لایا کرتی تھیں اُن دنوں اُنہیں اتنا مقدور بھی نہ تھا کہ ایک وقت کی روٹی بھی پوری طرح کھا سکیں کسی وقت جنگلی بیروں پر گزارہ ہوتا تھا کبھی خربوزے کے چھلکے اُبال کر کھا لیتے تھے کبھی کسی کھیت میں کچی انبیاں گری ہوئی مل گئیں تو اُن کی چٹنی بنا لیتے تھےایک روز کہیں سے تورئیے اور کلتھے کا ملا جلا ساگ ہاتھ آ گیا۔
نانی محنت مزدوری میں مصروف تھی ماں جی نے ساگ چولہے پر چڑھایا جب پک کر تیار ہو گیا اور ساگ کو الن لگا کر گھوٹنے کا وقت آیا تو ماں جی نے ڈوئی ایسے زور سے چلائی کہ ہنڈیا کا پیندا ٹوٹ گیا اور سارا ساگ بہہ کر چولہے میں آپڑا ماں جی کو نانی سے ڈانٹ پڑی اور مار بھی رات کو سارے خاندان نے چولہے کی لکڑیوں پر گرا ہوا ساگ اُنگلیوں سے چاٹ چاٹ کر کسی قدر پیٹ بھرا ۔
چک نمبر پانچ سو سات نانا جی کو خوب راس آیا چند ماہ کی محنت مزدوری کے بعد نئی آباد کاری کے سلسلے میں آسان قسطوں پر اُن کو ایک مربع زمیں مل گئی رفتہ رفتہ دن پھرنے لگے اور تین سال میں اُن کا شمار گاؤں کے کھاتے پیتے لوگوں میں ہونے لگا جوں جوں فارغ البالی بڑھتی گئی تو آبائی وطن کی یاد ستانے لگی چناچہ خوشحالی کے چار پانچ سال گزارنے کے بعد سارا خاندان ریل میں بیٹھ کر منیلہ کی طرف روانہ ہوا ریل کا سفر ماں جی کو بہت پسند آیا وہ سارا وقت کھڑکی سے منبہت سے ذرے اُن کی آنکھوں میں پڑ گئے جس کی وجہ سے کئی روز تک وہ آشوبِ چشم مییں مبتلا رہیں ۔اس تجربے کے بعد اُنہوں نے ساری عمر اپنے کسی بچے کو ریل کی کھڑکی سے باہر منہ نکالنے کی اجازت نہ دی۔
ماں جی ریل کے تھرڈ کلاس ڈبے میں بہت خوش رہتی تھیں ہم سفر عورتوں اور بچوں سے فوراً گھل مل جاتیں سفر کی تھکان اور راستے کے گرد وغبار کا اُن پر کچھ اثر نہ ہوتا ۔اِس کے برعکس اونچے درجوں میں بہت بیزار ہو جاتیں ایک دو بار جب اُنہیں مجبوراً ائیر کنڈیشن ڈبے میں سفر کرنا پڑا تو وہ تھک کر چور ہوگئیں اور سارا وقت قید کی صعوبت کی طرح اُن پر گراں گزرا۔
منیلہ پہنچ کر نانا جی نے اپنا آبائی مکاں درست کیا عزیز واقارب کو تحائف دیئے دعوتیں ہوئیں اور پھر ماں جی کے لئے بر ڈھونڈنے کا سلسلہ شروع ہو گیا ۔اس زمانے میں لائل پور کے مربع داروں کی بڑی دھوم تھی اُن کا شمار خوش قسمت اور باعزت لوگوں میں ہوتا تھا چناچہ چاروں طرف سے ماں جی کے لئے پے در پے ہ بپیام آنے لگے یوں بھی اُن دنوں ماں جی کے بڑے ٹھاٹھ باٹ تھے برادری والوں پر رعب گاٹھنے کے لئے نانی جی اُنہیں ہر روز نئے کپڑے پہناتیں اور ہر وقت دلہنوں کی طرح سجا کر رکھتی تھیں ۔کبھی کبھار پرانی یادوں کو تازہ کرنے کے لئے ماں جی بڑے معصوم فخر سے کہا کرتی تھیں اُن دنوں میرا تو گاؤں میں نکلنا تک دوبھر ہوگیا تھا میں جس طرف سے گزر جاتی لوگ ٹھٹھک کر کھڑے ہوجاتے اور کہا کرتے یہ خیال بخش مربع دار کی بیٹی جا رہی ہے ۔دیکھئیے کون سا خوش نصیب اسے بیاہ کر لے جائے گا ۔
ماں جی ! آپ کی اپنی نظر میں کوئی ایسا خوش نصیب نہیں تھا ؟
ہم لوگ چھیڑنے کی خاطر اُن سے پوچھا کرتے۔
توبہ توبہ پُٹ ! ماں جی کانوں پر ہاتھ لگاتیں میری نظر میں بھلا کوئی کیسے ہوسکتا تھا ہاں میرے دل میں اتنی سی خواہش ضرور تھی کہ اگر نجھے اہر نکال کر تماشہ دیکھتی رہیں اس عمل میں کوئلے کایسا آدمی ملے جو دو حروف پڑھا لکھا ہو تو خدا کی بڑی مہربانی ہوگی۔
ساری عمر میں غالباً یہی ایک خواہش تھی جو ماں جی کے دل میں خود اپنی ذات کے لئے پیدا ہوئی ۔اس کو خدا نے یوں پورا کر دیا کہ اسی سال ماں جی کی شادی عبداللہ صاحب سے ہوگئی اُن دنوں سارے علاقے میں عبداللہ صاحب کا طوطی بول رہا تھا وہ ایک امیر و کبیر گھرانے کے چشم وچراغ تھے لیکن پانچ چھ برس کی عمر میں یتیم بھی ہوگئے اور بے حد مفلوک الحال بھی۔جب باپ کا سایہ سر سے اُٹھا تو یہ انکشاف ہوا کہ ساری آبائی جائیداد رہن پڑی ہے چانچہ عبداللہ صاحب اپنی والدہ کے ساتھ ایک جھونپڑے میں اُٹھ آئے ۔زر اور زمین کا یہ انجام دیکھ کر اُنہوں نے ایسی جائیداد بنانے کا عزم کر لیا جو مہاجنوں کے ہاتھ گروی نہ رکھی جا سکے چناچہ عبداللہ صاحب دل وجان سے تعلیم حاصل کرنے میں منہمک ہوگئے ۔وظیفے پر وظیفہ حاصل کر کے اور دو دو سال کے امتحان ایک سال میپاس کرکے پنجاب یونیورسٹی کے میٹریکولیشن میں اول آئے اُس زمانے میں غالباً یہ پہلا موقف تھا کے کسی مسلمان طالب علم نے یونیورسٹی امتحان میں ریکارڈ قائم کیا ہو۔
اُڑتے اُڑتے یہ خبر سر سید کے کانوں میں پڑ گئی جو اس وقت علی گڑھ مسم کالج کی بنیاد رکھ چکے تھے اُنہوں نے اپنا خاص منشی گاؤں میں بھیجا اور عبداللہ صاحب کو وظیفہ دے کر علی گڑھ بلا لیا یہاں پر عبداللہ صاحب نے خوب بڑھ چڑھ کر اپنا رنگ نکالا اور بی ۔اے کرنے کے بعد انیس برس کی عمر میں وہیں پر انگریزی۔عربی ۔فلسفہ اور حساب کے لیکچرر ہوگئے۔
سرسید کو اس بات کی دُھن تھی کہ مسلمان نوجوان زیادہ تعداد میں اعلیٰ ملازمتوں پر جائیںچناچہ انہوں نے عبداللہ صاحب کو سرکاری وظیفہ دلوایا کہ وہ انگلستان جا کر آئی ۔سی۔ایس کے امتحان میں شریک ہوں ۔پچھلی صدی کے بڑے بوڑھے سات سمندر پار کے سفر کو بلائے ناگہانی سمھجتے تھے عبداللہ صاحب کی والسہ نے بیٹے کو ولایت جانے سے منع کر دیا عبداللہ صاحب کی سعادت مندی آڑے آئی اور اُنہوں نے وظیفہ واپس کر دیا۔
اس حرکت پر سرسید کو بے حد غصہ بھی آیا اور دکھ بھی ہوا۔اُنہوں نے لاکھ سمجھایا۔بھجھایا۔ڈرایا لیکن عبداللہ صاحب ٹس سے مس نہ ہوئے ۔
کیا تم اپنی بوڑھی ماں کو قوم کے مفاد پر ترجیحح دیتے ہو سر سید نے کڑک کر پوچھا۔
جی ہاں ۔عبداللہ صاحب نے جواب دیا۔
یہ ٹکا سا جواب سُن کر سرسید آپے سے باہر ہوگئے کمرے کا دروازہ بند کرکے پہلے اُنہوں نے عبداللہ صاحب کو لاتوں مکوں تھپڑوں اور جوتوں سے خوب پیٹا اور کالج کی نوکری سے برخوست کرکے یہ کہہ کر علی گڑھ سے نکال دیا ”اب تم ایسی جگہ جا کر مرو جہاں سے میں تمھارا نام بھی نہ سن سکوں ۔
عبداللہ صاحب جتنے سعادت مند بیٹے تھے اتنے سعادت مند شاگرد بھی تھے نقشے پر انہیں سب سے دور افتادہ اور دشوار گزار مقام گلگت نظر آیا چناچہ وہ ناک کی سیدھ گلگت پہنچے اور دیکھتے ہی دیکھتے وہاں گورنری کے عہدے پر فائز ہو گئے۔جن دنوں ماں جی کی منگنی کی فکر ہو رہی تھی انہی دنوں عبداللہ صاحب بھی چھٹی پر گاؤں آئے ہوئے تھے قسمت میں دونوں کا سنجوگ لکھا ہوا تھا ان کی منگنی ہوگئی اور ایک ماہ بعد شادی بھی ٹھہر گئی تاکہ عبداللہ دلہن کو اپنے ساتھ گلگت لے جا سکیں۔
منگنی کے بعد ایک روز ماں جی اپنی سہیلیوں کے ساتھ پاس والے گاؤں میں میلہ دیکھنے گئی ہوئی تھیں اتفاقاً یا شائد دانستہ عبداللہ صاحب بھی وہاں پہنچ گئے ۔ماں جی کی سہیلیوں نے اُنہیں گھیر لیا اور ہر ایک نے چھیڑ چھیڑ کر اُنہیں ماں جی کو کچھ پیش کرنے کو کہا اُنہوں نے پانچ روپئے پیش کئے لیکن ماں جی نے انکار کر دیا بہت اصرار بڑھ گیا تو مجبوراً ماں جی نے گیارہ پیسے کی فرمائش کی۔
اتننے پوچھا۔
اگلی جمعرات کو آپ کے نام سے مسجد میں تیل ڈلوادوں گی ۔ماں جی نے جواب دیا۔
زنداگی کے میلے میں بھی عبداللہ صاحب کے ساتھ ماں جی کا لین دین صرف جمعرات کے گیارہ پیسوں تک ہی محدود رہا۔اس سے زیادہ رقم نہ کبھی انہوں نے مانگی نہ اپنے پاس رکھی۔گلگت میں عبداللہ کی بڑی شان وشوکت تھی خوبصورت بنگلہ ۔وسیع باغ ۔نوکر چاکر۔دروازے پر سپاہیوں کا پہرہ جب عبداللہ صاحب دورے پر باہر گھیر لیا اور ہر ایک نے چھیڑ چھیڑ کر اُنہیں ماں جی کو کچھ پیش کرنے کو کہا اُنہوں نے پانچ روپئے پیش کئے لیکن ماں جی نے انکار کر دیا بہت اصرار بڑھ گیا تو مجبوراً ماں جی نے گیارہ پیسے کی فرمائش کی۔
اتنے بڑے میلے میں گیارہ پیسے لے کر کیا کرو گی۔عبداللہ صاحب نے پوچھا۔
اگلی جمعرات کو آپ کے نام سے مسجد میں تیل ڈلوادوں گی ۔ماں جی نے جواب دیا۔
ے بڑے میلے میں گیارہ پیسے لے کر کیا کرو گی۔عبداللہ صاحب زنداگی کے میلے میں بھی عبداللہ صاحب کے ساتھ ماں جی کا لین دین صرف جمعرات کے گیارہ پیسوں تک ہی محدود رہا۔اس سے زیادہ رقم نہ کبھی انہوں نے مانگی نہ اپنے پاس رکھی۔گلگت میں عبداللہ کی بڑی شان وشوکت تھی خوبصورت بنگلہ ۔وسیع باغ ۔نوکر چاکر۔دروازے پر سپاہیوں کا پہرہ جب عبداللہ صاحب دورے پر باہر
جب روس میں انقلاب برپا ہوا تو لارڈ کچز سرحدوں کا معائنہ کرنے گلگت آئے۔اُن کے اعزاز میں گورنر کی طرف سے ضیافت کا انتظام ہوا ۔ماں جی نے اپنے ہاتھ سے دس بارہ قسم کے کھانے پکائے کھانے لذیذ تھے لارڈ کچز نے اپنی تقریر میں کہا ۔مسٹر گورنر جس خانساماں نے یہ کھانے پکائے ہیں برائے مہربانی میری طرف سے آپ اُن کے ہاتھ چوم لیں۔دعوت کے بعد عبداللہ صاحب فرحاں وشاداں گھر لوٹے تو دیکھا کہ ماں جی باورچی کھانے کے ایک گوشے میں چٹائی پر بیٹھی نمک اور مرچ کی چٹنی کے ساتھ مکئی کی روٹی کھا رہی ہیں۔
ایک اچھے گورنر کی طرح عبداللہ صاحب نے ماں جی کے ہاتھ چومے اور کہا ۔اگر لارڈ کچز یہ فرمائش کرتے کہ وہ خود خانساماں کے ہاتھ چومنا چاہتا ہے تو پھر تم کیا کرتیں ؟
میں۔۔۔۔۔
ماں جی تنک کر بولیں ۔میں اُس کی مونچھیں پکڑ کر جڑ سے اُکھاڑ دیتی ۔پھر آپ کیا کرتے ؟
میں ۔۔۔ عبداللہ صاحب نے ڈرامہ کیا۔۔۔۔۔۔
میں اُن مونچھوں کو روئی میں لپیٹ کر وائسرائے کے پاس بھیج دیتا اور تمیہں ساتھ لے کر کہیں اور بھاگ جاتا جیسے سرسید کے ہاں سے بھاگا تھا۔
ماں جی پر ان مکالموں کا کچھ اثر نہ ہوتا تھا لیکن ایک بار۔۔۔۔۔۔۔۔
ماں جی رشک وحسد کی اس آگ میں جل بھن کر کباب ہو گئیں جو ہر عورت کا ازلی ورثہ ہے۔
گلگت میں ہر قسم کے احکامات گورنری کے نام پر جاری ہوتے تھے جب یہ چرچا ماں جی تک پہنچا تو انہوں نے عبداللہ صاحب سے گلہ کیا ۔بھلا حکومت تو آپ کرتے ہیں لیکن گورنری گورنری کہہ کر مجھ غریب کا نام بیچ میں کیوں لایا جاتا ہے خوامخواہ ۔
عبداللہ صاحب علی گڑھ کے پڑھے ہوئے تھے رگِ ظرافت پھڑک اُٹھی اور بے اعتنائی سے فرمایا ،بھاگوان،یہ تمہارا نام تھوڑی ہے گورنری تو دراصل تمھاری سوکن ہے جو رات دن میرا پیچھا کرتی ہے۔مذاق کی چوٹ تھی عبداللہ صاحب نے سمجھا بات آئی گئی ہو گئی کین ماں جی کے دل میں غم بیٹھ گیا اس غم میں وہ اندر ہی اندر کڑھنے لگیں کچھ عرصہ بعد کشمیر کا مہاراجہ پرتاپ سنگھ اپنی مہارانی کے ساتھ گلگت کے دورے پر آیا ۔ماں جی نے مہارانی کو اپنے دل کا حال سنایا مہارانی بھی سادہ عورت تھی جلال میں آ گئی ۔ہائے ہائے ہمارے راج میں ایسا ظلم ،میں آج ہی مہاراج سے کہوں گی کہ وہ عبداللہ صاحب کی خبر لیں۔جب یہ مقدمہ مہاراج پرتاپ سنگھ تک پہنچا تو اُنھوں نے عبداللہ صاحب کو بلا کر پوچھ گچھ کی ۔عبداللہ صاحب بھی حیران تھے کہ بیٹھے بٹھائے یہ کیا افتاد آن پڑی لیکن جب معاملے کی تہہ تک پہنچے تو دونوخوب ہنسے آدمی دونوں ہی وضعدار تھے چناچہ مہاراجہ نے حکم نکالا کہ آئندہ سے گلگت کی گورنری کو وزارت اور گورنر کو وزیر وزارت کے نام سے پکارا جائے ۔جنگ آزادی تک گلگت میں یہی سرکاری اصطلاحات رائج تھیں۔
یہ حکم نامہ سن کر مہارانی نے ماں جی کو بلا کر خوشخبری سنائی کہ مہاراج نے گورنری کو دیس نکالا دے دیا ہے ۔اب تم دودھوں نہاؤ پوتوں پھلو۔کبھی ہمارے لئے بھی دعا کرنا۔
مہاراجہ اور مہارانی کے کوئی اولاد نہ تھی اس لئے وہ اکثر ماں جی سے دعا کی فرمائش کرتے تھے ۔اولاد کے معاملے میں ماں جی کیا واقعی خوش نصیب تھیں ؟ یہ ایک ایسا سوالیہ نشان ہے جس کا جواب آسانی سے نہیں سوجھتا۔
ماں جی خود ہی تو کہا کرتیں تھیں کہ اُن جیسی خوش نصیب ماں دنیا میں کم ہی ہوتی ہے لیکن اگر صبر و شکر تسلیم ورضا کی عینک اُتار کر دیکھا جائے تو اس خوش نصیبی کے پردے میں کتنے دکھ کتنے غم کتنے صدمے نظر آتے ہیں ۔اللہ میاں نے ماں جی کو تین بیٹے اور تین بیٹیاں عطا کیں دو بیٹیاں شادی کے کچھ عرصے بعد یکے بعد دیگرے فوت ہو گئیں سب سے بڑا بیٹا عین عالمِ شباب میں انگلستان جا کر گزر گیا۔کہنے کو تو ماں جی نے کہہ دیا کہ اللہ کا مال تھا اللہ نے لیا لیکن کیا وہ اکیلے میں چھپ چھپ کے خون کے آنسو نہ رویا کرتی ہوں گی۔
جب عبداللہ صاحب کا انتقال ہوا تو اُن کی عمر باسٹھ سال اور ماں جی کی عمر پچپن سال تھی ۔سہہ پہر کا وقت تھا عبداللہ صاحب بان کی کھردری چارپائی پر حسبِ معمول گاؤ تکیہ لگا کر نیم دراز تھے ماں جی پائنیتی پر بیٹھی چاقو سے گنا چھیل چھیل کر ان کو دے رہی تھیں وہ مزے مزے سے گنا چوس رہے تھے اور مذاق کر رہے تھے پھر یکایک وہ سنجیدہ ہو گئے اور کہنے لگے ،بھاگوان شادی سے پہلے میلے میں میں نے تمہیں گیارہ پیسے دئیے تھے کیا اُن کو واپس کرنے کا وقت نہیں آیا ؟ ماں جی نے نئی نویلی دلہنوں کی طرح سر جھکا لیا اور گنا چھیلنے میں مصروف ہو گئیں۔
ان کے دل میں بیک وقت بہت سے خیال اُمڈ آئے ،ابھی وقت کہاں آیا ہے سرتاج شادی کے پہلے گیارہ پیسوں کی تو بڑی بات ہے لیکن شادی کے بعد جس طرح تم نے میرے ساتھ نباہ کیا ہے اس پر میں نے تمہارے پاؤں دھو کر پینے ہیں۔اپنی کھال کی جوتیاں تمہیں پہنانی ہیں ۔ابھی وقت کہاں آیا ہے میرے سرتاج۔
لیکن قضا وقدر کے بہی کھاتے میں وقت آچکا تھا جب ماں جی نے سر اُٹھایا تو عبداللہ صاحب گنے کی قاش منہ میں لئے گاؤ تکیہ پر سو رہے تھے ماں جی بہتیرا بلایا ہلایا چمکارا لیکن عبداللہ صاحب ایسی نیند سو گئے تھے جس سے بیداری قیامت سے پہلے ممکن ہی نہیں ۔
ماں جی نے اپنے باقی ماندہ دونوں بیٹوں اور ایک بیٹی کو سینے سے لگا کر تلقین کی ۔بچہ رونا مت ،تمہارے ابا جی جس آرام سے رہے تھے،اُسی آرام سے چلے گئے اب رونا مت اُن کی روح کو تکلیف پہنچے گی۔کہنے کو تو ماں جی نے کہہ دیا کہ اپنے ابا کی یاد میں نہ رونا ورنہ ان کو تکلیف پہنچے گی ۔لیکن کیا وہ خود چوری چھپے اُس خاوند کی یاد میں نہ روئی ہوں گی جس نے باسٹھ سال کی عمر تک اُنہیں ایک الہڑ دلہن سمجھا اور جس نے ” گورنری ” کے علاوہ اور کوئی سوکن اُن کے سر پر لا کر نہیں بٹھائی ۔
جب وہ خود چل دیں تو اپنے بچوں کے لئے ایک سوالیہ نشان چھوڑ گئیں جو قیامت تک اُنہیں عقیدت کے بیاباں میں سرگرداں رکھے گا۔
اگر ماں جی کے نام پر خیرات کی جائے تو گیارہ پیسے سے زیادہ ہمت نہیں ہوتی لیکن مسجد کا ملا پریشان ہے کہ بجلی کا ریٹ بڑھ گیا ہے اور تیل کی قیمت گراں ہو گئی ہے۔
ماں جی کے نام پر فاتحہ دی جائے تو مکئی کی روٹی اور نمک مرچ کی چٹنی سامنے آتی ہے لیکن کھانے والا درویش کہتا ہے کہ فاتحہ درود میں پلاؤ اور زردے کا اہتمام لازم ہے۔
ماں جی کا نام آتا ہے تو بے اختیار رونے کو جی چاہتا ہے ۔لیکن اگر رویا جائے تو ڈر لگتا ہے کہ ماں جی کی روح کو تکلیف نہ پہنچے اور اگر ضبط کیا جائے تو خدا کی قسم ضبط نہیں ہوتا۔
--