Monday, February 21, 2011

جب زندگی شروع ہوگی از ابو یحیی

جب زندگی شروع ہوگی از ابو یحیی


کتاب پر تبصرہ


پروفیسر محمد عقیل


کہانی سننا اور سنانا ہمیشہ سے انسانوں کے لیے ایک انتہائی پسندیدہ اور دلچسپ کام رہا ہے۔ دورجدید میں اس نے ناول،افسانہ، فلم اور ڈرامے کی کی شکل اختیار کرلی ہے۔ ہم میں سے شاید ہی کوئی شخص ہو جس نے زندگی میں کبھی ناول یا کہانی کو سنا یا پڑھا نہ ہو۔ مگر آج ہم قارئین کو جس ناول سے متعارف کرائیں گے، وہ اپنے موضوع کے اعتبار سے اپنی نوعیت کا ایک منفرد ناول ہے۔ اس ناول کا نام ’جب زندگی شروع ہوگی‘ ہے اوراس کے مصنف ابویحییٰ ہیں۔






جیسا کہ نام سے ظاہر ہے کہ ناول کا مرکزی خیال آخرت کی زندگی ہے۔ تصورِ آخرت قرآن کریم کا بنیادی عقیدہ ہے، مگر یہ تصور آخرت نہ صرف غیر مسلم اقوام میں کوئی قابل تذکرہ شے نہیں ہے بلکہ مسلمانوں کے ہاں بھی اس حوالے سے ایک مجرمانہ غفلت پائی جاتی ہے۔ ابویحییٰ کا ناول اس مجرمانہ غفلت کو ختم کرنے کی ایک قابل قدر کاوش ہے۔ یہ ناول اس بات کا اعلان ہے کہ ہر مسئلے سے زیادہ اہم مسئلہ آخرت کا ہے۔ آج کی بھوک تو برداشت ہوسکتی ہے لیکن کل کی پیاس ناقابل برداشت ہوگی۔ آج سفارش چل سکتی ہے لیکن کل خدا کے فیصلے کو تبدیل کرنے کی طاقت کسی میں نہ ہوگی۔یہ ناول ایک جانب قوم کے مصلحین، ادیبوں، شاعروں اور ڈرامہ نگاروں کو آخرت کے مضمون کو موضوع بحث بنانے کی دعوت دیتا ہے تو دوسری جانب قوم کے بیٹوں کو عبداللہ اور بیٹیوں کو ناعمہ جیسے قابل تقلید آئیڈیل فراہم کرتا ہے۔






’’جب زندگی شروع ہوگی‘‘ کی داستان عبداللہ نامی ایک نیک اور صالح انسان کے گرد گھومتی ہے جس نے اپنی زندگی دین کی تبلیغ، ترویج اور اشاعت میں گذاری۔ کہانی کا آغاز اس بات سے ہوتا ہے کہ عبداللہ کا انتقال ہوچکا ہے اور وہ عالم برزخ میں قیامت کا انتظار کرہا ہے۔ ایک دن اس کا ساتھی فرشتہ جس کا نام صالح بیان ہوا ہے اسے بتاتا ہے کہ اسرافیل کو اللہ نے صور پھونکنے کا حکم دے دیا ہے اور کائنات کی بساط لپیٹی جارہی ہے۔ اس کے بعد عبداللہ کو میدان محشر میں لوگوں کی پریشانی کا مشاہدہ کروایا جاتا، ہر زمانے کے کامیاب و ناکام لوگوں سے ملوایا جاتا ہے، اس کے ذہن میں اٹھنے والے سوالات کا جواب دیا جاتا اور خدا کی قدرت، رحمت، غضب اور عنایتوں کا دیدار کروایا جاتا ہے۔










اس ناول کی خوبیوں میں سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ قیامت، محشر، حساب کتاب، جنت، دوزخ اور دیگر متشابہات کو قرآن اور صحیح احادیث کے اجمال کی بنیاد پرپیش کیا گیا ہے۔ بعض پیراگراف تو قرآن و حدیث کے بیان سے اس قدر قریب تر ہیں کہ ان کے آخر میں قرآن و حدیث کا حوالہ تک لکھا جاسکتا ہے۔ مصنف نے حتی الامکان ہر قسم کی فرقہ واریت، اختلافی امور اور فقہی جزئیات سے اجتناب برتتے ہوئے بنیادی عقائد، ایمانیات اور اخلاق کے مسلمہ اصول ہی بیان کئے ہیں۔ بہت سے نازک معاملات کی تشریح مصنف نے ایک معلم کی طرح سہل انداز میں کی ہے تاکہ لوگوں کو ان تعبیرات کی تفہیم میں کوئی دقت نہ ہو۔






اس ناول میں چند ایسی بنیادی خصوصیات موجود ہیں جنہوں نے اس کو پڑھنے والوں کے لیے انتہائی دلچسپ اور معلوماتی بنادیا ہے۔ پہلی یہ کہ ناول کی زبان انتہائی شستہ، آسان اور پر اثر ہے۔ ایک ایسی دنیا جسے کسی نے دیکھا نہ ہو اس کے حالات و واقعات کو انتہائی مہارت کے ساتھ زبان کے قالب میں ڈھالا گیا ہے۔ منظر نگاری کچھ اس طرح کی گئی ہے کہ واقعات ذ ہن کی اسکرین پر چلتے معلوم ہوتے ہیں۔ دوسری یہ کہ تذکیر و نصیحت سے بھرپور اس ناول میں قاری کو کہیں بھی وعظ گوئی کا بھاری پن محسوس نہیں ہوتا۔ تیسری یہ کہ روز آخرت سے متعلق ذہن میں پیدا ہونے والے کم و بیش ہر سوال کا جواب اس ناول میں سہل و آسان انداز میں دیا گیا ہے، مگر کہیں بھی کسی علمی لیکچر کا شائبہ نہیں آتا۔






ان سب چیزوں کے باوجود یہ ناول اول تا آخر ایک ناول ہی ہے، جس کی کہانی میں ناول نگاری کے تمام بنیادی عناصر پوری طرح موجود ہیں۔ مصنف نے اس سنجیدہ اور حساس موضوع میں مزاح، رومانویت، لطیف انسانی جذبوں، رشتوں اور تعلقات کی باریکیوں کو بہت خوبصورت طریقے سے بیان کیا ہے۔ بعض انتہائی نازک مواقع پر بھی شائستگی اور ادب کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا۔ مثلاً حوروں کے حسن کے بیان میں وہ سلیقہ اختیار کیا ہے کہ ان کا سراپا ایک زندہ حقیقت بن کر نظر کے سامنے آجاتا ہے، مگر ذہن کسی شہوت یا نفسانی آلودگی کی جانب مائل نہیں ہوتا۔ یہی تمام وجوہات ہیں کہ قاری ایک مرتبہ ناول شروع کرکے دنیا و مافیہا سے بے خبر ہوکر مختلف کیفیتوں سے گذرتا ہے۔ کبھی وہ روتا، کبھی ہنستا، کبھی خوف خدا سے لرزتا، کبھی اس کی محبت سے سرشار ہوتا اور کبھی جنت کی وادیوں میں کھوجاتا ہے۔ پڑھنے کا اچھا ذوق رکھنے والے کسی قاری کے لیے مشکل ہے کہ وہ اس ناول کی تکمیل میں ایک یا دو نشستوں سے زیادہ لگائے۔






کہانی کا اختتام ایک ایسے پیرائے میں کیا گیا ہے جس سے یہ پرخطر اور اجتہادی کاوش ظاہر پرستانہ انگشت نمائی سے محفوظ ہوگئی ہے۔ مصنف اور ان کے معاونین نے موضوع کو اس طرح چھان پھٹک کر ترتیب دیا ہے کہ اس پر تنقید نہایت مشکل معلوم ہوتی ہے۔ یہ ناول اردو ادب میں ایک انقلابی اقدام ہے۔ لوگ جاسوسی، رومانوی، تاریخی اور دیگر ادب سے تو واقف تھے لیکن یہ ناول اردو ادب میں ایک نئے ادب کی ابتدا ہے جسے ’’اخروی ادب‘‘ کہنا زیادہ موزوں ہوگا۔






یہ ناول محض ایک ناول ہی ہوتا اگر اس کا موضوع آخرت نہ ہوتا لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اس ناول کا تعلق ہر شخص کی زندگی سے براہ راست ہے۔ اسی بات کو مصنف نے کچھ یوں بیا ن کیا ہے: ’’بات اگر صرف اتنی ہوتی تب بھی اس ناول کا مطالعہ دلچسپی سے خالی نہ ہوتا، مگر مسئلہ یہ ہے کہ جلد یا بدیر اس ناول کا ہر قاری اور اس دنیا کا ہر باسی خود اس فکشن کا حصہ بننے والا ہے اور اس کے کسی نہ کسی کردار کو نبھانا اس کا مقدر ہے۔ یہی وہ المیہ ہے جس نے مجھے قلم اٹھا کر میدان میںاترنے پر مجبور کیا ہے‘‘ (صفحہ۹)۔






267 صفحات کا بائبل پیپر پر دیدہ زیب چھپائی کے ساتھ یہ ناول ایک گراں قدر کاوش ہے۔ اپنی ذاتی اصلاح، گھروالوں اور رشتہ داروں کی تربیت اور دوست احباب کو دینے کے لیے یہ ایک بہترین تحفہ ہے۔یہ ناول سوئی ہوئی انسانیت کو جگانے، لوگوں کو اپنے رب کی جانب بلانے، قیامت کی منادی اور اس عظیم دن کی تیاری کے لئے جس دن سب تنہا خدا کے حضور کھڑے ہوکر اپنا مقدمہ پیش کریں گے، ایک بہترین راستہ ہے۔ یہ ناول چیخ چیخ کر لوگوں سے کہہ رہا ہے (شاعر سے معذرت کے ساتھ(


شاید کہ ترے دل میں اتر جائے مری بات


انداز بیاں اب تو بہت شوخ ہے ظالم






پروفیسر محمد عقیل


26 جنوری2011

Followers

Powered By Blogger