Friday, January 21, 2011
Afsana
چاند کا سفر .. اشفاق احمد کا افسانہ
گورنمنٹ کالج کی طرف مراجعت کے کئی راستے ہیں اور سارے راستے اپنے اپنے رخ پر چل کر اس منزل تک پہنچتے ہیں جو ہر ” راوین ” کے من کا مندر ہے ۔ اس منزل تک پہنچنے کے لئے سب سے مشہور، شیر شاہی اور جرنیلی سڑک تو برتری، تحفظ، منفعت اور پاور کی سڑک ہے جس پر جم غفیر رواں ہے ۔ لیکن کچھ راستے جذباتی وادیوں سے ہو کر بھی اس منزل طرف جاتے ہیں۔ہم دونوں کا گورنمنٹ کالج سے بندھن ایک بہت کمزور اور کچے سے دھا گے سے بندھا ہے ۔ ایک گم نام اور بے نام پگڈنڈی ہے جو خود رو جھاڑیوں اور گھنگیرلے رستوں سے الجھ الجھ کر بڑی مشکل سے من مندر تک پہنچتی ہے اور پھر وہاں سے تب تک اٹھنے کو جی نہیں چاہتا جب تک کہ کوئی وہاں سے اٹھا نہ دے ! نکال نہ دے !!
بانو قدسیہ نے اور میں نے گورنمنٹ کالج کو کبھی بھی ایک درس گاہ نہیں سمجھا ۔ نہ کبھی ہم اس کی علمی روایت سے متاثر ہوئے اور نہ کبھی اس کے استادوں کے تجربئہ علمی سے مرعوب ہوئے ۔ اس کی قدامت، اس کی عمارت اور اس کی شخصی وجاہت بھی ہمیں مسحور نہیں کر سکی ____ اس سے کبھی کچھ لیا نہیں ، مانگا نہیں ، دیا نہیں ، دلوایا نہیں ۔ پھر بھی اس کے ساتھ ایک عجیب سا تعلق قائم ہے جسے ہم آج تک کوئی نام نہیں دے سکے ۔ دراصل ہم دونوں گورنمنٹ کالج کو درس گاہ نہیں مانتے _____ اس میں” سین ” کے حرف کو وافر سمجھتے ہیں !
جب ہمارا پہلا بیٹا پیدا ہوا تو ہم سمن آباد میں رہتے تھے اور اپنے مکان کا کرایہ بڑی مشکل سے ادا کرتے تھے ۔ میں ریڈیو میں ملازم تھا اور بانو پشاور کے لئے درسی کتابیں لکھ کر ساٹھ ، ستر روپے مہینہ گھر بیٹھے کما لیتی تھی ۔ بچے کے دودھ کا ڈبہ بیالیس روپے میں آتا تھا اور وہ ایک مہینے میں تین ڈبے ختم کر جاتا تھا ۔ اس زمانے میں مٹی کے تیل کا چودہ بتیوں والا چولہا آگیا تھا اور ہمارا ایندھن کا خرچ کم ہو گیا تھا ۔ بانو جب گو رنمنٹ کالج کی سٹوڈنٹ تھی تو اس کو روٹی پکانی نہیں آتی تھی ۔ میں جب گورنمنٹ کالج میں پڑھتا تھا تو گھر کا سودا لانے کے علم سے نا واقف تھا ۔ شادی کے بعد ہم دونوں نے یہ دونوں فن سیکھ لئے اور ہنسی خوشی رہنے لگے ۔ جب انیق ڈیڑھ سال کا ہوا تو جون کے مہینے میں سخت بیمار ہو گیا ۔ اسے اسہال اور قے کی شکایت ہوئی جو تین دنوں کے اندر اندر بڑھ کر خطرناک صورت اختیار کر گئی ۔ محلے کی بڑی بوڑھیوں کے کئی نسخے آزمائے لیکن کسی سے افاقہ نہ ہوا ۔ بچے کی حالت تشویش نا ک ہو گئی تو ہمیں کسی نے بتایا کہ اسے ڈاکٹر بروچہ کے پاس لے جاؤ ۔ بڑی گرمی میں سہ پہر کے چار بجے ہم ” سالم تانگہ ” کرا کر اسے ڈاکٹر صاحب کے کلینک پر میکلوڈ روڈ لے گئے ۔
ڈاکٹر صاحب نے بچے کو الٹا پلٹا کر دیکھا ۔ اس کی اندر دھنسی ہوئی آنکھوں کے پپوٹے کھول کر معائنہ کیا اور پھر بانو سے مخاطب ہو کر بو لے ” بابا تم لوگ کیسا پیرنٹ ہے جو اب اس کو ہمارے پاس لایا ہے ۔ اس کا میں کیا ٹریٹ منٹ کروں ؟” بانو زور زور سے رونے لگی اور جاہل فقیرنیوں کی طرح ہاتھ باندھ کر سسکیاں بھرنے لگی ۔ اس کے منہ سے کوئی بات نہ نکلتی تھی اور وہ خوف کے مارے روئے جا رہی تھی ___ ڈاکٹر صاحب نے کاؤنٹر پر جا کر پانچ چھ دواؤں کے امتزاج سے دودھیا رنگ کا ایملشن تیار کیا۔ اپنی میز کی دراز سے دس پڑیاں نکال کر دیں اور پھر ایملشن کی ایک خوراک میں ایک پڑیا گھول کر مجھے بچے کو مضبوطی سے پکڑ کر گود میں لٹانے کا حکم دیا ۔ بڑی بے دردی کے ساتھ انہوں نے انیق کے جبڑے میں انگلیاں کھبو کر اس کا منہ کھولا اور دوائی اس کے منہ میں انڈیل دی ۔ بچہ اپنی نحیف آواز میں بڑے کرب کے ساتھ رویا تو میں نے اسے کندھے سے لگا دیا ۔ گود میں لے کر تو میں اسے کھڑا تھا لیکن بانو قدسیہ خوف سے کانپتی ہوئی اسے تھپکے جا رہی تھی ۔ اتنے میں بچے نے منہ بھر کر قے کی —— گرم اور بدبو دار تھوڑی سی میرے کندھے پر گری اور باقی ساری فرش پر ۔
ڈاکٹر صاحب نے جھلا کر کہا ” بابا تم کیسا پیرنٹ ہے، بچے کو سنبھالنا نہیں جانتا ۔ سارا فرش خراب کر دیا ۔ یہ کلینک ہے، کوئی تم لو گ کا گھر نہیں ۔ ” ہم دونوں ہی ڈاکٹر صاحب کی ڈانٹ سے گھبرا گئے ۔ ہمیں ڈاکٹروں کا اور ہسپتالوں کا کوئی تجر بہ نہیں تھا ۔ پھر ہماری مالی حالت بھی معمولی سی تھی ۔ شکل و صورت سے بھی ہم سہم ہی سہم تھے اور بچہ کافی بیمار تھا ۔ بانو قدسیہ نے اپنا آدھا دوپٹہ تو سر پر محفوظرکھا اور با قی کے آدھے دو پٹے سے ڈاکٹر صاحب کا فرش صاف کر نے لگی ۔
اس نے دونوں گھٹنے زمین پر ٹیکے ہو ئے تھے اور بائیں ہاتھ کو آگے ب ھا کر جھکے ہوئے بدن کا سارا بوجھ اس پر تول رکھا تھا وہ روئے بھی جا رہی تھی ، شرمندگی سے سر بھی جھکائے جا رہی تھی اورسسکیوں سے اس کا سارا بدن کانپ رہا تھا ۔ اس نے نارنجی اور کاسنی پھولوں والی قمیض پہنی ہوئی تھی ۔ سبز رنگ کی شلوار تھی اور پاؤں میں ہوائی سلیپر تھے جس میں سے ایک فرش پر ٹاکی مارتے ہوئے اتر گیا تھا ۔
ڈاکٹر صاحب کا فرش پرانی اینٹوں کا تھا جن کا پلستر جگہ جگہ سے اکھڑ چکا تھا ۔ کچھ اینٹیں نیچے کو ہو گئی تھیں، کچھ سیم کی وجہ سے اوپر کو ابھر آئی تھیں ۔ اس اونچ نیچ کے درمیان دوپٹے سے جگہ صاف کرنا مشکل کام تھا لیکن بانو نے اپنے روز مرہ تجربے کے زور پر ساری جگہ اچھی طرح سے صاف کر دی ۔ ڈاکٹر صاحب نے چور آنکھ سے اپنے فرش کو اس کی اصل حالت میں دیکھ کر کہا ” بابا تم کیسا لڑکی لوگ ہے ، سارا دوپٹہ خراب کر لیا ۔ اب اس کو باہر جا کر دھوؤ ۔ا چھی طرح سے صاف کرو، اس میں جراثیم چلا گیا ہے ۔ بچے کے پاس نہیں لانا یہ کپڑا ۔”
میں نے کہا ” ڈاکٹر صاحب باہر نلکا ہے ؟”
کہنے لگے ” کیوں نہیں ہے ۔ یہ ساتھ باجو میں گھوڑوں کے پانی پینے کا حوض ہے نئیں ، اس میں پانی ہی پانی ہے۔ جا کر دھوؤ ۔” میں بچے کو کندھے سے لگا کر کھڑا رہا ۔ بانو نے آدھا دوپٹہ کھیل میں ڈال کر کھنگال لیا ۔
ایسے وقت میں اور اس قدر شدید گرمی میں سڑک کنارے پیدل چلنا تو شاید اس قدر مشکل نہیں تھا لیکن ایک بیمار بچے کو کندھے سے لگا کر کلینک سے ذلیل و خوار ہو کر اور زمین سے بوٹ کے پرانے ڈبے کا گتا اٹھا کر اس سے مریض بچے کے چہرے کو چھاؤں کر کے چلنے میں ہم دونوں ایک دوسرے سے کچے پڑے ہوئے تھے اور شرمندگی کی وجہ سے ہمارے سر اوپر نہیں اٹھتے تھے ۔
سڑک پر کوئی سواری نہیں تھی اور ہمیں بس پکڑنے کے لئے ابھی بہت دور تک چلنا تھا ۔ بچے کا بخار گرمی کی وجہ سے بڑھ رہا تھا اور بانو بار بار اس کے ماتھے اور لٹکتی ہوئی بے جان ٹانگوں کو چھو رہی تھی کہ بخار ہو رہا ہے یا بڑھ رہا ہے ۔
اس دھوپ اور گرمی میں ہم اسی طرح سے چلتے رہے، تھکے تھکے، خوف زدہ، مایوس، بے مراد اور اکیلے ۔ بیمار بچے نے کئی مرتبہ آنکھیں کھولنے کی کوشش کی لیکن گرمی کی شدت اور روشنی کی چلکور نے اس کے پپوٹے کھلنے نہ دئیے ۔ ہم چلتے چلتے، سو چتے سو چتے، چپ چپاتے جی پی او کے پاس پہنچ گئے ۔ یہاں تار گھر کے پاس کئی تانگے کھڑے تھے۔ درخت کی چھاؤں تلے بیمار بچے نے آنکھیں کھول کر ایک سفید گھوڑے کو بڑی دلچسپی سے دیکھا اور اپنا ڈولتا ہوا سر ساکن کر لیا ۔ میں نے تا نگے میں بیٹھتے ہوئے کہا ” گورنمنٹ کالج ” اور بانو حیرانی سے میرا منہ تکنے لگی ۔
کالج چھٹیوں کی وجہ سے بند تھا ۔ پرندے شاخوں میں چھپے ہو ئے تھے ۔ اونچی بلڈنگ کے سائے دور دور تک پھیل کر درختوں کے سائے سے مل گئے تھے ۔ سارے میں ایک خوشگوار خاموشی کی خوشبو پھیلی ہوئی تھی ۔ ہم اپنے کلاس روم کی سیڑھیوں پر بیٹھ گئے ۔ انیق بانو کی گود میں لیٹا ہوا ایک اونچے درخت کی شاخوں کو دیکھ رہا تھا ۔ میں نے جھک کر اس کی آنکھوں کو قریب سے دیکھنا چاہا تو مجھے بانو کے دوپٹے سے کھٹی کھٹی بو سی آئی ۔ میں نے بچے کے چھوٹے سے ماتھے پر اپنا بڑا سا تھکا ماندہ چہرہ رکھا تو مجھے ایک بیمار سی ٹھنڈک کا احساس ہوا ۔ بچے نے مسکرا کر اپنی ماں کی طرف دیکھا تو ماں کی جنت گم گشتہ لوٹ کر اس کی جھولی میں آ گئی ۔ بانو نے اس کے پاؤں کو ، ماتھے کو اور گلے کو چھو کر خوشی سے میری طرف دیکھا اور کہا ” بالکل خواجہ منظور کی طرح مسکرایا ہے ” خواجہ صاحب اپنی ساری زندگی میں صرف ایک بار مسکرائے ہوں گے لیکن بانو کے ذہن میں ان کی مسکراہٹ ہمیشہ کے لئے سٹل ہو کر ایک فریم میں جڑی جا چکی تھی ۔ پھر ہمارے ذہنوں میں اپنے ایام طالب علمی کا ایکشن ری پلے شروع ہو گیا اور طوطے اپنی چونچوں میں ڈالیاں پکڑ کر ہاتھ چھوڑ کر کرتب دکھلانے لگے ۔
بیمار بچہ اپنی ماں کی گود سے پھسل کر پہلے ایک سیڑھی پر کھڑا ہوا ۔پھر ہاتھ پکڑ کر دوسری پر اترا اور پھر خود ڈگمگاتے قدموں سے روش پر چلا گیا ۔ وہ کوئی ڈیڑھ گز تک ایک طرف اور کوئی دو گز کے قریب دوسری جانب چلا اور پھر تھک کر زمین پر بیٹھ گیا ۔
ابھی ہمیں سیڑھیوں پر بیٹھے تھوڑی دیر ہی ہوئی تھی کہ نیلی پگڑی باندھے اور ہاتھ میں چابیوں کا مو ٹا سا گچھا اٹھا ئے ایک شخص ہمارے طرف آیا اور قریب آ کر پوچھنے لگا ” کون لوگ ہو تم ”
میں نے کہا “ہم لوگ ہیں ۔”
اس نے کہا ” یہاں آنے کا اور بیٹھنے کا حکم نہیں ہے ۔”
میں نے کہا ” کس کا حکم نہیں ؟”
” پرنسپل صاحب کا ” اس نے درشت لہجے میں کہا اور ہمیں ہاتھ کے اشارے سے اٹھانے لگا ۔ میں کہنے والا تھا کہ بانو نے ہاتھ کے اشارے سے مجھے منع کر دیا ۔ پھر اس نے آگے بڑھ کر زمین پر بیٹھے ہو ئے اپنے بچے کو اٹھایا اور آہستگی سے چلنے لگی ۔ میں بھی خاموشی سے اس کے ساتھ ہو لیا اور ہم تینوں آہستہ آہستہ پھاٹک کی طرف بڑھنے لگے ۔ ہم آگے کو جا رہے تھے اور گورنمنٹ کالج پیچھے کو ہٹا جا رہا تھا ۔ ہم نے پیچھے مڑ کر تو نہیں دیکھا لیکن ہمیں پتہ چل رہا تھا کہ ہمارے درمیان فاصلہ بڑھ رہا ہے ۔ کئی بے ہو دہ، نکمے، بد ہیت اور بے کار لوگ در گاہوں سے اٹھا دئیے جاتے ہیں اور ان کے بعد فرش دھلا دئیے جا تے ہیں —— لیکن ان کے دلوں کے فرش پر درگاہوں کی مورتیں ویسے ہی قائم رہتی ہیں ۔
اصل میں گورنمنٹ کالج تک پہنچنے کے کئی راستے ہیں ۔ اس کی طرف رخ نہ بھی ہو تو بھی یاتری اسی کی طرف کا سفر ہی کر رہے ہو تے ہیں ۔ کہتے ہیں جب Space Shuttle زمین سے چاند کی طرف چھوڑا جاتا ہے تو اس کا رخ چاند کی طرف نہیں ہوتا ، پھر بھی اس کا سفر چاند ہی کا ہوتا ہے اور اس کی منزل چاند ہی ہوتی ہے
۔ –
غبارہ
سعید جاوید مغل
گھر کے صحن کے اندر بچھی ہوئی چارپائی پر بیٹھا نوجوان کسی لمبی فکر میں ڈوبا ہوا تھا۔ پاس ہی اس کی نوجوان بیوی گھر کے کام کاج میں مصروف تھی۔ اچانک باہر گلی سے اس کی بچی دوڑی دوڑی صحن میں داخل ہوئی اور باپ کے گلے میں باہیں ڈال کر پیار سے کہا بابا باہر گلی میں غبارہ بیچنے والا آیا ہوا ہے آپ مجھے آٹھ آنے دیں میں نے غبارہ خریدنا ہے۔سعید جاوید مغل
باپ نے بچی کے رخسار پر پیار کیا اور کہا کہ ابھی تو میرے پاس آٹھ آنے نہیں ہیں مجھے تھوڑی دیر کے بعد ایک ضروری کام کو جانا ہے وہاں سے واپسی پر آکر آپ کو آٹھ آنے دوں گا تو پھرآپ اس سے اپنے لئے غبارہ خرید لینا۔ یہ بات کہہ کر جب وہ کھڑا ہونے لگا تو بچی پیچھے ہٹ گئی اور وہ باہرکے دروازہ کی طرف جب بڑھا۔ بیوی نے پیچھے سے آواز دی کہ آپ کہاں جا رہے ہیں تو اس کے باہر کی دروازہ کی کنڈی کو کھولتے ہو ئے کہا کہ ضروری کام کے لئے جا رہا ہوں ابھی تھوڑی دیر میں واپس آ جاؤں گا۔ بیوی یہ جواب سن کر دوبارہ گھر کے کام کاج میں مصروف میں مصروف ہو گئی۔ بچی دروازہ کو کھول کر باپ کو جاتے ہوئے دیکھ رہی تھی جب باپ اپنی گھرکی گلی پار کر گیا توبچی باہر کے دروازہ کوبند کر کے اپنی ماں کے پاس اپنی گڑیا سے کھیلنے لگی۔
کافی وقت گزر گیا لیکن نوجوان واپس نہ آیا۔ بیوی بار بار دروازے کی طرف دیکھتی جا رہی تھی۔ آج بچی بھی کافی بے چین تھی کیونکہ اس کا والد اتنی دیر باہر نہیں ٹھہرتا تھا ۔ وہ کتنی دفعہ باہر کا دروازہ کھول کر گلی میں جھانک چکی تھی کہ کہیں سے اس کو اس کا باپ آتا ہوا دکھائی دے۔شام ہونے کو قریب تھی کہ باہر کا دروازہ کھلا اور نوجوان گھر کے اندر داخل ہوا۔ آج وہ شکل سے بہت ہی تھکا ہوا لگ رہا تھا۔ بیوی بے شمار سوال کر رہی تھی کہ آپ کہاں تھے؟ اتنی دیر آپ نے کہاں لگائی ہے اور کھانا بھی آپ کے انتطار میں ٹھنڈا ہو گیا ہے ۔ بچی بھی آپ کے انتظار میں تھک کر سو گئی ہے۔ وہ ساری باتیں سن رہا تھا اور وہ اسی چارپائی پر بیٹھ گیا جس پر اس کی بچی سو رہی تھی۔ اس نے بچی کے سر پر ہاتھ پھیرا اور بیوی سے ایک گلاس پانی مانگا۔ بیوی فورا دوڑ ی گئی اور پانی کا گلاس لے کر اس کے پاس آ گئی۔ نوجوان نے بیوی کے ہاتھ سے گلاس پکڑ کر ابھی چند گھونٹ ہی پیئے تھے کہ چکرا کر زمین پر گر پڑا اور وہ بے ہوش ہو گیا۔ یہ دیکھ کر بیوی کی چیخیں نکل گئیں اور وہ بھاگی بھاگی ساتھ کے گھر کے اندرداخل ہوئی اور رو رو کر بتانے لگی، یہ گھر اس نوجوان کے بڑے بھائی کا تھا ۔ نوجوان کا بڑا بھائی فوراً ہی اپنی بھاوجہ کے ساتھ آیا اور لوگ بھی چیخ وپکار سن کر گلی میں جمع ہو گئے۔نوجو ان کا بھائی گھر سے باہر آکر بولا ہے کوئی جو اس گلی کی نکڑپر موجود کلینک کے ڈاکٹر کو بلا کر لا سکے، پاس کھڑے ایک لڑکے نے جواب دیا تایا میں جاتا ہوں اور وہ بھاگ کر ڈاکٹر کو بلانے چلا گیا اورڈاکڑ فورا ہی اس لڑکے ساتھ آگیا۔ ڈاکٹر نے اس جب اس کو چیک کیا تو بولا آپ اس کو فورامیو ہسپتال لے جائیں دیر نہ کریں۔ لوگ بھاگ کر گئے اور آٹورکشا لے آئے، نوجوان کو اس میں ڈالا اور میو ہسپتا ل کی طرف چلنے کے لئے رکشا ڈرائیور کو کہا، رکشا ڈرائیور ساری سیچوئیشن کو سمجھ گیا اور وہ اپنی پوری مہارت کا مظاہرہ کرتے ہوئے بغیر تاخیر کے اس کولے کر ہسپتال پہنچ گیا۔ ایمر جنسی میں مریض کو لیجایا گیا اور تھوڑی دیر کے بعد ڈاکٹروں نے اس کی موت کو کنفرم کر دیا۔بڑا بھائی جب چھوٹے بھائی کی میت کو لے کر ایمرجنسی سے باہر آیا تو کافی لوگ وہاں آ کر جمع ہو گئے کہ اچانک ان سے ایک بولا، اوئے لالہ حمید اس آدمی کو دیکھو جو فوت ہو گیا ہے، یار یہ پیشہ وار خون بیچنے والا ہے۔ یہ تو اکژ یہاں آکرضرورت مند لوگوں کے پاس خون بیچتا تھا۔ بڑے بھائی نے یہ سن کر غصہ سے کہا تم کیا بکواس کر رہے ہو؟یہ سن کر اس آدمی نے کہاآپ اس لالہ حمید سے خود پوچھ لیں۔ اس آدمی نے ایک آدمی کی طرف اشارہ کر کے کہا اور لالہ حمید نے بھی اس کی تصدیق کر دی۔ اس کے بعد ہر طرف خاموشی چھا گئی۔ بڑا بھائی چھوٹے بھائی کی میت کو لے کر جب گھر واپس آیا تو نوجوان کی بیوی پر سکتہ طاری ہو گیا اور وہ پاگلوں کی طرح ہر ایک کو گھور رہی تھی۔ لوگ نوجوان کے بھائی کو کہہ رہے تھے کہ جو اللہ کو منظور تھا۔
میت کو جب نہلانے کا وقت آیا تو نہلانے والوں نے دیکھا کہ میت کا ایک کا ایک ہاتھ تو کھلا ہوا ہے لیکن دائیں ہاتھ کی مٹھی بھینچی ہو ئی ہے انہوں نے ذرا زور لگا کر ہاتھ کو کھولا تو اس کے اندر آٹھ آنے کا سکہ تھا۔ یہ وہ سکہ تھا جو وہ اپنی بیٹی کو غبارہ خریدنے کے لئے نہ دے سکاتھا۔
اس دنیا سے رخصت ہونے والا یہ نوجوان سعودی عرب میں 8سال گزارنے کے بعد چند سال پیشتر ہی طائف سعودی عرب سے واپس پاکستان گیا تھا کیونکہ کمپنی کے پروجیکٹس مکمل ہو گئے تھے اورابھی نئے پروجیکٹس نہیں مل رہے تھے۔ اس لئے اس نے فیصلہ کیا کہ وہ وطن واپس چلا جاتا ہے۔ وہ رات دن یہاں کام کرتا رہا اور سمجھ رہا تھا کہ اب وہ اتنے پیسے پاکستان بھیج چکا ہے کہ واپس جاکر کوئی اچھا سا کام کر سکتا ہے لیکن جب وہ واپس پاکستان گیا تو اسے معلوم ہوا کہ س کے بھیجے ہو ئے روپئے اس کے بھائی کھاتے پیتے رہے ہیں اور ان کے پاس اس کے بھیجے ہوئے روپوں میں سے کچھ بھی باقی نہیں بچا ہے ۔ اس کے پاس جو کچھ جمع پونجی باقی بچی ہوئی تھی اس سے وہ کیا کام کرے اس کی اس کو خود سمجھ نہیں آ رہی تھی۔ چنانچہ چند سالوں میں جمع پونجی بھی خرچ ہو گئی اور نوبت یہاں آگئی کہ جب وہ گھر کے اخراجات سے وہ پریشان ہو تا تو اپنا خون میو ہسپتال کے باہر چند سو روپئے کے عوض ضرورت مندوں کے ہاتھوں بیچ کرگھر آ جاتا۔ اس کے ساتھ ہی اس کی کوشش بھی تھی کہ وہ ایک بار پھر باہر پردیس چلا جائے۔ اس کے لئے وہ اکژ ملک سے باہر بھیجنے والوں کے دفتر کے چکر کاٹتا رہتا تھا۔
منیڈیٹ بھی آیا، عوام کے سر چشمہ والی حکومت بھی آئی لیکن اورسیز پاکستانیوں کے لئے نہ تو کوئی اورسیزخواتین یونیورسٹی اور نہ ہی اورسیز میڈیکل کالج بنا۔ حکومتیں آئیں اوران اورسیز پاکستانیوں کے ہاتھوں میں لالی پاپ دے کر ان کے سر پر ہاتھ پھیرتی رہیں۔
ہم لوگ جو سال ہا سال سے اپنے ملک سے باہر محنت کر رہے ہیں، ملک کو زر مبادلہ بھیج رہے ہیں۔ کیا ہمارے لئے کوئی ایسا متبادل پروگرام کسی کے پاس نہیں کہ ہمارا مستقبل محفوظ ہو جائے اور ہمارے مٹھی میں اتنے پیسے ہوں کہ ہم اپنے بچوں کی خواہش پر ان کو آٹھ آنے کا غبارہ ہی خرید کر دے سکیں؟
Subscribe to:
Posts (Atom)