Friday, March 25, 2011

ایک انوکھا سرقہ’قصہ ایک مناجات کی چوری کا‘

ایک انوکھا سرقہ’قصہ ایک مناجات کی چوری کا‘

مطیع الرحمن عزیز(دہلی)

 اردو شاعری کی تاریخ میں ایسے کئی واقعات ہیں کہ کسی نے مشاعرہ میں کسی دوسرے شاعر کا کلام اپنے نام سے سنا دیا۔بعض اوقات ایسے لطیفے بھی ہوئے کہ صاحبِ صدر یا مہمانِ خصوصی کا کلام پڑھنے والے نے دیدہ دلیری کے ساتھ اپنے نام سے سنا دیا۔اب چونکہ اخبارات،کتابوں اور رسالوں کے ذریعے اشاعت کے وسیع مواقع سامنے آگئے ہیں تو دوسروں کا کلام اپنے نام سے چھپوانے والے بھی دیدہ دلیری کے ساتھ یہ کام کر رہے ہیں۔ہم اس وقت سائبر عہد میں جی رہے ہیں۔یہاں کسی کی معمولی سے معمولی یا بڑی سے بڑی کوئی چوری بھی زیادہ دیر تک چھپی نہیں رہ سکتی۔پھر سمجھ میں نہیں آتا کہ چوری کرنے والے لیے ایسا کام کیوں کرتے ہیں جس کا انجام آخر کار شرمندگی اور رسوائی ہی ہوتا ہے۔اس سلسلہ میں شاعری چوری کرنے کی بے شمار مثالوں کے ساتھ نثر چوری کرنے کی بھی کئی مثالیں دی جا سکتی ہیں۔لیکن میں طوالت سے بچنے کے لیے آج صرف ایک چوری کا ذکر کروں گاجو اس لحاظ سے انوکھی ہے کہ یہ کسی غزل یا نظم کی نہیں بلکہ”مناجات بدرگاہ قاضی الحاجات“کی چوری کا قصہ ہے۔ حمد،نعت و مناجات کا سلسلہ شاعرانہ قابلیت جتا کر شہرت سمیٹنے سے زیادہ اللہ اور اس کے رسول کی رضا و خوشنودی سمیٹنے سے تعلق رکھتا ہے۔اب کیا چوری کے کلام سے اللہ اور اس کے رسول کو خوش کیا جا سکتا ہے؟
مناجات کے سرقہ کی تازہ واردات کی نشان دہی سے پہلے بتانا چاہوں گا کہ میرے والدِ بزرگوارعزیزالرحمن عزیز سلفی صاحب ایک عرصہ سے شعر موزوں کرنے کا شغف رکھتے تھے۔میں نے ان کا کلام جمع کرکے اور اسے مناسب طریقے سے ترتیب دے کر گزشتہ برس جنوری ۰۱۰۲ء(محرم الحرام ۱۳۴۱ھ)میں شائع کرایا تھا۔اس مجموعہ کا نام”پرواز“ ہے اور اسے دہلی کے معروف اشاعت گھر ایجوکیشنل پبلشنگ ہاو¿س نے شائع کیا تھا۔اس مجموعہ کے صفحہ نمبر ۵۴ پر ان کی ایک مناجات بہ عنوان ”مناجات بدرگاہ قاضی الحاجات“(۷جولائی ۸۷۹۱ئ)شامل ہے۔جس کے سات اشعارپیش ہیں۔
اے خدائے دوجہاںلم ےزل،مرے جرم پر نہ عذاب دے
تو غفور ہے تو رحےم ہے، نہ جہنمی کاخطاب دے
مےں فقےر بےکس و بے نوا، مےں نحےف لاغر و ناتواں
مری منزلےں ہےںکٹھن بہت، مرے عزم مےںتب وتاب دے
بھرا ظلمتوںسے ہے ےہ جہاں، نہےںراہ مےںکوئی روشنی
تری راہ جس سے مےںپاسکوں،مرے ہاتھ مےںوہ شہاب دے
وہ گھڑی کہ عالم حشر مےں، ملے آدمی کو کتابچہ
کرم اے خدا مرے حال پر، مرے داہنے مےںکتاب دے
اے شہنشہِ ارض وسما، تری بارگہ مےں ہے التجا
مری لغزشوں کو معاف کر، مری نےکےوںکاثواب دے
مری جستجو مری آرزو، مری زندگی مری بندگی
مےںبھٹک رہا ہوںتودرپہ لا، نہ عتاب کر نہ عتّاب دے
مےںعزےز ہوں تو عزےزگر، مےں ہوں تشنہ لب تو خےال کر
ترا عشق جس سے نکھر سکے ، وہی جام دے وہ شراب دے
   نہایت افسوس کے ساتھ مجھے یہ بتانا پڑ رہا ہے کہ اس مناجات کو عبدالرب ثاقب صاحب نے ”مرے جرم پر نہ عذاب دے“کے عنوان کے ساتھ شائع کرایا ہے۔کمال یہ ہے کہ مناجات کے آخری شعر میں جہاں عزیزالرحمن عزیز سلفی صاحب نے اپنے نام کی مناسبت سے ”مےںعزےز ہوں تو عزےزگر“کہہ کر مقطع میں تخلص کا ستعمال کیاہے،عبدالرب ثاقب صاحب نے اسے بھی جوں کا توں اڑا لیا ہے۔اس سے بھی زیادہ افسوس کی بات یہ ہے کہ اس مناجات کی چوری کی واردات کرنے والے دوست نے جمعیت اہل حدیث کے پندرہ روزہ اخبار”ترجمان“دہلی میں اسے شائع کرایا ہے۔ایک بار نہیں بلکہ دو بار۔پہلے یکم جنوری تا ۵۱جنوری ۱۱۰۲ءکے شمارہ میں اور پھر ۶۱ تا ۱۳ مارچ ۱۱۰۲ءکے شمارہ میں ۔اس طرح کے سرقے زیادہ دیر تک چھپ نہیں سکتے تو عبدالرب ثاقب صاحب نے اپنے آپ کے ساتھ ایسی زیادتی کیوں کی؟
  میں ریکارڈ کی درستی کرنے کے ساتھ امید کرتا ہوں کہ عبدالرب ثاقب صاحب اپنے اس انوکھے سرقہ پر کھلے عام معافی مانگیں گے اور جمعیت اہل حدیث کے اخبار”ترجمان“دہلی میں بھی اس پر معذرت شائع کرکے اصل حقیقت آشکار کی جائے گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

No comments:

Post a Comment

Followers

Powered By Blogger