ساقی کا شوربہ
ساقی فاروقی کی خودنوشت ''آپ بیتی/پاپ بیتی''پر ایک بے تکلف تبصرہ
اجمل کمال
ساقی فاروقی کی خودنوشت ''آپ بیتی/پاپ بیتی'' کراچی کے رسالے ''مکالمہ'' اور بمبئی کے رسالے ''نیاورق'' میں قسط وارچھپنے کے بعد پچھلے دنوں کراچی سے شائع ہوئی ہے۔ (اس کتاب کے آخری صفحے پر اطلاع دی گئی ہے کہ یہ پہلی جلد ہے اور پڑھنے والوں کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ دوسری جلد کا بے چینی سے انتظار شروع کر دیں۔)اس سے پہلے تقریباًاسی عنوان سے اشفاق نقوی کی خودنوشت ''پاپ بیتی'' (ذیلی عنوان: ''ایک اور طرح کی آپ بیتی'') لاہور سے شائع ہو چکی ہے۔ چونکہ دونوں کتابوں کے مصنفوں نے یہ عنوان مشتاق احمد یوسفی کے ایک مشہور فقرے سے اٹھایا ہے، اس لیے پڑھنے والوں کے لیے اس بات کی کوئی خاص اہمیت نہیں رہتی کہ یوسفی لنگرسے ان دونوں عاجزوںمیں سے کس نے پہلے لقمہ گیری کی اور کون چبائے ہوے نوالے کا سزاوار ٹھہرا۔ البتہ یہ بات سوچنے کی ہے کہ یوسفی کی تراشی ہوئی اس اصطلاح پر (جو اپنے سیاق و سباق سے الگ کیے جانے پر کسی قدر ماند پڑ جاتی ہے)اس پُرجوش چھیناجھپٹی کی وجہ کیاہے۔ایک وجہ یہ ممکن ہے کہ جوش ملیح آبادی کی ''یادوں کی برات'' کے بعد سے اردو کے 'خودنوشت بازوں' میں خود پر انواع واقسام کی تہمتیں لگانے اور اپنے آپ کو 'پاپ کی گٹھڑی' بنا کر پیش کرنے کا چسکا زوروں پر ہے۔
راجندرسنگھ بیدی نے اپنے مضمون ''آئینے کے سامنے'' کے سرنامے کے طور پر یہ جملے لکھے تھے: ''فادر روزاریو نے گناہ گار جاہن سے کہا: تم یہاں اعتراف کرنے آئے تھے، مگرتم نے تو ڈینگیں مارنی شروع کر دیں۔''خودنوشتوں اور یادداشتوں میں ڈینگیں مارنا یعنی اپنی جنسی کامرانیوں کے اصلی یا تخئیلی قصے لکھناظاہر ہے بلاجواز نہیں ہوتا۔ ایک تو زیادہ سے زیادہ ہستیوںسے ہم بستری کی تفصیلات (بشرطیکہ تحریر کی خوبی بھی شامل حال ہو)روایتی طور پر پڑھنے والوں کی بڑی تعدادکومتوجہ اورراغب کرنے کا امکان رکھتی ہیں۔ دوسرا جواز یہ ہے کہ ان حکایاتِ لذیذکی بدولت خودنوشت ہم چشموں میں (خصوصاً ہم عمر ہم چشموں میں) رشک کے جذبات ابھار کر مصنف کے نفسِ امارہ کی تسکین کا ذریعہ بنتی ہے۔تاہم، ان دونوں باتوں کا اطلاق ساقی کی کتاب پر قطعی نہیں ہوتا۔
کتاب کی پشت پر ساقی کی اہلیہ گن ہلڈ (یعنی ان کے عزیز دوستوں کی گنڈی بھابی) کی اتاری ہوئی ایک تصویر شائع کی گئی ہے جس میں وہ خود کپڑے اتارے ،جگ وائن کی ایک 'گدّر' گول مٹول بوتل کو ایک ہاتھ سے دبوچے بیٹھے، چشمے کی اوٹ سے کیمرے کو تاکتے دکھائے گئے ہیں۔ دوسرا ہاتھ میز پر دھرا ہے۔ ان میں سے کسی ہاتھ کو جنبش ہے یا نہیں، اس کا پتا ساکت تصویر سے نہیں لگتا (غالباً نہیں ہے، ورنہ ساغربھرا ہوا کیوں دکھائی دیتا) لیکن چشمہ لگی آنکھوں میں یقینا کچھ نہ کچھ دم معلوم ہوتا ہے۔ عریانی اور شراب سے لبریز یہ تصویر کتاب کے مشمولات کے بارے میں کچھ اس قسم کی توقعات ضرور بیدار کرتی ہے جیسی ان کا حاصلِ کلام شعر (یار زنا بھی اچھی چیز، نشہ بھی اچھی چیز/دونوں اچھی چیزیں باری باری کیا کرو)، لیکن ان کی خودنوشت ان توقعات کو اسی حد تک پورا کرتی ہے جس حد تک مذکورہ بالا شعر غزل کے تقاضوں کو۔ کتاب پڑھنے پر ان کی تحریر کی اگر کوئی منفرد خصوصیت نمایاں طور پر سامنے آتی ہے تووہ ان کا بڑبولاپن ہے جس کا اظہار وہ اپنے اس قبیل کے بیانات میں کرتے ہیں: ''یہ تو سچ ہے کہ میں نے ایک بھرپور زندگی گزاری ہے اور اپنے ہم عصروں کے مقابلے میں شاید کچھ زیادہ ہی بھرپور، مگر... '' وغیرہ (13) اور یہ کہ ''اردو کے مرحومین اور'موجودین' ادیبوں میں شاید میں واحد آدمی ہوںجس نے مذہب اور جنس کے مسائل پر، بلاخوف و خطر، نہایت تفصیل سے اور خاطرجمعی سے، اپنے سوچ بچار کی روشنی میں، اپنی آرا کا تحریراً اظہار کیا ہے۔'' (50)لیکن ساقی کے ان مجرد دعووں کو (مجرددونوں معنوں میں) نظر انداز کیے ہی بنتا ہے، کیونکہ کتاب کے متن سے اس قسم کی کسی شے کی تائید نہیں ہوتی۔
مذہب کے شعبے میں ساقی کی ایک عظیم واردات پر تبصرہ ذرا آگے چل کر ہو گا، مگرجہاں تک ان کی بیان کردہ جنسی کارگزاری کا تعلق ہے وہ، اٹھارہ معاشقوں والے شاعرِانقلاب کا کیا ذکر،ساقی کے بہت سے ہم عصروںکے مقابلے میں بھی انّیس ہی نظر آتی ہے۔ ان نیم پیشہ ور خواتین کو چھوڑ کر جن میں سے ایک کو حیدرآباد (سندھ) کے ایک خستہ حال ہوٹل میں بقول خود ''آٹوگراف دیتے ہوے'' وہ پکڑے گئے تھے(136)، ان کی یادداشتوں میں ان کی صرف ایک ''معشوقہ'' کاتفصیلی ذکر ملتا ہے جو اُن کے ایک''نہایت عزیز دوست کی بیوی بھی تھیں (بلکہ اب تک ہیں)'' (118)اورجن کے ساتھ انھیںکوئی چھ آٹھ مہینے تک گنڈے دار ہم بستری کرنے کا موقع ملا۔ لیکن ایک تو بقول خودساقی کے، '' اس میں حاشاوکلا میرا کوئی قصور نہیں۔میں تو ایک معمولی اناڑی کنوارا تھا اور عضوِ شرم کو صرف قارورے اور خودوصلی کے لیے استعمال کرتا تھا ۔ مگر اس 'عفیفہ' نے پہلی بار دوسرے مصارف بھی بتائے...'' (120) دوسرے یہ کہ زلفِ بھاوج کے تنہا ساقی ہی اسیر نہ تھے، ان کے کئی دیگر عزیز دوست بھی ان کے زلف شریک بھائی تھے، گویا یہ ایک قسم کی برادرانہ یا جماعتی سرگرمی تھی (یا صالحین کا ورزشی وتربیتی کیمپ کہہ لیجیے) اور اوپر کے اقتباس کی روشنی میں اسے پورا کا پورا ساقیِ بے قصور کے کھاتے میں ڈالنا انصاف سے بعید ہو گا۔ اسی اقتباس میں ''خودوصلی'' کی دلچسپ ترکیب برتی گئی ہے، جو مشت زنی کے عملِ صالح کے لیے ساقی نے خود وضع کی ہے؛ یہ صرف ان کی زبانی اختراع نہیں، خودنوشت میں اس کے ذکر کی تکرار سے معلوم ہوتا ہے کہ اسے کم و بیش ان کے ضابطہئ حیات کا درجہ حاصل رہا ہے۔اس ''سیردستی'' کے علاوہ اگر ان کی نظم و نثر میں کسی مشغلے کا ذکر تکرار سے ملتا ہے تووہ ''سیرچشمی'' یعنی اپنی نظر کے دائرے میں آنے والی عفیفاؤں سے (بلااجازت بلکہ اکثران کے علم میں لائے بغیر) نظربازی کا مشغلہ ہے (اور تو یاں کچھ نہ تھا، ایک مگر دیکھنا)۔خلاصہ یہ کہ ساقی کی بزعم خود پاپ بیتی سے معلوم ہوتا ہے کہ شاعری کے شعبے کی طرح اس میدان میں بھی ان کی کارکردگی معاصراوسط سے گری ہوئی ہی رہی (تہذیب اور ذوقِ جمال سے گرے ہوے ہونے کی بات کو فی الحال جانے دیجیے)۔اس کے پیش نظر اگر وہ اپنے جنسی عضو کو ''عضوِ شرم'' کا نام دیتے ہیں تو کیا غلط کرتے ہیں۔
لیکن جیسا کہ چیک ناول نگار میلان کنڈیرا نے 1984کے لگ بھگ ایک انٹرویو کے دوران اپنے ناولوں میں تفصیل سے بیان کردہ جنسی عمل کے مناظر کی بابت ایک سوال کے جواب میں کہا تھا، ''ان دنوں جب جنسیت پر کوئی پابندی باقی نہیں رہی، محض بیان، محض جنسی اعتراف، اپنی کشش کھو بیٹھا ہے، اور طبیعت اکتا جاتی ہے...میرے خیال میں جسمانی محبت کے منظر سے ایک بہت تیز روشنی پھوٹتی ہے جو بالکل اچانک طور پر کرداروں کا سارا ذاتی جوہر منکشف اور ان کی وجودی صورت حال کا لب لباب پیش کر دیتی ہے۔'' (ترجمہ: محمد عمر میمن؛''آج: دوسری کتاب''، کراچی، 1987) تاہم بیانیے سے یہ تخلیقی کام لینے کے لیے زندگی کا جو تجربہ اورتخیل اور زبان پر جو قدرت درکار ہے اس کی امید ساقی فاروقی جیسے 'نابالغہئ روزگار' سے وابستہ کرنا ایسا ہی ہے جیسے ان کے ایک معزز ہم عصر اورفیڈرل بی ایریا کے ملک الشعرا استاد محبوب نرالےؔ عالم کے کلام میں میرتقی میر کی سی دقیقہ رسی پانے کی توقع کی جائے۔اس کے کئی اسباب ہیں۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ ساقی کے مزاج کو کلیشے سے غیرمعمولی طبعی مناسبت ہے، تصورِدنیا (worldview) اور زبان کے استعمال دونوں کے لحاظ سے۔ جہاں تک زبان کا سوال ہے ان کی زیرتبصرہ خودنوشت میں واہ رے میں، واہ رے وہ، اجمال کی تفصیل، جل تو جلال تو، اﷲ دے اور بندہ لے،غلط آسن، سہاگن،بے چاری فاختہ، گدّرگدّر، ہلکورے لینا، ڈہک ڈہک کے رونا جیسے سوکھے جھاڑجھنکاڑ کی اتنی افراط ہے کہ پڑھتے ہوے طبیعت بے طرح الجھنے لگتی ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ مصنف نے نثر لکھنے کی ابتدائی تربیت سعید امرت یا اسی سطح کے کسی اور عظیم فنکار کے قدموں میں بیٹھ کر حاصل کی ہے۔ نتیجہ یہ کہ جب کبھی کسی کردار کا نقشہ یا کسی صورت حال کا منظر کھینچنے کی مہم درپیش ہوتی ہے تو ساقی اس سلسلے میں بالکل بے دست وپا دکھائی دیتے ہیں۔اہم اور غیراہم تفصیلات میں تمیز نہ کرنا، وقت بے وقت یاد آ جانے والے کسی بھی اچھے برے (زیادہ تر برے) مصرعے یا شعرکو، موقع محل کا لحاظ رکھے بغیر، بے دھڑک کسی بھی جملے کے بیچوں بیچ ٹھونک دیناوغیرہ ان کی نثر کی عام خوبیاں ہیں۔ رہا ان کا تخیل تو وہ اس قدر کند بلکہ کھٹّل ہے کہ پرانے دھرانے، پٹے اور پچکے ہوے سانچوں سے باہر جھانکنے کی سکت ہی نہیں رکھتا۔البتہ ان کے اسلوب کی سب سے نمایاں بات ان کی بدزبانی ہے جسے وہ بیان کی رنگینی سمجھ کر اتراتے ہیں اور جو بعض موقعوں پر چرکینی سے لگّا کھانے لگتی ہے۔ (واضح رہے کہ یہاں اشارہ محض تشبیہ و استعارہ کے متعفن ہونے کی طرف ہے، زبان کے تخلیقی استعمال کی مہارت کی جانب نہیں، جس میں چرکین مرحوم کا رتبہ ظاہر ہے ساقی جیسوں سے کہیںبلند ہے۔)
یہ بدزبانی ایک ایسی خصوصیت ہے جسے وہ (علاوہ اور چیزوں کے) کراچی کے اس ریڈیائی و ادبی گروہ کے متعدد ارکان کے ساتھ مشترک رکھتے ہیں جس کے سرگروہ سلیم احمد تھے ، البتہ کچھ عرصہ پہلے تک اس میدان میں سلیم احمد کے برادرِخورد شمیم احمد کو پورے گروہ میں اولیت کا شرف حاصل تھا۔ ساقی کی تصنیفِ غیرلطیف کو پڑھ کر اندازہ ہوا کہ کریہہ اللسانی کے اس مقابلے میں انھوں نے نہ صرف اپنے بزعم خود رقیب (دراصل بھاوج شریک بھائی) کو گزوں پیچھے چھوڑ دیا ہے بلکہ کہیں کہیں تو، مشفق خواجہ کے الفاظ میں، موصوف کی بدزبانی ان کی اپنی بدباطنی تک پر غالب آ گئی ہے۔اس گروہ میں، جسے کراچی کے ادبی حلقوں میں ''ریوڑِسلیمی '' کے نام سے بھی یاد کیاجاتا ہے، اس بنیادی اصول کو جزوایمان کا درجہ حاصل تھا(اور اس کے باقی ماندہ ارکان میں اب تک حاصل ہے) کہ اگر کسی بھلے آدمی کے بارے میں کوئی بھونڈا اور بے ہودہ فقرہ اونچی آواز میں کہہ دیا جائے تو محفل پر سناٹا چھا جاتا ہے اور فقرہ بازی کا شکار ہونے والا خفیف ہو کر رہ جاتا ہے۔ساقی کے ہاں اس کی بے شمار مثالوں میں سے ایک دیکھیے: ''خدا اسے ]مشفق خواجہ کو[اور شمس الرحمن ]فاروقی[ کو سلامت رکھے۔ صبح سویرے اٹھتے ہی، کلّی اور استنجا کر کے ان کی درازیِ عمر کی دعا مانگتا ہوں۔ وہ اس لیے کہ مجھ سے پہلے یہ کم بخت مرمرا گئے تو مجھے شاعروں کے نام، ا ن کی تاریخِ پیدائش وغیرہ کون بتائے گا۔ان کواسی طرح کی چوتیاپنتی کے کاموں کے لیے زندہ رکھنا چاہتا ہوں۔ آہ کہ ان بدمعاشوں کو معلوم نہیں کہ وہ کس کی دعاؤں کے سبب اب تک زندہ ہیں۔'' (118) مشفق خواجہ، جیساکہ آپ جانتے ہی ہوں گے، اس عبارت کے شائع ہونے کے کچھ عرصے بعد رحلت کر گئے۔
بیان کا یہ اسلوب ایجاد تو محسود حریفوں اور دشمنوں کے لیے کیا گیا تھااور انھی پرمنصوبہ بند طریقے سے استعمال بھی کیا جاتا رہا ہے،لیکن اس ریوڑ کے ارکان ایک دوسرے کی بھی میانیوں میں سوراخ کرنا، غالباً ریاضت کے طور پر، بلاتکلف جاری رکھتے ہیں۔ ایک دوسرے کے ان ''نہایت عزیز دوستوں''کے پیچیدہ اور دلچسپ باہمی تعلقات کو ساقی کی اصطلاح میں ''بھائی چارگی'' کہا جاتا ہے۔ اسے اس سے ملتے جلتے ایک اور لفظ ''بھائی چارے'' کا مترادف سمجھنے کی غلطی نہ کیجیے گا، وہ اور چیز ہے۔ بھائی چارگی کے معنی ہیں، بھائیوں کے ہاتھوں طاری ہونے والی بے چارگی۔واقعہ یہ ہے کہ حسنِ صورت کے لحاظ سے تو اس گروہ کے ارکان تقریباً سب کے سب مذکورہ بالا برادرانِ خورد وکلاں ہی کی طرح بخشے ہوے ہیں، لیکن حسنِ ظن سے خود کوایک دوسرے کا 'برادرانِ یوسف' سمجھتے اور حتی الوسع ویسا ہی سلوک کرتے ہیں۔مگرانصاف کی بات یہ ہے کہ جہاں تک صورت شکل کا سوا ل ہے ساقی کو باقی سے انیس نہیں، بیس ہی کہنا ہو گا۔ اس کی تصدیق ان کی اس تصویر سے بخوبی کی جاسکتی ہے جس کا اوپر ذکر کیا گیا ہے۔ اس تصویر سے اور بھی کئی اندازوں کی تصدیق ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر بیرون ملک مقیم برصغیر کے باشندوں ( اردو کے شاعرادیب مراد ہیں) کے بارے میں یہ بات کہی جاتی رہی ہے کہ ان میں سے جو شخص جس سنہ میں ولایت میں وارد ہوا اسی سنہ میں حنوط شدہ (mummified) یا بلکہ متحجر (fossilised)حالت میں آج تک دیکھا جا سکتا ہے۔ساقی کے معاملے میں یہ بات بالکل درست ہے۔ اب وائن کے اس جگ ہی کو ملاحظہ کیجیے جس سے موصوف اس قدر اتراہٹ کے ساتھ بغلگیر دکھائے گئے ہیں، دنیا کی کسی اور زبان میں آپ نے کبھی نہ دیکھا ہو گا کہ کسی مصنف نے اپنی کتاب کے لیے تصویر اترواتے وقت بوتل گلاس وغیرہ کو یوں اوچھے کے تیتروںکی طرح باہر باندھ رکھا ہو۔(ساقی کے ایک عزیز دوست اسد محمد خاں نے اس قسم کی حرکت کے لیے exterior decoration کی پُرمعنی اصطلاح تراش رکھی ہے۔)
لیکن اگر فوسل کے طور پر دیکھا جائے تو ساقی کی تصویر میں کوئی عجیب بات نظر نہیں آتی۔ ساقی 1963میں (قصائی اور سبزی فروش کے جعلی ورک پرمٹ پر) مہاجرت اختیار کرنے کے بعد سے لندن میں مقیم ہیں۔ اس قیام کی تفصیل خود انھی سے سنیے: ''اپنے مکان کا نمبر آج بھی یاد ہے: 100 Dastagir Colony, Karachi.۔یہ نمبر مجھے اس لیے یاد ہے کہ میں ٣٣ سال سے 100 Sunny Gdns. Road, London.میں اپنے آخری ایام پورے کر رہا ہوں۔
میں نے اپنے سارے چھوٹے چھوٹے بم یہیں سے چھوڑے۔''(37) صرف مکان کا نمبر ہی جوں کا توں نہیں، موصوف کی ذہنی، اخلاقی اور جذباتی نشوونما بھی وقت کے اسی مقام پرٹھٹھری ہوئی کھڑی ہے جب وہ اپنی مالی حالت سدھارنے کی غرض سے ولایت سدھارے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ ان کی رخصتی سے قبل کے اُن دنوں میں (یعنی شراب پر پابندی کا قانون لاگو ہونے سے چودہ پندرہ برس پہلے بھی) ان کے محلے کے چھٹ بھیّوں اورلفنگوں میں شیخی بگھارنے اور ایک دوسرے پر دھاک بٹھانے کے لیے بڑھ چڑھ کر اور بڑھاچڑھا کر شراب نوشی کا ذکر کرنے کا رواج تھا۔ انگلستان میں امتناع کا قانون اب تک نہیں آیا،اگر کبھی آیا بھی تو اس وقت تک ساقی اپنی آخری عمر پوری کر چکے ہوں گے، لیکن اس کھلے معاشرے میں برسوں رہے چلے آنے کے باوجود گھٹی ہوئی طبیعت کی 'دستگیری' کا وہی عالم ہے کہ جو تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اپنی متعدد رشحات قلم میں (مثلاً زہرہ نگاہ کی کتاب ''شام کا پہلا تارا'' پر اپنے تبصرے کے بیچوں بیچ) خود کو اسی قدیم زمان و مکاں میں تصور کر کے ،بے اختیار اور باربار پکار اٹھتے ہیں کہ ''وسکی چڑھ رہی ہے!''
اس بدمذاقی (اورچنددرچند دیگر قباحتوں)سے اگر آپ کسی طرح قطع نظر کر سکیں تو ساقی کی کتاب سے وہی کام لیا جا سکتا ہے جو علوم کے میدان میں فوسلز یعنی متحجر مخلوقات و نباتات وجمادات سے لیا جاتا ہے۔ میں نے ان کی خودنوشت کو اسی زاویے سے پڑھا اور آئندہ صفحات میں اسی مطالعے کے چند نتائج آپ کے سامنے پیش کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں ۔ ساقی، اپنے بیان کے مطابق، 1935میں اس دنیا میں وارد ہوے، 1948میں مشرقی پاکستان پہنچے، 1952میں کراچی میں نزول فرمایا اور 1963 میں مذکورہ بالا راستے سے لندن روانہ ہو گئے۔ اس بدنصیب مملکتِ خداداد میں ان کے قیام کا عرصہ وہ ہے جس کے دوران یہ ملک ، خصوصاً کراچی شہر، گہری معاشرتی تبدیلیوں کا مرکز رہا۔ تبدیلیوں کے اس پیچیدہ عمل کی پوری کہانی تو فکشن ہی میں سما سکتی ہے، لیکن جہاں تک تنک مایہ اردو فکشن کا تعلق ہے، آج تک ایسا کامیابی سے ہو نہیں پایاہے۔قرۃ العین حیدر کا ناولا''ہاؤسنگ سوسائٹی'' (جو ان کی تحریروں میںغالباً بلندترین درجہ نہیں رکھتا) اس کی اکادکا مثالوں میں سے ایک ہے۔ شوکت صدیقی کے ناولوں وغیرہ میں وہ گہرائی اور بصیرت نہیں ملتی جو اس بڑے معاشرتی انقلاب کا احاطہ کرنے کے لیے درکار ہے۔ مختلف ادیبوں کی چند ایک عمدہ کہانیوں اور مضامین میں اس کی جھلکیاں البتہ دکھائی دیتی ہیں، یاپھر مشتاق احمد یوسفی کی بلندپایہ کتابیں، خصوصاً ''زرگزشت'' اور ''آب گم'' ہیں، لیکن انھیں کسی ادبی صنف کے خانے میں قید کرنا دشوار ہے، اور یوں بھی یوسفی کی تحریر کا بنیادی تخلیقی مقصود حقیقت نگاری سے مختلف ہے۔
ساقی افسانے وغیرہ نہیں لکھتے۔ لڑکپن میں اس شعبے میں خامہ فرسائی کی تھی، لیکن امتدادِزمانہ نے وہ افسانے ان پر تو کیا، ہم سب پر ترس کھا کر تلف کر دیے۔ بقول خود، ''اردو دنیا جسے میری شاعری کا عذاب سہنا تھا میرے نثری عتاب سے صاف بچ گئی۔'' (64) تاہم،جیساکہ آپ کے سامنے ہے، یہ نثری عذاب اب ان کی 'پاپ نویسی' کی صورت میں نازل ہو چکا ہے۔ لیکن فکشن کی غیرموجودگی میں کسی بھی سطح کی ان آپ بیتیوں کی اہمیت بڑھ جاتی ہے جن میں اس مخصوص دور میں گزارے ہوے دنوں کا براہ راست بیان ملتا ہو۔ ساقی کی خودنوشت بھی اسی اعتبار سے اہمیت رکھتی ہے۔ جہاں تک گہرائی اور بصیرت وغیرہ کا تعلق ہے، اس کا بہتان تو ساقی پر وہی شخص لگا سکتا ہے جسے ان الفاظ کی آبروریزی مقصود ہو (مثلاً وہ خود)۔اپنی خودنوشت میںساقی نے خود پر دو بڑے بہتان لگائے ہیں جن میں سے ایک کا تعلق ''جدیدیت'' سے ہے اور دوسرے کا ''احساسِ جمال'' سے۔ اگلے صفحات میں میں یہ واضح کروں گا کہ موصوف کس طرح ان دونوں الزامات سے مکمل طور پر بری کیے جانے کے سزاوار ہیں۔ لیکن اس قسم کی سطحی تحریروں میں بھی یہ وصف تو ہوتا ہی ہے کہ لکھنے والا اپنی زندگی کی یادداشتیں قلم بند کرتے ہوے ناگزیر طور پر اپنے خاندان والوں، یاروںدوستوں وغیرہ کا بھی تذکرہ کرتا جاتا ہے، جس کے محتاط تجزیے سے اس دور میں پائے جانے والے معاشرتی رجحانات کو، جزوی طور پر ہی سہی،سمجھنے میں مدد مل سکتی ہے۔
لیکن کوئی خودنوشت نگار (ساقی کے لفظوں میں ''خودنوشت باز'') جس زاویے سے واقعات اور افراد کو دیکھتا اور بیان کرتا ہے اور اس کی تحریر میں جو تعصبات کارفرما ہوتے ہیں، ان کو سمجھنے کے لیے اس کے ورلڈویو یا تصوردنیا سے واقف ہونا ضروری ہے اور یہ بھی جاننا ضروری ہے کہ مصنف کی عام شہرت کس قسم کی ہے۔ جہاں تک ساقی کا تعلق ہے، غزل کا عمومی اور خصوصی ذوق رکھنے والے قارئین انھیں ان درجنوں شاعروں میں سے ایک کے طور پر جانتے ہیں جن کی مردہ اور نیم مردہ غزلیں اردو کے متعدد ادبی رسالوں میں ان جیسی اور ان سے بہتر غزلوں کے انبار میں برسوں سے دفن ہوتی چلی آ رہی ہیں۔ان کی چار چھ نظموں میں یقینا غزلوں کے مقابلے میں کسی قدر جان دکھائی دیتی ہے، مگر اس کا سبب (جس کی طرف یوسفی بھی توجہ دلا چکے ہیں) یہ ہے کہ ان میں بعض بے زبان جانداروں(بلّے، مینڈک،سؤر وغیرہ) کا ذکر آتا ہے۔
لیکن ذرا ہلاجلا کر دیکھنے پر یہ بیشترساقی کی اصطلاح میں ''انٹاغفیل'' (13)ہی نکلتے ہیں۔مجموعی طور پر ساقی کی منظومات (غزلیں، نظمیں، نثری نظمیں)شاعری کا بال بیکا نہیں کر سکیں۔ ایسی بات نہیں کہ ساقی کو پڑھنے والوں کی بے لاگ نگاہ میںاپنے مقام کی آگہی نہ ہو؛بھلا ظالم لوگ اس آگہی سے کہیں محفوظ رہنے دیتے ہیں! دنیاوالوں کے اسی سلوک سے مجبور ہو کر ساقی اپنے سرپرست سلیم احمد کے سامنے (ڈہک ڈہک کے)روتے اور ان کے گلے میں بانہیں ڈال کر کہا کرتے تھے کہ ''سلیم بھائی یہ دنیا بڑی کمینی ہے۔''(113) لیکن مجبوری کی اس آگہی کے باوجود ان کی سرتوڑ کوشش رہتی ہے کہ کہیں غنڈہ گردی اور دہشت انگیزی کی مدد سے، اور کہیں چاپلوسی اور زمانہ سازی کے ذریعے اپنے مقام میں کسی قسم کی بلندی کا التباس پیدا کر سکیں۔ اوپر دیے گئے اس اقتباس میں ساقی نے ان ''چھوٹے چھوٹے بموں'' کا ذکر کیا ہے جو وہ وقتاًفوقتاً صادر فرماتے رہے ہیں۔ ان کو خودکش دھماکے کہیے تو بجا ہے۔اس سلسلے میں ان کا طریقہئ واردات یہ ہوتا ہے کہ بڑے اور محترم ادیبوں اور شاعروں کی چھوٹی بڑی بھیڑ جمع کر کے اک شانِ بے نیازی کے ساتھ خود کو ان سے ٹکرا دیا جائے، یا عظیم تخلیق کاروں کے بارے میں لنگوٹیے یاروں کی سی بے تکلفی اور بدتمیزی کا انداز اختیار کیا جائے، کہ شاید بعض کم حوصلہ قاری مرعوب ہوکر ساقی کے بارے میں کسی خو ش گمانی کا شکار ہو جائیں۔ اور اگر ایسا نہ ہو تو کم از کم اس دھماکے سے یہ عظما ہی ہلاک ہو جائیں۔ وہ تو خیرہوئی کہ اپنے ساتھ متواتر شغلِ سیردستی کرتے رہنے کے باعث ان کی شخصیت کے ساتھ بندھے ہوے ''چھوٹے چھوٹے بم'' اس قدر آلودہ ونمدار ہو چکے ہیں کہ ان دھماکوں کے نتیجے میں تہلکہ کبھی نہ ہوا، دھواں اور تعفن البتہ پھیلتا رہا۔ ساقی کے چند دلچسپ چھوٹے چھوٹے بم دھماکے ملاحظہ کیجیے:
اِدھر کے لوگوں میں میرتقی میر،حسرت موہانی اور یاس یگانہ چنگیزی ایسوں اور اُدھر کے لوگوں میں بیت ہوفن، ایزرا پونڈ، اور ڈی ایچ لارنس جیسوں سے اپنے مزاج کو ہم آہنگ پاتا ہوں۔(173) میں نے مصرع لکھنے کی کاری گری انیس، اقبال اور یگانہ (اردو) اور ایلیٹ، آڈن، تھامس (انگریزی) سے سیکھی (افسوس کہ یہی دو زبانیں آتی ہیں) اور hopefullyاس فن کو آگے بڑھایا ہے۔ (46)نرودا کے ہم عصر پارّا کے مشورے پر(you have to improve on the blank page) عمل کرتا چلا گیا۔یعنی آٹھ دس افسانے خود ہی معطل کیے۔ بقیوں میں کاٹ چھانٹ اور کتربیونت کی قینچی چلائی۔ ترمیم و اضافے کے بعد (میرے حساب سے) افسانے اتنے نکھر آئے کہ ان کی پہلی کاپی پھاڑ کے پھینک دی۔ اور وہ بھی اس خیال سے کہ آنے والے مورخین، ہیمنگوے اور ایلیٹ کی طرح، کہیں میرے پہلے ڈرافٹ کی کاپیاں تلاش کر کے، میری سادہ تحریروں (humble writings)کا سراغ نہ لگا لیں۔(63) میری خوش قسمتی ہے کہ جدید اردو شاعری کے دو بڑوں ]راشد اور فیض[ سے خاصے گہرے تعلقات رہے۔... ہماری محبتیں سرعت سے اس لیے بھی بڑھیں کہ اردو کی قدیم و جدید شاعری ایک طرح سے قدرمشترک تھی۔ وہ دونوں مجھ سے زیادہ جانتے تھے مگر بیس انیس والا ہی فرق تھا۔ پینسٹھ پینتیس والا نہیں۔پھر لندن میں ایک دوسرے کے ساتھ زیادہ سے زیادہ وقت ہم نے اس لیے بھی گزارا کہ یہاں تخلیقی تنہائی تھی۔ہماری کوشش ہوتی کہ ہم ہفتے میں تین بار ضرور ملیں یعنی راشد صاحب اور میں یا فیض صاحب اور میں۔فیض صاحب سے آخری دنوں میں اکیلی والی ملاقاتیں ختم ہو گئیں۔ ہم زیادہ تر دوسرے ادیبوں کے گھروں میں یا محفلوں میں ہی ملتے کہ کئی دوسرے بھی آن بسے تھے۔(138)انیس اور اقبال پھر یگانہ اور راشد کے مصرعوں کا صوتیاتی نظام مجھے بہت پسند تھا کہ میرے ]بھوتیاتی[ مزاج سے لگا کھاتا تھا۔میرکی لہکتی ہوئی اور غالب کی دہکتی ہوئی آواز نے پریشان کر رکھا تھا۔
I mean the better Meer and the better Ghalib. اس لیے کہ ان کے ہاں بھی سخنِ فضول کی کمی نہیں۔ (40)اپنے نوجوان ہم عصروں یعنی اپنے بعد آنے والوں سے اتنا ضرور کہنا چاہوں گا کہ میں شاعری میں اقلیت کا نمائندہ ہوں۔ غالب کی طرح، راشد کی طرح، میراجی کی طرح، اخترالایمان کی طرح ، ممکن ہے میرا بھوت مرنے کے پچاس سال بعد قبر سے نکلے، ممکن ہے نہ نکلے، ...ممکن ہے اس وقت تک تم سب بھی ]بھی![مجھے بھول چکے ہو...مگر اتنا ضرور یاد رکھنا کہ میں ...'' blah blah blah (29)
جی نہیں، ساقی فاروقی کو ہوش کے ناخن لینے کا مشورہ دینا قطعی غیرضروری ہو گا۔ یہ بات وہ خود بھی اچھی طرح جانتے ہیں کہ ان کا مقام سلیم احمد، شیدا گوالیاری،بخش لائلپوری،استاد اخترانصاری اکبرآبادی،جمیل الدین عالی، نگار صہبائی، راغب مرادآبادی وغیرہ وغیرہ ہی کے درمیان کہیں واقع ہے جن میں سے ہر ایک کا بھوت، ان کی ''ڈیم فول شاعری'' (27) کے تصدق میں، عضوِ شرمندگی کی مانند متعلقہ قبر میںمنھ چھپائے ابدالآباد تک پڑا رہے گا اور کسی انسانی آبادی کا رخ کرنے کی ہرگز جسارت نہ کرے گا۔ اس وقت غالباً وہ وسکی کے مدوّر لبالب پیپے میں کچھ دیر پڑے ڈبکیاںکھانے کے بعد نکلے ہیں اورباہر ''ہلکورے لیتی'' ٹھنڈی ہوا میںمست، دُم کی نوک پر ایستادہ ہو کرنعرہ کناں ہیں کہ ''لاؤ کہاں ہے بلّی، اس کی تو...'' (یہ ایستادگی غالباًکسی قاری ''ظاہر'' قاسمی یا مولوی عذیرہاشمی کے فراہم کردہ کشتوں کی برکت سے ممکن ہوئی اوربحمداﷲاب تک جاری ہے۔)پریشان ہونے کی ضرورت نہیں، وسکی ہی تو ہے، چڑھ گئی ہے تو جلدیابدیراتر بھی جائے گی۔
خیر، تعفن برطرف،اس کا احساس ساقی کو خود بھی ہے کہ ان کی شان میں محولہ بالا قسم کی باتیں کوئی اور کرتا تو ان کے معنی مختلف ہوتے ۔ لیکن بھلا کوئی اور ایسی حماقت کرنے ہی کیوں لگا۔مشفق خواجہ نے ہمیشہ انھیں یہی سمجھانے کی کوشش کی کہ ساقی کی تعریف میں کچھ کہنے سے پڑھنے والوں کی نظر میں ساقی کی حیثیت تو کیا بہتر ہو گی خود کہنے والے کی حیثیت مشکوک ہو جائے گی، اور یہ بھی کہ ساقی کی ضرورت سے زیادہ سرپرستی کرنے کے باعث لوگ پہلے ہی انھیں ''خواجہ سگ پرست'' کہنے لگے ہیں۔ اس کے باوجود،جب کبھی ساقی کو وسکی چڑھی ہوئی نہیں ہوتی یا وہ دُم پر کھڑے ہوے نہیں ہوتے، تو اِس کی اُس کی چاپلوسی کرنے سے باز نہیں آتے کہ کسی سے کوئی تعریفی یا نیم تعریفی فقرہ ہاتھ آ جائے جسے پکی سیاہی میں چھپوا کر اسے مفت میں رسوا اور خود کو مفتخر کر سکیں۔
اپنے پہلے مجموعہئ کلام ''پیاس کا صحرا'' میں انھوں نے ذاتی خطوط سے اور اِدھراُدھر سے لوگوں کے فقرے چن کر ''غیبت کا شامیانہ'' کے عنوان سے اکٹھے کر دیے تھے۔ اس کے بعد سے لوگ اور محتاط ہو گئے اور خطوں میں بھی ایسی کوئی بات لکھنے سے احتراز کرنے لگے جسے ساقی کی کندذہنی کی دھندلی روشنی میں تعریف پر مبنی سمجھا جا سکے ۔ یہی وجہ ہے کہ اپنے اگلے مجموعے ''رادار'' میں جب انھوں نے مذکورہ شامیانہ پھر سے ایستادہ کرنے کی کوشش کی تو محراب گل افغان نامی ایک تبصرہ نگار نے (غالباً قلمی نام تھا) اسے ''غیبت کا کنٹوپ'' قرار دیا، اور ساتھ ہی یہ بھی کہہ دیا کہ افسوس یہ ساقی کے سر پر پھر بھی فٹ نہیں آئے گا۔دنیا نے سچ مچ ساقی کے ساتھ برا سلوک کیا ہے؛ مگر خیر، کون کہہ سکتا ہے کہ وہ اس سلوک کے مستحق نہیں۔پھر سعید امرت کے قدموں کی برکت سے ان کی رمزآشنائی اس بلا کی ہے کہ اپنے بارے میں ہجوِملیح پر مبنی فقرے بھی تعریفی سمجھ کر نقل کرتے ہیں اور مگن رہتے ہیں۔ بھائی چارگی یہ کہ ان میں سے بیشتر تیر جس کمیں گاہ سے آتے ہیں وہاں ان کے اپنے ہی بھائی بند براجمان ہوتے ہیں۔ مثلاً:
سلیم احمد: ''ساقی، شاید اس وقت میں موجود نہ ہوں گا جب تمھارا شمار اردو کے عہدجدید کے سب سے بڑے شاعروں میں ہو گا۔ لیکن مجھے یقین ہے کہ تم ضرور مجھے یاد کرو گے۔ تمھارا سلیم بھائی...'' (114) تم اپنی اس قسم کی شاعری ]'ہجوِ مہمانانِ عزیز'، 'سید سلیم احمد' وغیرہ[کو اہمیت نہیں دے رہے ہولیکن مجھے تو اس میں تمھاری سنجیدہ شاعری سے زیادہ جان نظر آتی ہے۔''(113)
جمیل الدین عالی:اس محفل میں اس رات میں نے یہ دونوں نظمیں سنائیں۔ مصرعوں کی کاٹ اور بنت ایسی تھی کہ عالی جی نے کہا، ''تم اپنا تخلص عرفی کر لو۔'' میں نے کہا، ''میں عرفی کو مزید مشہور نہیں کرنا چاہتا۔'' اور بات آئی گئی ہو گئی۔(130)
راشد اور فیض نے، ساقی کی تمام خوشامددرآمد اور حاضرباشی کے باوجود، کبھی ایسی کوئی بات نہ کہی جسے ساقی اپنے حق میں (گویا ان کے خلاف) استعمال کر سکیں۔شراب وہ دونوں بھی پیتے تھے، لیکن اسے سنبھالنا بھی جانتے تھے۔ رند اور ساقی میں کچھ نہ کچھ فرق تو ہونا ہی چاہیے۔جہاں تک مشتاق احمد یوسفی کا تعلق ہے، تووہ غالباً شراب سے شغل ہی نہیں کرتے۔اور سب سے بڑھ کر یہ کہ یہ حضرات جانتے ہیں کہ کیا کہہ رہے ہیں:
میں چلنے لگا تو وسکی بہت چڑھ چکی تھی اس لیے جب زہرا نگاہ نے کہا کہ میں فراز کو چھوڑتا جاؤں تو میں نے نشے کا حوالہ دیے بغیر بہانہ کیا، ''بہن، میں انھیں اپنی گاڑی میں نہیں بٹھا سکتا کہ جوں ہی کوئی خراب شاعر بیٹھتا ہے گاڑی کا ایک پہیہ ہلنے لگتا ہے۔'' یہ کہہ کر چلا گیا۔ دوسرے دن ملنے پہنچا تو فیض صاحب نے کہا، ''تمھارے بیٹھنے سے تمھاری گاڑی کے دو پہیے تو مستقل ہلتے ہوں گے۔'' (173)
میرے پیارے دوست مشتاق احمد یوسفی نے میرے بارے میں کہیں لکھا ہے کہ ''پڑھت اس قیامت کی کہ ایک ایک لفظ کو زندہ کر کے سامنے لا کھڑا کرتے ہیں۔'' اس میں اتنا اضافہ اور کرنا چاہوں گا کہ لکھت بھی ویسی ہی ہے۔(41)
یہ اضافہ کرنا بلاشبہ ساقی کا، بلکہ ان ہی کا، حق ہے، لیکن اگر اس سے قبل وہ مشفق خواجہ یا شمس الرحمن فاروقی کو فون کر لیتے تو وہ انھیں یہ مشورہ ضرور دیتے کہ اپنے اضافے میں ''ویسی'' کی جگہ ''ایسی ویسی'' کر لیں۔
جدید دور میں بسنے والے کسی شخص کو سمجھنے کی ایک اہم کلید یہ ہے کہ عورتوں کے بارے میں اس کے نقطہئ نظر سے واقفیت پیدا کی جائے۔ ساقی کے سلسلے میں یہ طریقہ اختیار کرنے پر پتا چلتا ہے کہ خواہ جسمانی طور پر وہ اکیسویں صدی میں مقیم ہوں، لیکن ان کے ذہن اور احساس کی سطح پر وہی پرچھائیاں نقش کالحجر ہیں جن کا تعلق دقیانوس علیہ الرحمہ کے عہدِزریں سے ہے۔ان کے نزدیک وجودِزن کے چند گنے چنے مصارف یہ ہیںکہ ان کی 'قدیم خانی' تصویر کائنات اور رکیک گفتگو میں رنگ بھرا کرے اور ان کی انواع و اقسام کی (بیشتر اسفل درجے کی) احتیاجات کو پورا کیا کرے۔
اس وسیع خاندان (extended family) ...میں صرف ہم مرد شاعروادیب ہی شامل نہیں تھے بلکہ ہماری مائیں، بہنیں، بھابیاں، بیویاں بھی برابر کی ساجھے دار تھیں۔ اُس زمانے میں بھی ان میں سے اکثر ہم سے پردہ نہ کرتیں یا آدھا پردہ کرتیں یا زیادہ سے زیادہ دکھاوے کا پردہ کرتیں۔ ہم جس تس کے ہاں ڈیرہ ڈال دیتے بغیر وارننگ کے...اور یہ سگھڑ نامحرم ایک دو گھنٹے کے نوٹس پر ہمارے ناؤنوش کا انتظام کر دیتیں... ہماری دقیانوسی تہذیب میں شکریہ ادا کرنے کی رسم نہیں بلکہ اسے اس لیے معیوب سمجھا جاتا ہے کہ 'شکریہ' سے اجنبیت کی بو آتی ہے(یہاں مغرب میں تو جنسی اختلاط کے بعد بھی مرد عورت ایک دوسرے کا شکریہ ادا کرتے ہیں)۔آج میں یہ سطریں لکھ کر ان تمام خواتین کا، مرحوم و موجود، شکریہ ادا کر رہا ہوں جنھوں نے ہمارے پیاسے ہونٹوں اور بھوکے پیٹوں کی نگہ داری کی۔ان کی محبتیں نہ ہوتیں تو ہماری آنتیں اینٹھ جاتیں اور ذہن ماؤف ہو جاتے۔ (104-5)
کانے پردے اور مفت کے ''ناؤنوش'' پر پلے ہوے تنک حوصلہ جسم کے دیگر شرمناک اعضاکے مفادات کی دیکھ بھال، جیساکہ آپ مختصراً دیکھ چکے ہیں اور تفصیلاً آگے ملاحظہ کریں گے،بھاوج کے ذمے ہوتی تھی۔ بہنوں کے مصارف کچھ یوں تھے:
میںباہروالی چارپائی پر دراز تھا اور منّو (محفوظ کی گیارہ بارہ سالہ بہن) میری پیٹھ اور کمر پر کود رہی تھی، ان کا درد کم کرنے کے لیے، اس لیے کہ اسے اٹھنی درکار تھی۔ (یہی کام میں اپنی چھوٹی بہنوں سنجیدہ اور شاہدہ سے بھی کرواتا اور اٹھنی ہی دیتامگر ان کا بوجھ بڑھنے لگا تھا اور وہ میرا کچومر نکال دیتیں۔ میری پیٹھ، کمر اور کولھوں پر کودنے والی آصف جمال کی گیارہ سالہ دل آویز اور بانکی بہن عطیہ بھی تھی جو انیس بیس سے پہلے ہی مر گئی مگر میری یادوں میں زندہ ہے۔)(100)
ساقی یہ بتانا بھول گئے کہ کودنے وغیرہ کی یہ خدمات ان کے عزیز دوستوں کو بھی (تبادلے یا وٹے سٹے کی بنیاد پر) دستیاب تھیں یا نہیں۔خیر، ان گوناگوں خدمات کو چھوڑ کر رشتہ دار خواتین کا ایک اور استعمال ساقی کی سمجھ میں آتا ہے، جویوں تو ہماری تہذیب کی سینہ بہ سینہ (اور بعض اوقات برسرِمحفل) زبانی روایت کادرخشاں جز ہے لیکن ساقی اس کی درخشانی کوجہاں تہاں تحریر میں لانے سے بھی نہیں چوکتے ، یعنی یہ کہ ان ''سہاگنوں''کے ذریعے دوستوں اور دشمنوں کی ''ماں بہن'' کی جائے۔ اس فن لطیف میں ساقی کے کارناموں سے ظاہر ہوتا ہے کہ ذہنی ناداری کے سبب گالیوں کے ضمن میں بھی بے چارے کو کلیشے پر ہی گزارا کرنا پڑتا ہے۔ البتہ جہاں تک ساقی کائنات کے اعلیٰ تر مدارج کے بارے میں سوچنے کی اہلیت رکھتے ہیں، وہاں اسی نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ''شاید خدا اپنی کم تر مخلوق 'عورت' کو اس قابل نہیں سمجھتا کہ اسے پیغمبری کا شرف بخشے۔'' (51-2) پیغمبروں کو تو جانے دیجیے، کسی شاعریا ادیب عورت کا سامنا ہونے پر بھی ساقی پہلے تو بھابیانہ امکانات کی ٹوہ میں رہتے ہیں، لیکن اس طرف سے مایوس ہونے پر جھٹ اسے اونچی آواز میں بہن (یا خالہ یا بٹیا) کہنے لگتے ہیں تاکہ کسی کو کوئی ایساویسا شک نہ گزرے۔
تاہم،اپنے وسیع خاندان سے آگے قدم رکھتے ہی ساقی کھل کھیلنا شروع کرتے ہیں (یعنی جس حد تک کھل کھیلنا ان کے بس میں ہے)۔ اس سلسلے کا آغاز ان کی کم سنی ہی میں ہو گیا تھا، یعنی ایک اوسط درجے کے زمیندار گھرانے میں جنم لینے والے اس کپوت کے پاؤں (بلکہ ہاتھ) پالنے ہی میں نظر آنے لگے تھے:
گاؤں کے کئی نوجوان...جن کے تازہ بہ تازہ گونے ہوئے تھے یا جن کی بہنیں جوان تھیں، ان کی خواہش ہوتی کہ ان کی بیاہتائیں اور نوجوان بہنیں ان کی غیرموجودگی میں 'بندوقوں والی ڈیوڑھی' میں سوئیں۔...ان نوجوانوں کی تمنا کا سبب یہ تھا کہ بدمعاشوں اور زانیوں سے ان کی ملکیتیں محفوظ رہیں۔...میں پانچ سال سے سات سال کی عمر تک اپنی متجسس انگلیوں کولذت کی ٹریننگ دیتا رہا۔...جب دادی، اماں، چچی اور پھوپی نیند کے خرابے میں اتر جاتیں تب میں بستر کے نشیب سے ابھر کے رات کی معزز مہمانوں کی چارپائیوں کی طرف چلا جاتا۔ جانگیا اور انگیا سے ان سخی بدنوں کی صاحب سلامت نہیںتھی اس لیے صرف چولیوں اور ساریوں اور ان کے نیچے چھپے ہوئے خزانوں سے ملاقات ہوتی۔ سیردستی ہو جاتی اور اگر آنگن میں چاندنی چھٹکی ہوتی تو سیرچشمی بھی۔...ان تین چار برسوں نے، سنِ بلوغ سے پہلے ہی، شہوانی جذبات کی پرورش کی ہوگی اور میری جنسی شخصیت کی تعمیر میں حصہ لیا ہو گا۔(18)
ان ننھی ننھی سیردست انگلیوں سے جو جنسی شخصیت تعمیر ہو ئی وہ ساقی کی کتاب میں صاف جھلکتی دکھائی دے رہی ہے۔ لیکن یہ بات 1940کی دہائی کی ہے، جب زیرجاموں کا رواج غالباً برصغیر کے دیہات میں رعیت ہی نہیں، زمیندار طبقے کی عورتوں تک بھی نہیں پہنچا تھا۔علاوہ ازیں، چاندنی شایدہر رات تو اس بھلے زمانے میں بھی نہیں چھٹکتی تھی، اور زنان خانے میں ایک اسپِ تازی کی لات کے تازیانے سے ساقی کی بینائی پہلے ہی، یا انھی دنوں، متاثر ہو چکی تھی) (17، ایسے میں وہ یہ پتا کیونکر لگاتے تھے کہ رات کی معزز مہمانوں کی چارپائیاں کہاں سے شروع ہوتی ہیں، یہ راز کھولنا ساقی نے مناسب نہیں سمجھا۔خیر اس سے کچھ ایسا فرق بھی نہیں پڑتا، اس قسم کی نابالغ سیردستیوں سے نیند کے خرابے میں اترے ہوے سخی بدنوں کا کیا بگڑ سکتا تھا، ان کی تو آنکھ تک نہ کھلتی تھی۔
1948کے بعدچار برس تک ساقی ، اپنے ایک حقیقی اور تین عددرشتے کے بھائیوں کی معیت میں، ڈھاکہ کے ایک اردومیڈیم اسکول کے ہوسٹل میں اپنی ہفت پہلو شخصیت کی تعمیر کرتے رہے۔ بھائی چارگی کی ابتدائی تربیت بھی وہیں ہوئی۔ ان کی شخصیت کاشہوانی پہلو ایک سنڈاس کی طرف کھلتا تھاجس میں ان کے بھائیوں کی شخصیتیں بھی ساجھے دار تھیں:
مکان سے باہر بھی ایک سنڈاس تھا جو اس مکان کے ہندو مالکان نے اپنے نوکروں کے لیے بنایا ہو گا۔ سینئر طلبہ باری باری د ن کا کم از کم ایک گھنٹا وہیں ضائع کرتے۔ اس لیے کہ چہاردیواری سے اُدھر ایک بنگالی خاندان کا گھر تھا۔ جس میں سولہ سترہ سال کی دو لڑکیاں بھی رہتی تھیں۔ وہ ادھ رَسے پستانوں اور گدّر سرین کی مالک تھیں۔ ان کے گھر کے بیچ ایک کنواں تھا جہاں وہ روزانہ یا ہر دوسرے روز غسل کی مرتکب ہوتیں۔ ہم سب روزنِ شکستہ سے ان کے ''کم بخت دل آویز خطوط''...کا مطالعہ کرتے اور ''خودوصلی'' کرتے۔...اس وقت مجھے چھاتیوں سے زیادہ کولھوں سے رغبت تھی۔ انہی کی یاد میں پینتیس سال بعد میں نے اپنا مزے دار 'مضمون نما' ''ایک پشت کی مدافعت میں'' لکھا تھا... (27)
اس کے بعد انھوں نے اپنا یہ 'مضمون نما'یا 'مضمونچہ' پورا کا پورا نقل کیا ہے۔یہ دراصل 'شخصیت نما' ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ پینتیس سال کے عرصے میں تعمیر کی کارروائی کہاں تک پہنچی۔اس مضمونچے کا راقم الحروف ''وائن کی بوتل کھولتے ہوئے'' ایک عورت کی ''پشت کی مدافعت'' (یعنی اس کے ساتھ عقب سے سیرچشمی) اور گدّر سرینوں کے تصور کے بل پر نثری خودوصلی کرنے میں مشغول ہے۔ وہ عورت، ظاہر ہے اس تمام کارروائی سے بے خبر ، سنک میں صبح کے جھوٹے برتن دھو رہی ہے۔ ذراسی دیر میں یہ'مزے دار' مدافعتی کارروائی تکمیل کو پہنچے گی اور اس کے بعد برتن دھونے کے عمل کا بھی تمت بالخیر ہو جائے گا۔ برتن دھونے والی اپنی خدمات کی اجرت (اٹھنی یا جتنی بھی) وصول کر کے باہر (یا اندر) چلی جائے گی، اور را قم الحروف اپنی خودوصلی کی کتابت کر کے اس وصلی کی فوٹواسٹیٹ کاپیاں اپنے معزز دوستوں کو ڈاک سے روانہ کرنے نکل کھڑا ہوگا۔ ان میں سے ایک مکتوب الیہ کی داد بھی، جسے پا کر ساقی کی ''انا پھول کر کپا ہو گئی تھی'' (27) جزوِ پاپ بیتی ہے:
ساقی، صبح کی ڈاک سے تمھارا مضمونچہ ملا۔ ہم دونوں (یعنی ادریس بھابی اور یوسفی صاحب)دو تین بار پڑھ چکے ہیں۔عجب قیامت کی نثر لکھی ہے۔ قیامت تک خوش رہو مگر یاد رکھو کہ اس قسم کی داد وہی دے سکتا ہے جس نے نثر اور کولھے دونوں برتے ہوں۔
اس اقتباس میں بریکٹوں میں لکھے ہوے الفاظ ساقی کا اضافہ ہیں جن کا جواز اس کے سوا کیا ہو سکتا ہے کہ وہ اس قسم کی داد کو ضرورت سے کم پا کر دگنا کرنا چاہتے ہیں۔خیرداددینے والوں سے یہاں بحث نہیں، البتہ جہاں تک مضمونچے کے مصنف کا تعلق ہے معلوم ہوتا ہے اس نے نثر کو بھی کم و بیش اتنے ہی فاصلے سے برتا جتنی دور سے کولھوں کو۔ساقی کی جنسی شخصیت کی تعمیر کے ایک اگلے مرحلے کی خبر یوں ملتی ہے:
آگے آگے بھابی اور گنڈی پیچھے پیچھے عالی جی اور میں خراماں خراماں ریستوران کی طرف روانہ ہوئے۔راستے میں ایک نہایت خوب صورت چہرے نے ہمارے قدم پکڑ لیے۔ہم نے اسے روک کر اس کی نیلی آنکھوں، سنہرے بالوں اور آدھی رانوں تک کٹی ہوئی منی اسکرٹ کی ہواداری پر رطب اللسانی کی۔اسے لجاتا شرماتا چھوڑ کر ہم آگے روانہ ہوئے۔(133)
لیکن چونکہ ساقی اپنی سیرچشمی وغیرہ کے اہداف کو عموماًاپنی موجودگی سے بے خبر ہی رکھنا پسند کرتے ہیں،گمان غالب ہے کہ مذکورہ عفیفہ کو روکنے اور رطب اللسانی کرنے کی توفیق عالی کی شخصیت کو ہوئی ہو گی جن کا ذکر ایک اورجگہ یوں آتا ہے:
نواب جانی ]عالی خاں[کا فون آیا تو معلوم ہوا کہ وہاں ان کی ملاقات سویڈن کی ایک مطلقہ خاتون انگرڈ سے ہوئی۔میں نے فون بیوی کے حوالے کیا۔ گنڈی نے کھانے پر بلا یا۔ دوسرے دن وہ انگرڈ کے ساتھ آئے۔ نہایت قبول صورت خاتون تھیں۔ گنڈی کو پسند آئیں مگر میں اپنے حد سے بڑھے ہوے احساسِ جمال کے باعث اُس عزیزہ کے چہرے پر چنے ہوئے ایک عظیم مسّے کوقبول نہ کر سکا کہ صرف تل کا دیوانہ ہوں، شاید مسّے کی رفاقت میری سرشت میں نہیں، مگر عالی جی جب جب لندن آتے ہیںتو مسّے کو فون کرتے ہیں یا سویڈن کا چکر لگاآتے ہیں۔ خیال اغلب ہے کہ ان کا مثانہ کم زور ہے۔(133)
مثانے کے ذکر سے اندازہ ہوتا ہے کہ ساقی کے لیے ان امور کو قارورے وغیرہ سے الگ کر کے دیکھ پانااب تک دشوار ہے۔ اس میدان میں ان کے تبحرعلمی کی ایک دلچسپ جھلک وہاں ملتی ہے جہاں وہ راشد کی وفات کے بعد لکھے ہوے مضمون میں ان کی نجی زندگی کے ایک گوشے کا انکشاف کرتے ہیں:
]راشد[ heterosexual تھے اور ہیلن نے انتہائے شوق میں ان پر محبت کے سارے دروازے وا کر دیے تھے۔ (151)
''سارے دروازے وا کر دیے تھے'' سے معلوم ہوتا ہے کہ غالباً oral اور anal سرگرمیوں کی طرف اشارہ ہے، لیکن heterosexual؟ مشفق خواجہ، افسوس، وفات پا گئے، مگر شمس الرحمن فاروقی تو خدا کے فضل اور ساقی کی دعاؤں سے اب تک زندہ ہیں۔ کتاب کی ضخامت بڑھانے کے لیے اس پرانے مضمون کوشامل کرنے سے پہلے ساقی نے ان کو فون کر کے ضرور پوچھ لیاہوگا کہ اس لفظ کا یہی صرف ہے ۔
ساقی کی اب تک کی جنسی زندگی کا عروج تو وہ واقعات تھے جن کا ذکر بھاوج نامہ میں آتا ہے، لیکن ولایت کا رخ کرنے سے پہلے جب وہ پاسپورٹ بنوانے حیدرآباد گئے تو ان کی زندگی میں یہ حسین موڑ بھی آیا:
میں نہادھو کر نچلی منزل میں ''نئی قدریں'' کے دفتر میں چلا جاتا اور 'استاد اخترانصاری' کے ساتھ ان کے دفتر میں ہی ناشتا کرتا۔ مجھے ہوٹل میں ٹھہرے ہوئے ابھی تیسرا دن ہو گا کہ ایک نہایت خوب صورت سولہ سترہ سالہ میٹرک کی طالبہ 'استاد' کا آٹوگراف لینے کے لیے آئی۔ وہ برقع پہنے ہوئے تھی۔ اس کا الٹا ہوا نقاب، پرکترے بال اور کرنجی آنکھیںدل میں آج بھی گڑی ہوئی ہیں۔...دوسرے دن وہ لڑکی اپنی دو سہیلیوں کے ہمراہ میرا آٹوگراف لینے کے لیے آئی۔پھر تو خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ ہر روز ہی ان میں سے کوئی نہ کوئی لڑکی 'آٹوگراف' لینے کے لیے پہنچ جاتی۔ ... ایک دن میں اپنے کمرے میں 'آٹوگراف'دے رہا تھا کہ دروازے پر دستک ہوئی۔ بے چاری لڑکی نے سراسیمگی کے عالم میں جلدی جلدی اپنی شلوار پہنی۔ میں نے جیسے تیسے پتلون چڑھائی۔ اس ساری کارروائی میں دو تین منٹ سے زیادہ نہیں لگے ہوں گے۔ دروازہ کھلا تو اخترانصاری اکبرآبادی اور حمایت علی شاعر مسکراتے ہوئے کمرے میں داخل ہوئے۔ اس تازہ گرفتار فاختہ نے نہایت سعادت مندی سے کہا، ''حمایت چچا سلام'' ... حمایت نے بھی نہایت شفقت سے سلام کا جواب دیا، ''خوش رہو بیٹی''۔ ایک دو منٹ کے بعد یہ غنچہئ نوشگفتہ اپنے رنگ اوڑھ کے اور اپنی خوش بو چھوڑ کے چلا گیا۔ حمایت نے بتایا کہ یہ ان کے ہمسایوں کی لڑکی تھی اور انھیں کے محلّے میںرہتی ہے ]کذا[۔ استاد نے قہقہہ لگاتے ہوئے فرمایا کہ ہم دونوں کنجی والے سوراخ سے سارا تماشا دیکھ رہے تھے۔ غرض کہ ان دونوں سخن وروں کے باعث میں نے حیدرآباد میں 'آٹوگراف' دینے بند کیے اور دو چار دن بعد ہی کراچی لوٹ آیا۔(136)
جہاں تک استاداخترانصاری اکبرآبادی کا تعلق ہے، انھوں نے ارزاں نرخ پر آٹوگراف دینے کا یہ سلسلہ کچھ عرصہ اور جاری رکھا، پھر غیرضروری پا کر موقوف کر دیا اوربرسوں بعد اسی ہوٹل میں اپنی آخری عمر پوری کر کے رخصت ہوے۔خدا ان کی مغفرت کرے اور جب ساقی سنی گارڈنز روڈ کے سو نمبر میں اپنی آخری عمر پوری کر چکیںتو ان کی بھی۔
اعتراف کے بہانے ڈینگیں مارنے والا گناہ گار جاہن جو کچھ بھی ہو، اردو کا شاعر غالباً نہیں تھا، اس لیے کیا عجب کہ اس کا کام اتنا دشوار نہ رہا ہو۔ جہاں تک موخرالذکر کا تعلق ہے، اس دلچسپ مخلوق پر یوسفی ہی کا ایک اور فقرہ نسبتاً زیادہ خوبی سے روشنی ڈالتا ہے: ''تم جسم شاعر کا مگر جذبات گھوڑے کے رکھتے ہو۔'' (گویا، بقول ساقی، یہ بلا بھی یوسفی کے عاشقوں ہی کے سر آئی۔) ساقی سمیت اس زمرے کے زیادہ تر افراد کے جنسی عزائم ان کی توفیق اور حیثیت سے فزوں تر ہی دکھائی دیں گے۔ ویسے اس باب میں کچھ دخل یقینا شومیِ قسمت کا رہا ہو گا، اور کچھ ہمت کی کمی کا بھی(کہ توفیق بہ اندازہئ ہمت ہے...)لیکن یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ سماجی حالات بھی،نوجوان شاعروں اور ان کے ہم عمر دوسروں کے لیے، کچھ ایسے سنگلاخ تھے جن کے نتیجے میں (بقول راشد، میر ہو، مرزا ہو، میراجی ہو) سب کے حصے میں بیشتر نارسا ہاتھ کی نمناکی ہی آتی رہی۔
میرومصحفی و مرزا کو تو پھربھی جماجمایا معاشرہ ملاتھا جہاں کم عمری میں نکاح کر دیے جاتے تھے اور غیرنکاحی اور رومانی سرگرمیوں کے لیے (اگر استطاعت ہو تو) داشتائیں اور رکھیلیں رکھنے کی اجازت اور سماجی گنجائش تھی۔ شاعری کی ریاستی سرپرستی کے سوتے جوں جوں سوکھتے چلے گئے، اردو شاعر عموماًمالی طور پر قلاش اورروزگار کے سلسلے میں پریشان دیکھے جانے لگے اور (جاگیردار گھرانوں کے ان فرزندوں کو چھوڑ کر جنھیں شاعری کی بھی لت تھی اور جن کی درازدستی کی زد میں بیویوں اور رکھیلوں کے علاوہ بندوقوں والی ڈیوڑھی میں حفاظت کی غرض سے سلائی جانے والی رعیت کی بہوبیٹیاں بھی آتی تھیں) ان میں سے بیشتر کا جنسی میدان عمل عم زادوںاور کوٹھے کی طوائفوں تک محدود ہو گیا۔ جدید تعلیم کادوردورہ شروع ہوا تو نوخیز جنسی امنگیں رکھنے والے شاعروںکو اسکول کالج آتی جاتی نوعمر لڑکیاں(لڑکیاں بھی کہاں، لڑکیوں کی جھلکیاں) دکھائی دینے لگیں۔تانگے اور لاری میں لائی لے جائی جاتی یہ لڑکیاں عموماً شلوار قمیص، برقعے اورنقاب میں ملفوف ہوتی تھیں، چنانچہ کتابیں تھامے ہاتھوں اور شلوار کے پائینچے سے پمپی کی کناری تک پیروں کے ذرا سے حصے کا دیدار ہی ندیدہ شاعرانہ نگاہوں کے حصے میں آتا تھا (سواے اس کے کہ کبھی کبھار ہوا کے جھونکے کی مہربانی سے نقاب سرک جاتی)۔چند مربع انچ نسوانی جلد کے اسی گریزپا نظارے پر انھیں خودوصلی کا بھی بندوبست کرنا ہوتا تھا اور اسی تنگ رقبے پر اپنی شخصیت اور شاعری کی عمارت بھی اٹھانی ہوتی تھی۔ اردو شاعروں کی ضرب المثل نارسائی زیادہ تر اسی دور سے یادگار ہے جب نوعمر لڑکوں لڑکیوں کے اکٹھے پڑھنے کا رواج نہیں ہوا تھا، اور روزگار کی جگہوں پر نوجوان مردوں اور عورتوں کے یکجا ہونے کی منزل ابھی خاصی دور تھی۔
ساقی فاروقی کو جس زمانے میں بالغ ہونے کا موقع ملا (یہ بات جانے دیجیے کہ انھوں نے اس موقعے کے ساتھ کیا کیا) وہ پچھلے ادوار کی بہ نسبت خاصا تبدیل ہو چکا تھا۔ کراچی یونیورسٹی، جس نے انھیں داخلہ دینے کی غلط بخشی کی، لڑکوں اور لڑکیوں کو ساتھ بٹھا کر پڑھانے لگی تھی، لیکن ساقی نامعلوم وجوہ سے وہاں سے سال بھرہی میں رخصت ہو گئے۔ ان کی یادداشتوں میں یہ ذکر تو ملتا ہے کہ انھوں نے اپنے ابا کو مذبح خانوں کے انچارج کی سرکاری نوکری کے سلسلے میں ملنے والی وین میں اپنے ساتھ پڑھنے والے لڑکوں لڑکیوں کو مختلف علاقوںسے چن چن کر یونیورسٹی پہنچانے کی خدمت کچھ عرصے تک انجام دی، لیکن یہ معلوم نہیں ہوتا کہ انھوں نے کسی اپنی ہم عمر، ہم جماعت یا ہم جامعہ لڑکی کے ساتھ مجامعت تو درکنار،سیرچشمی وغیرہ سے آگے کی کوئی کم یادگار منزل ہی طے کی ہو۔اسی طرح معاشرتی تبدیلی کے عمل کے نتیجے میں دفتروں اور کارگاہوں میں نوجوان مردوں اور عورتوں کوساتھ کام کرنے اور ایک دوسرے سے متعارف ہونے کے موقعے دستیاب ہونے لگے تھے،لیکن تعلیم اور اہلیت کے بغیر اور سفارش کے زور پرساقی کو جن سرکاری دفتروںمیں چھوٹی موٹی ملازمت ملی وہاں شاید خواتین کا گزر نہ تھا، اور یوں بھی ساقی کی مفروضہ ''ادبی سرگرمیوں'' کا آغاز ہو چکا تھا، اس لیے وہ یا تو دفتر میں موجود ہی نہ ہوتے یا اپنے ان شاہکار افسانوں کو سرکاری کاغذوں پر نقل کرنے میں منہمک رہتے جنھیں دفتر کے سپرنٹنڈنٹ نے ضبط کر کے اردو ادب کو ایک اور عذاب سے بچا لیا۔ (63-5) ساقی خود بھی ان مواقع سے صاف بچ گئے جو معاشرے میں اٹھنے والی جدیدیت کی لہروں نے نوجوان مردوں اور عورتوں کو مہیا کیے تھے، کیونکہ جاگیردارانہ قدامت زدگی کی جس مٹی سے ان کا خمیر تیار ہوا تھا اسے ان لہروں کی زد میں گھل کر بہہ جانے کا خطرہ درپیش تھا۔
یہی وجہ ہے کہ ساقی کی تمام سرگزشت میں جدید دور کی کسی ایک بھی ایسی عورت کی جھلک دکھائی نہیں دیتی جس سے ان کا کوئی بالغ مکالمہ قائم ہو پایا ہو۔وہ تو کہیے کہ اس وقت تک وہ اطہر نفیس کی عنایت سے سلیم احمد کی محفل کے حاضرباشوں میں سے ہو چکے تھے جن کو حاصل گوناگوں فوائد (perks) میں بھاوج تک رسائی (یا بقول ساقی، ان خاتون کے ہاتھوں مٹی پلید کرانا)بھی شامل تھی، ورنہ جس طرح خودوصلی کرتے ہوے کراچی کے ساحل پر اترے تھے اسی طرح جوں کے توں انگلستان روانہ ہو جاتے۔
ساقی نے اپنی نام نہاد پاپ بیتی کوئی ستر برس کی عمر میں قلمبند کی ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس عمرِدراز میں ساقی کی جنسی فتوحات کا نقطہئ عروج ان کا اپنے ایک عزیزترین دوست کی بیوی کے ساتھ ہم جفت ہونے کے دلچسپ مشغلے میں اپنے بھائیوں (یعنی سلیمی ریوڑ کے دیگر کرداروں) کے ساتھ ہم زلف ہونا تھا۔ان شریک کار بھائیوں میں سے دو کا ذکر ساقی نے کیا ہے، شمیم احمد اور اطہر نفیس۔ لیکن انچولی شریف میں واقع خانقاہ سلیمیہ کے آس پاس کی گلیوں میں ریوڑ کے مختلف عمروں کے متعدد دیگر ارکان بھی بھابی کی اس ساجھے داری میں شامل ہونے یا رہ چکے ہونے کا دعویٰ کرتے اور سسکاریاں لیتے پائے گئے ہیں (کہ ایسی بھرجائی بھی یارب اپنے خاکستر میں تھی)۔ مشکل یہ ہے کہ ساقی نے اپنے عزیزترین دوست (یعنی اپنے ہم ریوڑ بھائی) اور ان کی بیوی (یعنی اپنی بھاوج) دونوں کے نام چھپا لینا مصلحت اور مشرقیت کے عین مطابق جانا (ان مشرقی اقدار کی تفصیل کے لیے دیکھیے سلیم احمد کی طویل نظم ''مشرق'')، اس لیے وثوق سے نہیں کہا جا سکتا کہ ان سب دعوے داروں اور ساجھے داروں کی مراد ایک ہی ہستی سے ہے یا اس راکھ کے ڈھیر میں ایک آدھ چنگاری اور بھی تھی۔
ساقی اور ان کے بعض عزیزدوستوں کی فراہم کردہ معلومات کی بنیاد پر تو اتنا ہی کہنا ممکن ہے کہ ان ناداروں کی یہی دولت مشترکہ تھی جس کی بارگاہ میں سرفراز ہونے کی آرزو میں پورا ریوڑ سلیم احمد کی زیرہدایت ٹانگوں میں موسل دباکر صبح شام کودا کرتا تھا۔ریوڑ کے جو ارکان اس بہتی (اور بیشتر ہونہاروں کی عمر کے لحاظ سے کسی قدر بوڑھی) گنگا میں بھی گیلے ہونے کی توفیق نہ رکھتے تھے ، وہ اس اجتماعی سرگرمی کو دیکھ دیکھ کر، آلودہ ہاتھوں سے تالیاں پیٹ پیٹ کر یا ایک دوسرے کی پسلیوں میں لذت آمیز ٹہوکے مارمار کر ہی خود کو شامل باجا تصور کر لیاکرتے تھے۔
ساقی نے اپنے عزیزترین دوست کو ''زید آفریدی'' اور بھاوج کو ''مسز آفریدی'' کا نام دیا ہے جس کی وجہ غالباً آفریدی قبیلے کے کسی فرد سے کوئی حساب چکانا رہا ہو گا۔ چونکہ فاروقی، صدیقی، خان وغیرہ کی طرح آفریدی بھی ایک حقیقی سرنیم ہے اور پڑھنے والوں کوبھلا کیا غرض کہ ساقی کے سفلہ حساب کتاب میں ساجھے دار بنیں، اس لیے میں نے ساقی کی بھاوج کا فرضی نام بدل کر ''مسز ناآفریدی'' کر دیا ہے۔ اس کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ ریوڑ کے جو ارکان موصوفہ سے ہم بستر رہے انھیں ''ناآفریدی قبیلے'' کا لقب دیا جا سکتا ہے۔خیر اب ان خاتون کے اوصاف کی طرف توجہ کیجیے جنھوں نے شمیم احمد، ساقی، اطہر نفیس اور متعدد دیگر ناآفریدگان کی بقول ساقی ''نتھ اترائی'' کی۔ ساقی سے یہ مطالبہ کرنا کہ وہ اس کردار کا جسمانی سراپا یا جذباتی و نفسیاتی شخصیت کا خاکہ کھینچ کر دکھائیں، گویا ساقی کی لسانی و ادبی معذوری کا مذاق اڑانا ہوا۔ ان کے پاس اپنی بھاوج کے بارے میں کہنے کو بس یہ کچھ ہے:
ہوا یوں کہ شمیم احمد، میں اور اطہر نفیس، یکے بعد دیگرے، ایک ہی زلف کے اسیر ہوئے۔...یہ زلف عطیہ بیگم فیضی کی طرح، علم و فراست والے موباف تو نہیں لگاتی تھی مگر ذہانت، جنسی تشنگی اور لگاوٹ والے بیلے اور چنبیلی کے ہار ضرور پہنتی تھی۔ ہم تینوں انھی ہاروں کی خوشبو سے ہارے۔ (118)
رہا وصل کا بیان تو ا س باب میں بھی ساقی کی نارسائی باقی نقشے کے مطابق ہی ہے۔ فرماتے ہیں: ''میں اس سایہ دار سہاگن کے بسترِ استراحت اور غلط آسن میں علم الابدان کی گتھیاں سلجھانے میں مصروف تھا...'' سعید امرت کی یہ ہدایت غالباً ساقی نے شروع ہی میں پلے باندھ لی تھی کہ مشرقی لوگ ہر طرح کی جنسی سرگرمی کو ''غلط آسن''کے نام سے یاد کرتے ہیں، چنانچہ جب شمیم احمد بہار کالونی کے ایک نیم تاریک گھر میں محمد حسن عسکری کو مالشیے کے ساتھ مشغول دیکھتے ہیں تو اس کا ذکر بھی ساقی کے ہاں ''غلط آسن'' ہی کے بلیغ استعارے میں آتا ہے۔خیر، مذکورہ بالا فقرہ ساقی کی سرنوشت کے جس قصے کا نقطہئ آغاز ہے اس سے ملتاجلتا ایک قصہ ابن انشا کی طویل مثنوی ''قصہ ایک کنوارے کا''کے درج ذیل مصرعوں میں کہیں زیادہ برجستگی اور دلکشی سے بیان ہوا ہے:
لیکن وہ جو بھابی تھی
سو تالوں کی چابی تھی
اِن کو وہ ٹہلاتی تھی
اپنے دوست بلاتی تھی
آج بھی گھر میں بیٹھا تھا
ایک کہیں کا مشٹنڈا
دونوں رازونیاز میں گم
تم میں میں اور مجھ میں تم
یہ جو اچانک آ پہنچے
سر پہ جو اُن کے جا پہنچے
عشق اُس کا کافور ہوا
کودا، پھاندا، دور ہوا
لیکن ساقی اس صورت حال کو یوں بیان کرتے ہیں:
ناگہاں باہر والے دروازے کے کھلنے کی آواز سنائی دی۔...میں نے نہایت پھرتی سے قمیص اور پتلون پہنی اور جوتوں میں پیر ڈالے۔مجھے پچھلے دروازے سے باہر نکال کے اس زودفہم نے کنڈی لگا دی۔ ابھی دس بیس ڈگ بھی نہیں بھرے تھے کہ ہرچیز دھندلی د ھندلی دکھائی دی۔ ملٹن کی طرح ]جی ہاں، یہی لکھا ہے[میری دنیا بھی تاریک ہوتی نظر آئی۔ یاد آیا کہ اپنا چشمہ تو تکیے کے نیچے چھوڑ آیا ہوں۔ ...پورے بلاک کا چکر کاٹتا، جل تو جلال تو کا ورد کرتا اس گھر کے سامنے والے دروازے تک پہنچا۔... ایک دو منٹ کے توقف کے بعد دستک دی۔ دروازہ کھلا تو کیا دیکھتا ہوں کہ شوہرنامدار ہی نہیں بلکہ شمیم احمد بھی براجمان ہیں۔
دونوں ساتھ ہی آئے تھے۔علیک سلیک کے بعد لونگ روم سے سیدھا بیڈروم میں چلا گیا۔ تکیے کے نیچے سے عینک اٹھائی۔ واپس لونگ روم میں پہنچا۔ اعلان کیا کہ چشمہ بھول گیا تھا ...اور باہر والے دروازے کی طرف روانہ ہوا۔مسئلے کی نزاکت کو دیکھ کر اس خاتون نے اپنے شوہر زید آفریدی کو مخاطب کر کے واویلا کیا، ''تم نہیں ہوتے ہو تو ساقی مجھے تنگ کرنے کے لیے آ جاتے ہیں۔ان سے کہہ دو کہ تمھاری غیرموجودگی میں ہرگز نہ آیا کریں۔'' میں گھر سے تو نکل آیا مگر اس عزیزہ کی آواز تعاقب کرتی رہی۔جی ہی جی میں تریاچرتر بلکہ تریاچال کی داد دیتا رہا (تریاچرتر نہ جانے کوئے، کھسم مار کے ستّی ہوئے...ایک پوربی کہاوت)۔ (119)
اوپر کے پیراگراف سے تذلیلِ باہمی کے اس دلچسپ تعلق کا کچھ اندازہ ہوتا ہے جو ساقی اور ان کی بھاوج کے درمیان قائم تھا، اور جس کے سلسلے میں آگے چل کر انھیں ناآفریدیوں کے سرخیل (اورشاعرِ ''مشرق'') سلیم احمد کو بھی وصل کا منظر (یا جو کچھ بھی) دیکھنے کے لیے مدعو کرنا تھا اور پھر بھاوج سے ان کا سامنا کرا کے دونوں کو شرمسار کرنا تھا۔
لیکن شاید شرمساری کا ذکر یہاں بے موقع ہے، کیونکہ مذکورہ قبیلے میں اس قسم کے کسی رواج کا سراغ نہیں ملتا۔ وہاں تو بھاوج کا ذکر اس محفل میں (جس کے دیگر اوصاف کا تفصیلی احوال ذرا آگے آئے گا)گرمی پیدا کرنے کا بڑا ذریعہ تھا ۔ یہی وجہ ہے کہ وصل کی لذت انگیز صورت حال کا بیان جوں توں نمٹا کر ساقی پھرتی سے یا جلدی جلدی پتلون جوتے وغیرہ پہننے کی اطلاع دیتے ہیں، جس کے بعد وہ اپنی دلچسپی کے اصل معاملے پر آتے ہیں، یعنی یہ کہ پتلون چڑھانے کے بعد انھوں نے کس کس کے پاس جا کر غلط آسن وغیرہ کے امور پرسرجوڑ کر کیا کیا لذت آمیزباتیں کیں۔ مذکورہ بالاواردات کے بعد ساقی نے قبیلے یا ریوڑ کے جن ارکان کے ساتھ مل کر ذکر کا ثواب سمیٹا ان میں اطہر نفیس، محمود ہاشمی تو تھے ہی، اگلے دن جمال پانی پتی کو بھی صورت حال سے آگاہ کیا گیا۔ محمود ہاشمی کا تبصرہ تھا: '' ابے دبڑو گھسڑو، یوں ہی تربیت ہوتی ہے۔''اطہر نفیس، اور اطلاعات کے مطابق قبیلے کے بعض دیگر دبڑوگھسڑو ارکان بھی، آگے چل کر اسی تربیت گاہِ صالحین سے فارغ ہوے۔برادرِخوردشمیم احمد، جیساکہ ساقی وغیرہ پر بعد کو کھلا، پہلے ہی سے اس نیم شکستہ دیوارپر لام الف لکھ رہے تھے۔ (120)آگے کاحال کچھ یوں ہے:
یہ احساسِ جرم کہ میں نے ایک نہایت نفیس اور دردگسار دوست کا آبگینے بلکہ خوابگینے جیسا دل توڑا اور اس کا اعتبار کھویا]اور کیا اور کیا اورکیا[ ، شب خون مارتا رہا۔ دھیان کی سطح پر ایک اور جل کنبھی تیر رہی تھی۔ یہ خیال کہ مسز آفریدی نے ، اپنے بچاؤ کی کوشش میں جھوٹ بول کر ایسا کھیل کھیلا ہے کہ احباب تو احباب، خود اپنی نظر میں بھی بحالی مشکل سے ہو گی۔ پندار کی شکست نے حواس باختہ کر رکھا تھا۔...غرض کہ رہ و رسم آشنائی پر میری مجروح اناغالب آئی... (120)طے پایا کہ میں شمیم سے مل کر پہلے یہ معلوم کروں کہ میرے چلے جانے کے بعد اس گھر میں ہوا کیا۔ زید آفریدی کس عذاب سے گزرا۔ قیامت آئی کہ نہیں؟ ظاہر ہے اس وقت تک ہم میں سے کسی کو معلوم نہیں تھاکہ عرصہ دو سال سے، مجھ سے کہیں پہلے شمیم بھی اسی آستانے کی ارادت کے سزاوارتھے جس کا میں۔ ]ساقی کے خیال میں سزاوار کے یہی معنی ہیں۔[مجھے کیا پتا تھا کہ دو تین سال بعد اطہر نفیس بھی (معصوم ابن مظلوم) اسی زرخیز زمین پر سجدہ گزار ہوں گے۔غرض کہ آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا تھا۔ شاید یوں کہنا چاہیے کہ مسز آفریدی نے ہماری مٹی پلید کر دی تھی۔(120-1)میں نے بس پکڑی اور جہانگیرروڈ پہنچا۔...سلیم خاں نے کتاب رکھی، ہاتھ ملایا اور چارپائی کے بیچوں بیچ آلتی پالتی مار کے بیٹھ گئے۔ کہنے لگے، ''شمیم نے دو تین گھنٹے پہلے دوپہر والا سارا واقعہ بتا دیا ہے۔''...شمیم ساری رات مجھ پر لعن طعن کرتا رہا اور گفتگو کی تان اس پر ٹوٹی کہ میں ہرگزہرگز مسٹر اور مسز آفریدی کے گھر میں قدم نہ رکھوںورنہ دوستوں میں اور خاندانوں میں بڑی تھئی تھئی ہو گی۔...یہ تو ہم سب کو دو تین ہفتوں کے بعد پتا چلا کہ اس کے جارحانہ رویے کے پیچھے رقابت(jealousy) اور مسترد ہونے کا (rejection) دکھ تھا۔پچھلی بار کراچی گیا تو مشفق خواجہ نے بتایا کہ ایک روز شمیم ان کے پاس آئے تھے اور انھوں نے دل کے داغ اور زخم انھیں بھی دکھائے تھے اور بتایا تھا کہ ہم دونوں(شمیم اور میں) ایک زمانے میں رقیب بھی رہ چکے ہیں۔ (121-2)
اوپر کے اقتباس کا کلیدی فقرہ ہے ''تھئی تھئی ہونا''۔ساقی جیسوں کے لیے تو لغات وغیرہ سے سر پھوڑنا کہاں ممکن ہے، یہ لفظ انھیں مشفق خواجہ یا شمس الرحمن فاروقی نے، جنھیں ساقی نے اسی نوعیت کے کاموں کے لیے زندہ رکھ چھوڑا تھا، سجھایا ہو گا، اور اس سے پہلے فرہنگ آصفیہ کی جلد اول کھول کر اطمینان بھی کر لیا ہو گا۔ وہاں درج ہے:
تھئی تھئی: ہ۔ اسم مونث۔ اصول موسیقی کی آواز۔ تال۔ سم۔ تالی۔(٢)ناچنے گانے کی آواز۔ تھاپ کی آواز۔
تھئی تھئی ہونا: ہ۔ فعل لازم۔ ناچ رنگ ہونا۔
اس سے ملتاجلتا ایک فقرہ اور بھی ہے، تھُڑی تُھڑی ہونا۔ وہ بھی ہندی الاصل اور فعل لازم ہے، اور فرہنگ آصفیہ کی اسی جلد میں اس کے معنی یوں درج ہیں: ''رسوائی ہونا۔ نفریں ہونا۔اڈُّو اڈُّو ہونا۔ دھتکار اور پھٹکار ہونا۔ لعنت ملامت ہونا۔''مگر ساقی نے بلاشبہ وہی فقرہ لکھا ہے جوبرمحل تھا، اور جس کی داد اُن کے مشیروں کے حصے میں آنی چاہیے۔خیر، خدا کا کرنا یہ ہوا کہ اِدھر ساقی کا اپنے عزیزترین دوست کے گھر میں داخلہ بند ہوا، اُدھر بھاوج نے ہر دوسرے تیسرے روز ''وصالیے'' یعنی ہم بستری کی غرض سے خود ساقی کے گھر آنا شروع کر دیا۔ (یہ آمد اس وقت ہوا کرتی جب ساقی کے ''بھائی بہن اسکول چلے جاتے اور ابا اپنے دفتر اور اماں بدرالنسا خالہ یا منی خالہ یا سلمیٰ خالہ کے ہاں۔''(122) ان بظاہر غیراہم تفصیلات کے بیان سے یہ نتیجہ نہیں نکالنا چاہیے کہ ساقی خود ان سب گھروالوں کو مذکورہ مقامات تک پہنچانے جاتے تھے؛ ساقی صرف یہ اطلاع دینا چاہتے ہیں کہ یہ سب لوگ گھر سے یہی کہہ کر نکلتے تھے؛ دراصل کہاں جاتے تھے یہ ساقی کا دردِسر نہیںتو ہماراآپ کاکیوں ہو۔ )
اب ظاہر ہے کہ کنویں کا پیاسے کے یا گنگا کا پاپی کے پاس چل کر آنا ایسا خارقِ عادت واقعہ تھا کہ قبیلے میں اسے ساقی کی اوقات سے بڑھ کر سمجھا جاتا تھا۔ شہربھر میں پھیلے ہوے ناآفریدگان جوبھاوج کے ذکرِلذیذ میں ذوق و شوق سے شریک تھے، شمیم احمد کی اس چشم دید گواہی پر ہی یقین کرتے تھے کہ بھاوج کے بیان کے مطابق ساقی اپنے عزیزترین دوست کی غیرموجودگی میں ان کے گھر میں گھس کر ان کی اہلیہ کی مرضی کے خلاف ان کو تنگ کیا کرتے تھے۔ شمیم کی وجہ سے شہر میں ساقی کی ''رپوٹیشن خراب ہوتی جا رہی تھی''(122)اور چونکہ موصوف ''اپنی انا کے احیا اور ناانصافی کے تدارک کے لیے اپنی بے رحم محبوبہ کو بھی بخشنے کے قابل نہیں''تھے (123)، اس لیے انھوں نے دس بارہ دن بعد '' سلیم احمد کی کنج میں پناہ لی۔'' اب سلیم خاں کی تھئی تھئی سنیے:
''ساقی خاں! میرا خیال ہے، شمیم اپنی rejectionسے بوکھلایا ہوا ہے۔ وہ مسز آفریدی کا تو کچھ بگاڑ نہیں سکتا، صرف تمھارے بارے میں غلط سلط افواہیں پھیلانے پر قادر ہے۔...میں، تمھارا سلیم بھائی، تمھارا بہی خواہ ہوں، مگر تمھارے دل میں کہیں نہ کہیں یہ بھی ہے کہ میں تم پر شک کر رہا ہوں کہ شمیم کا بھائی ہوں۔اس شک کی بیخ کنی کے لیے ضروری ہے کہ ایک معتبر گواہ پیدا کیا جائے۔'' ... جب میںنے اصرار کیا کہ سلیم احمد خود گواہ بنیں تو وہ مان گئے۔ ... طے پایا کہ اگلے بدھ کو سلیم خاں میرے پاس آئیں گے، یہ دیکھنے کے لیے کہ واقعی وہ خاتون میرے گھر آتی ہیں کہ نہیں۔ ... شمس الرحمن فاروقی کا کزن یونس فاروقی (یعنی افسانہ نگار نجم فضلی) ساتھ والے گھر میں رہتا تھا۔ ہمارے گھروں کے درمیان صرف ایک دیوار حائل تھی۔اس کے باہروالے کمرے میں ایک نہایت کشادہ کھڑکی تھی۔ جس سے گلی میں آنے جانے والوں کا مطا لعہ ہو جاتا۔اگر کوئی عورت ہوتی تو ہماری آنکھیں معانقہ بھی کر لیتیں۔ ...غرض کہ نجم فضلی کو صورت حال سے آگاہ کیا ۔ اس دن اس نے بستر کا رخ اس طرح بدلا کہ کھڑکی کے شیشوں سے اور چہاردیواری کے جھروکوں سے، گلی سے گزرنے والا، ہر آنے جانے والا نظر میں رہے۔...اس سے پہلے سلیم احمد میرے گھر دوتین بار ہی آئے ہوں گے...مجھے ڈر لگا ہوا تھا کہ کہیں رستہ ہی نہ بھول جائیں۔ مگر واہ رے وہ، ٹھیک ساڑھے نو بجے موٹررکشا میں پہنچ گئے۔ بتایا کہ گھر سے یہ کہہ کے نکلا ہوںکہ ریڈیو جا رہا ہوں تاکہ کسی کو شک نہ ہو۔ (123
خیر، سلیم احمد گھر سے جو بھی کہہ کے نکلے ہوں اس سے غرض نہیں،اصل بات یہ ہے کہ انھوں نے نجم فضلی کی کھڑکیوں اور جھروکوں سے ''بے چاری فاختہ'' کی آمد کو ملاحظہ کر کے اپنے برادرخورد کی طرح چشم دید گواہ کا رتبہئ بلند حاصل کر لیا۔چلیے، بہت خوب ہوا۔ بات یہاں ختم ہو جانی چاہیے تھی اور سلیم احمد کو موٹررکشا لے کر واپس گھر یا ریڈیواسٹیشن لوٹ جانا چاہیے تھا، لیکن ساقی کے نزدیک ''بے رحم محبوبہ'' کو ذلیل کر کے اس کے ہاتھوں اپنی تذلیل کا انتقام لینا ''وصالیے'' سے زیادہ اہمیت رکھتا تھا (وصالیے میںساقی کے لیے یوں بھی وہ لطف کہاں جو خودوصلی میں، یا بقول نظیر، جو مردِمجرّد کے مٹھولوں میں مزہ ہے)۔چنانچہ اسکرپٹ کے مطابق:
ابھی میں مسز آفریدی کو گلنار کر ہی رہا تھا کہ...پہلے پھاٹک کھلنے کی آواز آئی پھر دروازے پر دستک ہوئی۔ میں نے کہا، ''سلیم بھائی! دروازہ کھلا ہوا ہے، آ جائیے۔''وہ اندر آ گئے اور میرے بستر پر بیٹھ گئے۔ اس عرصے میں مسز آفریدی کا رنگ گلابی سے زرد ہو چکا تھا، جیسے کسی نے چہرے پر ہلدی مل دی ہو۔سلیم خاں انھیں اور وہ سلیم بھائی کو جانتی تھیں۔ آخرکو ہم ایک ہی کنبے کے لوگ تھے نا! پان سات منٹ تک مکمل نہیں، مکمل جیسی خاموشی طاری رہی، ممکن ہے موسم پر کوئی تبادلہئ خیال ہوا ہو۔...ان بے درد ساعتوں میں مسزآفریدی کی شکایتی اور میری ندامتی نگاہیں کئی بار ملیں۔سلیم بھائی سے رخصتی لے کر وہ میری زندگی سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے چلی گئیں۔(123)
ساقی کو یہ زحمت دینا غیرضروری ہے کہ وہ اپنے کسی زندہ مشیر سے فون پر یا سعید امرت یا مشفق خواجہ کی روح سے براہ راست پوچھ کر بتائیں کہ پان سات منٹ میں کتنی (بے درد یا دردناک) ساعتیں ہوتی ہیں، کیونکہ اس بات کی کوئی اہمیت نہیں۔جہاں تک سلیم احمد کا تعلق ہے،
ان کے نزدیک اصل اہمیت اس امر کی تھی کہ ناآفریدی قبیلے کے تمام ارکان اپنے عزیزترین دوست کی اہلیہ کی ''ذہانت، جنسی تشنگی اور لگاوٹ'' سے اپنی اپنی مٹی پلید کرانے کے معاملے میں باہم لڑائی جھگڑے سے گریز کریں، کیونکہ ساقی کی زندگی سے ''ہمیشہ ہمیشہ کے لیے'' چلے جانے کے بعد بھی ان کی اور ان کے دیگر عزیز دوستوں کی مشترکہ بھاوج کے ہارپھول مرجھانے والے تو تھے نہیں؛ انھیں تو متعدد ناآفریدگان کی زندگیوں میں اپنی آرجار جاری رکھتے ہوے ریوڑ کو یکجا رکھنے کا فرض ادا کرنا تھا۔ اگر قبیلے کے ارکان اسی طرح اس معاملے پر ایک دوسرے کی بقول ساقی ''ماں بہن'' کرنا اور گواہی کے لیے سلیم احمد کو طلب کرنا جاری رکھتے، تو ان کے لیے بڑی مشکل ہو جاتی۔
No comments:
Post a Comment