Wednesday, March 9, 2011

موج صد رنگ

موج صد رنگ

علی ظہیر //حسن فرخ
اللہ نے کہا ہے:۔‘‘کسی بات کا حق ہونا ہی اس کی حقانیت کی سب سے بڑی دلیل ہے کیوں کہ حق کے معنی ہی قائم و ثابت رہنے کے ہیں اور جو قائم و ثابت رہنے والی ہے۔اس کے لیے اس کے قیام و ثبات سے بڑھ کر اور کونسی دلیل ہو سکتی ہے اور جب یہ کہا جائے کہ علی ظہیر شاعر ہے تو اس کے لیے بھی کسی دلیل اور شہادت کی ضرورت نہیں ، کیوں کہ بجائے خود ایک سچ ہے کہ علی ظہیر شاعر ہے، چنانچہ اس نے کہا ہے:۔
علی کے نام سے کھلتے ہیں دروازے ہزاروں
ظہیرؔ اب تو انہیں کا نام میں جپتا رہوں گا
اتنے یقین کے ساتھ اعتقاد کی بات یا تو مومن کر سکتا ہے، یا شاعر… ہاں اگر یہ کہا جائے علی ظہیر اچھا شاعر ہے، تو اس کا جواز پیش کرنا اور شہادت دینا ضروری ہوگا کہ وہ اچھا شاعر کس طرح ہے؟ غالب نے کہا تھا:۔
ہیں اور بھی دنیا میں سخنور بہت اچھے
کہتے ہیں کہ غالب کا ہے انداز بیاں اور
یعنی انداز بیاں ‘دوسروں سے مختلف ہو، تو اچھی شاعری کی یہ پہچان ہے۔ تو کیا علی ظہیر کی شاعری کا ‘‘انداز بیان’’ دوسروں سے مختلف ہے، مابعد جدیدیت محض بعض نقادوں کی انانیت کا حصہ ہے۔ ساختیات اور پس ساختیات نظریہ سازی کی کوشش کو بھنڈر سرقہ ثابت کر چکے ہیں ، تاہم یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ دور روحانی حسیت کے گہرے جذبوں سے سرشار ہے، جسے حضرت علی کرم اللہ و وجہہ کے باب علم کی جذب و مستی میں نہاں کرنے سے تعبیر کیا جا سکتا ہے، جن کا نام جپنے کو ظہیر نے روحانیت کے دروازوں کو وا کرنے کی سبیل بنا لیا ہے۔
چنانچہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے ارباب طریقت کے اسرار کی طرف اشارے اور بے حقیقت چیزوں کی تشبیہہ دیتے ہوئے کہا ہے:
انما الدنیا کضل زائل
او کضیف بات لیلا فار تحل
دنیا گویا زائل ہونے والا سایہ ہے
او کبرق لاح فی افق الامل
یا خواب ہے جسے سونے والے نے دیکھا
یا برق ہے جو افق امید پر چمکی
علی ظہیر کا انداز بیاں اوروں سے یوں مختلف ہے کہ وہ کہتے ہیں :
ندی اور وقت دونوں ایک ہی ہیں
ظہیر ان کی روانی ایک ہی تھی
ندی متحرک اور رواں ہونے کے باوجود، صدیوں سے ایک ہی راہ پر اور ایک سمت بہتی ہے لیکن وقت مستقل صفت نہیں رکھتا، نہ ساکت ہے، نہ جامد ہے، نہ رواں ہے، نہ متحرک ہے، نہ عیاں ہے، نہ نہاں ہے۔ پھر کیا ہے؟ وہ تو بس وقت ہے، جس کا نہ ندی سے تقابل کیا جا سکتا ہے،نہ رفتار اور فاصلے سے، نہ’ تصور زماں و مکاں سے مگر ظہیر نے دونوں کو نہ صرف ایک کہا بلکہ ان کی روانی کو بھی ایک کہا ہے۔ کیوں کہ بقول اقبال:۔
وقت کی تقویم میں عصر رواں کے سوا
اور زمانے بھی ہیں جن کا نہیں کوئی نام
اسی طرح ندی کی گہرائی، اس کے زیر و بم، اس کی روانی کبھی تیز کبھی سست، اس کی تہہ میں دفن ہزاروں ، لاکھوں راز ‘کنکر’ سیپیاں ہزاروں طرح کی زندگیاں ، جن سے کوئی واقف نہیں اور کوئی نہیں جانتا کہ کتنے زمانوں سے قائم ہیں اور پہاڑوں سے نکل کر راہ بنانے سے قبل، وہاں جو کچھ بھی تھا، کیا وہ اب بھی ہے، یا اس نے اپنے بازو پھیلا کر ندی کو راستہ دے دیا ہے۔ ظہیر نے ان ہی حقائق کی روشنی میں ندی اور وقت دونوں کو ایک ہی کہا ہے۔ یہی وہ انداز بیاں ہے جو ظہیر کی شاعری کا وصف ہے اور اسی دلیل کی بنیاد پر کہ اس کا انداز بیان مختلف ہے ظہیر کو اچھا شاعر کہا جا سکتا اور مانا جا سکتا ہے۔ اسی تناظر میں ایک نظم ہے۔ کھلا ہوا ایک منظر’’:
سوچ پہ کیسے کوہ گراں آویزاں ہیں
عقل پہ کیسی میلی میلی دھول جمی ہے
بارش ہو
اک زوردار سی بارش ہو
کوہ گراں بادل بن جائیں
دھول بٹے
صبح درخشاں
عقل و فکر کا منظر ہو
پھر تم ہو
اور پھر جام و سبو کی محفل ہو
کچھ صحن و چمن ہریالی ہو
یہ دھول ہٹے
یہ کوہ اڑیں
صاف درخشاں منظر ہو
اس نظم میں ابہام اور علائم نہیں ہیں ، لیکن سوچ پہ کوہ گراں کا آویزاں ہونا اور عقل پہ دھول کا جمنا، وہ بھی میلی میلی دھول… اور پھر شاعر کی یہ خواہش کہ بارش ہو زور دار بارش کیوں ؟ تاکہ کوہ گراں ، بادل بن جائیں ۔ کوہ گراں کا بادل بننا، علامت بھی نہیں ہے تشبیہہ بھی نہیں ، صرف شاعر کی خواہش ہے، اس کی زور دار بارش کی خواہش جس سے کبھی تو کھیتیاں لہلہانے لگتی ہیں اور کبھی کھڑی فصلیں تباہ ہو جاتی ہیں ۔ آخر شاعر کیوں شدید بارش کا خواہش مند ہے؟ کیوں کہ وہ سمجھتا ہے کہ موجودہ سماجی ، معاشی حالات ذہنوں پر بے حسی اور سفاکی کے بھاری بوجہ کا باعث بن گئے ہیں اور ذہنوں پر کوہ گراں بن کر آویزاں ہو گئے ہیں اور طرفہ ستم یہ کہ عقل پر لاعلمی، بے وفائی، جہالت اور منافقت کی گہری دھول جم گئی ہے جو کسی معمولی ذریعہ سے صاف نہیں کی جا سکتی۔ اسی لیے وہ زور دار بارش کی خواہش کرتا ہے اور چاہتا ہے کہ ذہنوں پر جو کوہ گراں ہے وہ بادل بن جائے اور برس پڑے، جس سے موجودہ اقتصادی کساد بازاری کی دھول عقل و فکر کے صاف درخشاں منظر کے طور پر پوری کائنات پر ابھر آئے۔ اس کے بعد کے جشن اور مسرت کی عکاسی آخری چھ سطروں میں کی گئی ہے۔ اس طرح ظہیر نے ابہام اور علایم کے استعمال کے بغیر لفظوں کو نئی معنویت دی ہے وہ بھی سادہ و آسان اور روزمرہ کے لفظوں کے استعمال کے ذریعہ یہ بھی علی ظہیر کے اچھا شاعر ہونے کی ایسی شہادت ہے جس کے سچ ہونے میں کوئی شک نہیں کیا جا سکتا۔ اس طرح اگر ظہیر کو بہت اچھا یاسب سے اچھا شاعر کہا جائے تو اس کے لیے ضروری ہو جاتا ہے کہ دلائل اور شہادتوں ہی سے نہیں بلکہ ہم عصر شاعروں کے ان کے ساتھ، ان کی شاعری کے ساتھ ان کی شاعری کے مزاج اور تیور کے ساتھ زبان کے استعمال کے انداز اور لہجے کے ساتھ علی ظہیر کی شاعری میں ان سبھی عناصر کا تقابل کیا جائے اور عصری حسیّت کے تمام عناصر کا تجزیہ کیا جائے اور دوسرے شاعروں کے تخلیقی منصب کا تجزیہ اور تقابل کر کے علی ظہیر کو بہتر اور بلند تر ثابت کیا جائے ۔ اس مختصر مضمون میں ان سارے پہلوؤں کا احاطہ نہیں کیا جا سکتا۔ یہ کہتے ہوئے میں اپنی بات ختم کرتا ہوں کہ علی ظہیر شاعر ہیں ، اچھے شاعر ہیں ۔ ان کی آٹھ (8 ) تصانیف میں سے‘‘موج صد رنگ’’ ان کا چوتھا مجموعہ کلام ہے جسے ایجوکیشنل بک ہاؤس ، دہلی نے شائع کیا ہے۔ 120 صفحات کی اس جملہ کتاب کی قیمت ہے 150 روپے ہے جسے حیدرآباد میں ہدیٰ بک ڈپو پرانی حویلی سے حاصل کیا جا سکتا ہے۔(سمت)۔
***
  
سید اعجاز شاہین ، دبئ ،متحدہ عرب امارات

No comments:

Post a Comment

Followers

Powered By Blogger