Sunday, December 4, 2011

چاند کا سفر .. اشفاق احمد کا افسانہ/غبارہ

چاند کا سفر .. اشفاق احمد کا افسانہ
گورنمنٹ کالج کی طرف مراجعت کے کئی راستے ہیں اور سارے راستے اپنے اپنے رخ پر چل کر اس منزل تک پہنچتے ہیں جو ہر ” راوین ” کے من کا مندر ہے ۔ اس منزل تک پہنچنے کے لئے سب سے مشہور، شیر شاہی اور جرنیلی سڑک تو برتری، تحفظ، منفعت اور پاور کی سڑک ہے جس پر جم غفیر رواں ہے ۔ لیکن کچھ راستے جذباتی وادیوں سے ہو کر بھی اس منزل طرف جاتے ہیں۔
ہم دونوں کا گورنمنٹ کالج سے بندھن ایک بہت کمزور اور کچے سے دھا گے سے بندھا ہے ۔ ایک گم نام اور بے نام پگڈنڈی ہے جو خود رو جھاڑیوں اور گھنگیرلے رستوں سے الجھ الجھ کر بڑی مشکل سے من مندر تک پہنچتی ہے اور پھر وہاں سے تب تک اٹھنے کو جی نہیں چاہتا جب تک کہ کوئی وہاں سے اٹھا نہ دے ! نکال نہ دے !!
بانو قدسیہ نے اور میں نے گورنمنٹ کالج کو کبھی بھی ایک درس گاہ نہیں سمجھا ۔ نہ کبھی ہم اس کی علمی روایت سے متاثر ہوئے اور نہ کبھی اس کے استادوں کے تجربئہ علمی سے مرعوب ہوئے ۔ اس کی قدامت، اس کی عمارت اور اس کی شخصی وجاہت بھی ہمیں مسحور نہیں کر سکی ____ اس سے کبھی کچھ لیا نہیں ، مانگا نہیں ، دیا نہیں ، دلوایا نہیں ۔ پھر بھی اس کے ساتھ ایک عجیب سا تعلق قائم ہے جسے ہم آج تک کوئی نام نہیں دے سکے ۔ دراصل ہم دونوں گورنمنٹ کالج کو درس گاہ نہیں مانتے _____ اس میں” سین ” کے حرف کو وافر سمجھتے ہیں !
جب ہمارا پہلا بیٹا پیدا ہوا تو ہم سمن آباد میں رہتے تھے اور اپنے مکان کا کرایہ بڑی مشکل سے ادا کرتے تھے ۔ میں ریڈیو میں ملازم تھا اور بانو پشاور کے لئے درسی کتابیں لکھ کر ساٹھ ، ستر روپے مہینہ گھر بیٹھے کما لیتی تھی ۔ بچے کے دودھ کا ڈبہ بیالیس روپے میں آتا تھا اور وہ ایک مہینے میں تین ڈبے ختم کر جاتا تھا ۔ اس زمانے میں مٹی کے تیل کا چودہ بتیوں والا چولہا آگیا تھا اور ہمارا ایندھن کا خرچ کم ہو گیا تھا ۔ بانو جب گو رنمنٹ کالج کی سٹوڈنٹ تھی تو اس کو روٹی پکانی نہیں آتی تھی ۔ میں جب گورنمنٹ کالج میں پڑھتا تھا تو گھر کا سودا لانے کے علم سے نا واقف تھا ۔ شادی کے بعد ہم دونوں نے یہ دونوں فن سیکھ لئے اور ہنسی خوشی رہنے لگے ۔ جب انیق ڈیڑھ سال کا ہوا تو جون کے مہینے میں سخت بیمار ہو گیا ۔ اسے اسہال اور قے کی شکایت ہوئی جو تین دنوں کے اندر اندر بڑھ کر خطرناک صورت اختیار کر گئی ۔ محلے کی بڑی بوڑھیوں کے کئی نسخے آزمائے لیکن کسی سے افاقہ نہ ہوا ۔ بچے کی حالت تشویش نا ک ہو گئی تو ہمیں کسی نے بتایا کہ اسے ڈاکٹر بروچہ کے پاس لے جاؤ ۔ بڑی گرمی میں سہ پہر کے چار بجے ہم ” سالم تانگہ ” کرا کر اسے ڈاکٹر صاحب کے کلینک پر میکلوڈ روڈ لے گئے ۔
ڈاکٹر صاحب نے بچے کو الٹا پلٹا کر دیکھا ۔ اس کی اندر دھنسی ہوئی آنکھوں کے پپوٹے کھول کر معائنہ کیا اور پھر بانو سے مخاطب ہو کر بو لے ” بابا تم لوگ کیسا پیرنٹ ہے جو اب اس کو ہمارے پاس لایا ہے ۔ اس کا میں کیا ٹریٹ منٹ کروں ؟” بانو زور زور سے رونے لگی اور جاہل فقیرنیوں کی طرح ہاتھ باندھ کر سسکیاں بھرنے لگی ۔ اس کے منہ سے کوئی بات نہ نکلتی تھی اور وہ خوف کے مارے روئے جا رہی تھی ___ ڈاکٹر صاحب نے کاؤنٹر پر جا کر پانچ چھ دواؤں کے امتزاج سے دودھیا رنگ کا ایملشن تیار کیا۔ اپنی میز کی دراز سے دس پڑیاں نکال کر دیں اور پھر ایملشن کی ایک خوراک میں ایک پڑیا گھول کر مجھے بچے کو مضبوطی سے پکڑ کر گود میں لٹانے کا حکم دیا ۔ بڑی بے دردی کے ساتھ انہوں نے انیق کے جبڑے میں انگلیاں کھبو کر اس کا منہ کھولا اور دوائی اس کے منہ میں انڈیل دی ۔ بچہ اپنی نحیف آواز میں بڑے کرب کے ساتھ رویا تو میں نے اسے کندھے سے لگا دیا ۔ گود میں لے کر تو میں اسے کھڑا تھا لیکن بانو قدسیہ خوف سے کانپتی ہوئی اسے تھپکے جا رہی تھی ۔ اتنے میں بچے نے منہ بھر کر قے کی —— گرم اور بدبو دار تھوڑی سی میرے کندھے پر گری اور باقی ساری فرش پر ۔
ڈاکٹر صاحب نے جھلا کر کہا ” بابا تم کیسا پیرنٹ ہے، بچے کو سنبھالنا نہیں جانتا ۔ سارا فرش خراب کر دیا ۔ یہ کلینک ہے، کوئی تم لو گ کا گھر نہیں ۔ ” ہم دونوں ہی ڈاکٹر صاحب کی ڈانٹ سے گھبرا گئے ۔ ہمیں ڈاکٹروں کا اور ہسپتالوں کا کوئی تجر بہ نہیں تھا ۔ پھر ہماری مالی حالت بھی معمولی سی تھی ۔ شکل و صورت سے بھی ہم سہم ہی سہم تھے اور بچہ کافی بیمار تھا ۔ بانو قدسیہ نے اپنا آدھا دوپٹہ تو سر پر محفوظرکھا اور با قی کے آدھے دو پٹے سے ڈاکٹر صاحب کا فرش صاف کر نے لگی ۔
اس نے دونوں گھٹنے زمین پر ٹیکے ہو ئے تھے اور بائیں ہاتھ کو آگے ب ھا کر جھکے ہوئے بدن کا سارا بوجھ اس پر تول رکھا تھا وہ روئے بھی جا رہی تھی ، شرمندگی سے سر بھی جھکائے جا رہی تھی اورسسکیوں سے اس کا سارا بدن کانپ رہا تھا ۔ اس نے نارنجی اور کاسنی پھولوں والی قمیض پہنی ہوئی تھی ۔ سبز رنگ کی شلوار تھی اور پاؤں میں ہوائی سلیپر تھے جس میں سے ایک فرش پر ٹاکی مارتے ہوئے اتر گیا تھا ۔
ڈاکٹر صاحب کا فرش پرانی اینٹوں کا تھا جن کا پلستر جگہ جگہ سے اکھڑ چکا تھا ۔ کچھ اینٹیں نیچے کو ہو گئی تھیں، کچھ سیم کی وجہ سے اوپر کو ابھر آئی تھیں ۔ اس اونچ نیچ کے درمیان دوپٹے سے جگہ صاف کرنا مشکل کام تھا لیکن بانو نے اپنے روز مرہ تجربے کے زور پر ساری جگہ اچھی طرح سے صاف کر دی ۔ ڈاکٹر صاحب نے چور آنکھ سے اپنے فرش کو اس کی اصل حالت میں دیکھ کر کہا ” بابا تم کیسا لڑکی لوگ ہے ، سارا دوپٹہ خراب کر لیا ۔ اب اس کو باہر جا کر دھوؤ ۔ا چھی طرح سے صاف کرو، اس میں جراثیم چلا گیا ہے ۔ بچے کے پاس نہیں لانا یہ کپڑا ۔”
میں نے کہا ” ڈاکٹر صاحب باہر نلکا ہے ؟”
کہنے لگے ” کیوں نہیں ہے ۔ یہ ساتھ باجو میں گھوڑوں کے پانی پینے کا حوض ہے نئیں ، اس میں پانی ہی پانی ہے۔ جا کر دھوؤ ۔” میں بچے کو کندھے سے لگا کر کھڑا رہا ۔ بانو نے آدھا دوپٹہ کھیل میں ڈال کر کھنگال لیا ۔
ایسے وقت میں اور اس قدر شدید گرمی میں سڑک کنارے پیدل چلنا تو شاید اس قدر مشکل نہیں تھا لیکن ایک بیمار بچے کو کندھے سے لگا کر کلینک سے ذلیل و خوار ہو کر اور زمین سے بوٹ کے پرانے ڈبے کا گتا اٹھا کر اس سے مریض بچے کے چہرے کو چھاؤں کر کے چلنے میں ہم دونوں ایک دوسرے سے کچے پڑے ہوئے تھے اور شرمندگی کی وجہ سے ہمارے سر اوپر نہیں اٹھتے تھے ۔
سڑک پر کوئی سواری نہیں تھی اور ہمیں بس پکڑنے کے لئے ابھی بہت دور تک چلنا تھا ۔ بچے کا بخار گرمی کی وجہ سے بڑھ رہا تھا اور بانو بار بار اس کے ماتھے اور لٹکتی ہوئی بے جان ٹانگوں کو چھو رہی تھی کہ بخار ہو رہا ہے یا بڑھ رہا ہے ۔
اس دھوپ اور گرمی میں ہم اسی طرح سے چلتے رہے، تھکے تھکے، خوف زدہ، مایوس، بے مراد اور اکیلے ۔ بیمار بچے نے کئی مرتبہ آنکھیں کھولنے کی کوشش کی لیکن گرمی کی شدت اور روشنی کی چلکور نے اس کے پپوٹے کھلنے نہ دئیے ۔ ہم چلتے چلتے، سو چتے سو چتے، چپ چپاتے جی پی او کے پاس پہنچ گئے ۔ یہاں تار گھر کے پاس کئی تانگے کھڑے تھے۔ درخت کی چھاؤں تلے بیمار بچے نے آنکھیں کھول کر ایک سفید گھوڑے کو بڑی دلچسپی سے دیکھا اور اپنا ڈولتا ہوا سر ساکن کر لیا ۔ میں نے تا نگے میں بیٹھتے ہوئے کہا ” گورنمنٹ کالج ” اور بانو حیرانی سے میرا منہ تکنے لگی ۔
کالج چھٹیوں کی وجہ سے بند تھا ۔ پرندے شاخوں میں چھپے ہو ئے تھے ۔ اونچی بلڈنگ کے سائے دور دور تک پھیل کر درختوں کے سائے سے مل گئے تھے ۔ سارے میں ایک خوشگوار خاموشی کی خوشبو پھیلی ہوئی تھی ۔ ہم اپنے کلاس روم کی سیڑھیوں پر بیٹھ گئے ۔ انیق بانو کی گود میں لیٹا ہوا ایک اونچے درخت کی شاخوں کو دیکھ رہا تھا ۔ میں نے جھک کر اس کی آنکھوں کو قریب سے دیکھنا چاہا تو مجھے بانو کے دوپٹے سے کھٹی کھٹی بو سی آئی ۔ میں نے بچے کے چھوٹے سے ماتھے پر اپنا بڑا سا تھکا ماندہ چہرہ رکھا تو مجھے ایک بیمار سی ٹھنڈک کا احساس ہوا ۔ بچے نے مسکرا کر اپنی ماں کی طرف دیکھا تو ماں کی جنت گم گشتہ لوٹ کر اس کی جھولی میں آ گئی ۔ بانو نے اس کے پاؤں کو ، ماتھے کو اور گلے کو چھو کر خوشی سے میری طرف دیکھا اور کہا ” بالکل خواجہ منظور کی طرح مسکرایا ہے ” خواجہ صاحب اپنی ساری زندگی میں صرف ایک بار مسکرائے ہوں گے لیکن بانو کے ذہن میں ان کی مسکراہٹ ہمیشہ کے لئے سٹل ہو کر ایک فریم میں جڑی جا چکی تھی ۔ پھر ہمارے ذہنوں میں اپنے ایام طالب علمی کا ایکشن ری پلے شروع ہو گیا اور طوطے اپنی چونچوں میں ڈالیاں پکڑ کر ہاتھ چھوڑ کر کرتب دکھلانے لگے ۔
بیمار بچہ اپنی ماں کی گود سے پھسل کر پہلے ایک سیڑھی پر کھڑا ہوا ۔پھر ہاتھ پکڑ کر دوسری پر اترا اور پھر خود ڈگمگاتے قدموں سے روش پر چلا گیا ۔ وہ کوئی ڈیڑھ گز تک ایک طرف اور کوئی دو گز کے قریب دوسری جانب چلا اور پھر تھک کر زمین پر بیٹھ گیا ۔
ابھی ہمیں سیڑھیوں پر بیٹھے تھوڑی دیر ہی ہوئی تھی کہ نیلی پگڑی باندھے اور ہاتھ میں چابیوں کا مو ٹا سا گچھا اٹھا ئے ایک شخص ہمارے طرف آیا اور قریب آ کر پوچھنے لگا ” کون لوگ ہو تم ”
میں نے کہا “ہم لوگ ہیں ۔”
اس نے کہا ” یہاں آنے کا اور بیٹھنے کا حکم نہیں ہے ۔”
میں نے کہا ” کس کا حکم نہیں ؟”
” پرنسپل صاحب کا ” اس نے درشت لہجے میں کہا اور ہمیں ہاتھ کے اشارے سے اٹھانے لگا ۔ میں کہنے والا تھا کہ بانو نے ہاتھ کے اشارے سے مجھے منع کر دیا ۔ پھر اس نے آگے بڑھ کر زمین پر بیٹھے ہو ئے اپنے بچے کو اٹھایا اور آہستگی سے چلنے لگی ۔ میں بھی خاموشی سے اس کے ساتھ ہو لیا اور ہم تینوں آہستہ آہستہ پھاٹک کی طرف بڑھنے لگے ۔ ہم آگے کو جا رہے تھے اور گورنمنٹ کالج پیچھے کو ہٹا جا رہا تھا ۔ ہم نے پیچھے مڑ کر تو نہیں دیکھا لیکن ہمیں پتہ چل رہا تھا کہ ہمارے درمیان فاصلہ بڑھ رہا ہے ۔ کئی بے ہو دہ، نکمے، بد ہیت اور بے کار لوگ در گاہوں سے اٹھا دئیے جاتے ہیں اور ان کے بعد فرش دھلا دئیے جا تے ہیں —— لیکن ان کے دلوں کے فرش پر درگاہوں کی مورتیں ویسے ہی قائم رہتی ہیں ۔
اصل میں گورنمنٹ کالج تک پہنچنے کے کئی راستے ہیں ۔ اس کی طرف رخ نہ بھی ہو تو بھی یاتری اسی کی طرف کا سفر ہی کر رہے ہو تے ہیں ۔ کہتے ہیں جب Space Shuttle زمین سے چاند کی طرف چھوڑا جاتا ہے تو اس کا رخ چاند کی طرف نہیں ہوتا ، پھر بھی اس کا سفر چاند ہی کا ہوتا ہے اور اس کی منزل چاند ہی ہوتی ہے

۔

غبارہ
سعید جاوید مغل
گھر کے صحن کے اندر بچھی ہوئی چارپائی پر بیٹھا نوجوان کسی لمبی فکر میں ڈوبا ہوا تھا۔ پاس ہی اس کی نوجوان بیوی گھر کے کام کاج میں مصروف تھی۔ اچانک باہر گلی سے اس کی بچی دوڑی دوڑی صحن میں داخل ہوئی اور باپ کے گلے میں باہیں ڈال کر پیار سے کہا بابا باہر گلی میں غبارہ بیچنے والا آیا ہوا ہے آپ مجھے آٹھ آنے دیں میں نے غبارہ خریدنا ہے۔
باپ نے بچی کے رخسار پر پیار کیا اور کہا کہ ابھی تو میرے پاس آٹھ آنے نہیں ہیں مجھے تھوڑی دیر کے بعد ایک ضروری کام کو جانا ہے وہاں سے واپسی پر آکر آپ کو آٹھ آنے دوں گا تو پھرآپ اس سے اپنے لئے غبارہ خرید لینا۔ یہ بات کہہ کر جب وہ کھڑا ہونے لگا تو بچی پیچھے ہٹ گئی اور وہ باہرکے دروازہ کی طرف جب بڑھا۔ بیوی نے پیچھے سے آواز دی کہ آپ کہاں جا رہے ہیں تو اس کے باہر کی دروازہ کی کنڈی کو کھولتے ہو ئے کہا کہ ضروری کام کے لئے جا رہا ہوں ابھی تھوڑی دیر میں واپس آ جاؤں گا۔ بیوی یہ جواب سن کر دوبارہ گھر کے کام کاج میں مصروف میں مصروف ہو گئی۔ بچی دروازہ کو کھول کر باپ کو جاتے ہوئے دیکھ رہی تھی جب باپ اپنی گھرکی گلی پار کر گیا توبچی باہر کے دروازہ کوبند کر کے اپنی ماں کے پاس اپنی گڑیا سے کھیلنے لگی۔
کافی وقت گزر گیا لیکن نوجوان واپس نہ آیا۔ بیوی بار بار دروازے کی طرف دیکھتی جا رہی تھی۔ آج بچی بھی کافی بے چین تھی کیونکہ اس کا والد اتنی دیر باہر نہیں ٹھہرتا تھا ۔ وہ کتنی دفعہ باہر کا دروازہ کھول کر گلی میں جھانک چکی تھی کہ کہیں سے اس کو اس کا باپ آتا ہوا دکھائی دے۔شام ہونے کو قریب تھی کہ باہر کا دروازہ کھلا اور نوجوان گھر کے اندر داخل ہوا۔ آج وہ شکل سے بہت ہی تھکا ہوا لگ رہا تھا۔ بیوی بے شمار سوال کر رہی تھی کہ آپ کہاں تھے؟ اتنی دیر آپ نے کہاں لگائی ہے اور کھانا بھی آپ کے انتطار میں ٹھنڈا ہو گیا ہے ۔ بچی بھی آپ کے انتظار میں تھک کر سو گئی ہے۔ وہ ساری باتیں سن رہا تھا اور وہ اسی چارپائی پر بیٹھ گیا جس پر اس کی بچی سو رہی تھی۔ اس نے بچی کے سر پر ہاتھ پھیرا اور بیوی سے ایک گلاس پانی مانگا۔ بیوی فورا دوڑ ی گئی اور پانی کا گلاس لے کر اس کے پاس آ گئی۔ نوجوان نے بیوی کے ہاتھ سے گلاس پکڑ کر ابھی چند گھونٹ ہی پیئے تھے کہ چکرا کر زمین پر گر پڑا اور وہ بے ہوش ہو گیا۔ یہ دیکھ کر بیوی کی چیخیں نکل گئیں اور وہ بھاگی بھاگی ساتھ کے گھر کے اندرداخل ہوئی اور رو رو کر بتانے لگی، یہ گھر اس نوجوان کے بڑے بھائی کا تھا ۔ نوجوان کا بڑا بھائی فوراً ہی اپنی بھاوجہ کے ساتھ آیا اور لوگ بھی چیخ وپکار سن کر گلی میں جمع ہو گئے۔نوجو ان کا بھائی گھر سے باہر آکر بولا ہے کوئی جو اس گلی کی نکڑپر موجود کلینک کے ڈاکٹر کو بلا کر لا سکے، پاس کھڑے ایک لڑکے نے جواب دیا تایا میں جاتا ہوں اور وہ بھاگ کر ڈاکٹر کو بلانے چلا گیا اورڈاکڑ فورا ہی اس لڑکے ساتھ آگیا۔ ڈاکٹر نے اس جب اس کو چیک کیا تو بولا آپ اس کو فورامیو ہسپتال لے جائیں دیر نہ کریں۔ لوگ بھاگ کر گئے اور آٹورکشا لے آئے، نوجوان کو اس میں ڈالا اور میو ہسپتا ل کی طرف چلنے کے لئے رکشا ڈرائیور کو کہا، رکشا ڈرائیور ساری سیچوئیشن کو سمجھ گیا اور وہ اپنی پوری مہارت کا مظاہرہ کرتے ہوئے بغیر تاخیر کے اس کولے کر ہسپتال پہنچ گیا۔ ایمر جنسی میں مریض کو لیجایا گیا اور تھوڑی دیر کے بعد ڈاکٹروں نے اس کی موت کو کنفرم کر دیا۔بڑا بھائی جب چھوٹے بھائی کی میت کو لے کر ایمرجنسی سے باہر آیا تو کافی لوگ وہاں آ کر جمع ہو گئے کہ اچانک ان سے ایک بولا، اوئے لالہ حمید اس آدمی کو دیکھو جو فوت ہو گیا ہے، یار یہ پیشہ وار خون بیچنے والا ہے۔ یہ تو اکژ یہاں آکرضرورت مند لوگوں کے پاس خون بیچتا تھا۔ بڑے بھائی نے یہ سن کر غصہ سے کہا تم کیا بکواس کر رہے ہو؟یہ سن کر اس آدمی نے کہاآپ اس لالہ حمید سے خود پوچھ لیں۔ اس آدمی نے ایک آدمی کی طرف اشارہ کر کے کہا اور لالہ حمید نے بھی اس کی تصدیق کر دی۔ اس کے بعد ہر طرف خاموشی چھا گئی۔ بڑا بھائی چھوٹے بھائی کی میت کو لے کر جب گھر واپس آیا تو نوجوان کی بیوی پر سکتہ طاری ہو گیا اور وہ پاگلوں کی طرح ہر ایک کو گھور رہی تھی۔ لوگ نوجوان کے بھائی کو کہہ رہے تھے کہ جو اللہ کو منظور تھا۔
میت کو جب نہلانے کا وقت آیا تو نہلانے والوں نے دیکھا کہ میت کا ایک کا ایک ہاتھ تو کھلا ہوا ہے لیکن دائیں ہاتھ کی مٹھی بھینچی ہو ئی ہے انہوں نے ذرا زور لگا کر ہاتھ کو کھولا تو اس کے اندر آٹھ آنے کا سکہ تھا۔ یہ وہ سکہ تھا جو وہ اپنی بیٹی کو غبارہ خریدنے کے لئے نہ دے سکاتھا۔
اس دنیا سے رخصت ہونے والا یہ نوجوان سعودی عرب میں 8سال گزارنے کے بعد چند سال پیشتر ہی طائف سعودی عرب سے واپس پاکستان گیا تھا کیونکہ کمپنی کے پروجیکٹس مکمل ہو گئے تھے اورابھی نئے پروجیکٹس نہیں مل رہے تھے۔ اس لئے اس نے فیصلہ کیا کہ وہ وطن واپس چلا جاتا ہے۔ وہ رات دن یہاں کام کرتا رہا اور سمجھ رہا تھا کہ اب وہ اتنے پیسے پاکستان بھیج چکا ہے کہ واپس جاکر کوئی اچھا سا کام کر سکتا ہے لیکن جب وہ واپس پاکستان گیا تو اسے معلوم ہوا کہ س کے بھیجے ہو ئے روپئے اس کے بھائی کھاتے پیتے رہے ہیں اور ان کے پاس اس کے بھیجے ہوئے روپوں میں سے کچھ بھی باقی نہیں بچا ہے ۔ اس کے پاس جو کچھ جمع پونجی باقی بچی ہوئی تھی اس سے وہ کیا کام کرے اس کی اس کو خود سمجھ نہیں آ رہی تھی۔ چنانچہ چند سالوں میں جمع پونجی بھی خرچ ہو گئی اور نوبت یہاں آگئی کہ جب وہ گھر کے اخراجات سے وہ پریشان ہو تا تو اپنا خون میو ہسپتال کے باہر چند سو روپئے کے عوض ضرورت مندوں کے ہاتھوں بیچ کرگھر آ جاتا۔ اس کے ساتھ ہی اس کی کوشش بھی تھی کہ وہ ایک بار پھر باہر پردیس چلا جائے۔ اس کے لئے وہ اکژ ملک سے باہر بھیجنے والوں کے دفتر کے چکر کاٹتا رہتا تھا۔
منیڈیٹ بھی آیا، عوام کے سر چشمہ والی حکومت بھی آئی لیکن اورسیز پاکستانیوں کے لئے نہ تو کوئی اورسیزخواتین یونیورسٹی اور نہ ہی اورسیز میڈیکل کالج بنا۔ حکومتیں آئیں اوران اورسیز پاکستانیوں کے ہاتھوں میں لالی پاپ دے کر ان کے سر پر ہاتھ پھیرتی رہیں۔
ہم لوگ جو سال ہا سال سے اپنے ملک سے باہر محنت کر رہے ہیں، ملک کو زر مبادلہ بھیج رہے ہیں۔ کیا ہمارے لئے کوئی ایسا متبادل پروگرام کسی کے پاس نہیں کہ ہمارا مستقبل محفوظ ہو جائے اور ہمارے مٹھی میں اتنے پیسے ہوں کہ ہم اپنے بچوں کی خواہش پر ان کو آٹھ آنے کا غبارہ ہی خرید کر دے سکیں؟

Tuesday, March 29, 2011

ماں جی

ماں جی

قدرت اللہ شہاب 

ماں جی کی پیدائش کا صحیح سال معلوم نہ ہو سکا جس زمانے میں لائل پور کا ضلع نیا نیا آباد ہو رہا تھا پنجاب کے ہر قصبے سے مفلوک الحال لوگ زمین حاصل کرنے کے لئے اس نئی کالونی میں کھنچے چلے آ رہے تھے عرفِ عام میں لائل پور ۔جھنگ ۔سرگودھا وغیرہ کو ۔بار۔ کا عکاقہ کہا جاتا تھا ۔
اُس زمانے میں ماں جی کی عمر دس بارہ سال تھی اس حساب سے اُن کی پیدائش پچھلی صدی کے آخری دس پندرہ سالوں میں کسی وقت ہوئی ہوگی۔ماں جی کا آبائی وطن تحصیل روپڑ ضلع انبالہ میں ایک گاؤں منیلہ نامی تھا والدین کے پاس چند ایکڑ اراضی تھی ۔ان دنوں روپڑ میں دریائے ستلج سے نہر سر ہند کی کھدائی ہو رہی تھی نانا جی کی اراضی نہر کی کھدائی میں ضم ہو گئی روپڑ میں انگریز حاکم کے دفتر سے ایسی زمین کے معاوضے دیئے جاتے تھے نانا جی دو تین بار معاوضے کی تلاش میں شہر گئے لیکن سیدھے آدمی تھے کبھی اتنا بھی معلوم نہ کرسکے کہ انگریز کا دفتر کہاں ہے اور معاوضہ وصول کرنے کے لئے کیا قدم اُٹھانا چاہیے۔انجامِ کار صبر و شکر کر کے بیٹھ گئے اور نہر کی کھدائی میں مزدوری کرنے لگے ۔ان ہی دنوں پرچہ لگا کہ بار میں کالونی کھل گئی ہے اور نئے آبادکاروں کو مفت زمین مل رہی ہے نانا جی اپنی بیوی دو ننھے بیٹوں اور ایک بیٹی کا کنبہ ساتھ لے کر لائل پور روانہ ہوگئے سواری کی توفیق نہ تھی اس لئے پاپیادہ چل کھڑے ہوئے ۔
نانی اور ماں جی کسی کا سوت کات دیتیں یا مکانوں کی چھت اور دیواریں لیپ دیتیں لائل پور کا صحیح راستہ کسی کو نہ آتا تھا جگہ جگہ بھٹکتے تھے اور پوچھ پوچھ کر دنوں کی منزل ہفتوں میں طے کرتے تھے۔ڈیڑھ دو مہینے کی مسافت کے بعد جڑانوالہ پہنچے پاپیادہ اور محنت مزدوری کی مشقت سے سب کے جسم نڈھال اور پاؤں سوجے ہوئے تھے یہاں پر چند ماہ قیام کیا نانا جی دن بھر غلہ منڈی میں بوریاں اُٹھانے کا کام کرتے نانی چرخہ کات کر سوت بیچتیں اور ماں جی گھر سنبھالتیانہی دنوں بقرعید کا تہوار آیا نانا جی کے پاس چند روپے جمع ہوگئے تھے انہوں نے تین آنے ماں جی کو بطور عیدی دئیے ۔زندگی میں پہلی بار ماں جی کے ہاتھ اتنے پیسے آئے تھے انہوں نے بہت سوچا مگر اِس رقم کا کوئی مصرف اُن کی سمھجھ میں نہ آ سکا ۔وفات کے وقت اُن کی عمر کوئی اسسی برس کے لگ بھگ تھی لیکن ان کے نزدیک سو روپے دس روپے مانچ روپے کے نوٹوں میں امتیاز کرنا آسان کام نہ تھا عیدی کے تین آنے کئی روز ماں جی کے دوپٹے کے ایک کونے میں بندھے رہے جس روز وہ جڑانوالہ سے رخصت ہو رہی تھیں ماں جی نے گیارہ پیسے کا تیل خرید کر مسجد کے چراغ میں ڈال دیا ۔باقی ایک پیسہ اپنے پاس رکھا اُس کے بعد جب کبھی گیارہ پیسے پورے ہو جاتے وہ فوراً مسجد میں تیبھجوا دیتیں ساری عمر جمعرات کی شام کو وہ اس عمل پر بڑی وضعداری سے پابند رہیں ۔رفتہ رفتہ بہت سی مسجدوں میں بجلی آ گئی لیکن لاہور اور کراچی جیسے شہروں میں بھی اُنہیں ایسی مسجدوں کا علم رہتا جن کے چراغ اب بھی تیل سے روشن ہوتے تھے ۔
وفات کی شب بھی ماں جی کے سرہانے ململ کے رومال میں بندھے ہوئے چند آنے موجود تھے غالباً یہ پیسے بھی تیل کے لئے جمع کر رکھے تھے کیونکہ وہ جمعرات کی شب تھی۔
ل ں جو ایک چھوٹے سے جھونپڑے پر مشتل تھا ۔ان چند آنوں کے علاوہ ماں جی کے پاس نہ کچھ اور رقم تھی نہ کوئی زیور اسبابِ دنیا میں اُن کے پاس گنتی کی چند چیزیں تھیں ۔تین جوڑے سوتی کپڑوں کے۔ایک جوڑا دیسی جوتا۔ایک جوڑی ربڑ کے چپل۔ایک عینک۔ایک انگوٹھی جس میں تین چھوٹے چھوٹے فیروزے جڑے ہوئے تھے ایک جائے نماز ایک تسبیح اور باقی اللہ اللہ۔پہننے کے تین جوڑوں کو وہ خاص اہتمام سے رکھتی تھیں ،ایک زیب تن کیا تو ایک اپنے ہاتھوں سے دھو کر تکئے کے نیچے رکھا رہتا تھا تاکہ استری ہوجائے تیسرا دھونے کے لئے تیار اس کے علاوہ اگر چوتھا کپڑا ان کے پاس آتا تھا تو وہ چپکے سے ایک جوڑا کسی کو دے دیتیں تھیں ،اسی وجہ سے ساری عمر اُنہیں سوٹ کیس رکھنے کی حاجت نہ ہوئی لمبے سے لمبے سفر پر روانہ ہونے کے لئے انہیں تیاری میں چند منٹ سے زیادہ نہ لگتے تھے کپڑوں کی پوٹلی بنا کر اُنہیں جائے نماز میں لپیٹا جاڑوں میں اُونی فر اور گرمیوں میں ململ کے دوپٹے کی بُکل ماری اور جہاں کہیے چلنے کو تیار۔سفرِ آخرت بھی اُنہوں نے اسی سادگی سے اختیار کیا میلے کپڑے اپنے ہاتھوں سے دھو کر تکئے کے نیچے رکھے نہا دھو کر بال سُکھائے اور چند ہی منٹوں میں زندگی کے سب سے لمبے سفر پر روانہ ہوگئیں جس خاموشی سے دنیا میں رہی تھیں اُسی خاموشی سے عقبیٰ کو سدھار گئیں غالباً اسی موقع کے لئے وہ اکثر یہ دعا مانگا کرتیں تھیں کہ اللہ تعالیٰ ہاتھ چلتے چلاتے اُٹھا لے اللہ کبھی کسی کا محتاج نہ کرے ۔
کھانے پینے میں وہ کپڑے لتے سے بھی زیادہ سادہ اور غریب مزاج تھیں اُن کی مرغوب ترین غذا مکئی کی روٹی دھنئیے پودینے کی چٹنی کے ساتھ تھی باقی چیزیں خوشی سے تو کھا لیتی تھیں لیکن شوق سے نہیں ہر نوالے پر اللہ کا شکر ادا کرتی تھیں پھلوں میں کبھی بہت ہی مجبور کیا جائے تو کیلے کی فرمائش کرتی تھیں البتہ ناشتے میں دو چائے کے پیالے اور تیسرے پہر سادہ چائے کا ایک پیالہ ضرور پیتی تھیں کھانا صرف ایک وقت کھاتیں تھیں اکثر وبیشتر دوپہر کا ،گرمیوں میں عموماً مکھن نکالی ہوئی پتلی نمکین لسسی کے ساتھ ایک آدھ سادہ چپاتی اُن کی محبوب خوراک تھی،دوسروں کو کوئی چیز رغبت سے کھاتے دیکھ کر خوش ہوتی تھیں اور ہمیشہ یہ دعا کرتیں تھیں کہ سب کا بھلا،خاص اپنے یا اپنے بچوں کے لئے اُنہوں نے براہِ راست کبھی کچھ نہ مانگا پہلے دوسروں کے لئے دعا مانگتیں تھیں اور اُس کے بعد مخلوقِ خدا کی حاجت روائی کے طفیل اپنے بچوں یا عزیزوں کا بھلا چاہتی تھیں ،اپنے بیٹوں یا بیٹیوں کو انہوں نے اپنی زبان سے کبھی میرے بیٹے یا میری بیٹی کہنے کا دعویٰ نہیں کیا ہمیشہ اُن کو اللہ کا مال کہا کرتیں تھیں۔
کسی سے کوئی کام لینا ماں جی پر بہت گراں گزرتا تھا اپنے سب کام وہ اپنے ہاتھوں خود انجام دیتی تھیں اگر کوئی ملازم زبردستی اُن کا کوئی کام کر دیتا تو اُنہیں ایک عجیب قسم کی شرمندگی کا احساس ہونے لگتا تھا اور وہ احسان مندی سے سارا دن اُسے دعائیں دیتی رہتی تھیں ۔سادگی اور درویشی کا یہ رکھ رکھاؤ کچھ تو قدرت نے ماں جی کی سرشت میں پیدا کیا تھا کچھ یقیناً زندگی کے زیر وبم نے سکھایا تھا ۔جڑانوالہ میں کچھ عرصہ قیام کے بعد جب وہ اپنے والدین اور بھائیوں کے ساتھ زمین کی تلاش میں لائل پور کالونی کی طرف روانہ ہوئیں تو اُنہیں کچھ معلوم نہ تھا کے اُنہیں کس مقام پر جانا ہے۔اور زمین حاصل کرنے کے لئے کیا قدم اُٹھانا چاہیے۔ماں جی بتایا کرتی تھیں کے اُس زمانے میں اُن کے ذہن میں کالونی کا تصور ایک فرشتہ سیرت بزرگ کا تھا جو کہیں سرِ راہ بیٹھا زمین کے پروانے تقسیم کر رہا ہوگا کئی ہفتے یہ چھوٹا سا قافلہ لائل پور کے علاقے میں پاپیادہ بھٹکتا رہا۔لیکن کسی راہگزر پر اُنہیں کالونی کا خضر صورت رہنما نہ مل سکا۔آخر تنگ آکر اُنہوں نے چک نمبر تین سو بیانوے جو ان دنوں نیا آباد ہو رہا تھا ڈیرے ڈال دئیے لوگ جوق در جوق وکالونی میں آباد ہونے کا شائد یہی طریقہ ہوگا۔چنانچہ انہوں نے ایک چھوٹا سا احاطہ گھیر کر گھاس پھونس کی جھونپڑی بنائی اور بنجر اراضی کا ایک قطعہ تلاش کرکے کاشت کی تیاری کرنے لگے انہی دنوں محکمہ مال کا عملہ پڑتال کے لئے آیا نانا جی کے پاس الاٹمنٹ کے کاغذات نہ تھے چناچہ اُنہیں چک سے نکال دیا گیا اور سرکاری زمین پر ناجائز جھونپڑا بنانے کی پاداش میں اُن کے برتن اور بستر قرق کر لئے ۔عملے کے ایک آدمی نے چاندی کی دو بالیاں بھی ماں جی کے کانوں سے اُتروالیں ایک بالی اُتارنے میں ذرا دیر ہوئی تو اس نے زور سے کھینچ لی جس سے ماں جی کے بائیں کان کا زیریں حصہ بری طرح پھٹ گیا۔
چک نمبر تین سو بیانوے سے نکل کر جو راستہ سامنے آیا اس پر چل کھڑے ہوئے گرمیوں کے دن تھے دن بھر لو چلتی تھی پانی رکھنے کے لئے مٹی کا پیالہ بھی پاس نہ تھا جہاں کہیں کوئی کنواں نظر آتا ماں جی اپنا ڈوپٹہ بھگو لیتیں تاکہ پیاس لگنے پر اپنے چھوٹے بھائیوں کی پیاس ڈوپٹہ نچوڑ کر بجھا سکیں ۔اس طرح وہ چلتے چلتے چک پانچ سو سات پہنچے جہاں ایک جان پہچان کے آباد کار نے نانا جی کو اپنا مزارع رکھ لیا۔نانا جی ہل چلاتے تھے نانہاں آکر آباد ہو رہے تھے نانا جی نے اپنی سادگی میں یہ سمجھا کہ مویشی چرانے لے جاتیں اور ماں جی کھیتوں سے گھاس اور چارہ کاٹ کر زمیندار کی بھینسوں اور گایوں کے لئے لایا کرتی تھیں اُن دنوں اُنہیں اتنا مقدور بھی نہ تھا کہ ایک وقت کی روٹی بھی پوری طرح کھا سکیں کسی وقت جنگلی بیروں پر گزارہ ہوتا تھا کبھی خربوزے کے چھلکے اُبال کر کھا لیتے تھے کبھی کسی کھیت میں کچی انبیاں گری ہوئی مل گئیں تو اُن کی چٹنی بنا لیتے تھےایک روز کہیں سے تورئیے اور کلتھے کا ملا جلا ساگ ہاتھ آ گیا۔
نانی محنت مزدوری میں مصروف تھی ماں جی نے ساگ چولہے پر چڑھایا جب پک کر تیار ہو گیا اور ساگ کو الن لگا کر گھوٹنے کا وقت آیا تو ماں جی نے ڈوئی ایسے زور سے چلائی کہ ہنڈیا کا پیندا ٹوٹ گیا اور سارا ساگ بہہ کر چولہے میں آپڑا ماں جی کو نانی سے ڈانٹ پڑی اور مار بھی رات کو سارے خاندان نے چولہے کی لکڑیوں پر گرا ہوا ساگ اُنگلیوں سے چاٹ چاٹ کر کسی قدر پیٹ بھرا ۔
چک نمبر پانچ سو سات نانا جی کو خوب راس آیا چند ماہ کی محنت مزدوری کے بعد نئی آباد کاری کے سلسلے میں آسان قسطوں پر اُن کو ایک مربع زمیں مل گئی رفتہ رفتہ دن پھرنے لگے اور تین سال میں اُن کا شمار گاؤں کے کھاتے پیتے لوگوں میں ہونے لگا جوں جوں فارغ البالی بڑھتی گئی تو آبائی وطن کی یاد ستانے لگی چناچہ خوشحالی کے چار پانچ سال گزارنے کے بعد سارا خاندان ریل میں بیٹھ کر منیلہ کی طرف روانہ ہوا ریل کا سفر ماں جی کو بہت پسند آیا وہ سارا وقت کھڑکی سے منبہت سے ذرے اُن کی آنکھوں میں پڑ گئے جس کی وجہ سے کئی روز تک وہ آشوبِ چشم مییں مبتلا رہیں ۔اس تجربے کے بعد اُنہوں نے ساری عمر اپنے کسی بچے کو ریل کی کھڑکی سے باہر منہ نکالنے کی اجازت نہ دی۔
ماں جی ریل کے تھرڈ کلاس ڈبے میں بہت خوش رہتی تھیں ہم سفر عورتوں اور بچوں سے فوراً گھل مل جاتیں سفر کی تھکان اور راستے کے گرد وغبار کا اُن پر کچھ اثر نہ ہوتا ۔اِس کے برعکس اونچے درجوں میں بہت بیزار ہو جاتیں ایک دو بار جب اُنہیں مجبوراً ائیر کنڈیشن ڈبے میں سفر کرنا پڑا تو وہ تھک کر چور ہوگئیں اور سارا وقت قید کی صعوبت کی طرح اُن پر گراں گزرا۔
منیلہ پہنچ کر نانا جی نے اپنا آبائی مکاں درست کیا عزیز واقارب کو تحائف دیئے دعوتیں ہوئیں اور پھر ماں جی کے لئے بر ڈھونڈنے کا سلسلہ شروع ہو گیا ۔اس زمانے میں لائل پور کے مربع داروں کی بڑی دھوم تھی اُن کا شمار خوش قسمت اور باعزت لوگوں میں ہوتا تھا چناچہ چاروں طرف سے ماں جی کے لئے پے در پے ہ بپیام آنے لگے یوں بھی اُن دنوں ماں جی کے بڑے ٹھاٹھ باٹ تھے برادری والوں پر رعب گاٹھنے کے لئے نانی جی اُنہیں ہر روز نئے کپڑے پہناتیں اور ہر وقت دلہنوں کی طرح سجا کر رکھتی تھیں ۔کبھی کبھار پرانی یادوں کو تازہ کرنے کے لئے ماں جی بڑے معصوم فخر سے کہا کرتی تھیں اُن دنوں میرا تو گاؤں میں نکلنا تک دوبھر ہوگیا تھا میں جس طرف سے گزر جاتی لوگ ٹھٹھک کر کھڑے ہوجاتے اور کہا کرتے یہ خیال بخش مربع دار کی بیٹی جا رہی ہے ۔دیکھئیے کون سا خوش نصیب اسے بیاہ کر لے جائے گا ۔
ماں جی ! آپ کی اپنی نظر میں کوئی ایسا خوش نصیب نہیں تھا ؟
ہم لوگ چھیڑنے کی خاطر اُن سے پوچھا کرتے۔
توبہ توبہ پُٹ ! ماں جی کانوں پر ہاتھ لگاتیں میری نظر میں بھلا کوئی کیسے ہوسکتا تھا ہاں میرے دل میں اتنی سی خواہش ضرور تھی کہ اگر نجھے اہر نکال کر تماشہ دیکھتی رہیں اس عمل میں کوئلے کایسا آدمی ملے جو دو حروف پڑھا لکھا ہو تو خدا کی بڑی مہربانی ہوگی۔
ساری عمر میں غالباً یہی ایک خواہش تھی جو ماں جی کے دل میں خود اپنی ذات کے لئے پیدا ہوئی ۔اس کو خدا نے یوں پورا کر دیا کہ اسی سال ماں جی کی شادی عبداللہ صاحب سے ہوگئی اُن دنوں سارے علاقے میں عبداللہ صاحب کا طوطی بول رہا تھا وہ ایک امیر و کبیر گھرانے کے چشم وچراغ تھے لیکن پانچ چھ برس کی عمر میں یتیم بھی ہوگئے اور بے حد مفلوک الحال بھی۔جب باپ کا سایہ سر سے اُٹھا تو یہ انکشاف ہوا کہ ساری آبائی جائیداد رہن پڑی ہے چانچہ عبداللہ صاحب اپنی والدہ کے ساتھ ایک جھونپڑے میں اُٹھ آئے ۔زر اور زمین کا یہ انجام دیکھ کر اُنہوں نے ایسی جائیداد بنانے کا عزم کر لیا جو مہاجنوں کے ہاتھ گروی نہ رکھی جا سکے چناچہ عبداللہ صاحب دل وجان سے تعلیم حاصل کرنے میں منہمک ہوگئے ۔وظیفے پر وظیفہ حاصل کر کے اور دو دو سال کے امتحان ایک سال میپاس کرکے پنجاب یونیورسٹی کے میٹریکولیشن میں اول آئے اُس زمانے میں غالباً یہ پہلا موقف تھا کے کسی مسلمان طالب علم نے یونیورسٹی امتحان میں ریکارڈ قائم کیا ہو۔
اُڑتے اُڑتے یہ خبر سر سید کے کانوں میں پڑ گئی جو اس وقت علی گڑھ مسم کالج کی بنیاد رکھ چکے تھے اُنہوں نے اپنا خاص منشی گاؤں میں بھیجا اور عبداللہ صاحب کو وظیفہ دے کر علی گڑھ بلا لیا یہاں پر عبداللہ صاحب نے خوب بڑھ چڑھ کر اپنا رنگ نکالا اور بی ۔اے کرنے کے بعد انیس برس کی عمر میں وہیں پر انگریزی۔عربی ۔فلسفہ اور حساب کے لیکچرر ہوگئے۔
سرسید کو اس بات کی دُھن تھی کہ مسلمان نوجوان زیادہ تعداد میں اعلیٰ ملازمتوں پر جائیںچناچہ انہوں نے عبداللہ صاحب کو سرکاری وظیفہ دلوایا کہ وہ انگلستان جا کر آئی ۔سی۔ایس کے امتحان میں شریک ہوں ۔پچھلی صدی کے بڑے بوڑھے سات سمندر پار کے سفر کو بلائے ناگہانی سمھجتے تھے عبداللہ صاحب کی والسہ نے بیٹے کو ولایت جانے سے منع کر دیا عبداللہ صاحب کی سعادت مندی آڑے آئی اور اُنہوں نے وظیفہ واپس کر دیا۔
اس حرکت پر سرسید کو بے حد غصہ بھی آیا اور دکھ بھی ہوا۔اُنہوں نے لاکھ سمجھایا۔بھجھایا۔ڈرایا لیکن عبداللہ صاحب ٹس سے مس نہ ہوئے ۔
کیا تم اپنی بوڑھی ماں کو قوم کے مفاد پر ترجیحح دیتے ہو سر سید نے کڑک کر پوچھا۔
جی ہاں ۔عبداللہ صاحب نے جواب دیا۔
یہ ٹکا سا جواب سُن کر سرسید آپے سے باہر ہوگئے کمرے کا دروازہ بند کرکے پہلے اُنہوں نے عبداللہ صاحب کو لاتوں مکوں تھپڑوں اور جوتوں سے خوب پیٹا اور کالج کی نوکری سے برخوست کرکے یہ کہہ کر علی گڑھ سے نکال دیا ”اب تم ایسی جگہ جا کر مرو جہاں سے میں تمھارا نام بھی نہ سن سکوں ۔

عبداللہ صاحب جتنے سعادت مند بیٹے تھے اتنے سعادت مند شاگرد بھی تھے نقشے پر انہیں سب سے دور افتادہ اور دشوار گزار مقام گلگت نظر آیا چناچہ وہ ناک کی سیدھ گلگت پہنچے اور دیکھتے ہی دیکھتے وہاں گورنری کے عہدے پر فائز ہو گئے۔جن دنوں ماں جی کی منگنی کی فکر ہو رہی تھی انہی دنوں عبداللہ صاحب بھی چھٹی پر گاؤں آئے ہوئے تھے قسمت میں دونوں کا سنجوگ لکھا ہوا تھا ان کی منگنی ہوگئی اور ایک ماہ بعد شادی بھی ٹھہر گئی تاکہ عبداللہ دلہن کو اپنے ساتھ گلگت لے جا سکیں۔
منگنی کے بعد ایک روز ماں جی اپنی سہیلیوں کے ساتھ پاس والے گاؤں میں میلہ دیکھنے گئی ہوئی تھیں اتفاقاً یا شائد دانستہ عبداللہ صاحب بھی وہاں پہنچ گئے ۔ماں جی کی سہیلیوں نے اُنہیں گھیر لیا اور ہر ایک نے چھیڑ چھیڑ کر اُنہیں ماں جی کو کچھ پیش کرنے کو کہا اُنہوں نے پانچ روپئے پیش کئے لیکن ماں جی نے انکار کر دیا بہت اصرار بڑھ گیا تو مجبوراً ماں جی نے گیارہ پیسے کی فرمائش کی۔
اتننے پوچھا۔
اگلی جمعرات کو آپ کے نام سے مسجد میں تیل ڈلوادوں گی ۔ماں جی نے جواب دیا۔
زنداگی کے میلے میں بھی عبداللہ صاحب کے ساتھ ماں جی کا لین دین صرف جمعرات کے گیارہ پیسوں تک ہی محدود رہا۔اس سے زیادہ رقم نہ کبھی انہوں نے مانگی نہ اپنے پاس رکھی۔گلگت میں عبداللہ کی بڑی شان وشوکت تھی خوبصورت بنگلہ ۔وسیع باغ ۔نوکر چاکر۔دروازے پر سپاہیوں کا پہرہ جب عبداللہ صاحب دورے پر باہر گھیر لیا اور ہر ایک نے چھیڑ چھیڑ کر اُنہیں ماں جی کو کچھ پیش کرنے کو کہا اُنہوں نے پانچ روپئے پیش کئے لیکن ماں جی نے انکار کر دیا بہت اصرار بڑھ گیا تو مجبوراً ماں جی نے گیارہ پیسے کی فرمائش کی۔
اتنے بڑے میلے میں گیارہ پیسے لے کر کیا کرو گی۔عبداللہ صاحب نے پوچھا۔
اگلی جمعرات کو آپ کے نام سے مسجد میں تیل ڈلوادوں گی ۔ماں جی نے جواب دیا۔
ے بڑے میلے میں گیارہ پیسے لے کر کیا کرو گی۔عبداللہ صاحب زنداگی کے میلے میں بھی عبداللہ صاحب کے ساتھ ماں جی کا لین دین صرف جمعرات کے گیارہ پیسوں تک ہی محدود رہا۔اس سے زیادہ رقم نہ کبھی انہوں نے مانگی نہ اپنے پاس رکھی۔گلگت میں عبداللہ کی بڑی شان وشوکت تھی خوبصورت بنگلہ ۔وسیع باغ ۔نوکر چاکر۔دروازے پر سپاہیوں کا پہرہ جب عبداللہ صاحب دورے پر باہر
جب روس میں انقلاب برپا ہوا تو لارڈ کچز سرحدوں کا معائنہ کرنے گلگت آئے۔اُن کے اعزاز میں گورنر کی طرف سے ضیافت کا انتظام ہوا ۔ماں جی نے اپنے ہاتھ سے دس بارہ قسم کے کھانے پکائے کھانے لذیذ تھے لارڈ کچز نے اپنی تقریر میں کہا ۔مسٹر گورنر جس خانساماں نے یہ کھانے پکائے ہیں برائے مہربانی میری طرف سے آپ اُن کے ہاتھ چوم لیں۔دعوت کے بعد عبداللہ صاحب فرحاں وشاداں گھر لوٹے تو دیکھا کہ ماں جی باورچی کھانے کے ایک گوشے میں چٹائی پر بیٹھی نمک اور مرچ کی چٹنی کے ساتھ مکئی کی روٹی کھا رہی ہیں۔
ایک اچھے گورنر کی طرح عبداللہ صاحب نے ماں جی کے ہاتھ چومے اور کہا ۔اگر لارڈ کچز یہ فرمائش کرتے کہ وہ خود خانساماں کے ہاتھ چومنا چاہتا ہے تو پھر تم کیا کرتیں ؟
میں۔۔۔۔۔
ماں جی تنک کر بولیں ۔میں اُس کی مونچھیں پکڑ کر جڑ سے اُکھاڑ دیتی ۔پھر آپ کیا کرتے ؟
میں ۔۔۔ عبداللہ صاحب نے ڈرامہ کیا۔۔۔۔۔۔
میں اُن مونچھوں کو روئی میں لپیٹ کر وائسرائے کے پاس بھیج دیتا اور تمیہں ساتھ لے کر کہیں اور بھاگ جاتا جیسے سرسید کے ہاں سے بھاگا تھا۔
ماں جی پر ان مکالموں کا کچھ اثر نہ ہوتا تھا لیکن ایک بار۔۔۔۔۔۔۔۔
ماں جی رشک وحسد کی اس آگ میں جل بھن کر کباب ہو گئیں جو ہر عورت کا ازلی ورثہ ہے۔
گلگت میں ہر قسم کے احکامات گورنری کے نام پر جاری ہوتے تھے جب یہ چرچا ماں جی تک پہنچا تو انہوں نے عبداللہ صاحب سے گلہ کیا ۔بھلا حکومت تو آپ کرتے ہیں لیکن گورنری گورنری کہہ کر مجھ غریب کا نام بیچ میں کیوں لایا جاتا ہے خوامخواہ ۔
عبداللہ صاحب علی گڑھ کے پڑھے ہوئے تھے رگِ ظرافت پھڑک اُٹھی اور بے اعتنائی سے فرمایا ،بھاگوان،یہ تمہارا نام تھوڑی ہے گورنری تو دراصل تمھاری سوکن ہے جو رات دن میرا پیچھا کرتی ہے۔مذاق کی چوٹ تھی عبداللہ صاحب نے سمجھا بات آئی گئی ہو گئی کین ماں جی کے دل میں غم بیٹھ گیا اس غم میں وہ اندر ہی اندر کڑھنے لگیں کچھ عرصہ بعد کشمیر کا مہاراجہ پرتاپ سنگھ اپنی مہارانی کے ساتھ گلگت کے دورے پر آیا ۔ماں جی نے مہارانی کو اپنے دل کا حال سنایا مہارانی بھی سادہ عورت تھی جلال میں آ گئی ۔ہائے ہائے ہمارے راج میں ایسا ظلم ،میں آج ہی مہاراج سے کہوں گی کہ وہ عبداللہ صاحب کی خبر لیں۔جب یہ مقدمہ مہاراج پرتاپ سنگھ تک پہنچا تو اُنھوں نے عبداللہ صاحب کو بلا کر پوچھ گچھ کی ۔عبداللہ صاحب بھی حیران تھے کہ بیٹھے بٹھائے یہ کیا افتاد آن پڑی لیکن جب معاملے کی تہہ تک پہنچے تو دونوخوب ہنسے آدمی دونوں ہی وضعدار تھے چناچہ مہاراجہ نے حکم نکالا کہ آئندہ سے گلگت کی گورنری کو وزارت اور گورنر کو وزیر وزارت کے نام سے پکارا جائے ۔جنگ آزادی تک گلگت میں یہی سرکاری اصطلاحات رائج تھیں۔
یہ حکم نامہ سن کر مہارانی نے ماں جی کو بلا کر خوشخبری سنائی کہ مہاراج نے گورنری کو دیس نکالا دے دیا ہے ۔اب تم دودھوں نہاؤ پوتوں پھلو۔کبھی ہمارے لئے بھی دعا کرنا۔
مہاراجہ اور مہارانی کے کوئی اولاد نہ تھی اس لئے وہ اکثر ماں جی سے دعا کی فرمائش کرتے تھے ۔اولاد کے معاملے میں ماں جی کیا واقعی خوش نصیب تھیں ؟ یہ ایک ایسا سوالیہ نشان ہے جس کا جواب آسانی سے نہیں سوجھتا۔
ماں جی خود ہی تو کہا کرتیں تھیں کہ اُن جیسی خوش نصیب ماں دنیا میں کم ہی ہوتی ہے لیکن اگر صبر و شکر تسلیم ورضا کی عینک اُتار کر دیکھا جائے تو اس خوش نصیبی کے پردے میں کتنے دکھ کتنے غم کتنے صدمے نظر آتے ہیں ۔اللہ میاں نے ماں جی کو تین بیٹے اور تین بیٹیاں عطا کیں دو بیٹیاں شادی کے کچھ عرصے بعد یکے بعد دیگرے فوت ہو گئیں سب سے بڑا بیٹا عین عالمِ شباب میں انگلستان جا کر گزر گیا۔کہنے کو تو ماں جی نے کہہ دیا کہ اللہ کا مال تھا اللہ نے لیا لیکن کیا وہ اکیلے میں چھپ چھپ کے خون کے آنسو نہ رویا کرتی ہوں گی۔
جب عبداللہ صاحب کا انتقال ہوا تو اُن کی عمر باسٹھ سال اور ماں جی کی عمر پچپن سال تھی ۔سہہ پہر کا وقت تھا عبداللہ صاحب بان کی کھردری چارپائی پر حسبِ معمول گاؤ تکیہ لگا کر نیم دراز تھے ماں جی پائنیتی پر بیٹھی چاقو سے گنا چھیل چھیل کر ان کو دے رہی تھیں وہ مزے مزے سے گنا چوس رہے تھے اور مذاق کر رہے تھے پھر یکایک وہ سنجیدہ ہو گئے اور کہنے لگے ،بھاگوان شادی سے پہلے میلے میں میں نے تمہیں گیارہ پیسے دئیے تھے کیا اُن کو واپس کرنے کا وقت نہیں آیا ؟ ماں جی نے نئی نویلی دلہنوں کی طرح سر جھکا لیا اور گنا چھیلنے میں مصروف ہو گئیں۔
ان کے دل میں بیک وقت بہت سے خیال اُمڈ آئے ،ابھی وقت کہاں آیا ہے سرتاج شادی کے پہلے گیارہ پیسوں کی تو بڑی بات ہے لیکن شادی کے بعد جس طرح تم نے میرے ساتھ نباہ کیا ہے اس پر میں نے تمہارے پاؤں دھو کر پینے ہیں۔اپنی کھال کی جوتیاں تمہیں پہنانی ہیں ۔ابھی وقت کہاں آیا ہے میرے سرتاج۔
لیکن قضا وقدر کے بہی کھاتے میں وقت آچکا تھا جب ماں جی نے سر اُٹھایا تو عبداللہ صاحب گنے کی قاش منہ میں لئے گاؤ تکیہ پر سو رہے تھے ماں جی بہتیرا بلایا ہلایا چمکارا لیکن عبداللہ صاحب ایسی نیند سو گئے تھے جس سے بیداری قیامت سے پہلے ممکن ہی نہیں ۔
ماں جی نے اپنے باقی ماندہ دونوں بیٹوں اور ایک بیٹی کو سینے سے لگا کر تلقین کی ۔بچہ رونا مت ،تمہارے ابا جی جس آرام سے رہے تھے،اُسی آرام سے چلے گئے اب رونا مت اُن کی روح کو تکلیف پہنچے گی۔کہنے کو تو ماں جی نے کہہ دیا کہ اپنے ابا کی یاد میں نہ رونا ورنہ ان کو تکلیف پہنچے گی ۔لیکن کیا وہ خود چوری چھپے اُس خاوند کی یاد میں نہ روئی ہوں گی جس نے باسٹھ سال کی عمر تک اُنہیں ایک الہڑ دلہن سمجھا اور جس نے ” گورنری ” کے علاوہ اور کوئی سوکن اُن کے سر پر لا کر نہیں بٹھائی ۔
جب وہ خود چل دیں تو اپنے بچوں کے لئے ایک سوالیہ نشان چھوڑ گئیں جو قیامت تک اُنہیں عقیدت کے بیاباں میں سرگرداں رکھے گا۔
اگر ماں جی کے نام پر خیرات کی جائے تو گیارہ پیسے سے زیادہ ہمت نہیں ہوتی لیکن مسجد کا ملا پریشان ہے کہ بجلی کا ریٹ بڑھ گیا ہے اور تیل کی قیمت گراں ہو گئی ہے۔
ماں جی کے نام پر فاتحہ دی جائے تو مکئی کی روٹی اور نمک مرچ کی چٹنی سامنے آتی ہے لیکن کھانے والا درویش کہتا ہے کہ فاتحہ درود میں پلاؤ اور زردے کا اہتمام لازم ہے۔
ماں جی کا نام آتا ہے تو بے اختیار رونے کو جی چاہتا ہے ۔لیکن اگر رویا جائے تو ڈر لگتا ہے کہ ماں جی کی روح کو تکلیف نہ پہنچے اور اگر ضبط کیا جائے تو خدا کی قسم ضبط نہیں ہوتا۔


--

Friday, March 25, 2011

ایک انوکھا سرقہ’قصہ ایک مناجات کی چوری کا‘

ایک انوکھا سرقہ’قصہ ایک مناجات کی چوری کا‘

مطیع الرحمن عزیز(دہلی)

 اردو شاعری کی تاریخ میں ایسے کئی واقعات ہیں کہ کسی نے مشاعرہ میں کسی دوسرے شاعر کا کلام اپنے نام سے سنا دیا۔بعض اوقات ایسے لطیفے بھی ہوئے کہ صاحبِ صدر یا مہمانِ خصوصی کا کلام پڑھنے والے نے دیدہ دلیری کے ساتھ اپنے نام سے سنا دیا۔اب چونکہ اخبارات،کتابوں اور رسالوں کے ذریعے اشاعت کے وسیع مواقع سامنے آگئے ہیں تو دوسروں کا کلام اپنے نام سے چھپوانے والے بھی دیدہ دلیری کے ساتھ یہ کام کر رہے ہیں۔ہم اس وقت سائبر عہد میں جی رہے ہیں۔یہاں کسی کی معمولی سے معمولی یا بڑی سے بڑی کوئی چوری بھی زیادہ دیر تک چھپی نہیں رہ سکتی۔پھر سمجھ میں نہیں آتا کہ چوری کرنے والے لیے ایسا کام کیوں کرتے ہیں جس کا انجام آخر کار شرمندگی اور رسوائی ہی ہوتا ہے۔اس سلسلہ میں شاعری چوری کرنے کی بے شمار مثالوں کے ساتھ نثر چوری کرنے کی بھی کئی مثالیں دی جا سکتی ہیں۔لیکن میں طوالت سے بچنے کے لیے آج صرف ایک چوری کا ذکر کروں گاجو اس لحاظ سے انوکھی ہے کہ یہ کسی غزل یا نظم کی نہیں بلکہ”مناجات بدرگاہ قاضی الحاجات“کی چوری کا قصہ ہے۔ حمد،نعت و مناجات کا سلسلہ شاعرانہ قابلیت جتا کر شہرت سمیٹنے سے زیادہ اللہ اور اس کے رسول کی رضا و خوشنودی سمیٹنے سے تعلق رکھتا ہے۔اب کیا چوری کے کلام سے اللہ اور اس کے رسول کو خوش کیا جا سکتا ہے؟
مناجات کے سرقہ کی تازہ واردات کی نشان دہی سے پہلے بتانا چاہوں گا کہ میرے والدِ بزرگوارعزیزالرحمن عزیز سلفی صاحب ایک عرصہ سے شعر موزوں کرنے کا شغف رکھتے تھے۔میں نے ان کا کلام جمع کرکے اور اسے مناسب طریقے سے ترتیب دے کر گزشتہ برس جنوری ۰۱۰۲ء(محرم الحرام ۱۳۴۱ھ)میں شائع کرایا تھا۔اس مجموعہ کا نام”پرواز“ ہے اور اسے دہلی کے معروف اشاعت گھر ایجوکیشنل پبلشنگ ہاو¿س نے شائع کیا تھا۔اس مجموعہ کے صفحہ نمبر ۵۴ پر ان کی ایک مناجات بہ عنوان ”مناجات بدرگاہ قاضی الحاجات“(۷جولائی ۸۷۹۱ئ)شامل ہے۔جس کے سات اشعارپیش ہیں۔
اے خدائے دوجہاںلم ےزل،مرے جرم پر نہ عذاب دے
تو غفور ہے تو رحےم ہے، نہ جہنمی کاخطاب دے
مےں فقےر بےکس و بے نوا، مےں نحےف لاغر و ناتواں
مری منزلےں ہےںکٹھن بہت، مرے عزم مےںتب وتاب دے
بھرا ظلمتوںسے ہے ےہ جہاں، نہےںراہ مےںکوئی روشنی
تری راہ جس سے مےںپاسکوں،مرے ہاتھ مےںوہ شہاب دے
وہ گھڑی کہ عالم حشر مےں، ملے آدمی کو کتابچہ
کرم اے خدا مرے حال پر، مرے داہنے مےںکتاب دے
اے شہنشہِ ارض وسما، تری بارگہ مےں ہے التجا
مری لغزشوں کو معاف کر، مری نےکےوںکاثواب دے
مری جستجو مری آرزو، مری زندگی مری بندگی
مےںبھٹک رہا ہوںتودرپہ لا، نہ عتاب کر نہ عتّاب دے
مےںعزےز ہوں تو عزےزگر، مےں ہوں تشنہ لب تو خےال کر
ترا عشق جس سے نکھر سکے ، وہی جام دے وہ شراب دے
   نہایت افسوس کے ساتھ مجھے یہ بتانا پڑ رہا ہے کہ اس مناجات کو عبدالرب ثاقب صاحب نے ”مرے جرم پر نہ عذاب دے“کے عنوان کے ساتھ شائع کرایا ہے۔کمال یہ ہے کہ مناجات کے آخری شعر میں جہاں عزیزالرحمن عزیز سلفی صاحب نے اپنے نام کی مناسبت سے ”مےںعزےز ہوں تو عزےزگر“کہہ کر مقطع میں تخلص کا ستعمال کیاہے،عبدالرب ثاقب صاحب نے اسے بھی جوں کا توں اڑا لیا ہے۔اس سے بھی زیادہ افسوس کی بات یہ ہے کہ اس مناجات کی چوری کی واردات کرنے والے دوست نے جمعیت اہل حدیث کے پندرہ روزہ اخبار”ترجمان“دہلی میں اسے شائع کرایا ہے۔ایک بار نہیں بلکہ دو بار۔پہلے یکم جنوری تا ۵۱جنوری ۱۱۰۲ءکے شمارہ میں اور پھر ۶۱ تا ۱۳ مارچ ۱۱۰۲ءکے شمارہ میں ۔اس طرح کے سرقے زیادہ دیر تک چھپ نہیں سکتے تو عبدالرب ثاقب صاحب نے اپنے آپ کے ساتھ ایسی زیادتی کیوں کی؟
  میں ریکارڈ کی درستی کرنے کے ساتھ امید کرتا ہوں کہ عبدالرب ثاقب صاحب اپنے اس انوکھے سرقہ پر کھلے عام معافی مانگیں گے اور جمعیت اہل حدیث کے اخبار”ترجمان“دہلی میں بھی اس پر معذرت شائع کرکے اصل حقیقت آشکار کی جائے گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

طرس بخاری بحیثیت مزاح نگار

طرس بخاری بحیثیت مزاح نگار
پطرس بخاری

   لکھنوٴ یونیورسٹی میں داخل ہوئے ایک مہینہ گزرا تھا کہ ایک دن لائبریری میں مشفق وصی رضا نے میرے ہاتھ میں ڈکنس کی ایک ناول دیکھ کر کہا ”اگر سچ مچ ہنستے ہنستے لوٹ لوٹ جانا چاہتے ہو تو مضامین پطرس پڑھو“میں سن کر چپ ہورہا۔ میں یونیورسٹی میں انگریزی ادب کی علویت کا اور اردو ادب کی اتنی ہی پستی کا احساس لے کر داخل ہوا تھا۔ ساتھ ہی ساتھ میں اگر صاحبِ ذوق تھا نہیں تو اس قدر بنتا ضرور تھا کہ اعلیٰ ترین تصانیف کے علاوہ ہر معمولی تصنیف سے نفرت کا اظہار کرنا فرض سمجھتا تھا۔ پھر اس وقت میری ایک اور بھی بڑی خاص رائے تھی جو میرے جاننے والوں میں کچھ مقبول سی ہوچکی تھی وہ یہ کہ جسمانی امراض بھی ادبی تاثرات سے دور کئے جا سکتے ہیں اور کیونکہ پیٹ کی خرابی اس وقت ایک عام مرض تھا جس میں، میں مبتلا تھا اس لئے اپنے نظریہ کی مثال میں یہ کہا کرتا تھا کہ پیٹ خراب ہو تو ڈکنس کی ناولیں پڑھو، پیٹ ٹھیک ہوجائے گا۔ چنانچہ میرے ہاتھ میں ڈکنس کی ناول دیکھ کر وصی رضا نے یہی تصور کیا تھا کہ جیسے میں دوا کی شیشی لے جا رہا ہوں۔ اور جیسے لوگ انگریزی دوا کی شیشی ہاتھ میں دیکھ کر ڈاکٹر کا نام پوچھ کر اکثر کہتے ہیں بھئی کیا ڈاکٹری دوالئے پھرتے ہو حکیم کا علاج کراؤ جلد فائدہ ہوگا۔ اسی طرح وصی رضا نے بھی ڈکنس کی بجائے پطرس کے علاج کا مشورہ دیا مگر جیسے جدید لوگ حکیم کے علاج کا نام آتے ہی صاف ٹال دیتے ہیں اور مشورہ دینے والے کو نیچی نگاہ سے دیکھتے ہوئے چلے جاتے ہیں۔ ویسے ہی میں نے وصی رضا کو دیکھا اور اپنا رستہ لیا۔
    پطرس نام عجیب تھا۔ کوئی عیسائی ہے؟ نہیں عیسائی عبرانی نام سے عربی نام پر اُتر آنے کی ذلت برداشت نہیں کرسکتا۔ کوئی لونڈا لپاڑی ہوگا جس نے یہ تخلص رکھ لیا اور پھکڑ بازی کرتا ہوگا۔ وصی رضا اردو کے لکھنے والوں کو اچھالا کرتے تھے۔ بات یہ تھی کہ وہ اردو بہت زیادہ جانتے تھے مگر انگریزی میں تھے کورے، اس لئے پطرس کو ڈکنس کی بجائے پیش کرکے ہم کو دھوکے میں ڈالنا چاہتے تھے۔
    مگر کچھ عرصہ کے بعد معلوم ہوا کہ پطرس کوئی لونڈا لپاڑی نہیں جس استاد نے ہمیں انگریزی ہیومر کو سمجھنا سکھایا تھا۔ وہ اور پطرس کیمبرج میں ساتھی تھے۔ پطرس اصل میں پروفیسر بخاری تھے جو ہندوستان کے سب سے بہتر تعلیمی ادارے یعنی گورنمنٹ کالج لاہور میں انگریزی ادب پڑھاتے تھے فوراً ہمیں یقین آگیا کہ وہ ضرور جانتے ہوں گے کہ ہیومر کیا چیز ہے مگر ان کا ہیومرسٹ ہونا ابھی تک شبہ میں تھا۔
    مگر جادو وہ جو سر چڑھ کر بولے۔ جادو سر چڑھ کر بولتا ہے ہم مانیں چاہے نہ مانیں وہ سر پر چڑھ ہی بیٹھے گا۔ اور پھر ہم کو اسے ماننا ہی پڑے گا ایک جادو اقبال تھا۔ ”شکوہ“ و ”جواب شکوہ“ پڑھتے ہی ہمارے سر پر ایسا سوار ہوا کہ قیامت کے دن بھی سوار ہی نظر آئے گا۔ دوسرا جادو پطرس، اس کے سر پر سوار ہونے کا قصہ سنیئے۔
پطرس بخاری کو ایمی تمغه مل گیا هے
    کوئی نصاب کی کتاب تھی۔ اس میں ”کتے“ نظر آیا۔ کتے ہمارے لئے بھی عجیب ہی جانور تھے۔ ہمیں ان سے اس قدر ڈر لگا کرتا تھا کہ جس گلی میں داخل ہوتے تو پہلے دیکھ لیتے کہ دور دور تک کوئی کتا تو نظر نہیں آرہا ہے اور اگر نظر آتا تو اس گلی میں کبھی قدم آگے نہ بڑھاتے۔ ہمارے دوست اس بات پر ہمارا مذاق اڑایا کرتے۔ ہمارے بزرگ ڈانٹا کرتے۔ کتے سے ڈر ہمارے اندر فطری تھا۔ پھر ہم نے اسٹیونس کی کتاب ”ٹرلولیزوتھ اے ونکی“ پڑھی اس نے ایک جگہ کتوں سے خوف کا پُرلطف ذکر کیا۔ ہمیں بڑی تقویت ہوئی کہ ایک تو ساتھی ملا۔   اس پس منظر کو ساتھ لئے ہوئے جب میری نظر ”کتے“ اور اس کے نیچے پطرس پر پڑی تو کیا بتائیں کیا ہوا۔ فوراً کتاب لے کر بیٹھ گیا او رپڑھنے لگا۔ پہلے ہی جملے نے جادو مارا۔ علم الحیوانات کے پروفیسر سے پوچھا، سلوتریوں سے دریافت کیا۔ خود سر کھپاتے رہے لیکن کبھی سمجھ میں نہ آیا کہ آخر کتوں کا فائدہ کیا ہے۔ اچھل کر دل بول اٹھا ”قسم استاد کی ہیومر یہ ہے“ کہیں کوئی غلط نہ سمجھ لے ہیومر جملوں اور فقروں کی چیز نہیں ہے یہ ایک نقطہٴ نظر، مزاج کے حقائق سے تصادم، زندگی میں ایک مخصوص کیفیت کے احساس کا نام ہے۔ اس جملے میں ہیومر نہیں۔ اس سے ہیومر شروع ہورہا ہے۔ جملہ ایک نئی نظر، ایک نئی ہستی، ایک نئی ادا، ایک نئے عالم خیال، ایک نئی بے ڈھنگی دنیا کی طرف اشارہ کر رہا ہے۔ یہ کتوں کے ایک نئے عجائبات خانے کا راستہ بتا رہا ہے۔
 ”دیکھئے یہ نئے ”کتے“ آگئے۔ ”یہ کتے کیا کرتے ہیں؟“ وفا دار جانور؟ واہ کیا وفاداری ہے کہ شام کے سات بجے سے جو بھونکنا شروع کیا تو لگاتاربغیر دم لئے صبح کے چھ بجے تک بھونکتے چلے گئے۔ لیجئے یہ کتوں کا مشاعرہ گرم ہے۔ کم بخت بعض تو دوغزلے اور سہ غزلے لکھ کر لائے ہیں۔ ہنگامہ گرم ہے۔ پطرس آرڈر آرڈر پکار رہا ہے کچھ اثر نہیں مجبور ہو کر کہتا ہے اب ان سے کوئی پوچھے کہ میاں تمہیں ایسا ہی ضروری مشاعرہ کرنا تھا تو دریا کے کنارے کھلی ہوا میں جا کر طبع آزمائی کرتے، یہ گھروں کے درمیان آکر سوتوں کو سستانا کون سی شرافت ہے۔“
    دیکھئے اور ”کتے“ قومیت کے دلدادہ کتے۔ پتلون کوٹ کو دیکھ کر بھونکنے لگ جاتے ہیں۔ کیسے قوم پرست ہیں۔
    انگریزوں کے کتے ان کی شائستگی دیکھئے۔ ایک نازک اور پاکیزہ آواز میں بخ بخ کر رہے ہیں۔ چوکیداری کی چوکیداری موسیقی کی موسیقی اور ہمارے کتے۔ بے تالے کہیں کے نہ موقع دیکھتے ہیں نہ وقت پہچانتے ہیں گلے بازی کئے جاتے ہیں۔
    ظاہر ہے کہ پطرس سے ان کے تعلقات کشیدہ ہی رہے ہیں۔ مگر مسٹر پطرس۔ بااخلاق انسان ہیں طبعی شرافت ان پر غالب آہی جاتی ہے۔ ہم انہیں بزدل ہرگز نہ سمجھیں گے۔ ہاں ان کے حال سے بےحال ہونے پر ہماری نظر ہے۔ آیة الکرسیی کی جگہ دعائے قنوت پڑھنے لگے ہیں۔ رات کے وقت ٹھیٹر سے واپس آرہے ہیں… اتنے میں ایک موڑ پر سے جو مڑے تو سامنے ایک بکری بندھی تھی۔ ذرا تصور ملاحظہ ہو۔ آنکھوں نے اسے بھی کتا دیکھا۔ ایک تو کتا اور پھر بکری کی جسامت کا۔ گویا بہت ہی کتا بہت ہی کتا بہت ہی کتا۔ با۔با۔با۔با۔ بس ہاتھ پاؤں پھول گئے، چھڑی کی گردش دھیمی ہوتے ہوتے ایک نہایت ہی نامعقول زاویے پر ہوا میں کہیں ٹھہر گئی۔ سیٹی کی موسیقی بھی تھرتھرا کر خاموش ہوگئی لیکن کیا مجال جو ہماری تھوتھنی کی مخروطی شکل میں ذرا بھی فرق آیا ہو۔ گویا ایک بےآواز لے ابھی تک نکل رہی ہے۔ طب کا مسئلہ ہے کہ ایسے موقعوں پر اگر سردی کے موسم میں بھی پسینہ آجائے تو کوئی مضائقہ نہیں بعد میں پھر سوکھ جاتا ہے“۔ بابابابابا۔ اُف۔ اُف۔ ہم نے بھی کچھ ایسا ہی محسوس کیا مگر اب اس پر ہنستے ہنستے لوٹے جا رہے ہیں پطرس سچ مچ ہیومرسٹ ہے، پیدائشی ہیومرسٹ ہے۔
    مگر وہ طبعاً محتاط ہے ورنہ کسی کتے نے اسے کاٹ لیا ہوتا اور آج اس کا مرثیہ چھپ رہا ہوتا مگر… جب تک ”کتے“ موجود ہیں اور بھونکنے پر مصر ہیں سمجھ لیجئے کہ ہم قبر میں پاؤں لٹکائے بیٹھے ہیں…بھونکنا عجیب چیز ہے۔ اس کے اصول نرالے ہیں۔ متعدی مرض ہے۔ ہر سن کے کتے کو لاحق۔ دو دو تین تین تولے کے کتے بھی بھونکنے سے باز نہیں آتے۔ ”اور پھر بھونکتے ہیں چلتی موٹر کے سامنے آکر گویا اسے روک ہی تو لیں گے“… بھونکنا عجیب چیز ہے۔ پطرس کے تمام قوےٰ کو معطل کردیتا ہے۔ لیجئے بھونکنے کا ایک اور منظر۔ پہلا منظر مشاعرہ ہوچکا۔ اب ایک پورا خفیہ جلسہ باہر سڑک پر آکر تبلیغ کا کام شروع کر رہا ہے۔ پطرس سڑک پر ہے۔ آپ کہیےہوش ٹھکانے رہ سکتے ہیں؟ بہرصورت کتوں کی یہ پرلےدرجے کی ناانصافی میرے نزدیک ہمیشہ قابل نفرین رہی ہے۔  پطرس کو غصہ آگیا۔ پوری مجلس کا یوں متفقہ ومتحدہ طور پر سینہ زوری کرنا ایک کمینہ حرکت ہے۔ یہ الفاظ اس کے منہ سے نکل ہی گئے۔ آخر حد ہوتی ہے مگر کسی کتے کی دل شکنی اسے منظور نہیں۔ یہ مضمون کسی عزیز ومحترم کتے کی موجودگی میں باآواز بلند نہ پڑھا جائے۔
    خیر ذلیل کتوں کو چھوڑیئے۔ خدا ترس کتے دیکھئے مسکینی وعجز ملاحظہ ہو۔ سڑک کے بیچو بیچ غوروفکر کے لئے لیٹا ہوا ہے۔ گاڑی کے بگل کوئی اثر نہیں کرتے۔ کسی نے چابک مارا تو ایک گز پرے جا لیٹا۔ بائیسکل ایسی چھچھوری چیزوں کے لئے راستہ چھوڑ دینا فقیری کی شان کے خلاف سمجھتا ہے۔ رات کے وقت اپنی دم کو تابجدامکاں سڑک پر پھیلا کر رکھتا ہے۔ اس سے محض خدا کے برگزیرہ بندوں کی آزمائش مقصود ہوتی ہے۔ اگر ان کی دم پر کسی نے پاؤں رکھ دیا تو راتوں خواب میں بے شمار کتے پاؤں سے لپٹے نظر آئے۔
    پطرس کے دل میں ان سے انتقال لینے کی آگ ہے اگر خدا اسے بھونکنے اور کاٹنے کی طاقت عطا کر دے تو سب کتوں کو کسولی پہنچا دے۔ کاٹنا اور بھونکنا۔ یہی دو طاقتیں ہیں۔ انگریزی میں ایک مثل ہے کہ ”بھونکتے ہوئے کتے کاٹا نہیں کرتے“ یہ بجا سہی لیکن کون جانتا ہے کہ ایک بھونکتا ہوا کتا کب بھونکنا بند کردے اور کاٹنا شروع کردے۔ واہ واہ کیا بات کہی ہے اس کے بعد مضمون کو آگے نہ جانا چاہیئے۔
    یہ سب کیا ہوا۔ ایک مخصوص اپنے پر ہنسانے والی ہستی دکھائی دی۔ اس نے اپنے تئیں دکھایا۔ والله کیا آدمی ہے ہمیں جیسا ہے بالکل ہمارا ساتھی ہمزاد۔ اور اس نے کتے دکھائے۔ عجیب حالات کے کتے… دیکھئے وہ دروازے پر گلی میں کتے بھونک رہے ہیں۔ آس۔ آس۔ یہ کیا ہوا۔ یہ سب پطرس کے کتے ہوگئے۔ جو کتا دکھائی دیتا ہے وہ پطرس کا کتا ہے ہم پطرس ہیں وہ ہمارا کتا ہے۔ یہ جادو ہے۔ ہمارا نقطہٴ نظر ہی بدل گیا۔ اسے ہیومر کہتے ہیں اردو کا کوئی لفظ اس لفظ کے معنی نہیں ادا کرسکتا۔
    اب سنئے کہ اس مضمون کو پڑھ کر ہمارا کیا حال ہوا… ہمارے اندر سب سے بڑی بیماری یہ ہے کہ ہم پر کتابوں کا جنون سوار ہوا کرتا ہے اس کی شدت کا اندازہ یوں کیجئے کہ اگر کسی رات کو کسی کتاب کا جنون ہم پر سوار ہو تو ہم بازار جاکر کتابوں کی دوکان کے تالے توڑ کر کتاب نکال کر گھر لے آئیں گے اور بغیر اس کو ختم کئے دم نہ لیں گے… تو بس صاحب مضامین پطرس کا جنون ہم پر سوار ہوا فوراً بازار پہنچے اور ایسی جلدی کتاب لے کر واپس آئے کہ معلوم ہوتا تھا کہ کتاب چرا کے بھاگے ہیں۔
    اب پطرس میری نگاہ میں پکا ہیومرسٹ تھا۔ اردو کا واحد ہیومرسٹ۔ بلکہ وحدہ لاشریک ہیومرسٹ“ او رپھر ایک ہی جلوے میں ہم سودائی ہوچکے تھے۔ کتابوں کا سودا بہت اچھی چیز ہے اور ادھر سودا ہوا اور اُدھر وصل میسر ہوگیا۔ اتنی آسانی کسی اور عشق میں نہیں ہوتی۔ غرض ہم اور پطرس من تو شدم تومن شدی ہوگئے۔
    دیباچہ شروع کیا۔ یہ کتاب ہمیں کیسے ملی؟ ایک مضمون تو مفت ملا۔ اتنا پطرس پر احسان ہوا۔۱۱۷/۱ احسان پطرس پر۔ باقی کتاب ہم نے چرائی؟ جس بے تابی کے ساتھ اس کو لے کر ہم گھر آرہے تھے۔ وہ محکمہ پولیس کے لحاظ سے چوری کے زمرے میں آتی ہے۔ چوری اور بھاگنا لازم وملزوم ہیں تو ہم نے اگر پوری چوری نہیں تو آدھی چوری ضرور کی۔ ہمارا آدھا ذوق داد کے قابل ضرور ٹھہرتا ہے۔ مگر یہ کتاب تو ہم خرید کر لائے ہیں اس لئے ہمیں اپنی حماقت کوحق بجانب ثابت کرنا ضروری ہے۔
پطرس بخاری کا با کسی سڑک پر
    ہماری حماقت حق بجانب ہے۔ ہم حماقت کو حق بجانب یعنی حقیقت سے ملا جلا دیکھ کر ہی تو اس کتاب پر عاشق ہوئے اسی کو تو ہیومر کہا جاتا ہے ہمارے نزدیک ہیومر کی سب سے بہتر تعریف اتفاقاً ایک بڑے ہیومرسٹ کے قلم سے نکل گئی۔ یہ ہیومرسٹ تھیکرلے ہے۔ اور اس نے اپنی کتاب انگلس ہیومرسٹز میں سو افٹ ”Swift“ پر لکھتے لکھتے یہ فقرہ چھوڑ دیا۔ Truth Torsy - Turvy, At Once True And Absurd. یہ بات وہی ہے حماقت کو حق بجانب ثابت کرنا، حق بجانب کو حماقت ثابت کرنا۔ پطرس پر اتفاق سے وہی کچھ کہہ گیا جو تھیکرلے اتفاق ہی سے کہہ گیا۔ ہمیں یقین ہے کہ کوئی سچا مصنف خود نہیں لکھا کرتا۔ قلم تو اس کے ہاتھ میں ہوتا ہے مگر چلاتی اس کو کوئی روحانی چیز ہے۔ اور یہ روحانی چیز اپنی موج خرام سے ایسے گل کترجاتی ہے جن کا احساس مصنف کے شعور کو بھی بعد میں ہی شاید کبھی ہوتا ہے۔ چنانچہ ہیومیر کی روح جب پطرس کا قلم چلا رہی تھی تو اس نے حقیقت کو حق بجانب کرنے والا فقرہ کر دیا۔ یہ روح جسے یونانی علم اصنام میں مومس Momus کہتے ہیں یہی کرتی ہے۔ حقیقت اور حماقت کو اس طرح گڈمڈ کرتی چلی جاتی ہے کہ نہ حقیقت کھلے اور نہ حماقت ثابت ہو۔ یہ روح ہمارے پھکڑ نگاروں سے کبھی چھو کر نہیں گزرتی ان کی حماقتوں کو پڑھئے ہنسی کی ایک لہر دوڑے گی۔ مگر ذرا غور کیجئے تو ان کی حماقت حماقت ہی رہ جائے گی۔ بالکل ناممکن۔ غلط بات من گڑھت۔ لونڈوں کو ہنسانے کے لئے ٹھیک ہے۔ اس پر ہنسنا بدمذاقی ہے مگر پطرس تو مومس سے ہم کنار ہے اس کے خامے کی آواز نوائے مومس ہے۔
    اب بتائیے کہ پطرس کیا ہے؟ اتہ پتہ مل گیا۔ اس کے کتے دیکھے اس کو کتے بناتے دیکھا۔ اسے خود ہنستے دیکھا اس کا دیباچہ پڑھا اب اس پہیلی کو بوجھنے میں کیا کسر ہے۔ ایک بات سمجھ میں آئی۔ یہ کہ پطرس جو کچھ بھی ہے مگر ہے دیکھنے کی چیز اور برتنے کی چیز۔ شیکسپیئر کاپک Puck اس کے کان میں کہہ رہا ہے اس کی روح کے کان میں کہہ رہا ہے۔ O Lord What Fools These Mortals Be اور اس کا قلم چل رہا ہے وہ مارٹل ہے اس کے چاروں طرف سب مارٹلز ہیں وہ فول ہے اور اس کے چاروں طرف سب فول ہیں۔ یہی دنیا ابھرتی آرہی ہے۔
    ”ہاسٹل میں پڑھنا“ وہ طالب علم ہے اس کا مقصد حیات یہ ہے کہ ہاسٹل میں پڑھے۔ اس کے گھر والوں کو دیکھئے۔ کھاتے پیتے مسلمان لوگ۔ لڑکے کو تعلیم دلاتے ہیں مگر تعلیم کے مقصد اور تعلیمی اداروں کے حالات سے بالکل بےبہرہ ہیں۔ صاحبزادے کے لئے تعلیم گاہ تفریح گاہ کے ہم معنے ہے۔ سب سے زیادہ تفریح ہاسٹل میں پڑھ کر ہوسکتی ہے۔ اس لئے اس کی کوشش ہے کہ کوئی سال ایسا آجائے کہ ہاسٹل میں داخل ہوسکے۔ اس لئے متواتر فیل ہی ہوتے رہنے میں ان کو دلچسپی ہے۔ ادھر ان کے سرپرستوں کو یہ غلط فہمی ہے کہ ہاسٹل کوئی بری جگہ ہے والدین کی نگاہ میں ہاسٹل کو علم اور اخلاق کا اعلیٰ ترین مرکز ثابت کرنے کی کوشش برابر مضحکہ خیز ہو ہو کر رہ جاتی ہے وہ جس جس طرح فیل ہوا ہے وہ کوئی غیرمعمولی بات نہیں ایسے بالکل ایسے کتنے لڑکے ہماے ذہن میں ہیں ان سب کا وہ ذواضعاف اقل مشترک ہے وہ ہمارے مشاہدے کی زبردست مضحکہ خیز حقیقت ہے۔
    ”سویرے جو کل آنکھ میری کھلی“ وہی طالب علم ہے پڑھنے سے اس کی دلچسپی کا حال دیکھئے۔ پڑھنا امتحان کے لئے ہے تیاری کے لئے سویرے اٹھنا ہے۔ لا لہ جی اس کے پڑوسی مضحک حد تک مستعد اور منہمک ہیں۔ اس کو صبح جگانے کے سین اور اس کے جاگ کر سوجانے کے حالات وغیرہ کسی طالب علم نے نہیں دیکھے ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ہر طالب علم میں کچھ نہ کچھ ایسی باتیں ہوتی ہیں۔ پطرس اس میں فرد ہے۔
    ہماری مضحک تعلیمی جدوجہد کی تصویر پوری ہوگئی۔ پطرس نے اپنے تئیں الٹ پلٹ کر اور اپنے چاروں طرف کی دنیا کو الٹ پلٹ کر سب کچھ دکھا دیا اور خوب خوب ہنسایا۔
    لیجئے خانگی زندگی کے حالات دیکھئے ”اردو کی آخری کتاب ماں کی مصیبت“ یہ ایک عام بےڈھنگا گھر ہے ”میں ایک میاں ہوں“ میاں بیوی کے درمیان تعلقات۔ میاں کے دوستوں پر بیوی کے اعتراضات۔ بیوی بھی عام ہی چیز ہے اس کا جدید تعلیم یافتہ فرماں بردار میاں ہے۔ بیوی کے میکے جانے پر خوش ہے کہ ہر قسم کی آزادی ملی۔ لیکن پھر بھی بیوی کے گھر میں نہ ہونے سے گھبرا کر اسے تار دے دیتا ہے۔ کیا موقعے سے بیوی گھر پہنچتی ہے۔ کمال ہے!
    اب سیاسی زندگی کا کھیل دیکھئے ”مرید پور کا پیر“ لیڈر کیسے بنتا ہے اور کیسے بنایا جاتا ہے۔ شروع میں ایک طرح بنایا جاتا ہے۔ اب اسے لیڈر بنتے ہی بن پڑتی ہے۔ آخر میں تقریر کرتے میں اسے کیسا بنایا جاتا ہے اسے بھاگتے ہی بن پڑتی ہے۔ واہ رے لیڈر تم لیڈری کی حقیقت ہو۔
    کالجوں کو دیکھئے انکسار کے مجسمے علم کے مرفو پروفیسر پطرس کو دیکھئے اور ان کے شاگردان رشید کے اٹھنی فی کس نذرانہ پیش کرنے پر غور کیجئے اور پھر ملک معظم وغیرہم کے تحائف پر ان کی شہادت دیکھئے۔ لگے ہاتھوں کیمبرج یونیورسٹی میں ”میل اور میں“ کے فن سے بھی آگاہ ہوجائیے…“رفتہ رفتہ مجھے اس فن میں کمال حاصل ہوگیا جس روانی اور نفاست کے ساتھ میں ناخواندہ کتابوں پر گفتگو کرسکتا تھا اس پر میں خود حیران رہ جاتا تھا اس سے جذبات کو آسودگی نصیب ہوئی۔ والله کیا بات کہی ہے۔ کیمبرج سے لوگ یہی فن سیکھ کر آتے ہیں کیمبرج کی تعلیم کا شاید یہی نچوڑ ہے۔
پطرس بخاری کے بیٹا اور نواسا
    ادب زندگی پر تنقید ہے؟ میتھور آرنالڈ نے اس بات کوکچھ ضرورت سے زیادہ انسپکٹر مدارس کے الفاظ میں ادا کیا ہے۔ جس سے کچھ بات ٹھیک نہیں بنتی دکھائی دیتی۔ ورنہ جو کچھ اس نے محسوس کیا تھا وہ ٹھیک ہی تھا زندگی کی وہ چیز جو فنکار ہمیں دیتے آئے ہیں اسے پطرس نے بھی ہمیں دے دیا ہے۔ اب اگر نظریہٴ حیات، نصیب العین، پول کھولنا، مفکرانہ سنجیدگی وغیرہ قسم کے حماقت زدہ الفاظ کا ذکر کیجئے تو جواب یہی ملتا ہے کہ اگر زندگی کے مکمل نقش میں کوئی نظریہ ہے، نصب العین ہے، کسی چیز کے پول کھولنے کی ضرورت ہے کوئی اخلاقی سیاسی وغیرہ قدر یا قدریں ہیں تو وہ پطرس کے یہاں بھی ہیں ورنہ ان کے ذکر پر پک کا جملہ یاد کیجئے اور خاموش ہوجائیے۔ یہ شیکسپیئر والا ہیومر ہے۔ صاف خاص ہیومر طنز وغیرہ کی گندگی سے پاک:
بے ادب پامنہ اینجا کہ عجب درگاہست
    اب دیکھئے پطرس کیا ہے۔ سب مضامین کو ملا لیجئے اور دیکھئے کیا نکلتا ہے۔ الف لیلے میں ایک قصہ ہے جس میں ایک لڑکا سمندر کے کنارے ایک بوتل پڑی پاتا ہے۔ اس بوتل کو کھولتا ہے تو اس میں سے ایک جن نکلتا ہے جو لڑکے کو کھا جانے کو تیار ہوتا ہے۔ پطرس بھی ویسا ہی ایک جن ہے، مگر یہ جن آدم خور نہیں ہے آدم خوردہ ہے۔ یہ ہمیں نہیں کھاتا اپنے تئیں ہم کو کھلاتا ہے۔ اس کو پھر شیشے میں نہیں اتارا جاسکتا۔ یہ الف لیلیٰ والا احمق جن تو ہے نہیں کہ ایک لڑکے کے کہنے پر پھر بوتل میں واپس ہوجائے۔ اور ہم اسے بوتل میں واپس جانے کو کہیں ہی کیوں۔ وہ تو ہماری خوراک ہے۔ بڑے مزے کی خوراک ہے۔
    یہی بہادر جن سردانٹیز کے دماغ سے ڈن کوئزٹ کی صورت میں روزینانت پر بیٹھ کر سانکوپانزا کوساتھ لے کر ڈلسینہ کے عشق میں سرد آہیں بھرتا ہوا دنیا کو فتح کرنے نکلا ہے۔ یہی اب پطرس کی صورت میں نمایاں ہوا ہے۔ جدید دور کے سب ہتھیار اس کے پاس ہیں۔ جدید تعلیم، کیمبرج کی ڈگری، پروفیسر کا عہدہ۔ اس کی ڈلسینہ روشن آراء ہے جس کو وہ آہ سرد کا تار بھیجتا ہے۔ اس کا بھی ایک سانکوپانزا ہے یعنی کبوتر باز مرزا صاحب جو روشن آراء کے فقروں، کبوتر بازی اور تاش بازی کے منظروں سے نمایاں ہوتا ہوا ”سینما کا عشق“ میں کمال کے ساتھ اُبھرتا ہے۔ یاد رکھئے پطرس ایسا جن ہے جو اپنے تئیں ہلکان کرتا ہے چنانچہ اس کا سانکو اس کو پریشان کرنے میں کمال رکھتا ہے۔ سینما جانا فرض۔ بغیر مرزا صاحب کو ساتھ لئے بن نہیں پڑتی۔ تماشا شروع ہوجانے کے بعد پہنچنا لازمی ٹھہرا۔ اب اندھیرے کی مہم شروع ہوتی ہے۔ ڈن کوئزٹ کی نچکیوں والی مہم! اُف اُف واہ مرزا خوب پھانستے ہو۔
    مگر مرزا کا پھانسنا بڑی مفید چیز ہے۔ پھانس پھانس کر ہی سہی مگر مرزا ہی نے تو پطرس کو شہسوار بنایا ہے۔ مرزا ہی نے تو اسے وہ سواری دی ہے جس کو دیکھ کر روز نیانیت بچک کر ڈن کے قابو سے باہر ہواتی ہے۔ اور ایسی بھاگتی ہے کہ پھر نہیں نظر آتی۔ وہی مرحوم جس کی یاد اردو زبان کے ساتھ وابستہ ہوگئی ہے بلکہ اردو زبان کے ثبات کی ضامن ہے۔
    کیا سواری ہے؟ مشین بنانے والے انسان کی قابلیت کا معجزہ! جدید دور کی سب سے زیادہ تعجب انگیز سواری، اگر ڈن کوئزٹ آج کل تشریف لائیں تو انہیں آج کل کی سب سے زیادہ تعجب میں ڈال دینے والی سواری بائیسکل کے سوا اور کوئی نہ دکھائی دے گی۔ یہ ہوا پر اڑنے والی پٹریوں پر چلنے والی پیٹرول کی غلام سواریاں کیا رقم ہیں!
    پطرس اس معجز نما سواری کو دنیائے ادب کی مضحک ترین سواری بنا کر پیش کرتے ہیں۔ یہ مرزا صاحب کا تحفہ ہے نہیں مومس دیوتا کا عطیہ ہے۔ رات ہی میں آگئی ہے اور اپنے ساتھ ایک پرزے کسنے کا اوزار بھی لائی ہے۔ یہ اوزار ہی اس کا علاج دردِ دل بلکہ اس کی روح ہے۔ کیا شکل پائی ہے۔ دیکھنے سے تو اتنا تو ثابت ہوجاتا ہے کہ بائیسکل ہے لیکن مجمل ہئیت سے یہ صاف ظاہر ہوتا ہے کہ پل اور راہٹ اور چرخہ اور اسی طرح کی جدید ایجادات سے پہلے کی بنی ہوئی ہے۔ مل اور راہٹ اور چرخہ اس کے مقابلے میں جدید ایجادات ہیں۔
    اور اس کی چال بھی کیا کمال ہے پطرس آخر اس پر سوار ہوا۔ پہلا ہی پاؤں چلایا تو ایسا معلوم ہوا کہ کوئی مردہ اپنی ہڈیاں چٹخا چٹخا کر اپنی مرضی کے خلاف زندہ ہورہا ہے۔ بائیسکل اپنی آوازوں میں گم ہے۔ ان آوازوں کے مختلف گروہ تھے، چین چان چون قسم کی آوازیں زیادہ تر گدی کے نیچے اور پچھلے پہیّے سے نکلتی تھیں۔ کھٹ کھڑ کھڑر کے قبیل کی آوازیں مڈ گارڈوں سے آتی تھیں۔ چرچرخ چرچرخ کی قسم کےسُر زنجیر اور پیڈل سے نکلتے تھے۔
    جوڑو بند کی حرکات ملاحظہ ہوں۔ زنجیر! ”میں جب کبھی پیڈل پر زور ڈالتا تھا زنجیر میں ایک انگڑائی سی پیدا ہوتی تھی جس سے وہ تن جاتی تھی اور چڑ چڑ بولنے لگتی تھی“ اور پھر ڈھیلی ہوجاتی تھی“۔
    پہیّہ! پچھلا  پہیّہ گھومنے کے علاوہ جھومتا ہے یعنی ایک تو آگے کو چلتا ہے اور اس کے علاوہ داہنے سے بائیں اور بائیں سے داہنے کو بھی حرکت کرتا ہے۔ چنانچہ سڑک پر جو نشان پڑ جاتا تھا اس کو دیکھ کر ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے کوئی مخمور سانپ لہرا کر نکل گیا ہے۔
    مڈگارڈ! مڈگارڈ تھے تو سہی لیکن پہیّوں کے عین اوپر نہ تھے ان کا فائدہ صرف یہ معلوم ہوتا تھا کہ انسان شمال کی سمت سیر کو نکلے اور آفتاب مغرب میں غروب ہورہا ہو تو مڈگارڈوں کی بدولت ٹائر دھوپ سے بچے رہیں گے۔
    اگلے پہئے کے ٹائر میں ایک بڑا سا پیوند لگا تھا جس کی وجہ سے پہیہ ہر چکر میں ایک دفعہ لمحہ بھر کو زور سے اوپر اُٹھ جاتا تھا اور میرا سر پیچھے کو یوں جھٹکے کھا رہا تھا جیسے کوئی متواتر تھوڑی کے نیچے مکے مارے جا رہا ہو۔
    اس کی چال میں ارتقا ءبھی ہے۔ جب اُتار پر بائیسکل ذرا زیادہ تیز ہوئی تو فضا میں ایک بھونچال سا آگیا اور بائیسکل کے کئی اور پرز ے جو اب تک سورہے تھے بیدار ہو کر گویا ہوئے… اُف اُف ایبک نظموں کے گھوڑے کیا اُڑیں گے۔ یہ سائیکل بالکل آسمان سے اُتری ہے…مومس نے پطرس کے لئے یہ براق بھیجا ہے!
پطرس بخاری کا مقبره
    کیا قیامت کی بائیسکل ہے اس کے سامنے مستریوں کی پسپائی کے سین اور خریداروں کی ہارمان لینے کی بات چیت! یہ عہد الزبتھ کا انگلینڈ ہے۔ ہمارا ڈن کوئزٹ بائیسکل کے دو حصے ہاتھوں میں لئے ہوئے آفاق پر چلا آرہا ہے۔ پک،سرجان فالسٹاف کیا کہتا ہے: Knight of the broken bicycle master shallow.
    ہمیں اس سے کوئی مطلب نہیں کہ پروفیسر بخاری کہاں پیدا ہوئے کہاں کہاں رہے اور کہاں مرے۔ ہم چاہتے تو ان سے ملتے مگر اس کا موقع نہ ملا۔ اچھا ہی ہواہمیں ان سے کیا مطلب تھا ہمیں پطرس سے غرض ہے اور رہے گی یہ شخص رہتی دنیا تک رہنے والا ہے۔ عہد الزبتھ کا ایک فرد ہے اس کا لاہور سرجان فالسٹاف کا لنن ہے۔یہ لاہور لاہور ہی ہے آگے کچھ نہیں اس کے پاس ایک دریا لیٹا رہتا ہے۔ بہنے کا شغل عرصے سے بند ہے۔ حملہ آوروں کی آماجگاہ ہے۔ یوپی کے حملہ آور دلی کے راستے سے یہاں آتے ہیں اور اہل زبان کہلاتے ہیں۔ اس کے حدود اربعہ منسوخ ہوچکے۔ آب وہوا کا سوال نہیں اُٹھتا۔ آب کی جگہ پائپوں میں ہائیڈروجن اور آکسیجن اور ہوا کی جگہ گرد اور خاص حالات میں دھواں ملتا ہے، عہد الزبتھ کی سڑکیں ہیں، پھسلا دینے والے ٹانگے ملتے ہیں۔ مکانوں پر اشتہارات کے پلسٹر پر پلسٹر لگائے جاتے ہیں۔ یہاں کی صنعت وحرفت اسی حد تک رسالہ بازی ہے جیسے الزبتھ کے زمانہ میں ڈرامہ بازی تھی۔ ہر برانچ پر یہاں بھی اسی طرح ایک انجمن موجود ہے۔ جیسے شیکسپیئر کے لنڈن میں تھیٹر موجود تھے۔ یہاں کی بہترین پیداوار طلباء ہیں اور قسم قسم کے ہیں اور پروفیسر ہونے کے لئے شرط ہے کہ ”دودھ پلانے والے جانوروں میں سے ہوں“یہاں کے لوگ بہت خوش طبع ہیں پک کے پرستار ہیں اور پک کا اوتار پطرس ہے۔
    پطرس کا کام کھیل دکھانا ہے لفظوں کا کھیل۔ فقروں کا کھیل۔چست جملوں کاکھیل، وٹ (WIT) کا کھیل کھیلتا ہے۔ مگر یہ اس کا خاص کھیل نہیں۔ اس کا کھیل پک کا کھیل ہے موقعوں کا کھیل، ڈرامائی حالات کا کھیل، ہر مضمون یہی کھیل دکھاتا ہے۔
   ہاسٹل میں پڑھنے والا والدین کو شخصیت کا مطلب سمجھا رہا ہے!
”سویرے آنکھ کھولنے والا پلنگ پر لیٹا لالہ جی کے دروازے پر کھٹ کھٹ سن رہا ہے۔ جاگنے کی کوشش ہائے۔ ہائے۔
    ”یعنی بہت ہی کتا!“
    ”باپ انگوٹھا چوس رہا ہے“۔
    فرمانبردار میاں چور بنا ہوا ہے…برقعہ پوش…منہ سے برقعہ الٹا تو روشن آرا
    مرید پور کا پیر تقریر کر رہا ہے۔ پیارے ہم وطنو…!
    پروفیسر پطرس پر عقیدت کی اٹھنیاں چڑھائی جا رہی ہیں۔
    سینما کے اندھیرے میں آب حیات کی تلاش ہو رہی ہے۔
    ایک کنٹب ناخواندہ کتابوں پر گفتگو کی مشق کر رہا ہے۔
    ”مرحوم کی یاد میں“ یہ تماشا لمبا ہے۔ سین نمبر ایک۔ مرزا سے گفتگو، سین نمبر دو۔ سائیکل کا معائنہ۔ سین نمبرتین۔ رفتار کا ایبک منظر۔ نمبر چار۔ مرمت کی دوکان۔ نمبر پانچ۔ فروخت۔ نمبر چھ۔ ٹوٹی بائیسکل والا ہیرو۔ نمبر سات۔ ہوئے کیوں نہ غرق دریا۔
    لاہور لاہور ہی ہے۔
    کھیل ختم۔
    ختم؟
    یہ کھیل ختم نہیں ہوتا۔ ”پطرس کا تماشا دیکھ۔ پطرس کا تماشا دیکھ!“ ہم گلوب تھیٹر سے بول رہے ہیں۔ اب آپ پک لافانی کا تماشہ دیکھیں گے جو پطرس نے پیش کیا ہے…یہ پروگرام ہرمیٹر سینڈ پر ہر وقت سنا جا سکتا ہے اور سننے سے زیادہ دیکھا جاسکتا ہے۔
    اس کھیل کے سلسلے میں ایک نیا اعلان سن لیں۔ اردو ادب میں منشیان تنقید یا تنقید بابو برساتی مینڈکوں کی طرح پھیل رہے ہیں پطرس کے کھیل کو یہ ہرگز نہ دیکھیں ورنہ…پک نے ان کے لئے اب تک کوئی سزا تجویز نہیں کی۔
    ان میں سے ایک بڑے بابو کو پکڑا گیا ہے۔ وہ عرصہ ہوا اپنے ابا کو فرسٹ کلاس کا اور اقبال کو انٹر کلاس کا ٹکٹ دے گئے تھے۔ اس وقت انہیں معاف کر دیا گیا تھا۔ مگر اب ان کی جرائم پیشگی پختہ ہوگئی اور نظر موٹی ہوگئی۔ انہوں نے اردو کی مزاحیہ نگاری پر بھی ایک نظر ڈالی ہے اور پطرس پر جو کچھ کہا اس کی سزا ان کو اچھی طرح دی جائے گی۔
محمد احسن فاروقی

Tuesday, March 15, 2011

بَو بَو جی

بَو بَو جی


 
یادوں کے ویران ساحلوں پر بکھری ریگِ دیروز پر پابرہنہ آوارہ گردی بعض اوقات تو معجزے بی دکھا دیتی ہے ان ساحلوں کی ریت سے کبھی کبھار تو ایسے موتی بھی مل جاتے ہیں کہ جن کی چمک دل و دماغ کی کائنات کو اپنے نور سے فروزاں کیے دیتی ہے۔ ان بظاہر بے حیات ساحلوں پر میری آوارہ گردی کا معجزہ ایک دن  ایک صندوقچے کی صورت ظاہر ہوا جس پر جلی حروف میں"بَو بَو جی" کنداں تھا۔  لفظوں کی یہ تسبیح اسی صندوقچے کے موتیوں سے پرووی گئی ہے۔

وقت کا پہیہ دوڑتے دوڑتے چادرِ زمان و مکان میں ایسی سلوٹیں ڈال چُکا ہے کہ بَو بَو سے مُتعلق واقعات کی زمانوی اور مکانی ترتیب بے معنی اور لا یعنی ہو چُکی ہے۔ لیکن بہرحال اتنا ضرور یاد ہے کہ اُنیس سو ستر کی دھائی کے شروع میں ہمارے دادا جان نے واہ فیکٹری کی ملازمت سے پینشن لینے کے بعد حسن ابدال میں ایک کرائے کے گھرمیں رہنا شروع کر دیا۔

میرے حافظے میں محفوظ  ہماری دادی جان کی اولین یادوں میں سے پہلی یاد اسی گھر سے وابستہ ہے۔ دادی جان کو سب بڑے بےبے کہتے تھے، یہ لفظ ہم بچوں کے توتلے نُطق کے جادو کے اثر سے بَوبَو بن گیا۔

یہ گھر حسن ابدال کے جنوب مشرقی مُضافات میں، وقت کی دھڑکنوں سے بھی قدیم پہاڑ، ولی-قندھاری، کی چوٹی کے سایے سے اک گُوناں پہلو تہی کرتی ہوئی ایک فرنگی دور کی کُشادہ حویلی تھی، جس کے دالان میں یک رویہ گہرے کلیجی رنگ کے ستونوں کے بیچوں بیچ آرام کُرسی پر چاندی سے زیادہ سفید اور برف سے زیادہ چمکیلے بال لیے حضرت دادا جان اخبار پڑھتے اور ہم بہن بھائی ہمہ وقت دھما چَوکڑی مچایا کرتے تھے۔

یہں پر مُجھے یاد ہے کہ بَو بَو  نے ایک دفعہ باورچی خانے میں سوئی گیس کے چُولہے پر روٹیاں پکانے کے لیے معمول سے قدرے چھوٹا تَوا کیا رکھا کہ میں سراپا احتجاج ہو گیا اور رونے لگا، امر واقعہ یہ ہے کہ بندہ بچپن سے ہی اُن معدودے چند اصحاب میں شُمار ہوتا ہے جن کی ناقص رائے میں حیاتِ انسانی کا مقصد بڑی وضاحت سے قرطاسِ دسترخوان پر مُرغن و لذیذ غذاؤں کی روشنائی سے جلی حروف میں تحریر ہوچُکا ہے اور جب کاتب تقدیر نے ہی یہ لکھ دیا تو بھلا میں آپ یہ قُدرت کہاں رکھتے ہیں کہ اس میں سرِ مُو کوئی تبدیلی کے مُرتکب ہوں۔ عُرف عام میں یوں ہے کہ عاجز خوش خوراکی کی طرف مائل ہے۔ قصہ مُختصر کہ میرے رونے دھونے پر بَو بَو نے پوچھا کہ "آخر تم کیوں روتے ہو، کون سی قیامت ٹوٹ پڑی ہے؟" بس  میں نے آنکھین ملتے ہوئے دل کا حال کہہ دیا کہ آپ نے تَوا چھوٹا رکھا ہے میرے حصّے کی دو روٹیاں حقیقت میں معمول کی دو روٹیوں سے کم ہوں گی ۔۔۔ بس کیا تھا کہ بَو بَو جان تو آگ بگولا ہو گئیں اور لگیں امی کو کوسنے دینے کہ بچوں کی روٹیاں گننا کفران نعمت ہوتا ہے وغیرہ وغیرہ ۔

بوبو کا اصل نام صفیہ بیگم تھا اور غالباً سیالکوٹ سے تعلق تھا، مہین و کمزور سا پیکر، گال پچکے ہوئے اور بالا تخصیص موسم ایک جامنی رنگ کی اوونی شال اوڑھے رکھتی تھیں۔ جسم کے ہر جوڑ سے ہمیشہ درد کی شکایت کرتی تھیں اس آمیزہء آب و گِل پہ موجود ہر مرہم بوبو کے دوایوں والے صندوق میں موجود تھی لیکن بوبو کو تو بس آیوڈیکس سے ہی آرام آتا تھا۔ آیوڈیکس بھی ایک عجیب مرہم ہے جس کے بارے میں میرا یقین ہے کہ یہ مریض کا علاج اصل درد کو بھُلا کر اپنی بدبو سے بچاؤ کے اسباب میں مصروف رکھ کر کرتی ہے۔ اس لیے بوبو کا بستر ہمیشہ آیوڈیکس سے مُتعفن رہتا۔

میرے بڑے بھائی سے بَو بَو بےوقوفی کی حد تک پیار کرتیں اور اس بات پر ان کا ایمان تھا کہ وہ کسی قسم کی کوئی غلطی نہیں کر سکتا اور اگر کرے بھی تو کیا ہے خاندان کے نام کا پہلا وارث ہے اسلیے اس کو تو سات قتل بھی مُعاف ہیں۔ اگر بھائی صاحب نے محلّے میں کسی کا سر پھوڑا تو بوبو نے فوراً یہ منطق پیش کردی کہ میرا پوتا تو بتھروں سے کھیلتا ہے اب اگر کوئی حرام کا ڈہکن اپنا سر سامنے لے آئے تو کیا سر پھٹے گا نہیں اور آخر میں یہ ٹہوکا بھی دیا کہ کیا زمانہ آگیا ہے مائیں اپنے بچوں کو گلی میں چھوڑ کہ خود سارا دن خواتین رسالہ پڑہتی رہتی ہیں۔ بھائی صاحب اگر سکول میں کسی مضمون میں فیل ہوئے تو بوبو نے ماسٹر صاحب کو دُشمن سادات بتایا اور یہ بحث وہیں ختم کردی۔  بوبو کا ازار بند تو بس بھائی صاحب کا ایک بنک تھا جس میں ہر روز ایک روپیہ کا حساب کتاب ہوتا، بوبو ہمیشہ اس ازاربند میں ایک روپیہ رکھتی تھیں جس کو یہ صاحب جب جی کرتا نکال اُڑتے۔

واہ کینٹ کے علاقے بستی کاریگراں میں چوریوں کا سلسلہ بہت بڑھ گیا تو لوگوں نے چوروں سے نمٹنے کیلئے چوکیدار رکھے اور پہرے داریوں کا سلسلہ چل پڑا بوبو کے سادہ دل و دماغ نے اس مسئلے کا عجب ہی حل ڈھونڈا۔ آپ نے ہم بچوں کو گھر کے کونے کھدروں اور سٹور میں لگے پیٹیوں کے قُظب مینار میں سے سٹین لیس سٹیل کے گلاس اکٹھے کروائے اور رات کو گھر کے ہر دروازے کے سامنے متعدد گلاس ایک خاص ترتیب میں رکھ دئیے گئے۔  ہمارے دادا جان ایک تہجُد گُزار بزرگ تھے وہ آنکھ اس دُنیا میں نہ ہوگی جس نے دادا جان کو تہجد سمیت کوئی اور نماز قضاء کرتے دیکھا ہو۔  دادا جان رات کو تہجد کے لیے بیدار ہوئے اور وضو کیلئے غُسل خانے کا قصد کیا، آپ اس سے بالکل بے خبر تھے کہ گھر میں دھاتی گلاسوں سے  مُرتب ایک پیچیدہ بساط بچھی ہوئی ہے آپ نے دبے پاؤں جو ایک دروازہ کھولا تو اس دروازے کے گلاس نے دیگر گلاسوں کو مُطلع کیا اور سبھی نے فرش بوس ہو کر سیمنٹ کے فرش پر ایک سازینہ شروع کردیا، اس بوکھلاہٹ میں دادا جان کی زُبان بند اور باقی سب بھی وادئی خواب سے ہڑ بڑا کے اُٹھے کسی نے بلب آن کیا تو کوئی کرکٹ کا بلا اُٹھائے آن پہنچا اُدھر دادی جان کا شور "اُٹھو چور ہے جانے نہ پائے" جب سب کی آنکھیں اچانک پھیلنے والے سیل نور کی عادی ہوئیں تو سب نے دادا جان سے پوچھا "کس نے دیکھا چور، کدھر گیا چور" داد جان کا تانبے جیسا رنگ غُصے سے دہکنے لگا، جب یہ واضح ہوگیا کہ یہ بچوں کی شرارت نہیں بلکہ بوبو کے ذہن کی اختراع ہے تو اس دہکتے چہرے سے اب الاؤ اُبلنے لگے اور ہم میں سے کسی میں اتنی ہمت نہ ہوئی کہ اب اس تصادم کا منطقی نتیجہ بھی دیکھ سکیں۔

بوبو ایک فراغ دل اور پیسے کو ہاتھ کی میل جاننے والی ہستی تھیں، اُدھر دادا جان سیال کوٹ میں کئی مربعے اراضی تباہ ہوجانے کے بعد حد درجہ مُحتاط اور نسبتاً کنجوس واقع ہوئے تھے۔  یہ دو مُتضاد عادات دو ایسے قُطبین تھے جو ایک چھت کے نیچے آباد تھے اور جن کا فطری تصادم بہرحال قریباً ہر روز ہی ہوتا تھا۔ اس سلسلے میں ایک قصّہ بھی سُن لیں۔ بوبو ایک دفعہ بہت بیمار ہوئیں تو امّی بوبو کی تیمارداری کیلئے گئیں اور کسی کام سے امّی کو باورچی خانے جانا پڑا جہاں امی کی نظر ایک پُرانی تام چینی کی پلیٹ پڑی جس کے درمیان میں اب ایک سوراخ بن چُکا تھا، امّی وہ پلیٹ لے کر بوبو کے پاس آئیں اور پوچھا کہ اس کا کیا کروں بوبو بیزاری سے بولیں "اس میں رسی ڈالو اور اس پلیٹ کو اپنے سُسر کے گلے میں جا لٹکاؤ" امی نے بہرحال یہ حُکم نہ مانا پر یہ کہانی ہمارے دادا اور بوبو کی پیار بھری نوک جھونک کے قصّے کے طور پر آج بھی سُنای جاتی ہے۔


بوبو کی ذات کا ایک پہلو ہیرے کی چمک کی طرح نُمایاں تھا اور وہ تھا  
اہل بیتِ رسول سے عشق۔ آپ دل و جان سے یہ سمجھتی تھیں کہ بحالت سجدہ  امام علی اور امام حُسین کے قتل کے بعد نماز فرض نہیں رہی اس لیے آپ ماتمِ حُسین کو ہی نماز کا بدل جانتی اور مانتی تھیں، ان کی تقویم میں ہر مہینے کا نام مُحرم الحرام تھا، ان کیلئے روزے میں پیاس کی شدّت کا احساس تو بس تیممِ تشنگئ حُسین تھا فرماتیں کہ حسین کی پیاس یاد کروا رہا ہے اوپر والا،  جس وقت اور جہاں بھی پانی کا ذکر آتا یہ دشتِ تشنگئی حُسین میں گُم ہو جاتیں اور بلا ارادہ ایک ہاتھ سے سینہ کوبی کرتے ہوئے اپنی عبادت ادا کرتیں، ایسا نہ کرنے والے پر بلاتخصیص مذہب و فرقہ تبرا فرماتیں۔  فنونِ لطیفہ کی ہر اُس قسم جس میں پانی کا ذکر ہوتا یا پانی کو پیش کیا جاتا اُس کو  نوحہ سمجھتی تھیں۔

ایک روز ہم لڑکوں نے اُنہیں ایک اندھیری کوٹھری میں پُرانے دیو ہیکل ریڈیو پر ملکئہ ترنم نور جہاں کے مشہور پنجابی گیت "وگدی ندّی دا پانی، مُڑ کے تے فیر نئیں آوندا" پر حالتِ وجد میں محو گریہ و سینہ کوبی دیکھا تو ہم نے دبی دبی ہنسی ہنستے ہوئے ریڈیو کو بند کیا اور اپنے تئیں اُن کو آگاہ کیا کہ
"بَو بَو جی یہ نوحہ نہیں گانا ہے آپ کیوں امام حُسین کا ماتم کر رہی ہیں اسپر"
بَو بَو نے بڑی بے اعتنائی سے کہا "تمھیں کیا پتہ، جس گانے میں پانی کا ذکر ہو وہ گانا کہاں رہتا ہے وہ تو  بس میرے امام کا نوحہ بن جاتا ہے" ہم ہنستے ہنستے کسی اور کام میں جا لگے اور بعد ازاں یہ واقعہ ہم نے سب کو مزے لے لے کر
سُنایا۔

بَو بَو کو خُلد آشیانی ہوئے اکتیس برس ہو چُکے ہیں میں اب امریکہ میں اپنے بیوی بچوں سمیت ایک زمانے سے آباد ہوں اب کبھی جو دفتر جاتے ہوئے  اپنے آئی-پاڈ میں قید گانوں کی شکل میں کُہنہ یادوں کو سُنتے سُنتے جب بھی کبھی "وگدی ندّی دا پانی، مُڑ کے تے فیر نئیں آوندا" سُنتا ہوں تو ایک ہاتھ سے ہلکا ہلکا سینہ کوبی کرتا ہوں اور سوچتا ہوں کہ میری بظاہر سادہ لوح اور سیدھی سادھی دادی کتنی راست القلب انسان تھیں اور بے اختیار محسن نقوی کا یہ شعر اپنی پوری معنوی تفسیر کے ساتھ میرے دل کی غارِ حرا میں نازل ہونے لگتا ہے

سیلاب دیکھتا   ہوں  تو آتا ہے یہ خیال
پانی بھٹک رہا  ہے،  تلاشِ حُسین میں


بَوبَو اُنیس سو اناسی میں لاتعداد بیماریوں سے لڑتے لڑتے اس پلک بسیرے کو چھوڑ وہاں جا بسی کہ جہاں سے جو خبر لانے گیا وہ
پھر نہ مُڑا۔

وے لوگ تم نے ایک ہی شوخی میں کھو دیے
پیدا کیے تھے چرخ نے جو خاک چھان کر
(میر)

=================================================
جرار جعفری
 
ڈینور کولوراڈو
یکم جنوری دو ہزار گیارہ عیسوی۔
 
حواشی
  • ریگِ دیروز  کی اصطلاح ن۔م۔ راشد کی نظم "ریگِ دیروز" سے لی گئی ہے۔



--

Wednesday, March 9, 2011

BI BI

SHOKIYAN





--

موج صد رنگ

موج صد رنگ

علی ظہیر //حسن فرخ
اللہ نے کہا ہے:۔‘‘کسی بات کا حق ہونا ہی اس کی حقانیت کی سب سے بڑی دلیل ہے کیوں کہ حق کے معنی ہی قائم و ثابت رہنے کے ہیں اور جو قائم و ثابت رہنے والی ہے۔اس کے لیے اس کے قیام و ثبات سے بڑھ کر اور کونسی دلیل ہو سکتی ہے اور جب یہ کہا جائے کہ علی ظہیر شاعر ہے تو اس کے لیے بھی کسی دلیل اور شہادت کی ضرورت نہیں ، کیوں کہ بجائے خود ایک سچ ہے کہ علی ظہیر شاعر ہے، چنانچہ اس نے کہا ہے:۔
علی کے نام سے کھلتے ہیں دروازے ہزاروں
ظہیرؔ اب تو انہیں کا نام میں جپتا رہوں گا
اتنے یقین کے ساتھ اعتقاد کی بات یا تو مومن کر سکتا ہے، یا شاعر… ہاں اگر یہ کہا جائے علی ظہیر اچھا شاعر ہے، تو اس کا جواز پیش کرنا اور شہادت دینا ضروری ہوگا کہ وہ اچھا شاعر کس طرح ہے؟ غالب نے کہا تھا:۔
ہیں اور بھی دنیا میں سخنور بہت اچھے
کہتے ہیں کہ غالب کا ہے انداز بیاں اور
یعنی انداز بیاں ‘دوسروں سے مختلف ہو، تو اچھی شاعری کی یہ پہچان ہے۔ تو کیا علی ظہیر کی شاعری کا ‘‘انداز بیان’’ دوسروں سے مختلف ہے، مابعد جدیدیت محض بعض نقادوں کی انانیت کا حصہ ہے۔ ساختیات اور پس ساختیات نظریہ سازی کی کوشش کو بھنڈر سرقہ ثابت کر چکے ہیں ، تاہم یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ دور روحانی حسیت کے گہرے جذبوں سے سرشار ہے، جسے حضرت علی کرم اللہ و وجہہ کے باب علم کی جذب و مستی میں نہاں کرنے سے تعبیر کیا جا سکتا ہے، جن کا نام جپنے کو ظہیر نے روحانیت کے دروازوں کو وا کرنے کی سبیل بنا لیا ہے۔
چنانچہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے ارباب طریقت کے اسرار کی طرف اشارے اور بے حقیقت چیزوں کی تشبیہہ دیتے ہوئے کہا ہے:
انما الدنیا کضل زائل
او کضیف بات لیلا فار تحل
دنیا گویا زائل ہونے والا سایہ ہے
او کبرق لاح فی افق الامل
یا خواب ہے جسے سونے والے نے دیکھا
یا برق ہے جو افق امید پر چمکی
علی ظہیر کا انداز بیاں اوروں سے یوں مختلف ہے کہ وہ کہتے ہیں :
ندی اور وقت دونوں ایک ہی ہیں
ظہیر ان کی روانی ایک ہی تھی
ندی متحرک اور رواں ہونے کے باوجود، صدیوں سے ایک ہی راہ پر اور ایک سمت بہتی ہے لیکن وقت مستقل صفت نہیں رکھتا، نہ ساکت ہے، نہ جامد ہے، نہ رواں ہے، نہ متحرک ہے، نہ عیاں ہے، نہ نہاں ہے۔ پھر کیا ہے؟ وہ تو بس وقت ہے، جس کا نہ ندی سے تقابل کیا جا سکتا ہے،نہ رفتار اور فاصلے سے، نہ’ تصور زماں و مکاں سے مگر ظہیر نے دونوں کو نہ صرف ایک کہا بلکہ ان کی روانی کو بھی ایک کہا ہے۔ کیوں کہ بقول اقبال:۔
وقت کی تقویم میں عصر رواں کے سوا
اور زمانے بھی ہیں جن کا نہیں کوئی نام
اسی طرح ندی کی گہرائی، اس کے زیر و بم، اس کی روانی کبھی تیز کبھی سست، اس کی تہہ میں دفن ہزاروں ، لاکھوں راز ‘کنکر’ سیپیاں ہزاروں طرح کی زندگیاں ، جن سے کوئی واقف نہیں اور کوئی نہیں جانتا کہ کتنے زمانوں سے قائم ہیں اور پہاڑوں سے نکل کر راہ بنانے سے قبل، وہاں جو کچھ بھی تھا، کیا وہ اب بھی ہے، یا اس نے اپنے بازو پھیلا کر ندی کو راستہ دے دیا ہے۔ ظہیر نے ان ہی حقائق کی روشنی میں ندی اور وقت دونوں کو ایک ہی کہا ہے۔ یہی وہ انداز بیاں ہے جو ظہیر کی شاعری کا وصف ہے اور اسی دلیل کی بنیاد پر کہ اس کا انداز بیان مختلف ہے ظہیر کو اچھا شاعر کہا جا سکتا اور مانا جا سکتا ہے۔ اسی تناظر میں ایک نظم ہے۔ کھلا ہوا ایک منظر’’:
سوچ پہ کیسے کوہ گراں آویزاں ہیں
عقل پہ کیسی میلی میلی دھول جمی ہے
بارش ہو
اک زوردار سی بارش ہو
کوہ گراں بادل بن جائیں
دھول بٹے
صبح درخشاں
عقل و فکر کا منظر ہو
پھر تم ہو
اور پھر جام و سبو کی محفل ہو
کچھ صحن و چمن ہریالی ہو
یہ دھول ہٹے
یہ کوہ اڑیں
صاف درخشاں منظر ہو
اس نظم میں ابہام اور علائم نہیں ہیں ، لیکن سوچ پہ کوہ گراں کا آویزاں ہونا اور عقل پہ دھول کا جمنا، وہ بھی میلی میلی دھول… اور پھر شاعر کی یہ خواہش کہ بارش ہو زور دار بارش کیوں ؟ تاکہ کوہ گراں ، بادل بن جائیں ۔ کوہ گراں کا بادل بننا، علامت بھی نہیں ہے تشبیہہ بھی نہیں ، صرف شاعر کی خواہش ہے، اس کی زور دار بارش کی خواہش جس سے کبھی تو کھیتیاں لہلہانے لگتی ہیں اور کبھی کھڑی فصلیں تباہ ہو جاتی ہیں ۔ آخر شاعر کیوں شدید بارش کا خواہش مند ہے؟ کیوں کہ وہ سمجھتا ہے کہ موجودہ سماجی ، معاشی حالات ذہنوں پر بے حسی اور سفاکی کے بھاری بوجہ کا باعث بن گئے ہیں اور ذہنوں پر کوہ گراں بن کر آویزاں ہو گئے ہیں اور طرفہ ستم یہ کہ عقل پر لاعلمی، بے وفائی، جہالت اور منافقت کی گہری دھول جم گئی ہے جو کسی معمولی ذریعہ سے صاف نہیں کی جا سکتی۔ اسی لیے وہ زور دار بارش کی خواہش کرتا ہے اور چاہتا ہے کہ ذہنوں پر جو کوہ گراں ہے وہ بادل بن جائے اور برس پڑے، جس سے موجودہ اقتصادی کساد بازاری کی دھول عقل و فکر کے صاف درخشاں منظر کے طور پر پوری کائنات پر ابھر آئے۔ اس کے بعد کے جشن اور مسرت کی عکاسی آخری چھ سطروں میں کی گئی ہے۔ اس طرح ظہیر نے ابہام اور علایم کے استعمال کے بغیر لفظوں کو نئی معنویت دی ہے وہ بھی سادہ و آسان اور روزمرہ کے لفظوں کے استعمال کے ذریعہ یہ بھی علی ظہیر کے اچھا شاعر ہونے کی ایسی شہادت ہے جس کے سچ ہونے میں کوئی شک نہیں کیا جا سکتا۔ اس طرح اگر ظہیر کو بہت اچھا یاسب سے اچھا شاعر کہا جائے تو اس کے لیے ضروری ہو جاتا ہے کہ دلائل اور شہادتوں ہی سے نہیں بلکہ ہم عصر شاعروں کے ان کے ساتھ، ان کی شاعری کے ساتھ ان کی شاعری کے مزاج اور تیور کے ساتھ زبان کے استعمال کے انداز اور لہجے کے ساتھ علی ظہیر کی شاعری میں ان سبھی عناصر کا تقابل کیا جائے اور عصری حسیّت کے تمام عناصر کا تجزیہ کیا جائے اور دوسرے شاعروں کے تخلیقی منصب کا تجزیہ اور تقابل کر کے علی ظہیر کو بہتر اور بلند تر ثابت کیا جائے ۔ اس مختصر مضمون میں ان سارے پہلوؤں کا احاطہ نہیں کیا جا سکتا۔ یہ کہتے ہوئے میں اپنی بات ختم کرتا ہوں کہ علی ظہیر شاعر ہیں ، اچھے شاعر ہیں ۔ ان کی آٹھ (8 ) تصانیف میں سے‘‘موج صد رنگ’’ ان کا چوتھا مجموعہ کلام ہے جسے ایجوکیشنل بک ہاؤس ، دہلی نے شائع کیا ہے۔ 120 صفحات کی اس جملہ کتاب کی قیمت ہے 150 روپے ہے جسے حیدرآباد میں ہدیٰ بک ڈپو پرانی حویلی سے حاصل کیا جا سکتا ہے۔(سمت)۔
***
  
سید اعجاز شاہین ، دبئ ،متحدہ عرب امارات

Followers

Powered By Blogger