اُمیدِ ثمر
حامد کمال الدین
کوئی شخص اپنی ”امید“ میں سچا ہے تو وہ اس کی ”طلب“ میں ضرور نکلتا ہے! راستہ جہنم کا اور امید جنت کی، اسی کو علمائے قلوب کی اصطلاح میں ’فریب‘ اور ’غرورِ آرزو‘ کہتے ہیں۔ نہ اس کا نام ’امید‘ ہے اور نہ ’خدا کے ساتھ حسنِ ظن‘! آدمی جہنم کے بیج بوئے اور اس سے جنت کے میووں کی آس کرے، یہ خوش زعمی اور نادانی ہے اور درحقیقت شیطان کے جھانسے میں آجانا!۔
کسی عرب شاعر نے کیا خوب کہا:۔
نجات کے متلاشی ہو، مگر راستہ تباہی کا چل رہے ہو
امید کی جس کشتی پہ جا بیٹھے ہو، یہ ’خشکی‘ پر تو آخر نہیں چلے گی!۔
گناہ ہیں تو تب کیا ہے، ’امید‘ کا راستہ تو بہت کھلا ہے! مگر تعجب تو اس شخص پر ہے جو ’توبہ‘ اور ’عمل صالح‘ کی طرف آنے کا نام نہیں لیتا اور برابر ’خوش گمانی‘ کا سہارا لئے بیٹھا ہے!۔
خدا کے ہاں جو سلامتی کا گھر ہے، اس میں اگر اسکے سوا کوئی اور خوبی نہ ہوتی کہ نہ تو وہاں ’موت‘ اور نہ ’بیماری‘ اور نہ ’پریشانی‘.. تو بخدا لوگ اِس جہان کو چھوڑ چھوڑ کر اُس کی جانب بھاگ رہے ہوتے! لوگ اگر کسی ایسے جزیرے کا سن لیں جس میں موت کا گزر نہیں تو سب لوگ اسی کا رخ کررہے ہوتے، چاہے یہاں کے محلات چھوڑ کر وہاں پُرمشقت زندگی کیوں نہ گزارنی پڑے! جبکہ خدا نے تو یہ بھی نہیں کہا کہ اِسکو چھوڑ کر وہاں آؤ۔ اُس نے تو صرف یہ کہا ہے کہ جب یہاں تمہارا وقت پورا ہوجائے تو وہاں آجاؤ، مگر تیاری کرکے! بھلا اس سے بہتر کوئی پیش کش ہوسکتی ہے؟۔
زمین پر اگر ایسا کوئی جزیرہ ہوتا جہاں موت نہیں، تو لوگ اپنے بنے بنائے مکانات اور زمینیں جائدادیں سب چھوڑ کر وہاں کوچ کر رہے ہوتے، چاہے وہاں ان کو فاقے کیوں نہ کرنے پڑیں.... تو پھر اُس جہان کی بابت کیا خیال ہے جس میں لوگ بادشاہوں کی طرح رہیں گے! سدا خوشیوں اور لذتوں میں لوٹیں گے! جو دل خواہش کرلے سو حاضر ہو۔ جو نگاہ کو لطف دے وہ دیکھنے کو ملے، اور خلد کی نعمت اس پر سوا! ایک نعمت سے دل بھرا نہ ہوگا کہ ایک اور نعمت آدمی کی نگاہِ التفات کی منتظر! ایک ایسی دنیا جو ’زوال‘ کے مفہوم سے ہی آشنا نہیں! وہاں تو ’نیند‘ نہیں، کیونکہ نعمتیں اتنی ہیں اور دلچسپیوں کا سامان اس قدر ہے کہ لطف و سرود سے فرصت ہی نہیں! نعمت کہ نری نعمت ہو، اور ساتھ میں کسی مصیبت یا پریشانی کی ذرہ بھر آلائش نہ ہو، ایسی نعمت کا تو تصور ہی نہیں مگر اسی ’سلامتی کے گھر میں‘ جو خدا کے ہاں پایا جاتا ہے!۔
برادرم! دنیا آخرت کی ’کھیتی‘ ہے۔ یہ ’قلب‘ جو تمہیں حاصل ہے دراصل یہ تمہاری ’زمین‘ ہے۔ چاہو تو اس کو سنوار لو اور پھر اس میں ’ایمان‘ کا بیج بو لو۔ بندگی کے افعال سے اس کو ’سیراب‘ کرو۔ گناہوں اور نافرمانیوں کا ’جھاڑ جھنکاڑ‘ یہاں پر تلف کرنے میں برابر لگے رہو۔ اور قیامت اس ’کٹائی‘ کا دن ہے۔ کچھ بھی نہیں تو ایک نظر تو روز ہی اس ’زمین‘ میں دوڑا لیا کرو۔ یہاں جو فصل پکنے کے لئے آج چھوڑ دی گئی ہے، ’آخرت‘ میں یہی ’دانے‘ گھر آئیں گے، اور پھر باقی عمر یہی کھانے ہوں گے! ہونا تو یہ چاہیے کہ نگاہ کو اس فصل کی دیکھ بھال سے فرصت ہی نہ ملے! کوئی سال دو سال کا تو معاملہ نہیں یہ تو ’زندگی کی فصل‘ ہے!۔
وہ قوی ترین جذبہ جس کی بدولت ایک ’فصل‘ کے اگانے میں آدمی اپنا دل ڈال دیا کرے، اس جذبہ کا نام ’امید‘ ہے۔ ’امید‘ ایک حقیقی جذبہ ہے۔ ’تعمیر‘ کی نہایت مضبوط بنیاد ہے۔ پھر اگر فصل ایک جہان میں بو کر کٹائی ایک دوسرے جہان میں جاکر کرنی ہو، پھر تو ’امید‘ کی ایک خاص ہی کیفیت درکار ہے۔ ’امید‘ کی یہ صورت خدا کی صفات اور خدا کی شان جاننے کا ہی نتیجہ ہوسکتی ہے۔
پس ’امید‘ کی وہ عظیم ترین صورت جو ایک لافانی جہان سے وابستہ ہے، انسان کے ہاں پایا جانے والا ایک برگزیدہ ترین جذبہ ہے۔ یہ خدا پر بھروسہ کرنے کی ایک خاص ہیئت ہے!۔
ہر کسان اپنا بیج جب مٹی میں گم کر دیتا ہے تو اس کے دامن میں ’امید‘ کے سوا کچھ باقی نہیں رہتا!زمین کی اس خاصیت پر اگر اس کا اعتماد نہ ہو کہ یہ ’دانے‘ کو کھا نہیں جائے گی جبکہ اسکے سوا ہر چیز جو اِس میں ڈالی جائے یہ اس کو واقعتا کھا جاتی ہے، نم کی صلاحیت پر اگر اس کو بھروسہ نہ ہو کہ یہ بیج کو پھٹنے اور کونپل بننے میں مدد دے گا، ہوا اور دھوپ پر اگر اس کو یقین نہ ہو، اور سب سے بڑھ کر بیج کی صلاحیت سے اگر وہ مطمئن نہ ہو.... تو کبھی وہ اپنے کھانے کے دانے مٹی کو نہ دے آیا کرے! مگر بات یہ ہے کہ اپنے یہ دانے اگر وہ رکھ بھی لے تو آخر کب تک کھائے گا؟! ’دانے‘ تو ’مٹی‘ سے ہی ایک نیا جنم پاکر آئیں تو بات بنتی ہے!۔
پس ’امید‘ تو کچھ کھو کر پانے کی ترکیب کا نام ہے! ’امید‘ یہ نہیں کہ آدمی اپناسب کچھ اپنے پاس رکھ چھوڑے اور اپنی کسی لذت کی قربانی کا روادار نہ ہو! ایسا شخص تو آخری درجے کا ’ناامید‘ کہلانے کا مستحق ہے!۔
’دل‘ کی زمین میں ’عبادت‘ کی فصل بونا اور اس کو مسلسل ’نم‘ فراہم کرنااور ’نیکی‘ کے اوزاروں سے مسلسل اس کی نگہداشت میں لگے رہنا.... ’امید‘ کی تصویر تو اصل میں یہ ہے! اور خدا کو اس کے اسماءوصفات سے جاننا بھی دراصل یہ! تبھی تو آخرت کا انکار خدا کا انکار ہے، خصوصاً خدا کی عظمت و کبریائی اور حکمت ودانائی اور اس کی رحمت و کرم اور اُس کے وکیل وکارساز اور قابل بھروسہ ہونے کا انکار ہے!۔
’امید‘ ایسا عظیم جذبہ جو قلبِ مومن میں موجزن ہوتا ہے، اور خدا کی بے شمار صفاتِ کمال پر یقین کا ایک عکسِ جلی ہے، اس کا ایک فاجر شخص کے اس اندازِ فکر سے کیا تعلق جو پورے دھڑلے سے خدا کی نافرمانی کرتے وقت کہے: ’ارے کیا ہوتا ہے‘؟!۔
No comments:
Post a Comment