Monday, February 28, 2011

Nadamat

Sunday, February 27, 2011

ٹرکوں کے پیچھے لکھی عبارتیں۔۔ ہنسنے ہنسانے کا مفت ٹانک

ٹرکوں کے پیچھے لکھی عبارتیں۔۔ ہنسنے ہنسانے کا مفت ٹانک

وسیم اے صدیقی  

جی ہاں آپ درست سمجھے۔ یہ پاکستان کی چوڑی چکلی سڑکوں پر دوڑتے ٹرکوں اور رکشا، ٹیکسی کے پیچھے لکھی عبارتوں کی چاشنی ہے ۔ ڈیپر،موڑ، پانا، ہوا، پانی، تیل، بریک، اسپیڈ، اوور ٹیک، ہائی وے اور ۔۔او چھو۔۔و۔۔۔و۔۔ٹ۔۔ٹے کے نعرے، ڈیزل کی بو۔۔ اپنے آپ میں ایک الگ دنیا ہے۔ مگر نہایت دلچسپ اور عجیب و غریب۔  آیئے آج اسی دنیاکی سیر کی جائے۔آدمی آدمی کو ڈنس' ریا' ہے، سانپ بیٹھا ہنس 'ریا' ہے ۔ ' ڈرائیور کی زندگی بھی عجب کھیل ہے، موت سے بچ نکلا تو سینٹرل جیل ہے'۔ 'یہ جینا بھی کیا جینا ہے، جہلم کے آگے دینہ ہے'۔ 'ماں کی دعا اے سی کی ہوا'۔ 'نظروں نے نظروں میں نظروں سے کہا۔۔ نظریں نہ ملانظروں کی قسم۔۔ نظروں سے نظر لگ جائے گی' ۔۔۔۔
ذرائع آمد ورفت اور خاص کر ٹرک کے پیچھے لکھی دلچسپ عبارتیں ۔۔ جسے ڈرائیور استاد اوران کا 'چھوٹا' یعنی کلینر 'شاعری' کہتے ہیں۔۔ بہت دفعہ آپ کی نظر وں سے گزری ہوگی۔ دراصل یہ عبارتیں ٹرک کے اندر بیٹھے لوگوں کے جذبات اور احساسات کی ترجمانی کرتی ہیں ۔ جبکہ ڈرائیورز کا اپنا کہنا یہ ہے کہ ان کی لائف گھر میں کم اور سڑکوں پر زیادہ گزرتی ہے۔  بس سفر ہی سفر۔۔ اور تھکن ہی تھکن۔۔ ایسے میں اگر ایک ڈرائیور دوسرے ڈرائیور کو اپنے جذبات سے آگاہ کرے بھی تو کیسے۔۔۔ پھر چلتے چلتے دوسروں کو ہنسنے اور خود کو ہنسانے کے لئے یہ عبارتیں مفت کا ٹانک ہیں۔
سچ ہے ۔۔ سواریوں کے پیچھے کوئی ایک جذبہ تحریر نہیں ہوتا بلکہ نصیحت، ڈرائیور کی 'پرسنل لائف'، خیر و بھلائی، تقدیر، مذہبی لگاؤ، ماں کی محبت، جذبہ حب الوطنی، رومانس غرض کہ زندگی کا ہر انگ ان عبارتوں میں ملتا ہے ۔ مثال کے طور پر کچھ اور عبارتیں ملاحظہ کیجئے:
'عاشقی کرنا ہے تو گاڑی چلانا چھوڑ دو'، 'بریک بے وفاہے تو رکشا چلانا چھوڑ دو'۔  'محبت کو زمانے میں گل نایاب کہتے ہیں، ہم آپ کو بیٹھنے سے پہلے آداب کہتے ہیں'، ' تم خود کوکترینہ سمجھتی ہو تو کوئی غم نہیں۔۔ ذرا غور سے دیکھو ہم بھی سلمان سے کم نہیں'۔ ظالم پلٹ کر دیکھ، تمنا ہم بھی رکھتے ہیں'، تم اگر کار رکھتی ہو تو رکشا ہم بھی رکھتے ہیں'، 'قتل کرنا ہے تو نظر سے کر تلوار میں کیا رکھا ہے، سفر کرنا ہے تو رکشہ میں کر کار میں کیا رکھا ہے؛ ۔۔ پورٹ پر رہتے ہیں، سہراب گوٹھ میں سوتے ہیں، جب تمہاری یاد آتی ہے تو جی بھر کے روتے ہیں'۔ 'اے راکٹ تجھے قسم ہے ہمت نہ ہارنا، جیسا بھی کھڈا آئے ہنس کے گزارنا'۔ 'چلتی ہے گاڑی اڑتی ہے دھول، جلتے ہیں دشمن کھلتے ہیں پھول ۔'
'سڑک سے دوستی ہے سفر سے یاری ہے، دیکھ تو اے دوست کیا زندگی ہماری ہے'۔ 'کسی نے گھر آکر لوٹا کسی نے گھر بلا کر لوٹا، جو دشمنی سے نہ لوٹ سکا اس نے اپنا بنا کر لوٹا'۔ 'اتنا دبلا ہو گیا ہوں صنم تیری جدائی سے،  کہ کٹھمل بھی کھینچ لے جاتے ہیں چارپائی سے'۔ 'میرے دل پر دکھوں کی ریل گاڑی جاری ہے، خوشیوں کا ٹکٹ نہیں ملتا، غموں کی بکنگ جاری ہے'۔ 'جاپان سے آئی ہوں سوزوکی میرا نام ۔  دن بھر سامان لانا لے جانا ہے میرا کام'۔ 'قسمت آزما چکا، مقدر آزما رہا ہوں'۔ 'تیرے غصے میں اتنا سرور ہے، پیار میں کیا ہو گا، تیری سادگی میں حسن ہے، سنگھار میں کیا ہو گا'۔  'گھر میں رونق بچوں سے، سڑکوں پر رونق بچوں سے'۔ ' کبھی سائیڈ سے آتی ہو کبھی ہارن دیتی ہو، میری جان یہ بتاؤ مجھے یوں کیوں ستاتی ہو' ۔
اگر دل پتنگ ہوتا تو اڑاتا غم کی ڈور سے، لگاتا عشق کے پیچے کٹواتا حسن والوں سے ۔  کون کہتا ہے ملاقات نہیں ہوتا، ملاقات تو ہوتا ہے مگر بات نہیں ہوتا۔  ہم نے انہیں پھول پھینکا دل بھی ساتھ تھا، انہوں نے ہم کو پھول پھینکا گملا بھی ساتھ تھا ۔ شیلا کی جوانی ہمارے کس کام کی، وہ تو بدنام ہو گئی ہے تم لکھو ایک کہانی میرے نام کی ۔ جن کے چہروں پر نقاب ہوتے ہیں، ان کے جرم بے حساب ہوتے ہیں۔ یار کو آزما کے دیکھ لیا، پارٹی میں بلا کر دیکھ لیا، یہ جراثیم عشق کے مرتے نہیں انجکشن لگا کے دیکھ لیا۔  کون کہتا ہے کہ موت آئے گی تو مر جاؤں گا،رکشہ والا ہوں کٹ مار کے نکل جاؤں گا ۔ تپش سورج کی ہوتی ہے جلنا پیٹرول کو ہوتا ہے، قصور سوار ی کا ہوتا ہے پٹنا ڈرائیور کو ہوتا ہے ۔  اس کے رخسار سے ٹپکتے ہوئے آنسو، توبہ میں نے شعلوں سے لپٹتے شبنم دیکھی ۔

ایک جملے میں داستان جس میں فلمی دنیا کے اثرات نمایاں

وقت نے ایک بار پھر دلہن بنا دیا ۔ نہ صنم، نہ غم ۔ امریکا حیران، جاپان پریشان، میڈان پاکستان ۔ دل جلے، صنم بے وفا، منی بدنام ہوئی، خان تیرے لئے۔ پھر وہی راستے جہاں سے گزرے تھے ہم ۔ پریشان نہ تھیویں میں ول آساں(پریشان مت ہونا میں پھر آؤں گا )۔ پاک فوج کو سلام، ماواں ٹھنڈیاں چھاواں ۔ باجی انتظار کا شکریہ۔ کوئی دیکھ کر جل گیا اورکسی نے دعا دی ۔ روک مت جانے دے۔ دل برائے فروخت قیمت ایک مسکراہٹ، چل پگلی صنم کے شہر، صدقے جاؤں پر کام نہ آؤں ۔

دوسرے ڈرائیور بھائی کیلئے کوئی اشارہ

دیکھ ضرور مگر پیار سے ۔  ہارن دے رستہ لے ۔ جلو مت کالے ہو جاؤ گئے ۔ ہمت ہے تو پاس کر ورنہ برداشت کر ۔ پپو یار تنگ نہ کر۔ تولنگ جا ساڈھی خیر ہے ۔  ساڈھے پچھے آویں ذرا سوچ کے (میرے پیچھے آنا ذرا سوچ کے)۔ نواں آیاں سونیاں(نیا آیا ہے ڈارلنگ)۔ زندہ رہنے کیلئے فاصلہ رکھنا ضروری ہے ۔ فاص لہ رکھیے اس سے قبل کے ہماری منزل ایک ہو جائے۔ پہاڑوں کا شہزادہ، فخر ملتان ۔ گڈی جاندی ہے چھلانگا ماردی۔ شرارتی لوگوں کے لئے سزا کا خاص انتظام ہے ۔

مذہبی قربت اور نصیحت

نماز پڑھئے۔۔  اس سے قبل کہ آپ کی نماز پڑھی جائے۔ تعجب ہے تجھے نماز کی فرصت نہیں ۔ اپنی گناہوں کی معافی مانگ لیجئے ہو سکتا ہے کہ یہ آپ کی زندگی کا آخری سفر ہو ۔ نصیب سے زیادہ نہیں، وقت سے پہلے نہیں۔ نیک نگاہوں کو سلام ۔ دعوت تبلیغ زندہ باد۔ داتا کی دیوانی۔  میں نوکر بری سرکار دا ۔ گستاخ اکھیاں کھتے جا لڑیاں۔ جھولے لعل۔  کبھی آؤ ناں ہمارے شہر۔ پیار کرنا صحت کے لئے مضر ہے، وزارت عشق حکومت پاکستان 

Saturday, February 26, 2011

اُمیدِ ثمر

اُمیدِ ثمر
حامد کمال الدین

کوئی شخص اپنی ”امید“ میں سچا ہے تو وہ اس کی ”طلب“ میں ضرور نکلتا ہے! راستہ جہنم کا اور امید جنت کی، اسی کو علمائے قلوب کی اصطلاح میں ’فریب‘ اور ’غرورِ آرزو‘ کہتے ہیں۔ نہ اس کا نام ’امید‘ ہے اور نہ ’خدا کے ساتھ حسنِ ظن‘! آدمی جہنم کے بیج بوئے اور اس سے جنت کے میووں کی آس کرے، یہ خوش زعمی اور نادانی ہے اور درحقیقت شیطان کے جھانسے میں آجانا!۔

کسی عرب شاعر نے کیا خوب کہا:۔
نجات کے متلاشی ہو، مگر راستہ تباہی کا چل رہے ہو
امید کی جس کشتی پہ جا بیٹھے ہو، یہ ’خشکی‘ پر تو آخر نہیں چلے گی!۔

گناہ ہیں تو تب کیا ہے، ’امید‘ کا راستہ تو بہت کھلا ہے! مگر تعجب تو اس شخص پر ہے جو ’توبہ‘ اور ’عمل صالح‘ کی طرف آنے کا نام نہیں لیتا اور برابر ’خوش گمانی‘ کا سہارا لئے بیٹھا ہے!۔

خدا کے ہاں جو سلامتی کا گھر ہے، اس میں اگر اسکے سوا کوئی اور خوبی نہ ہوتی کہ نہ تو وہاں ’موت‘ اور نہ ’بیماری‘ اور نہ ’پریشانی‘.. تو بخدا لوگ اِس جہان کو چھوڑ چھوڑ کر اُس کی جانب بھاگ رہے ہوتے! لوگ اگر کسی ایسے جزیرے کا سن لیں جس میں موت کا گزر نہیں تو سب لوگ اسی کا رخ کررہے ہوتے، چاہے یہاں کے محلات چھوڑ کر وہاں پُرمشقت زندگی کیوں نہ گزارنی پڑے! جبکہ خدا نے تو یہ بھی نہیں کہا کہ اِسکو چھوڑ کر وہاں آؤ۔ اُس نے تو صرف یہ کہا ہے کہ جب یہاں تمہارا وقت پورا ہوجائے تو وہاں آجاؤ، مگر تیاری کرکے! بھلا اس سے بہتر کوئی پیش کش ہوسکتی ہے؟۔

زمین پر اگر ایسا کوئی جزیرہ ہوتا جہاں موت نہیں، تو لوگ اپنے بنے بنائے مکانات اور زمینیں جائدادیں سب چھوڑ کر وہاں کوچ کر رہے ہوتے، چاہے وہاں ان کو فاقے کیوں نہ کرنے پڑیں.... تو پھر اُس جہان کی بابت کیا خیال ہے جس میں لوگ بادشاہوں کی طرح رہیں گے! سدا خوشیوں اور لذتوں میں لوٹیں گے! جو دل خواہش کرلے سو حاضر ہو۔ جو نگاہ کو لطف دے وہ دیکھنے کو ملے، اور خلد کی نعمت اس پر سوا! ایک نعمت سے دل بھرا نہ ہوگا کہ ایک اور نعمت آدمی کی نگاہِ التفات کی منتظر! ایک ایسی دنیا جو ’زوال‘ کے مفہوم سے ہی آشنا نہیںوہاں تو ’نیند‘ نہیں، کیونکہ نعمتیں اتنی ہیں اور دلچسپیوں کا سامان اس قدر ہے کہ لطف و سرود سے فرصت ہی نہیں! نعمت کہ نری نعمت ہو، اور ساتھ میں کسی مصیبت یا پریشانی کی ذرہ بھر آلائش نہ ہو، ایسی نعمت کا تو تصور ہی نہیں مگر اسی ’سلامتی کے گھر میں‘ جو خدا کے ہاں پایا جاتا ہے!۔

برادرم! دنیا آخرت کی ’کھیتی‘ ہے۔ یہ ’قلب‘ جو تمہیں حاصل ہے دراصل یہ تمہاری ’زمین‘ ہے۔ چاہو تو اس کو سنوار لو اور پھر اس میں ’ایمان‘ کا بیج بو لو۔ بندگی کے افعال سے اس کو ’سیراب‘ کرو۔ گناہوں اور نافرمانیوں کا ’جھاڑ جھنکاڑ‘ یہاں پر تلف کرنے میں برابر لگے رہو۔ اور قیامت اس ’کٹائی‘ کا دن ہے۔ کچھ بھی نہیں تو ایک نظر تو روز ہی اس ’زمین‘ میں دوڑا لیا کرو۔ یہاں جو فصل پکنے کے لئے آج چھوڑ دی گئی ہے، ’آخرت‘ میں یہی ’دانے‘ گھر آئیں گے، اور پھر باقی عمر یہی کھانے ہوں گے! ہونا تو یہ چاہیے کہ نگاہ کو اس فصل کی دیکھ بھال سے فرصت ہی نہ ملے! کوئی سال دو سال کا تو معاملہ نہیں یہ تو ’زندگی کی فصل‘ ہے!۔

وہ قوی ترین جذبہ جس کی بدولت ایک ’فصل‘ کے اگانے میں آدمی اپنا دل ڈال دیا کرے، اس جذبہ کا نام ’امید‘ ہے۔ ’امید‘ ایک حقیقی جذبہ ہے۔ ’تعمیر‘ کی نہایت مضبوط بنیاد ہے۔ پھر اگر فصل ایک جہان میں بو کر کٹائی ایک دوسرے جہان میں جاکر کرنی ہو، پھر تو ’امید‘ کی ایک خاص ہی کیفیت درکار ہے۔ ’امید‘ کی یہ صورت خدا کی صفات اور خدا کی شان جاننے کا ہی نتیجہ ہوسکتی ہے۔

پس ’امید‘ کی وہ عظیم ترین صورت جو ایک لافانی جہان سے وابستہ ہے، انسان کے ہاں پایا جانے والا ایک برگزیدہ ترین جذبہ ہے۔ یہ خدا پر بھروسہ کرنے کی ایک خاص ہیئت ہے!۔
ہر کسان اپنا بیج جب مٹی میں گم کر دیتا ہے تو اس کے دامن میں ’امید‘ کے سوا کچھ باقی نہیں رہتا!زمین کی اس خاصیت پر اگر اس کا اعتماد نہ ہو کہ یہ ’دانے‘ کو کھا نہیں جائے گی جبکہ اسکے سوا ہر چیز جو اِس میں ڈالی جائے یہ اس کو واقعتا کھا جاتی ہے، نم کی صلاحیت پر اگر اس کو بھروسہ نہ ہو کہ یہ بیج کو پھٹنے اور کونپل بننے میں مدد دے گا، ہوا اور دھوپ پر اگر اس کو یقین نہ ہو، اور سب سے بڑھ کر بیج کی صلاحیت سے اگر وہ مطمئن نہ ہو.... تو کبھی وہ اپنے کھانے کے دانے مٹی کو نہ دے آیا کرے! مگر بات یہ ہے کہ اپنے یہ دانے اگر وہ رکھ بھی لے تو آخر کب تک کھائے گا؟! ’دانے‘ تو ’مٹی‘ سے ہی ایک نیا جنم پاکر آئیں تو بات بنتی ہے!۔

پس ’امید‘ تو کچھ کھو کر پانے کی ترکیب کا نام ہے! ’امید‘ یہ نہیں کہ آدمی اپناسب کچھ اپنے پاس رکھ چھوڑے اور اپنی کسی لذت کی قربانی کا روادار نہ ہو! ایسا شخص تو آخری درجے کا ’ناامید‘ کہلانے کا مستحق ہے!۔

دل‘ کی زمین میں ’عبادت‘ کی فصل بونا اور اس کو مسلسل ’نم‘ فراہم کرنااور ’نیکی‘ کے اوزاروں سے مسلسل اس کی نگہداشت میں لگے رہنا.... ’امید‘ کی تصویر تو اصل میں یہ ہے! اور خدا کو اس کے اسماءوصفات سے جاننا بھی دراصل یہ! تبھی تو آخرت کا انکار خدا کا انکار ہے، خصوصاً خدا کی عظمت و کبریائی اور حکمت ودانائی اور اس کی رحمت و کرم اور اُس کے وکیل وکارساز اور قابل بھروسہ ہونے کا انکار ہے!۔

امید‘ ایسا عظیم جذبہ جو قلبِ مومن میں موجزن ہوتا ہے، اور خدا کی بے شمار صفاتِ کمال پر یقین کا ایک عکسِ جلی ہے، اس کا ایک فاجر شخص کے اس اندازِ فکر سے کیا تعلق جو پورے دھڑلے سے خدا کی نافرمانی کرتے وقت کہے:ارے کیا ہوتا ہے‘؟!۔

Monday, February 21, 2011

جب زندگی شروع ہوگی از ابو یحیی

جب زندگی شروع ہوگی از ابو یحیی


کتاب پر تبصرہ


پروفیسر محمد عقیل


کہانی سننا اور سنانا ہمیشہ سے انسانوں کے لیے ایک انتہائی پسندیدہ اور دلچسپ کام رہا ہے۔ دورجدید میں اس نے ناول،افسانہ، فلم اور ڈرامے کی کی شکل اختیار کرلی ہے۔ ہم میں سے شاید ہی کوئی شخص ہو جس نے زندگی میں کبھی ناول یا کہانی کو سنا یا پڑھا نہ ہو۔ مگر آج ہم قارئین کو جس ناول سے متعارف کرائیں گے، وہ اپنے موضوع کے اعتبار سے اپنی نوعیت کا ایک منفرد ناول ہے۔ اس ناول کا نام ’جب زندگی شروع ہوگی‘ ہے اوراس کے مصنف ابویحییٰ ہیں۔






جیسا کہ نام سے ظاہر ہے کہ ناول کا مرکزی خیال آخرت کی زندگی ہے۔ تصورِ آخرت قرآن کریم کا بنیادی عقیدہ ہے، مگر یہ تصور آخرت نہ صرف غیر مسلم اقوام میں کوئی قابل تذکرہ شے نہیں ہے بلکہ مسلمانوں کے ہاں بھی اس حوالے سے ایک مجرمانہ غفلت پائی جاتی ہے۔ ابویحییٰ کا ناول اس مجرمانہ غفلت کو ختم کرنے کی ایک قابل قدر کاوش ہے۔ یہ ناول اس بات کا اعلان ہے کہ ہر مسئلے سے زیادہ اہم مسئلہ آخرت کا ہے۔ آج کی بھوک تو برداشت ہوسکتی ہے لیکن کل کی پیاس ناقابل برداشت ہوگی۔ آج سفارش چل سکتی ہے لیکن کل خدا کے فیصلے کو تبدیل کرنے کی طاقت کسی میں نہ ہوگی۔یہ ناول ایک جانب قوم کے مصلحین، ادیبوں، شاعروں اور ڈرامہ نگاروں کو آخرت کے مضمون کو موضوع بحث بنانے کی دعوت دیتا ہے تو دوسری جانب قوم کے بیٹوں کو عبداللہ اور بیٹیوں کو ناعمہ جیسے قابل تقلید آئیڈیل فراہم کرتا ہے۔






’’جب زندگی شروع ہوگی‘‘ کی داستان عبداللہ نامی ایک نیک اور صالح انسان کے گرد گھومتی ہے جس نے اپنی زندگی دین کی تبلیغ، ترویج اور اشاعت میں گذاری۔ کہانی کا آغاز اس بات سے ہوتا ہے کہ عبداللہ کا انتقال ہوچکا ہے اور وہ عالم برزخ میں قیامت کا انتظار کرہا ہے۔ ایک دن اس کا ساتھی فرشتہ جس کا نام صالح بیان ہوا ہے اسے بتاتا ہے کہ اسرافیل کو اللہ نے صور پھونکنے کا حکم دے دیا ہے اور کائنات کی بساط لپیٹی جارہی ہے۔ اس کے بعد عبداللہ کو میدان محشر میں لوگوں کی پریشانی کا مشاہدہ کروایا جاتا، ہر زمانے کے کامیاب و ناکام لوگوں سے ملوایا جاتا ہے، اس کے ذہن میں اٹھنے والے سوالات کا جواب دیا جاتا اور خدا کی قدرت، رحمت، غضب اور عنایتوں کا دیدار کروایا جاتا ہے۔










اس ناول کی خوبیوں میں سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ قیامت، محشر، حساب کتاب، جنت، دوزخ اور دیگر متشابہات کو قرآن اور صحیح احادیث کے اجمال کی بنیاد پرپیش کیا گیا ہے۔ بعض پیراگراف تو قرآن و حدیث کے بیان سے اس قدر قریب تر ہیں کہ ان کے آخر میں قرآن و حدیث کا حوالہ تک لکھا جاسکتا ہے۔ مصنف نے حتی الامکان ہر قسم کی فرقہ واریت، اختلافی امور اور فقہی جزئیات سے اجتناب برتتے ہوئے بنیادی عقائد، ایمانیات اور اخلاق کے مسلمہ اصول ہی بیان کئے ہیں۔ بہت سے نازک معاملات کی تشریح مصنف نے ایک معلم کی طرح سہل انداز میں کی ہے تاکہ لوگوں کو ان تعبیرات کی تفہیم میں کوئی دقت نہ ہو۔






اس ناول میں چند ایسی بنیادی خصوصیات موجود ہیں جنہوں نے اس کو پڑھنے والوں کے لیے انتہائی دلچسپ اور معلوماتی بنادیا ہے۔ پہلی یہ کہ ناول کی زبان انتہائی شستہ، آسان اور پر اثر ہے۔ ایک ایسی دنیا جسے کسی نے دیکھا نہ ہو اس کے حالات و واقعات کو انتہائی مہارت کے ساتھ زبان کے قالب میں ڈھالا گیا ہے۔ منظر نگاری کچھ اس طرح کی گئی ہے کہ واقعات ذ ہن کی اسکرین پر چلتے معلوم ہوتے ہیں۔ دوسری یہ کہ تذکیر و نصیحت سے بھرپور اس ناول میں قاری کو کہیں بھی وعظ گوئی کا بھاری پن محسوس نہیں ہوتا۔ تیسری یہ کہ روز آخرت سے متعلق ذہن میں پیدا ہونے والے کم و بیش ہر سوال کا جواب اس ناول میں سہل و آسان انداز میں دیا گیا ہے، مگر کہیں بھی کسی علمی لیکچر کا شائبہ نہیں آتا۔






ان سب چیزوں کے باوجود یہ ناول اول تا آخر ایک ناول ہی ہے، جس کی کہانی میں ناول نگاری کے تمام بنیادی عناصر پوری طرح موجود ہیں۔ مصنف نے اس سنجیدہ اور حساس موضوع میں مزاح، رومانویت، لطیف انسانی جذبوں، رشتوں اور تعلقات کی باریکیوں کو بہت خوبصورت طریقے سے بیان کیا ہے۔ بعض انتہائی نازک مواقع پر بھی شائستگی اور ادب کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا۔ مثلاً حوروں کے حسن کے بیان میں وہ سلیقہ اختیار کیا ہے کہ ان کا سراپا ایک زندہ حقیقت بن کر نظر کے سامنے آجاتا ہے، مگر ذہن کسی شہوت یا نفسانی آلودگی کی جانب مائل نہیں ہوتا۔ یہی تمام وجوہات ہیں کہ قاری ایک مرتبہ ناول شروع کرکے دنیا و مافیہا سے بے خبر ہوکر مختلف کیفیتوں سے گذرتا ہے۔ کبھی وہ روتا، کبھی ہنستا، کبھی خوف خدا سے لرزتا، کبھی اس کی محبت سے سرشار ہوتا اور کبھی جنت کی وادیوں میں کھوجاتا ہے۔ پڑھنے کا اچھا ذوق رکھنے والے کسی قاری کے لیے مشکل ہے کہ وہ اس ناول کی تکمیل میں ایک یا دو نشستوں سے زیادہ لگائے۔






کہانی کا اختتام ایک ایسے پیرائے میں کیا گیا ہے جس سے یہ پرخطر اور اجتہادی کاوش ظاہر پرستانہ انگشت نمائی سے محفوظ ہوگئی ہے۔ مصنف اور ان کے معاونین نے موضوع کو اس طرح چھان پھٹک کر ترتیب دیا ہے کہ اس پر تنقید نہایت مشکل معلوم ہوتی ہے۔ یہ ناول اردو ادب میں ایک انقلابی اقدام ہے۔ لوگ جاسوسی، رومانوی، تاریخی اور دیگر ادب سے تو واقف تھے لیکن یہ ناول اردو ادب میں ایک نئے ادب کی ابتدا ہے جسے ’’اخروی ادب‘‘ کہنا زیادہ موزوں ہوگا۔






یہ ناول محض ایک ناول ہی ہوتا اگر اس کا موضوع آخرت نہ ہوتا لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اس ناول کا تعلق ہر شخص کی زندگی سے براہ راست ہے۔ اسی بات کو مصنف نے کچھ یوں بیا ن کیا ہے: ’’بات اگر صرف اتنی ہوتی تب بھی اس ناول کا مطالعہ دلچسپی سے خالی نہ ہوتا، مگر مسئلہ یہ ہے کہ جلد یا بدیر اس ناول کا ہر قاری اور اس دنیا کا ہر باسی خود اس فکشن کا حصہ بننے والا ہے اور اس کے کسی نہ کسی کردار کو نبھانا اس کا مقدر ہے۔ یہی وہ المیہ ہے جس نے مجھے قلم اٹھا کر میدان میںاترنے پر مجبور کیا ہے‘‘ (صفحہ۹)۔






267 صفحات کا بائبل پیپر پر دیدہ زیب چھپائی کے ساتھ یہ ناول ایک گراں قدر کاوش ہے۔ اپنی ذاتی اصلاح، گھروالوں اور رشتہ داروں کی تربیت اور دوست احباب کو دینے کے لیے یہ ایک بہترین تحفہ ہے۔یہ ناول سوئی ہوئی انسانیت کو جگانے، لوگوں کو اپنے رب کی جانب بلانے، قیامت کی منادی اور اس عظیم دن کی تیاری کے لئے جس دن سب تنہا خدا کے حضور کھڑے ہوکر اپنا مقدمہ پیش کریں گے، ایک بہترین راستہ ہے۔ یہ ناول چیخ چیخ کر لوگوں سے کہہ رہا ہے (شاعر سے معذرت کے ساتھ(


شاید کہ ترے دل میں اتر جائے مری بات


انداز بیاں اب تو بہت شوخ ہے ظالم






پروفیسر محمد عقیل


26 جنوری2011

Friday, February 18, 2011

ایک لاکھ

جس دن ایک لاکھ جمع ھوجائینگے
میں سعودی عرب سے چلا جاونگا۔
انشااللہ
 پہلے تو لوگ پیٹھہ پیچھے کہتے تھے. اب منہ پرھی کہنے  لگے ھیں کہ" اور کتنے سال سعودی عرب میں ٹکے رہیں گے، اتنا کمالیا, کیا اب بھی بس نہیں ھوا؟۔ تو سنئے۔ میں تیس سال پہلے یہ سوچ کر آیا تھاکہ ایک آدھہ لاکھہ کماکر واپس ھوجاونگا، اور آج بھی اپنے ارادے پر قائم ھوں کہ جس دن میرے پاس میرے ایک لاکھہ جمع ھوجائیں گے میں انشااللہ واپس چلا جاونگا ۔ جی ھاں؛ میں ایک لاکھہ ڈالر یا پاونڈ کی نہیں بلکہ ایک لاکھہ روپئے ھی کی بات کررھاھوں۔ لوگ میری بات کا یقین نہیں کرتے اور سمجھتے ہیں میں مذاق کررھاھوں. لوگ میری مجبوری نہیں سمجھتے۔ میں ان لوگوں میں سے نھیں جنہیں پانچ لاکھہ جمع ھوجانے پر دس لاکھہ نہ ھونے کا غم بیروزگاری کے غم سے زیادہ ستاتاھے۔ بات دراصل یہ ھیکہ میں قوم کی خدمت کرنا چاھتا تھا۔ میری  خواہش تھی کہ کوئی اسکول، کالج، دواخانہ وغیرہ کھولوں اور تعلیمی ، سماجی اور علمی میدان میں بڑےبڑے کام کروں۔ یا کوئی انگلش اخبار یا رسالہ نکال کر تہذیب الاخلاق، الہلال اور البلاغ کی طرح صحافت میں ھلچل مچادوں. اسکے لئے کم سے کم ایک آدھہ لاکھہ روپئے تو پاس ہونے ھی چاہییں۔ ملک میں رھتے ھوئے اتنا کمانا اور وہ بھی آج سے تیس پینتیس سال قبل ناممکن تھا اسلئےمجھے سعودی عرب آنا پڑا۔  جب ویزا آیا تومیں نے یہ مصمّم ارادہ کرلیاتھا کہ جس دن ایک لاکھہ جمع ھوجائیں گے واپس آکرقوم کی خدمت کیلئے وقف ھوجاونگا۔  اور ھوسکے تو کوئی الکشن بھی لڑونگا اور قوم کی پسماندگی دور کردونگا۔ میرے ذھن میں اتنے انقلابی منصوبے آج بھی ھر وقت منڈلاتے رھتے ہیں کہ اگر میں ساری جماعتوں میں دس دس بھی بانٹ دوں تو ساری جماعتیں کام کرتے کرتے تھک جائینگی لیکن میرے مشورے اور منصوبے کبھی ختم نہیں ھونگے۔
 ایسا بھی نھیں کہ میرے پاس ایک لاکھہ جمع نہیں ھوئے۔ کئی بار ھوئے لیکن ھر بار میرے ایک لاکھہ کا حسنی مبارک ھوگیا۔
ھوا یوں کہ جب پہلی بار میں نے دو تین سال میں ایک لاکھہ جمع کرلئے اور واپسی کا ارادہ کرلیا تو بڑے بھائی صاحب نے شرم دلائی کہ خالی ہاتھہ کیسے لوٹوگے۔ کچھہ تو سوچو کہ
" جن لوگوں نے آتے وقت پھولوں کے ھار پہنائے، امام ضامن باندھے وہ سارے کچھہ نہ کچھہ تو آس لگائے ھوئے ھونگے ان کو ایک کھجور اور زم زم پر تو نہیں ٹالا جاسکتا۔ پھر گھر پر مانباپ اور چھوٹے بھائی بہن سارے تمہارے پہینچتے ہی بیگ بلکہ بیاگاں کھلنے کے منتظر ھونگے۔ " بات معقول تھی۔ ھماری شاپنگ شروع ھوی اور ایک لاکھہ روپیئے کے تحفے بانٹ کر واپس آنا پڑا۔
پھر دوتین سال لگے اور ھم نے ایک لاکھہ جمع کرلئے۔ اب جونہی واپسی کا اعلان کیا والد صاحب نے لکھا کہ "اپنے لئے ایک آر سی سی کا سلیقے کا مکان بنالو پھر شوق سے آجانا۔ کب تک اس مٹّی کی دیواروں پر کھڑے کویلو کے مکان میں رھوگے جسمیں ہر بارش میں پرانے ٹپکے بند نہیں ھوتے کہ  نئے نئے ٹپکے دریافت ھوجاتے ہیں۔ قوم پہلے لیڈر کا مکان دیکھتی ھے پھر ووٹ دیتی ھے۔ " بات معقول تھی۔ پھر پلاٹ کی تلاش اور تعمیر شروع ھوئی اسمیں ھمارے چار پانچ سال نکل گئے۔ گھر بنا اور الحمدللہ گھر بھراونی بھی دھوم سے ھوی۔ اور ھم نے ایک لاکھہ پھر سے جمع کرنے شروع کردیئے۔ پھر والدہ کا خط آیا کہ بہنوں کےلئے رشتے آنے شروع ھوگئے ھیں۔ انہون نے لکھا کہ "پہلے بوسیدہ مکان میں شریف اور خوددار لوگوں کے رشتےآتے تھے۔ لیکن بڑا مکان دیکھہ کر دامادوں  کے  دام بڑھہ گئے ھیں۔ ایک مرغا جو پچاس ساٹھہ روپئے میں مل جاتاتھا اب دو سو روپئے سے کم میں نہیں ملتا۔ پھر قصابوں کے نخرے الگ ھیں۔ پہلے آٹو رکشے والے پرانے گھر کے سامنے پچیس تیس روپئے لے لیتے تھے اب بڑا گھر دیکھتے ھی پچاس روپئے کا ڈیمانڈ کرتے ھیں۔ دلہوں کا بھی ڈیمانڈ بہت بڑھہ گیاھے  پہلے انجینئر یا ڈاکٹر بھی ایک آدھہ لاکھہ میں مل جاتے تھے اب تو معمولی گریجویٹ یا انٹر پاس بھی ایک لاکھہ سے کم میں نہیں ملتا۔ اگر تم اسطرح سعودی چھوڑ کر آجاوگے تو بہنوں کی شادی مشکل ھوجائیگی"۔ اب بھلا ھم امی کی بات کسطرح ٹال سکتے تھے۔
خرید و فروخت کا یہ کتنا تکلیف دہ کاروبار ھے۔ ھر شخص کی عمر دامادوں یا بہنوئیوں کی خرید کے چکر کے اطراف گھومتی ھے۔  اسی میں عمر کا اھم حصہ نکل جاتا ھے  اور وہ زندگی  کے مقصد سے دور ھو جاتا ھے۔ مزے کی بات یہ ھیکہ خود سالا جب کسی کا بہنوئی بنتا ھے تووہ اپنے  سسر اور  سالوں سے بدلہ لیتا ھے اور ان کو اپنی محنت کی کمائی اور قیمتی سال کھپانے کے مشن پر لگادیتاہے۔ اگرمستقبل میں ھونے والے سارے سالے اور بہنوئی مل کر یہ عہد کرلیں کہ وہ رسم و رواج اور ارمان کے نام پر ایک دوسرے پر کوئی بوجھہ نہیں بنیں گے تو ھزاروں افراد اپنا قیمتی مال اور وقت قوم کیلئے کئی بہتر مقاصد پر لگاسکتے ھیں۔ لیکن یہ باتیں اگر ھم اپنے ھونے والے بہنوئیوں سے کہتے تو وہ احتراما” سر جھکا کر سن تولیتے لیکن اگلے دن ان کے ابا جان یا امی جان کا فون آجاتاکہ رشتہ منظور نہیں۔ اسلئے ھم نے یہ ساری نصیحتیں  دوسروں کیلئے اٹھا کر رکھیں، قرض لئے اور بہنوں کی شادی کی۔ اسطرح ھمارے چار پانچ قیمتی سال اور نکل گئے۔
پھرھم الحمدللہ ایک دو سال میں ایک لاکھہ جمع کرکے چھٹّی چلے گئے۔  لیکن جاتے ھی ھماری شادی کردی گئی۔ ھم نے بہت کہا کہ ھم کو پہلے قوم کی خدمت کرنی ھے لیکن والد صاحب نے ڈانٹا کہ "قوم کی خدمت کیلئے واجپائی جی بننا ضروری نہیں‘‘۔  خیر عقد اور مرگ سے فرار بھلا کسے ممکن ھے۔ ھم ٹھکانے لگادیئے گئے۔ پھر شب عروسی دلہن نے کہا کہ "ایک بار بس مکّہ اور مدینہ کی زیارت کروادیجئے پھر زندگی میں اور کچھہ نہیں مانگونگی"۔ھمیں نہیں پتہ تھاکہ عورت زندگی میں جو بھی مانگتی ھے وہ آخری بار ھی کہہ کر مانگتی ھے، اور بے وقوف مرد کا حافظہ کمزور ھوتا ھے۔ھر مرتبہ پہلی مرتبہ ھی کی طرح دے کر بھول جاتاھے۔ پھر بیگم کے سعودی عرب آنے کے بعد آپ کو پتہ ھیکہ گھر کو سیٹ کرنے میں کتنا خرچ ھوتا ھے۔ اسمیں پھر ھمارے کچھہ سال نکل گئے۔ پھر بیگم نے کہا کہ "آپ نے اپنے بھائیوں کو تو سعودی بلالیا جو کسی کام کے نہیں، اگر میرے ایک دو بھائیوں کو بلالیتے تو وہ کم از کم احسان تو مانتے"۔ اب سالوں سے احسان منوانا بھی ضروری تھا کیونکہ کسی نے کہا ھے
     سالے سمجھے تو ساتھہ دیتے ھیں 
   سالے  پلٹے  تو  ہاتھہ   دیتے   ھیں
اسطرح بہنوں، بھائیوں، بہنوئیوں اور سالوں کو سیٹ کرتے کرتے اور کچھہ سال نکل گئے اس دوران ھم دو بیٹیوں کے ابّاجان بھی بن گئے۔ پھر ایک دو سال میں ایک لاکھہ جمع ھوتے ھی بیگم نے فرمایا "دو دو بیٹیاں ھیں کل ان کی شادی ھوگی، پتہ نہیں کیسا شوھر ملے۔ خدانخواستہ بھاگ جائے یا دوسری شادی کرلے یا کچھہ ھوجائے تو بچّیوں کے نام پر کچھہ تو ھونا چاھیئے، کم سے کم ایک آدھہ گھر، پلاٹ یا فلیٹ کچھہ تو کردیجئیے"۔ یہ بات بھی معقول تھی۔ پھر اس نئے پروجیکٹ میں چار پانچ سال اور نکل گئے۔ اب میدان بالکل صاف تھا۔ پھر ھم نے دو ایک سال میں ایک لاکھہ جمع کیا اور اس بار قطعی آخری اعلان کردیا کہ اب ھم واپس نہیں آئینگے۔ لیکن بیوی سے بہتر کون اقتصادیات کو سمجھہ سکتاھے۔ اس نے بڑے دانشورانہ انداز میں کہا کہ "جس وقت آپ سعودی آئے تھے اس وقت ایک لاکھہ کی قدر آج کے ایک کروڑ کے برابر تھی۔ وطن جاکر آپ کوئ کاروبار یا نوکری تو کرنے سے رھے۔ آج کے دورمیں گھر چلانے، گاڑی، ڈرائیور اور نوکر رکھنے کیلئے کم سے کم ایک لاکھہ کی ماہانہ آمدنی ناگزیر ھے"۔ ھم نے پوچھا "یہ ایک لاکھہ ھر ماہ بھلا کہاں سے آئیں گے"۔ انہوں نے جواب دیا "اگر آپ دو تین کروڑ کہیں سرمایہ لگادیں یا ڈپازٹ کردیں تویہ ممکن ھے،اور اگر چار پانچ کروڑ ھوں تواور بھی اچھا ھے، بڑھاپے تک سکون ھی سکون ھوگا، ورنہ بیٹوں اور بہووں پر انحصار کرنا ھوگا"۔ ھم نے بے شمار ایسے بیٹے دیکھے ھیں جن کے مانباپ انتظار میں دروازے پر آنکھیں لگائے ھوتے ھیں اور بیٹے سسرالیوں کی آنکھوں کی ٹھنڈک بنے رھتے ھیں۔ ھم اس کا تصوّر کرکے کانپ گئے اور اپنا ارادہ ملتوی کرتے ھوئے اس نئے پروجیکٹ پر لگے ھوئے ھیں.  انشااللہ یہ پروجیکٹ مکمل ھوتے ھی ھم ھمارے ایک لاکھہ جمع کرینگے اور قوم کی خدمت کیلئےچلے جائیں گے۔ قوم سے کہیئے کہ بس تھوڑا سا انتظار اور کرلے۔

نوٹ: اس عبرتناک افسانے کے تمام واقعات اور کردار فرضی ھیں اگر کوئی سالے یا ہہنوئ اس کی زد میں آجائیں تو یہ محض ایک اتفاقی حادثہ ھے اور ھم افسوس میں برابر کے شریک ھیں۔
علیم خان فلکی - جدہ
فبروری 2011

Followers

Powered By Blogger