السلام علیکم
میرا بیٹا ابھی چار پانچ سال کا ھے۔ بہت پیاری پیاری باتیں کرتاھے۔ بہت اچھے اچھے مشورے دیتا ھے۔بڑا اچھا لگتا ھے۔ کہتا ھے "ابو اپن لوگ ایک جہاز خرید لینا پھر سب مل کر کہیں بھی جاسکتے" کبھی ٹی وی پر جنگ یا فساد کی تصویریں دیکھتاھے تو کہتا ھے ابّو اپن لوگ سوپر مین بن جانا پھر سارے بدمعاشوں کو ختم کردے سکتے"۔۔ وہ بڑا انقلابی ھے۔ ھر وقت انقلابی باتیں کرتا رھتا ھے۔ اسے نہیں پتہ کہ خواب دیکھنا کتنا آسان ھے لیکن ان خوابوں کی تعبیر لانا کتنا مشکل ھے۔
بالکل اسیطرح ھمارے دوست بھی ھیں۔ بڑی پیاری پیاری باتیں کرتے ھیں۔ بڑا اچھا لگتاھے جب وہ بھی اچھے اچھے مشورے دیتے ھیں۔انہیں بھی یہ پتہ نہیں کہ مشورے دینا کتنا آسان ھے لیکن خود کام کرنا کتنا مشکل ھے۔کوئی صاحب بھرپور دانشورانہ انداز میں ایسے جیسے سننے والا ایک بیوقوف ورکر ھے فرماتے ھیں "علیم صاب، ھم کو سب سے پہلے متحد ھونا چاھیئے، علما اور جماعتوں میں اتحاد پیدا کرنا چاھیئے۔"
بالکل اسیطرح ھمارے دوست بھی ھیں۔ بڑی پیاری پیاری باتیں کرتے ھیں۔ بڑا اچھا لگتاھے جب وہ بھی اچھے اچھے مشورے دیتے ھیں۔انہیں بھی یہ پتہ نہیں کہ مشورے دینا کتنا آسان ھے لیکن خود کام کرنا کتنا مشکل ھے۔کوئی صاحب بھرپور دانشورانہ انداز میں ایسے جیسے سننے والا ایک بیوقوف ورکر ھے فرماتے ھیں "علیم صاب، ھم کو سب سے پہلے متحد ھونا چاھیئے، علما اور جماعتوں میں اتحاد پیدا کرنا چاھیئے۔"
ایک صاحب پورے انقلابی جوش سے فرماتے ھیں "علیم صاب، تمام مسلمانوں کو ایک سیاسی پارٹی بنا کر پارلیمنٹ اور اسمبلیوں پر قبضہ کرنا چاھیئے" گویا سارے سیاستدان بیوقوف ھیں۔
ایک صاحب بڑے گلوگیر لہجے میں پوری متانت سے نصیحت آمیز جو کچھہ کچھہ حقارت آمیز بھی ھوتے ہیں مشورہ دیتے ھیں کہ "علیم صاب، دراصل یہ سب ایمان کی کمزوری ھے جس کی وجہ سے ھم لوگ ھر محاذ پر ذلیل ھورھے ھیں۔ ھم کو تربیت پر توجہ دینے کی ضرورت ھے۔"
ایک صاحب تو مشورہ نہیں بلکہ ڈائرکٹ آرڈرکرتے ھیں کہ "علیم صاب، یہ سب بے کار کام چھوڑیئے اور ایجوکیشن پر محنت کیجئے۔ جب تک قوم میں بڑے صحافی ،کمشنر اور کلکٹر پیدا نھیں ھونگے ھم لوگ ترقی نھیں کرسکتے۔ " اور کوئی صاحب طنزیہ فرماتے ھیں "علیم صاب، مسلمان لڑکیاں غیرمسلموں سے شادیاں کررھی ھیں، سود کی لعنت بڑھتی جارھی ھے، شادیوں میں اسراف بڑھتاجارھا ھے یہ سب چھوڑ کر آپ کیا مشاعرے کرتے پھررھے ھیں، یہ سب چھوڑیئے اور سماج سدھار کا کام کیجئے۔"
ایک صاحب بڑے گلوگیر لہجے میں پوری متانت سے نصیحت آمیز جو کچھہ کچھہ حقارت آمیز بھی ھوتے ہیں مشورہ دیتے ھیں کہ "علیم صاب، دراصل یہ سب ایمان کی کمزوری ھے جس کی وجہ سے ھم لوگ ھر محاذ پر ذلیل ھورھے ھیں۔ ھم کو تربیت پر توجہ دینے کی ضرورت ھے۔"
ایک صاحب تو مشورہ نہیں بلکہ ڈائرکٹ آرڈرکرتے ھیں کہ "علیم صاب، یہ سب بے کار کام چھوڑیئے اور ایجوکیشن پر محنت کیجئے۔ جب تک قوم میں بڑے صحافی ،کمشنر اور کلکٹر پیدا نھیں ھونگے ھم لوگ ترقی نھیں کرسکتے۔ " اور کوئی صاحب طنزیہ فرماتے ھیں "علیم صاب، مسلمان لڑکیاں غیرمسلموں سے شادیاں کررھی ھیں، سود کی لعنت بڑھتی جارھی ھے، شادیوں میں اسراف بڑھتاجارھا ھے یہ سب چھوڑ کر آپ کیا مشاعرے کرتے پھررھے ھیں، یہ سب چھوڑیئے اور سماج سدھار کا کام کیجئے۔"
اور اگر خدانخواستہ ھزار بار خدانخواستہ آپ نے کبھی ان کے مشوروں کو عملی جامہ پہنانے کیلئے کسی کام کا آغاز کردیا اور ان سے کچھہ مالی مدد یا کسی میٹنگ میں آنے کی درخواست کی تو اب ان کا رویّہ دیکھیئے۔
کسی صاحب کو اپنے تیسرے پلاٹ یا چوتھے فلیٹ کی پےمنٹ کرنی ھے، یا بیٹی کی شادی کیلئے پندرہ لاکھہ ناکافی ھیں مزید کی ضرورت ھے اسلئے وہ پچاس ریال سے زیادہ نھیں دے سکتے۔ ۔جہاں تک میٹنگ یا جلسے میں آنے کا تعلق ھے کوئی صاحب مصروفیات کی اتنی طویل تفصیل بتانا شروع کرتے ھیں گویا وھی ایک مصروف ترین آدمی ھیں اور باقی سارے مچھلیاں پکڑرھے ھیں مسجد کے مولوی کی طرح سوائے نماز پڑھانے اور جلسے کرنے کے آپ کے پاس اور کوئی کام نہیں ھے۔ سیدھے سیدھے یہ نہیں کہتے کہ میٹنگ میں نہیں آسکتے، لمبی تفصیل سناکر بور کرنا شائد ضروری ھوتا ھے۔
کسی صاحب کو اپنے تیسرے پلاٹ یا چوتھے فلیٹ کی پےمنٹ کرنی ھے، یا بیٹی کی شادی کیلئے پندرہ لاکھہ ناکافی ھیں مزید کی ضرورت ھے اسلئے وہ پچاس ریال سے زیادہ نھیں دے سکتے۔ ۔جہاں تک میٹنگ یا جلسے میں آنے کا تعلق ھے کوئی صاحب مصروفیات کی اتنی طویل تفصیل بتانا شروع کرتے ھیں گویا وھی ایک مصروف ترین آدمی ھیں اور باقی سارے مچھلیاں پکڑرھے ھیں مسجد کے مولوی کی طرح سوائے نماز پڑھانے اور جلسے کرنے کے آپ کے پاس اور کوئی کام نہیں ھے۔ سیدھے سیدھے یہ نہیں کہتے کہ میٹنگ میں نہیں آسکتے، لمبی تفصیل سناکر بور کرنا شائد ضروری ھوتا ھے۔
کوئی صاحب کو میٹنگ میں آنے والے دوسرے چند افراد سے سخت الرجی ھوتی ھے۔ یہ کسی بھی میٹنگ میں آنے والے دوسرے حضرات اور اسٹیج پر بیٹھنے والے حضرات کے شجرہ نسب اور نامہ اعمال سے جب تک مطمئن نہ ھوں میٹنگ میں آنا قوم کے لئے خطرہ سمجھتے ھیں۔ سیدھے سیدھے یہ نہیں کہتے کہ بیوی کا موڈ خراب ھونے کا اندیشہ ھے اسلئے نہیں آسکتے، الٹی سیدھی تاویلیں پیش کرکے وقت خراب کرتے ھیں۔
کسی صاحب کو عین جس وقت ان کی ضرورت ھو اسی وقت عمرہ یا مدینہ جانا یاد آتا ھے۔
کچھہ لوگوں کا مسئلہ یہ ھیکہ وہ پہلے سے ھی کسی سیاسی پارٹی کے چمچے ھیں تو کسی دینی جماعت کے کارکن ھیں، کسی انجمن سے وابستہ ھیں تو کسی شخصیت سے بےحد متاثر ھیں۔ مشورے تو یہ بھی خوب دیتے ھیں لیکن جب کسی کام کا بیڑہ اٹھانے کا وقت آتا ھے تو جب تک ان کے لیڈر، امیر یا مرشد حکم نہ دیں اس وقت تک یہ آپ کو صرف زبانی تعریفوں پر ٹرخاتے ھیں۔ کیونکہ ان لوگوں کا نظریہ یہ ھوتا ھیکہ کام تو صرف وھی کام ھے جو ھمارے لیڈر یا ھماری جماعت کررھی ھے، باقی سارے کام نماز جنازہ کی طرح فرض کفایہ ھیں محلّہ کا ایک بھی آدمی ادا کرلے تو کافی ھے سب کی طرف سے ادا ھوجاتا ھے۔
کوئی اللہ کا بندہ مل کر یہ نہیں کہتا کہ "علیم بھائی، میں یہ یہ کرنا چاھتا ھوں آپ میری اس کام یہ یہ مدد کیجئے"۔ ڈائرکٹ یہ حکم فرماتا ھےکہ "آپ یہ کیجئے اور وہ کیجئے"۔ میں ایسے لوگوں کو فوری حساب کرکے بتادیتاھوں کہ ان کے اس زرّین مشورے پر عمل آوری کیلئے کتنے پیسے اور کتنا وقت درکار ھوگا۔ پھر ان سے پوچھتا ھوں کہ آپ کتنا مال اور کتنا وقت دینے تیار ھیں تو پھر ان کو سانپ سونگھہ جاتا ھے۔ پھر بعد میں ملنے کا گرمجوشی سے وعدہ کرکے رخصت ھوجاتے ھیں اور پھر کبھی صورت نہیں دکھاتے۔ ایسے لوگوں کو چپ کرنے کا یہی ایک طریقہ ھے۔
کچھہ صاحبان کام تو نہیں کرسکتے البتہ ھماری تقریر اور تحریر کی غلطیوں کی اصلاح ھمارے پیچھے کرتے پھرنا بہتر سمجھتے ھیں کہ ھم کو فلاں بات یوں نہیں یوں کہنی چاھیئے تھی ۔ فلاں جملہ یوں نہیں بلکہ یوں لکھنا چاھیئے تھا۔ وغیرہ۔ ایسا بھی نہیں کہ اگر ھم اپنی ھر تقریر یا تحریر پیش کرنے سے پہلے ان کو بتاکر اجازت لے لیا کریں تو وہ کوئی کام کرینگے۔ بس مفت کی خیرخواھی اور وقت گزاری ان کا مقصد ھوتاھے۔
کچھہ لوگوں کی یہ معذرت ھوتی ھیکہ "بھائی معاف کرنا مجھے اردو نہیں آتی ، تقریر نہیں آتی وغیرہ۔ یہ کام تو جماعتوں اور لیڈروں کا ھے مجھے تو اسکا کوئی تجربہ نہیں، میں کیسے کرسکتاھوں۔" مجھے حیرت اسلئے ھوتی ھیکہ سعودی عرب یا دوبئی آنے سے پھلے تو انہوں نے نہیں سوچا کہ مجھے باھر جاکر کمانے کا تو کوئی تجربہ ھی نہیں میں کیسے نوکری کرسکتا ھوں۔ شادی کرنے سے پھلے یہ نہیں سوچا کہ مجھے بچے پیدا کرنے کا تو پہلے سے کوئی تجربہ ھی نہیں میں شادی کیسے کرسکتاھوں۔ لیکن قوم کیلئے کسی بھی فلاحی، دینی، اصلاحی یا ادبی کام کیلئے پتہ نہیں پہلے سے تجربہ ھونا ان کیلئے شرط ایمان کیوں ھوجاتاھے۔
پچھلے ھفتے میں نے ایک سو دوستوں کی فہرست بنائی اور ایک چھوٹا سا کام دیا ۔ وہ کوئی ایسا کام نہیں تھاکہ جس سے کوئ بڑا انقلاب آجاتا۔ لیکن کسی بھی انقلاب کی تیاری کیلئے دوستوں کو چھوٹے چھوٹے ھوم ورک دے کر ان کو متحرک رکھنا ضروری ھوتاھے۔ یہ تربیت اور آزمائش کا ایک طریقہ ھے۔ صرف یہ دیکھنے کیلئے کہ بڑے بڑے ٹاسک لینے کیلئے پہلے چھوٹے چھوٹے ٹاسک میں کون ساتھہ دے سکتاھے۔ خیر تو جناب کام کچھہ نہیں تھا صرف یہ کرنا تھا کہ انٹرنیٹ پر ایک آدھہ گھنٹہ بیٹھہ کر کچھہ انفارمیشن جمع کرنی تھی۔
صرف پانچ دوستوں نے مثبت جواب دیئے اور کچھہ انفارمیشن فوری عنایت فرمائی۔
کچھہ نے کام تو نہیں کیا لیکن بہترین مشوروں سے نوازا ۔ مشورے بھی ایسے کہ جسمیں نہ ھینگ لگے نہ پھٹکری۔ مجھے ایک لطیفہ یاد آگیا جو کئی ایسے خیرخواھوں پر فٹ ھوتا ھے۔ ایک عورت نے بھگوان سے منّت مانی کہ اگر اسکا کام ھوجائے تو وہ چٹکیوں کا ھار پہناے گی۔ بھگوان تجسّس میں پڑ گئے کہ یہ چٹکیوں کا ھار کیا ھوتا ھے، سونے چاندی کے ھار تو انہوں نے دیکھے تھے یہ نیا ھار کیا ھوتا ھے وہ سوچ میں پڑگئے۔ خیر تو اس عورت کی مراد پوری ھوی، اس نے آکر بھگوان کے گلے کے آگے پیچھے ھاتھہ گھماتے ھوے چٹکیاں بجانی شروع کیا اور اسیطرح ھوائی چٹکیوں کےکئی ھار پہنائے۔ ھمارے اکثر دوست اسیطرح چٹکیوں کے ھار پہناتے ھیں۔ ھمارے ھر کام کی تعریف کرکے ھمیں عہد حاضر کا عظیم دانشور، لیڈر، مفکر، ادیب، شاعر وغیرہ وغیرہ کے خطابات و القابات سے نوازتے ھیں لیکن جب بات کام کی آتی ھے تو ھماری ان کی نظر میں کتنی وقعت ھے پتہ چل ھی جاتاھے۔ یہ تو ھم اپنے اوپر ڈال کر خوامخواہ خودستائشی کررھے ھیں لیکن حقیقت یہ ھیکہ یہ منافقت ھر اس شخص کے ساتھہ ھوتی ھے جو کچھہ عملی اقدام کی دعوت دیتاھے۔ خیر پیارے پیارے مشورے یہ تھے کہ ایک صاحب نے فرمایا "آپ یہ کیجیئے کہ ٹی وی پر جو ڈیبیٹ ھوتے ھیں آپ اسمیں جاکر یہ ٹاپک اٹھایئے"
ایک صاحب نے فرمایا کہ"ھمارے ایک قائد کی شاندار سی ڈی اسی موضوع پر ھے، ایک گھنٹے کی یہ سی ڈی آپ سب کو بھیج دیجئے"ایک صاحب نے فرمایا کہ ان کے اس موضوع پرلکھے گئے کئی مضامین ھیں ان کو شائع کرکے بانٹ دیجیئے۔ "ایک صاحب نے ایک چٹکی کی دیر میں ھمارا کام کردیا۔ کہا کہ "گوگل سرچ پر جایئے پوری انفارمیشن مل جائیگی۔" کیا انہیں یہ پتہ نہیں کہ گوگل پر ایک معمولی سی انفارمیشن بھی لینی ھو تو کم سے کم ایک گھنٹہ تو لگ ھی جاتاھے۔
ایک صاحب نے فرمایا "علیم صاب، آپ ایسا کیوں نھیں کرتے گوگل یا یاھو پر اپنا ایک گروپ کھولئے، یا اپنا ایک بلاگ بنائے، لوگ دھڑادھڑ آپ کو انفارمیشن پاس کرنا شروع کرینگے" ۔ حالانکہ ھم نے یہ کام بھی پہلے سے کررکھا ھے لیکن پھر بھی انہیں کچھہ متحرک کرنے کی غرض سے ھم نے درخواست کی کہ کیا آپ تھوری سی زحمت گوارا کرکے ایک گروپ یا بلاگ کھول کر دے سکتے ھیں" انہوںنے معذرت کی کہ "ساری، مجھے بالکل تجربہ نہیں ھے لیکن یہ اتنا مشکل بھی نہیں ، آپ پانچ منٹ میں یہ کام کر لے سکتے ھیں"۔ مطلب یہ کہ میں کچھہ نہیں کرنگا آپ خود کرلیجئے۔
اور ایک صاحب نے فرمایا کہ "یہ سب فضول کام ھیں، آخرت کی فکر کیجئے، اپنی نمازوں کو سنواریئے، تجوید اور عربی پر محنت کیجئے"،گویا پیدائشی عربی اور تجوید لے کر پیدا ھونے والے عرب بھائی سارے صراط مستقیم پا چکے ھیں بس ایک بھٹکے ھوئےھم ھی رہ گئے ھیں۔
خیرآدھا آدھا گھنٹہ ھمارا ضائع کرکے مشورے دینے والے یہ حضرات بھی چار پانچ ھی تھے، ھم ان کے پھر بھی شکر گزار ھیں کہ ان لوگوں نے کچھہ تو کیا۔ لیکن باقی حضرات۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ باقی نے نہ جواب دینا مناسب سمجھا، نہ مشورہ
کچھہ صاحبان کام تو نہیں کرسکتے البتہ ھماری تقریر اور تحریر کی غلطیوں کی اصلاح ھمارے پیچھے کرتے پھرنا بہتر سمجھتے ھیں کہ ھم کو فلاں بات یوں نہیں یوں کہنی چاھیئے تھی ۔ فلاں جملہ یوں نہیں بلکہ یوں لکھنا چاھیئے تھا۔ وغیرہ۔ ایسا بھی نہیں کہ اگر ھم اپنی ھر تقریر یا تحریر پیش کرنے سے پہلے ان کو بتاکر اجازت لے لیا کریں تو وہ کوئی کام کرینگے۔ بس مفت کی خیرخواھی اور وقت گزاری ان کا مقصد ھوتاھے۔
کچھہ لوگوں کی یہ معذرت ھوتی ھیکہ "بھائی معاف کرنا مجھے اردو نہیں آتی ، تقریر نہیں آتی وغیرہ۔ یہ کام تو جماعتوں اور لیڈروں کا ھے مجھے تو اسکا کوئی تجربہ نہیں، میں کیسے کرسکتاھوں۔" مجھے حیرت اسلئے ھوتی ھیکہ سعودی عرب یا دوبئی آنے سے پھلے تو انہوں نے نہیں سوچا کہ مجھے باھر جاکر کمانے کا تو کوئی تجربہ ھی نہیں میں کیسے نوکری کرسکتا ھوں۔ شادی کرنے سے پھلے یہ نہیں سوچا کہ مجھے بچے پیدا کرنے کا تو پہلے سے کوئی تجربہ ھی نہیں میں شادی کیسے کرسکتاھوں۔ لیکن قوم کیلئے کسی بھی فلاحی، دینی، اصلاحی یا ادبی کام کیلئے پتہ نہیں پہلے سے تجربہ ھونا ان کیلئے شرط ایمان کیوں ھوجاتاھے۔
پچھلے ھفتے میں نے ایک سو دوستوں کی فہرست بنائی اور ایک چھوٹا سا کام دیا ۔ وہ کوئی ایسا کام نہیں تھاکہ جس سے کوئ بڑا انقلاب آجاتا۔ لیکن کسی بھی انقلاب کی تیاری کیلئے دوستوں کو چھوٹے چھوٹے ھوم ورک دے کر ان کو متحرک رکھنا ضروری ھوتاھے۔ یہ تربیت اور آزمائش کا ایک طریقہ ھے۔ صرف یہ دیکھنے کیلئے کہ بڑے بڑے ٹاسک لینے کیلئے پہلے چھوٹے چھوٹے ٹاسک میں کون ساتھہ دے سکتاھے۔ خیر تو جناب کام کچھہ نہیں تھا صرف یہ کرنا تھا کہ انٹرنیٹ پر ایک آدھہ گھنٹہ بیٹھہ کر کچھہ انفارمیشن جمع کرنی تھی۔
صرف پانچ دوستوں نے مثبت جواب دیئے اور کچھہ انفارمیشن فوری عنایت فرمائی۔
کچھہ نے کام تو نہیں کیا لیکن بہترین مشوروں سے نوازا ۔ مشورے بھی ایسے کہ جسمیں نہ ھینگ لگے نہ پھٹکری۔ مجھے ایک لطیفہ یاد آگیا جو کئی ایسے خیرخواھوں پر فٹ ھوتا ھے۔ ایک عورت نے بھگوان سے منّت مانی کہ اگر اسکا کام ھوجائے تو وہ چٹکیوں کا ھار پہناے گی۔ بھگوان تجسّس میں پڑ گئے کہ یہ چٹکیوں کا ھار کیا ھوتا ھے، سونے چاندی کے ھار تو انہوں نے دیکھے تھے یہ نیا ھار کیا ھوتا ھے وہ سوچ میں پڑگئے۔ خیر تو اس عورت کی مراد پوری ھوی، اس نے آکر بھگوان کے گلے کے آگے پیچھے ھاتھہ گھماتے ھوے چٹکیاں بجانی شروع کیا اور اسیطرح ھوائی چٹکیوں کےکئی ھار پہنائے۔ ھمارے اکثر دوست اسیطرح چٹکیوں کے ھار پہناتے ھیں۔ ھمارے ھر کام کی تعریف کرکے ھمیں عہد حاضر کا عظیم دانشور، لیڈر، مفکر، ادیب، شاعر وغیرہ وغیرہ کے خطابات و القابات سے نوازتے ھیں لیکن جب بات کام کی آتی ھے تو ھماری ان کی نظر میں کتنی وقعت ھے پتہ چل ھی جاتاھے۔ یہ تو ھم اپنے اوپر ڈال کر خوامخواہ خودستائشی کررھے ھیں لیکن حقیقت یہ ھیکہ یہ منافقت ھر اس شخص کے ساتھہ ھوتی ھے جو کچھہ عملی اقدام کی دعوت دیتاھے۔ خیر پیارے پیارے مشورے یہ تھے کہ ایک صاحب نے فرمایا "آپ یہ کیجیئے کہ ٹی وی پر جو ڈیبیٹ ھوتے ھیں آپ اسمیں جاکر یہ ٹاپک اٹھایئے"
ایک صاحب نے فرمایا کہ"ھمارے ایک قائد کی شاندار سی ڈی اسی موضوع پر ھے، ایک گھنٹے کی یہ سی ڈی آپ سب کو بھیج دیجئے"ایک صاحب نے فرمایا کہ ان کے اس موضوع پرلکھے گئے کئی مضامین ھیں ان کو شائع کرکے بانٹ دیجیئے۔ "ایک صاحب نے ایک چٹکی کی دیر میں ھمارا کام کردیا۔ کہا کہ "گوگل سرچ پر جایئے پوری انفارمیشن مل جائیگی۔" کیا انہیں یہ پتہ نہیں کہ گوگل پر ایک معمولی سی انفارمیشن بھی لینی ھو تو کم سے کم ایک گھنٹہ تو لگ ھی جاتاھے۔
ایک صاحب نے فرمایا "علیم صاب، آپ ایسا کیوں نھیں کرتے گوگل یا یاھو پر اپنا ایک گروپ کھولئے، یا اپنا ایک بلاگ بنائے، لوگ دھڑادھڑ آپ کو انفارمیشن پاس کرنا شروع کرینگے" ۔ حالانکہ ھم نے یہ کام بھی پہلے سے کررکھا ھے لیکن پھر بھی انہیں کچھہ متحرک کرنے کی غرض سے ھم نے درخواست کی کہ کیا آپ تھوری سی زحمت گوارا کرکے ایک گروپ یا بلاگ کھول کر دے سکتے ھیں" انہوںنے معذرت کی کہ "ساری، مجھے بالکل تجربہ نہیں ھے لیکن یہ اتنا مشکل بھی نہیں ، آپ پانچ منٹ میں یہ کام کر لے سکتے ھیں"۔ مطلب یہ کہ میں کچھہ نہیں کرنگا آپ خود کرلیجئے۔
اور ایک صاحب نے فرمایا کہ "یہ سب فضول کام ھیں، آخرت کی فکر کیجئے، اپنی نمازوں کو سنواریئے، تجوید اور عربی پر محنت کیجئے"،گویا پیدائشی عربی اور تجوید لے کر پیدا ھونے والے عرب بھائی سارے صراط مستقیم پا چکے ھیں بس ایک بھٹکے ھوئےھم ھی رہ گئے ھیں۔
خیرآدھا آدھا گھنٹہ ھمارا ضائع کرکے مشورے دینے والے یہ حضرات بھی چار پانچ ھی تھے، ھم ان کے پھر بھی شکر گزار ھیں کہ ان لوگوں نے کچھہ تو کیا۔ لیکن باقی حضرات۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ باقی نے نہ جواب دینا مناسب سمجھا، نہ مشورہ
کچھہ نے سوچا یہ تو بہت چھوٹا کام ھے،میں تو بڑے بڑے کام کرنے کیلئے پیدا کیاگیا ھوں۔ چھوٹے چھوٹے کام میری شان کے خلاف ھیں۔
کچھہ نے سوچا کہ اگر کسی مخبر کو پتہ چل گیا تو امیج خراب ھوجائیگا۔ کیونکہ مسلمانوں کا کسی بھی اجتماعیت سے جڑنا دھشت گردی، ملک دشمنی، فرسودگی، قدامت پسندی، بنیاد پرستی اور فرقہ پرستی ھے۔ اس احساس کمتری کی وجہ سے کئی نے شائد جواب دینا مناسب نھیں سمجھا۔
کچھہ لوگ تو خیر تعلیم یافتہ ھیں قوم کے لئے ایسے چھوٹے چھوٹے کام انہیں سوٹ نہیں کرتے۔ ایسے لوگ ریٹائر ھونے اور بڑھاپے کی بیماریاں شروع ھونے تک کچھہ نہیں کرتے۔
کچھہ نے سوچا کہ اگر کسی مخبر کو پتہ چل گیا تو امیج خراب ھوجائیگا۔ کیونکہ مسلمانوں کا کسی بھی اجتماعیت سے جڑنا دھشت گردی، ملک دشمنی، فرسودگی، قدامت پسندی، بنیاد پرستی اور فرقہ پرستی ھے۔ اس احساس کمتری کی وجہ سے کئی نے شائد جواب دینا مناسب نھیں سمجھا۔
کچھہ لوگ تو خیر تعلیم یافتہ ھیں قوم کے لئے ایسے چھوٹے چھوٹے کام انہیں سوٹ نہیں کرتے۔ ایسے لوگ ریٹائر ھونے اور بڑھاپے کی بیماریاں شروع ھونے تک کچھہ نہیں کرتے۔
کچھہ لوگوں نے یہ سوچا ھوگا کہ یہ چھوٹا سا کام تو سب نے ھی کیا ھوگا اگر میں ایک نہ کروں تو کونسی قیامت آجائیگی۔
دوستو۔ مختصر یہ کہ آپ کی قوم سماجی، معاشی، اخلاقی، سیاسی اور دینی طور پر ذلیل سے ذلیل تر ھوتی جارھی ھے۔ جو لوگ بہترین تبصرے، تقاریر، مضمون بازی، اور جوش دکھانے میں ماھر ھیں۔ اگر ان کے خلوص اور سچائی کو برکھنا ھو تو یہ دیکھنا پہلی شرط ھیکہ وہ اپنے جیب سے مال کتنا نکالتے ھیں اور دوسرے یہ کہ وقت کتنا نکالتے ھیں۔ انقلاب چل کر آپ کے دیوان خانے پر نھیں آئیگا اور نہ آکر یہ کہے گا کہ حضور جیسے آپ چاھتے تھے ویسا ھی انقلاب آچکا ھے اب آپ آکر مہاتما گاندھی یا قائد اعظم کی طرح قیادت سنبھالئے۔ انقلاب کیلئے آپ کو ہہت معمولی سا سپاھی بنکر، چاھے ذاتی زندگی میں آپ بہت بڑی چیز کیوں نہ ھوں، کام کرنا ھوگا۔
جو آدمی پیسہ اور وقت دونوں خرچ کئے بغیر قوم کی ہمدردی میں جو کچھہ فرماتا ھے وہ بکواس اور منافقت کے علاوہ کچھہ نہیں۔ جو لوگ گجرات، فلسطین، کشمیر، افغانستان، سماجی بگاڑ، مسالک کی جنگ، وغیرہ وغیرہ پر بغیر کچھہ جیب سے خرچ کئے، اور بغیر وقت دیئے بڑی بڑی گفتگوئیں فرماتے ھیں یہ لوگ اپنا بھی اور دوسروں کا بھی وقت برباد کرنے والے لوگ ھوتے ھیں۔ ان کا دائرہ انقلاب صرف دیوان خانے یا ریسٹورنٹ ھوتے ھیں۔ سیرت پڑھئے۔ رسول صلی اللہ علیہ و سلم جو ایک اسلامی ریاست کے قیام میں مصروف ھیں، جنگوں اور غزوات کو کمانڈ بھی کررھے ھیں، ایک بڑھیا کے گھر کی صفائی کیلئے بھی وقت نکال رھے ھیں۔ یہ محض خدمت خلق کی ایک مثال نہیں ھے، یہ مثال اسلئے ھے کہ عوامی ربط اور عوام کے مسائل سمجھنے اور ان کو حل کرنے کیلئے اگر قائد کے پاس وقت نہ ھو، کوئی کام چاھے کسی کے گھر کی صفائی کرنی ھو چاھے تلوار لے کر میدان میں اترنا ھو، اگر قائد ھر کام کو اھم کام نہ سمجھے تو کوئی عوامی انقلاب نہیں آتا۔ اور یہی کام خلفا کرام نے بھی کیا۔ خلیفۃ المومنین ایک طرف ایران، مصر وغیرہ پر چڑھائی بھی کررھے ھیں دوسری طرف ایک نابینا صحابی کی بکری کا دودھ بھی دوہ رھے ھیں جنکی گزر اوقت اسی دودھ پر ھوتی ھے۔ اب جو منیجر صاحب یا بزنس مین صاحب بچاس ریال دے کر انقلاب لانا چاھتےھیں۔ لیکن چھوٹے چھوٹے کام کرنا، میٹنگ میں آنا، عوام سے ربط رکھنا مناسب نہیں سمجھتے بلکہ اپنی شان کے خلاف سمجھتے ھیں لیکن پھر بھی لیڈر اور دانشور بننا چاھتے ھیں ایسے لوگ قوم پر بوجھہ ھیں۔ انہی لوگوں کی وجہ سے جتنے چور، اچکّے، سود خوار، زمینوں پر قبضے کرنے والے تھے وہ لیڈر بن کر بلدیہ، اسمبلی، پارلیمنٹ یا سینیٹ میں جاچکے ھیں۔ اور انہی لوگوں کی وجہ سے فروعی فقہی مسائل کو لے کر علما قوم کو مسالک، گروہ اور فرقوں میں بانٹ چکے ھیں۔
جو آدمی پیسہ اور وقت دونوں خرچ کئے بغیر قوم کی ہمدردی میں جو کچھہ فرماتا ھے وہ بکواس اور منافقت کے علاوہ کچھہ نہیں۔ جو لوگ گجرات، فلسطین، کشمیر، افغانستان، سماجی بگاڑ، مسالک کی جنگ، وغیرہ وغیرہ پر بغیر کچھہ جیب سے خرچ کئے، اور بغیر وقت دیئے بڑی بڑی گفتگوئیں فرماتے ھیں یہ لوگ اپنا بھی اور دوسروں کا بھی وقت برباد کرنے والے لوگ ھوتے ھیں۔ ان کا دائرہ انقلاب صرف دیوان خانے یا ریسٹورنٹ ھوتے ھیں۔ سیرت پڑھئے۔ رسول صلی اللہ علیہ و سلم جو ایک اسلامی ریاست کے قیام میں مصروف ھیں، جنگوں اور غزوات کو کمانڈ بھی کررھے ھیں، ایک بڑھیا کے گھر کی صفائی کیلئے بھی وقت نکال رھے ھیں۔ یہ محض خدمت خلق کی ایک مثال نہیں ھے، یہ مثال اسلئے ھے کہ عوامی ربط اور عوام کے مسائل سمجھنے اور ان کو حل کرنے کیلئے اگر قائد کے پاس وقت نہ ھو، کوئی کام چاھے کسی کے گھر کی صفائی کرنی ھو چاھے تلوار لے کر میدان میں اترنا ھو، اگر قائد ھر کام کو اھم کام نہ سمجھے تو کوئی عوامی انقلاب نہیں آتا۔ اور یہی کام خلفا کرام نے بھی کیا۔ خلیفۃ المومنین ایک طرف ایران، مصر وغیرہ پر چڑھائی بھی کررھے ھیں دوسری طرف ایک نابینا صحابی کی بکری کا دودھ بھی دوہ رھے ھیں جنکی گزر اوقت اسی دودھ پر ھوتی ھے۔ اب جو منیجر صاحب یا بزنس مین صاحب بچاس ریال دے کر انقلاب لانا چاھتےھیں۔ لیکن چھوٹے چھوٹے کام کرنا، میٹنگ میں آنا، عوام سے ربط رکھنا مناسب نہیں سمجھتے بلکہ اپنی شان کے خلاف سمجھتے ھیں لیکن پھر بھی لیڈر اور دانشور بننا چاھتے ھیں ایسے لوگ قوم پر بوجھہ ھیں۔ انہی لوگوں کی وجہ سے جتنے چور، اچکّے، سود خوار، زمینوں پر قبضے کرنے والے تھے وہ لیڈر بن کر بلدیہ، اسمبلی، پارلیمنٹ یا سینیٹ میں جاچکے ھیں۔ اور انہی لوگوں کی وجہ سے فروعی فقہی مسائل کو لے کر علما قوم کو مسالک، گروہ اور فرقوں میں بانٹ چکے ھیں۔
لیکن کیا کریں۔ ھماری قوم ایسی ھی ھے ایسی ھی رھے گی۔ میں اپنے معصوم بچے کو فالتو مشورے دینے پرایک تھپّڑ تو رسید کرسکتاھوں لیکن ان بالغ العمر نابالغ العقل دوستوں کو تو تھپّڑبھی نہیں مارسکتا۔ جسطرح بچے کے ساتھہ رھنا لازمی ھے اسیطرح ان لوگوں کے ساتھہ اس معاشرے میں رھنا بھی ناگزیر ھے۔
بک رھا ھوں مذاق میں کیا کیا
کچھہ تو سمجھے خدا کرے کوئی
- علیم خان فلکی
جدہ
No comments:
Post a Comment