Friday, January 28, 2011

میرا بیٹا

السلام علیکم

 
میرا بیٹا ابھی چار پانچ سال کا ھے۔ بہت پیاری پیاری باتیں کرتاھے۔ بہت اچھے اچھے مشورے دیتا ھے۔بڑا اچھا لگتا ھے۔ کہتا ھے "ابو اپن لوگ ایک جہاز خرید لینا پھر سب مل کر کہیں بھی جاسکتے"  کبھی ٹی وی پر جنگ یا فساد کی تصویریں دیکھتاھے تو کہتا ھے ابّو اپن لوگ سوپر مین بن جانا پھر سارے بدمعاشوں کو ختم کردے سکتے"۔۔ وہ بڑا انقلابی ھے۔ ھر وقت انقلابی باتیں کرتا رھتا ھے۔ اسے نہیں پتہ کہ خواب دیکھنا کتنا آسان ھے لیکن ان خوابوں کی تعبیر لانا کتنا مشکل ھے۔
بالکل اسیطرح ھمارے دوست بھی ھیں۔ بڑی پیاری پیاری باتیں کرتے ھیں۔ بڑا اچھا لگتاھے جب وہ بھی اچھے اچھے مشورے دیتے ھیں۔انہیں بھی یہ پتہ نہیں کہ مشورے دینا کتنا آسان ھے لیکن خود کام کرنا کتنا
مشکل ھے۔
کوئی صاحب بھرپور دانشورانہ انداز میں ایسے جیسے سننے والا ایک بیوقوف ورکر ھے فرماتے ھیں "علیم صاب، ھم کو سب سے پہلے متحد ھونا چاھیئے، علما اور جماعتوں میں اتحاد پیدا کرنا چاھیئے۔" 
ایک صاحب پورے انقلابی جوش سے فرماتے ھیں "علیم صاب، تمام مسلمانوں کو ایک سیاسی پارٹی بنا کر پارلیمنٹ اور اسمبلیوں پر قبضہ کرنا چاھیئے" گویا سارے سیاستدان بیوقوف ھیں۔
ایک صاحب بڑے گلوگیر لہجے میں پوری متانت سے نصیحت آمیز جو کچھہ کچھہ حقارت آمیز بھی ھوتے ہیں مشورہ دیتے ھیں کہ "علیم صاب، دراصل یہ سب ایمان کی کمزوری ھے جس کی وجہ سے ھم لوگ ھر محاذ پر ذلیل ھورھے ھیں۔ ھم کو تربیت پر توجہ دینے کی ضرورت ھے۔"
ایک صاحب تو مشورہ نہیں بلکہ ڈائرکٹ آرڈرکرتے ھیں کہ "علیم صاب، یہ سب بے کار کام چھوڑیئے اور ایجوکیشن پر محنت کیجئے۔ جب تک قوم میں بڑے صحافی ،کمشنر اور کلکٹر پیدا نھیں ھونگے ھم لوگ ترقی نھیں کرسکتے۔ " اور کوئی صاحب طنزیہ فرماتے ھیں "علیم صاب، مسلمان لڑکیاں غیرمسلموں سے شادیاں کررھی ھیں، سود کی لعنت بڑھتی جارھی ھے، شادیوں میں اسراف بڑھتاجارھا ھے یہ سب چھوڑ کر آپ کیا مشاعرے کرتے پھررھے ھیں،
یہ سب چھوڑیئے اور سماج سدھار کا کام کیجئے۔"
اور اگر خدانخواستہ ھزار بار خدانخواستہ آپ نے کبھی ان کے مشوروں کو عملی جامہ پہنانے کیلئے کسی کام کا آغاز کردیا اور ان سے کچھہ مالی مدد یا کسی میٹنگ میں آنے کی درخواست کی تو اب ان کا رویّہ دیکھیئے۔
کسی صاحب کو اپنے تیسرے پلاٹ یا چوتھے فلیٹ کی پےمنٹ کرنی ھے، یا بیٹی کی شادی کیلئے پندرہ لاکھہ ناکافی ھیں مزید کی ضرورت ھے اسلئے وہ پچاس ریال سے زیادہ نھیں دے سکتے۔ ۔جہاں تک میٹنگ یا جلسے میں آنے کا تعلق ھے کوئی صاحب مصروفیات کی اتنی طویل تفصیل بتانا شروع کرتے ھیں گویا   وھی ایک مصروف ترین آدمی ھیں اور باقی سارے مچھلیاں پکڑرھے ھیں مسجد کے مولوی کی طرح سوائے نماز پڑھانے اور جلسے کرنے کے آپ کے پاس اور کوئی کام نہیں ھے۔ سیدھے سیدھے یہ نہیں کہتے کہ میٹنگ میں نہیں آسکتے، لمبی تفصیل سناکر بور کرنا شائد ضروری ھوتا ھے۔  
 کوئی صاحب کو میٹنگ میں آنے والے دوسرے چند افراد سے سخت الرجی ھوتی ھے۔ یہ کسی بھی میٹنگ میں آنے والے دوسرے حضرات اور اسٹیج پر بیٹھنے والے حضرات کے شجرہ نسب اور نامہ اعمال سے جب تک مطمئن نہ ھوں میٹنگ میں آنا قوم کے لئے خطرہ سمجھتے ھیں۔  سیدھے سیدھے یہ نہیں کہتے کہ بیوی کا موڈ خراب ھونے کا اندیشہ ھے اسلئے نہیں آسکتے، الٹی سیدھی تاویلیں پیش کرکے وقت خراب کرتے ھیں۔
کسی صاحب کو عین جس وقت ان کی ضرورت ھو اسی وقت عمرہ یا مدینہ جانا یاد آتا ھے۔
کچھہ لوگوں کا مسئلہ یہ ھیکہ وہ پہلے سے ھی کسی سیاسی پارٹی کے چمچے ھیں تو کسی دینی جماعت کے کارکن ھیں، کسی انجمن سے وابستہ ھیں تو کسی شخصیت سے بےحد متاثر ھیں۔ مشورے تو یہ بھی خوب دیتے ھیں لیکن جب کسی کام کا بیڑہ اٹھانے کا وقت آتا ھے تو جب تک ان کے لیڈر، امیر یا مرشد حکم نہ دیں اس وقت تک یہ آپ کو صرف زبانی تعریفوں پر ٹرخاتے ھیں۔ کیونکہ ان لوگوں کا نظریہ یہ ھوتا ھیکہ کام تو صرف وھی کام ھے جو ھمارے لیڈر یا ھماری جماعت کررھی ھے، باقی سارے کام نماز جنازہ کی طرح فرض کفایہ ھیں محلّہ کا ایک بھی آدمی ادا کرلے تو کافی ھے سب کی طرف سے ادا ھوجاتا ھے۔
 کوئی اللہ کا بندہ مل کر یہ نہیں کہتا کہ "علیم بھائی، میں یہ یہ کرنا چاھتا ھوں آپ میری اس کام یہ یہ مدد کیجئے"۔ ڈائرکٹ یہ حکم فرماتا ھےکہ  "آپ یہ کیجئے اور وہ کیجئے"۔ میں ایسے لوگوں کو فوری حساب کرکے بتادیتاھوں کہ ان کے اس زرّین مشورے پر عمل آوری کیلئے کتنے پیسے اور کتنا وقت درکار ھوگا۔ پھر ان سے پوچھتا ھوں کہ آپ کتنا مال اور کتنا وقت دینے تیار ھیں تو پھر ان کو سانپ سونگھہ جاتا ھے۔ پھر بعد میں  ملنے کا گرمجوشی سے وعدہ کرکے رخصت ھوجاتے ھیں اور پھر کبھی صورت نہیں دکھاتے۔ ایسے لوگوں کو چپ کرنے کا یہی ایک طریقہ ھے۔
کچھہ صاحبان کام تو نہیں کرسکتے البتہ ھماری تقریر اور تحریر کی غلطیوں کی اصلاح ھمارے پیچھے کرتے پھرنا بہتر سمجھتے ھیں کہ ھم کو  فلاں بات یوں نہیں یوں کہنی چاھیئے تھی ۔ فلاں جملہ یوں نہیں بلکہ یوں لکھنا چاھیئے تھا۔ وغیرہ۔ ایسا بھی نہیں کہ اگر ھم اپنی ھر تقریر یا تحریر پیش کرنے سے پہلے ان کو بتاکر اجازت لے لیا کریں تو وہ کوئی کام کرینگے۔ بس مفت کی خیرخواھی اور وقت گزاری  ان کا مقصد ھوتاھے۔
کچھہ لوگوں کی یہ معذرت ھوتی ھیکہ "بھائی معاف کرنا مجھے اردو نہیں آتی ، تقریر نہیں آتی وغیرہ۔ یہ کام تو جماعتوں اور لیڈروں کا ھے مجھے تو اسکا کوئی تجربہ نہیں، میں کیسے کرسکتاھوں۔" مجھے حیرت اسلئے ھوتی ھیکہ سعودی عرب یا دوبئی آنے سے پھلے تو انہوں نے نہیں سوچا کہ مجھے باھر جاکر کمانے کا تو کوئی تجربہ ھی نہیں میں کیسے نوکری کرسکتا ھوں۔ شادی کرنے سے پھلے یہ نہیں سوچا کہ مجھے بچے پیدا کرنے کا تو پہلے سے کوئی تجربہ ھی نہیں میں شادی کیسے کرسکتاھوں۔ لیکن قوم کیلئے کسی بھی فلاحی، دینی، اصلاحی یا ادبی کام کیلئے پتہ نہیں پہلے سے تجربہ ھونا ان کیلئے شرط ایمان کیوں ھوجاتاھے۔
پچھلے ھفتے میں نے ایک سو دوستوں کی فہرست بنائی اور ایک چھوٹا سا کام دیا ۔ وہ کوئی ایسا کام نہیں تھاکہ جس سے کوئ بڑا انقلاب آجاتا۔ لیکن کسی بھی انقلاب کی تیاری کیلئے دوستوں کو چھوٹے چھوٹے ھوم ورک دے کر ان کو متحرک رکھنا ضروری ھوتاھے۔ یہ تربیت اور آزمائش کا ایک طریقہ ھے۔ صرف یہ دیکھنے کیلئے کہ بڑے بڑے ٹاسک لینے کیلئے پہلے چھوٹے چھوٹے ٹاسک میں کون ساتھہ دے سکتاھے۔ خیر تو جناب کام کچھہ نہیں تھا صرف یہ کرنا تھا کہ انٹرنیٹ پر ایک آدھہ گھنٹہ بیٹھہ کر کچھہ انفارمیشن جمع کرنی تھی۔
صرف پانچ دوستوں نے مثبت جواب دیئے اور کچھہ انفارمیشن فوری عنایت فرمائی۔
کچھہ نے کام تو نہیں کیا لیکن  بہترین مشوروں سے نوازا ۔ مشورے بھی ایسے کہ جسمیں نہ ھینگ لگے نہ پھٹکری۔ مجھے ایک لطیفہ یاد آگیا جو کئی ایسے خیرخواھوں پر فٹ ھوتا ھے۔ ایک عورت نے بھگوان سے منّت مانی کہ اگر اسکا کام ھوجائے تو وہ چٹکیوں کا ھار پہناے گی۔ بھگوان تجسّس میں پڑ گئے کہ یہ چٹکیوں کا ھار کیا ھوتا ھے، سونے چاندی کے ھار تو انہوں نے دیکھے تھے یہ نیا ھار کیا ھوتا ھے وہ سوچ میں پڑگئے۔ خیر تو اس عورت کی مراد پوری ھوی، اس نے آکر بھگوان کے گلے کے آگے پیچھے ھاتھہ گھماتے ھوے چٹکیاں بجانی شروع کیا اور  اسیطرح ھوائی چٹکیوں کےکئی ھار پہنائے۔ ھمارے اکثر دوست اسیطرح چٹکیوں کے ھار پہناتے ھیں۔ ھمارے ھر کام کی تعریف کرکے ھمیں عہد حاضر کا عظیم دانشور، لیڈر، مفکر، ادیب، شاعر وغیرہ وغیرہ کے خطابات و القابات سے نوازتے ھیں لیکن جب بات کام کی آتی ھے تو ھماری ان کی نظر میں کتنی وقعت ھے پتہ چل ھی جاتاھے۔ یہ تو ھم اپنے اوپر ڈال کر خوامخواہ خودستائشی کررھے ھیں لیکن حقیقت یہ ھیکہ یہ منافقت ھر اس شخص کے ساتھہ ھوتی ھے جو کچھہ عملی اقدام کی دعوت دیتاھے۔ خیر پیارے پیارے مشورے یہ تھے کہ ایک صاحب نے فرمایا "آپ یہ کیجیئے کہ  ٹی وی پر جو ڈیبیٹ ھوتے ھیں آپ اسمیں جاکر یہ ٹاپک اٹھایئے"
ایک صاحب نے فرمایا کہ"
ھمارے ایک قائد کی شاندار سی ڈی اسی موضوع پر ھے، ایک گھنٹے کی یہ سی ڈی آپ سب کو بھیج دیجئے"ایک صاحب نے فرمایا کہ ان کے اس موضوع پرلکھے گئے کئی مضامین ھیں ان کو شائع کرکے بانٹ دیجیئے۔ "ایک صاحب نے ایک چٹکی کی دیر میں ھمارا کام کردیا۔ کہا کہ "گوگل سرچ پر جایئے پوری انفارمیشن مل جائیگی۔" کیا انہیں یہ پتہ نہیں کہ گوگل پر ایک معمولی سی انفارمیشن بھی لینی ھو تو کم سے کم ایک گھنٹہ تو لگ ھی جاتاھے۔
ایک صاحب نے فرمایا "علیم صاب، آپ ایسا کیوں نھیں کرتے گوگل یا یاھو پر اپنا ایک گروپ کھولئے، یا اپنا ایک بلاگ بنائے، لوگ دھڑادھڑ آپ کو انفارمیشن پاس کرنا شروع کرینگے" ۔ حالانکہ ھم نے یہ کام بھی پہلے سے کررکھا ھے لیکن پھر بھی انہیں کچھہ متحرک کرنے کی غرض سے ھم نے درخواست کی کہ کیا آپ تھوری سی زحمت گوارا کرکے ایک گروپ یا بلاگ کھول کر دے سکتے ھیں" انہوںنے معذرت کی کہ "ساری، مجھے بالکل تجربہ نہیں ھے لیکن یہ اتنا مشکل بھی نہیں ، آپ پانچ منٹ میں یہ کام کر لے سکتے ھیں"۔ مطلب یہ کہ میں کچھہ نہیں کرنگا آپ خود کرلیجئے۔
اور ایک صاحب نے فرمایا کہ "یہ سب فضول کام ھیں، آخرت کی فکر کیجئے، اپنی نمازوں کو سنواریئے، تجوید اور عربی پر محنت کیجئے"،گویا پیدائشی عربی اور تجوید لے کر پیدا ھونے والے عرب بھائی سارے صراط مستقیم پا چکے ھیں بس ایک بھٹکے ھوئےھم ھی رہ گئے ھیں۔
خیرآدھا آدھا گھنٹہ ھمارا ضائع کرکے مشورے دینے والے یہ حضرات بھی چار پانچ ھی تھے، ھم ان کے پھر بھی شکر گزار ھیں کہ ان لوگوں نے کچھہ تو کیا۔  لیکن باقی حضرات۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ باقی نے نہ جواب دینا مناسب سمجھا، نہ مشورہ
کچھہ نے سوچا یہ تو بہت چھوٹا کام ھے،میں تو بڑے بڑے کام کرنے کیلئے پیدا کیاگیا ھوں۔ چھوٹے چھوٹے کام میری شان کے خلاف ھیں۔
کچھہ نے سوچا کہ اگر کسی مخبر کو پتہ چل گیا تو امیج خراب ھوجائیگا۔ کیونکہ مسلمانوں کا کسی بھی اجتماعیت سے جڑنا دھشت گردی، ملک دشمنی، فرسودگی، قدامت پسندی، بنیاد پرستی اور فرقہ پرستی ھے۔ اس احساس کمتری کی وجہ سے کئی نے شائد جواب دینا مناسب نھیں سمجھا۔
کچھہ لوگ تو خیر تعلیم یافتہ ھیں قوم کے لئے ایسے چھوٹے چھوٹے کام انہیں سوٹ نہیں کرتے۔ ایسے لوگ ریٹائر ھونے اور بڑھاپے کی بیماریاں شروع ھونے تک کچھہ نہیں کرتے۔ 
 کچھہ لوگوں نے یہ سوچا ھوگا کہ یہ چھوٹا سا کام تو سب نے ھی کیا ھوگا اگر میں ایک نہ کروں تو کونسی قیامت آجائیگی۔
دوستو۔ مختصر یہ کہ آپ کی قوم سماجی، معاشی، اخلاقی، سیاسی اور دینی طور پر ذلیل سے ذلیل تر ھوتی جارھی ھے۔ جو لوگ بہترین تبصرے، تقاریر، مضمون بازی، اور جوش دکھانے میں ماھر ھیں۔ اگر ان کے خلوص اور سچائی کو برکھنا ھو تو یہ دیکھنا پہلی شرط ھیکہ وہ اپنے جیب سے مال کتنا نکالتے ھیں اور دوسرے یہ کہ وقت کتنا نکالتے ھیں۔ انقلاب چل کر آپ کے دیوان خانے پر نھیں آئیگا اور نہ آکر یہ کہے گا کہ حضور جیسے آپ چاھتے تھے ویسا ھی انقلاب آچکا ھے اب آپ آکر مہاتما گاندھی یا قائد اعظم کی طرح قیادت سنبھالئے۔ انقلاب کیلئے آپ کو ہہت معمولی سا سپاھی بنکر، چاھے ذاتی زندگی میں آپ بہت بڑی چیز کیوں نہ ھوں، کام کرنا ھوگا۔
جو آدمی پیسہ اور وقت دونوں خرچ کئے بغیر قوم کی ہمدردی میں جو کچھہ فرماتا ھے وہ بکواس اور منافقت کے علاوہ کچھہ نہیں۔ جو لوگ گجرات، فلسطین، کشمیر، افغانستان، سماجی بگاڑ، مسالک کی جنگ، وغیرہ وغیرہ پر بغیر کچھہ جیب سے خرچ کئے، اور بغیر وقت دیئے بڑی بڑی گفتگوئیں فرماتے ھیں
یہ لوگ اپنا بھی اور دوسروں کا بھی وقت برباد کرنے والے لوگ ھوتے ھیں۔ ان کا دائرہ انقلاب صرف دیوان خانے یا ریسٹورنٹ ھوتے ھیں۔ سیرت پڑھئے۔ رسول صلی اللہ علیہ و سلم جو ایک اسلامی ریاست کے قیام میں مصروف ھیں، جنگوں اور غزوات کو کمانڈ بھی کررھے ھیں، ایک بڑھیا کے گھر کی صفائی کیلئے بھی وقت نکال رھے ھیں۔ یہ محض خدمت خلق کی ایک مثال نہیں ھے، یہ مثال اسلئے ھے کہ عوامی ربط اور عوام کے مسائل سمجھنے اور ان کو حل کرنے کیلئے اگر قائد کے پاس وقت نہ ھو، کوئی کام چاھے کسی کے گھر کی صفائی کرنی ھو چاھے تلوار لے کر میدان میں اترنا ھو، اگر قائد ھر کام کو اھم کام نہ سمجھے تو کوئی عوامی انقلاب نہیں آتا۔ اور یہی کام خلفا کرام نے بھی کیا۔ خلیفۃ المومنین ایک طرف ایران، مصر وغیرہ پر چڑھائی بھی کررھے ھیں دوسری طرف ایک نابینا صحابی کی بکری کا دودھ بھی دوہ رھے ھیں جنکی گزر اوقت اسی دودھ پر ھوتی ھے۔ اب جو منیجر صاحب یا بزنس مین صاحب بچاس ریال دے کر انقلاب لانا چاھتےھیں۔ لیکن چھوٹے چھوٹے کام کرنا، میٹنگ میں آنا، عوام سے ربط رکھنا مناسب نہیں سمجھتے بلکہ اپنی شان کے خلاف سمجھتے ھیں لیکن پھر بھی لیڈر اور دانشور بننا چاھتے ھیں ایسے لوگ قوم پر بوجھہ ھیں۔ انہی لوگوں کی وجہ سے جتنے چور، اچکّے، سود خوار، زمینوں پر قبضے کرنے والے تھے وہ لیڈر بن کر بلدیہ، اسمبلی، پارلیمنٹ یا  سینیٹ میں جاچکے ھیں۔ اور انہی لوگوں کی وجہ سے فروعی فقہی مسائل کو لے کر علما قوم کو مسالک، گروہ اور فرقوں میں بانٹ چکے ھیں۔
لیکن کیا کریں۔ ھماری قوم ایسی ھی ھے ایسی ھی رھے گی۔ میں اپنے معصوم بچے کو فالتو مشورے دینے پرایک تھپّڑ تو رسید کرسکتاھوں لیکن ان بالغ العمر نابالغ العقل دوستوں کو تو تھپّڑبھی نہیں مارسکتا۔ جسطرح بچے کے ساتھہ رھنا لازمی ھے اسیطرح ان لوگوں کے ساتھہ اس معاشرے میں رھنا بھی ناگزیر ھے۔
 
بک  رھا  ھوں  مذاق میں کیا  کیا   
کچھہ تو سمجھے خدا کرے کوئی
 
  -  علیم خان فلکی
            جدہ

Friday, January 21, 2011

LAJJAA



Afsana

چاند کا سفر .. اشفاق احمد کا افسانہ
گورنمنٹ کالج کی طرف مراجعت کے کئی راستے ہیں اور سارے راستے اپنے اپنے رخ پر چل کر اس منزل تک پہنچتے ہیں جو ہر ” راوین ” کے من کا مندر ہے ۔ اس منزل تک پہنچنے کے لئے سب سے مشہور، شیر شاہی اور جرنیلی سڑک تو برتری، تحفظ، منفعت اور پاور کی سڑک ہے جس پر جم غفیر رواں ہے ۔ لیکن کچھ راستے جذباتی وادیوں سے ہو کر بھی اس منزل طرف جاتے ہیں۔
ہم دونوں کا گورنمنٹ کالج سے بندھن ایک بہت کمزور اور کچے سے دھا گے سے بندھا ہے ۔ ایک گم نام اور بے نام پگڈنڈی ہے جو خود رو جھاڑیوں اور گھنگیرلے رستوں سے الجھ الجھ کر بڑی مشکل سے من مندر تک پہنچتی ہے اور پھر وہاں سے تب تک اٹھنے کو جی نہیں چاہتا جب تک کہ کوئی وہاں سے اٹھا نہ دے ! نکال نہ دے !!
بانو قدسیہ نے اور میں نے گورنمنٹ کالج کو کبھی بھی ایک درس گاہ نہیں سمجھا ۔ نہ کبھی ہم اس کی علمی روایت سے متاثر ہوئے اور نہ کبھی اس کے استادوں کے تجربئہ علمی سے مرعوب ہوئے ۔ اس کی قدامت، اس کی عمارت اور اس کی شخصی وجاہت بھی ہمیں مسحور نہیں کر سکی ____ اس سے کبھی کچھ لیا نہیں ، مانگا نہیں ، دیا نہیں ، دلوایا نہیں ۔ پھر بھی اس کے ساتھ ایک عجیب سا تعلق قائم ہے جسے ہم آج تک کوئی نام نہیں دے سکے ۔ دراصل ہم دونوں گورنمنٹ کالج کو درس گاہ نہیں مانتے _____ اس میں” سین ” کے حرف کو وافر سمجھتے ہیں !
جب ہمارا پہلا بیٹا پیدا ہوا تو ہم سمن آباد میں رہتے تھے اور اپنے مکان کا کرایہ بڑی مشکل سے ادا کرتے تھے ۔ میں ریڈیو میں ملازم تھا اور بانو پشاور کے لئے درسی کتابیں لکھ کر ساٹھ ، ستر روپے مہینہ گھر بیٹھے کما لیتی تھی ۔ بچے کے دودھ کا ڈبہ بیالیس روپے میں آتا تھا اور وہ ایک مہینے میں تین ڈبے ختم کر جاتا تھا ۔ اس زمانے میں مٹی کے تیل کا چودہ بتیوں والا چولہا آگیا تھا اور ہمارا ایندھن کا خرچ کم ہو گیا تھا ۔ بانو جب گو رنمنٹ کالج کی سٹوڈنٹ تھی تو اس کو روٹی پکانی نہیں آتی تھی ۔ میں جب گورنمنٹ کالج میں پڑھتا تھا تو گھر کا سودا لانے کے علم سے نا واقف تھا ۔ شادی کے بعد ہم دونوں نے یہ دونوں فن سیکھ لئے اور ہنسی خوشی رہنے لگے ۔ جب انیق ڈیڑھ سال کا ہوا تو جون کے مہینے میں سخت بیمار ہو گیا ۔ اسے اسہال اور قے کی شکایت ہوئی جو تین دنوں کے اندر اندر بڑھ کر خطرناک صورت اختیار کر گئی ۔ محلے کی بڑی بوڑھیوں کے کئی نسخے آزمائے لیکن کسی سے افاقہ نہ ہوا ۔ بچے کی حالت تشویش نا ک ہو گئی تو ہمیں کسی نے بتایا کہ اسے ڈاکٹر بروچہ کے پاس لے جاؤ ۔ بڑی گرمی میں سہ پہر کے چار بجے ہم ” سالم تانگہ ” کرا کر اسے ڈاکٹر صاحب کے کلینک پر میکلوڈ روڈ لے گئے ۔
ڈاکٹر صاحب نے بچے کو الٹا پلٹا کر دیکھا ۔ اس کی اندر دھنسی ہوئی آنکھوں کے پپوٹے کھول کر معائنہ کیا اور پھر بانو سے مخاطب ہو کر بو لے ” بابا تم لوگ کیسا پیرنٹ ہے جو اب اس کو ہمارے پاس لایا ہے ۔ اس کا میں کیا ٹریٹ منٹ کروں ؟” بانو زور زور سے رونے لگی اور جاہل فقیرنیوں کی طرح ہاتھ باندھ کر سسکیاں بھرنے لگی ۔ اس کے منہ سے کوئی بات نہ نکلتی تھی اور وہ خوف کے مارے روئے جا رہی تھی ___ ڈاکٹر صاحب نے کاؤنٹر پر جا کر پانچ چھ دواؤں کے امتزاج سے دودھیا رنگ کا ایملشن تیار کیا۔ اپنی میز کی دراز سے دس پڑیاں نکال کر دیں اور پھر ایملشن کی ایک خوراک میں ایک پڑیا گھول کر مجھے بچے کو مضبوطی سے پکڑ کر گود میں لٹانے کا حکم دیا ۔ بڑی بے دردی کے ساتھ انہوں نے انیق کے جبڑے میں انگلیاں کھبو کر اس کا منہ کھولا اور دوائی اس کے منہ میں انڈیل دی ۔ بچہ اپنی نحیف آواز میں بڑے کرب کے ساتھ رویا تو میں نے اسے کندھے سے لگا دیا ۔ گود میں لے کر تو میں اسے کھڑا تھا لیکن بانو قدسیہ خوف سے کانپتی ہوئی اسے تھپکے جا رہی تھی ۔ اتنے میں بچے نے منہ بھر کر قے کی —— گرم اور بدبو دار تھوڑی سی میرے کندھے پر گری اور باقی ساری فرش پر ۔
ڈاکٹر صاحب نے جھلا کر کہا ” بابا تم کیسا پیرنٹ ہے، بچے کو سنبھالنا نہیں جانتا ۔ سارا فرش خراب کر دیا ۔ یہ کلینک ہے، کوئی تم لو گ کا گھر نہیں ۔ ” ہم دونوں ہی ڈاکٹر صاحب کی ڈانٹ سے گھبرا گئے ۔ ہمیں ڈاکٹروں کا اور ہسپتالوں کا کوئی تجر بہ نہیں تھا ۔ پھر ہماری مالی حالت بھی معمولی سی تھی ۔ شکل و صورت سے بھی ہم سہم ہی سہم تھے اور بچہ کافی بیمار تھا ۔ بانو قدسیہ نے اپنا آدھا دوپٹہ تو سر پر محفوظرکھا اور با قی کے آدھے دو پٹے سے ڈاکٹر صاحب کا فرش صاف کر نے لگی ۔
اس نے دونوں گھٹنے زمین پر ٹیکے ہو ئے تھے اور بائیں ہاتھ کو آگے ب ھا کر جھکے ہوئے بدن کا سارا بوجھ اس پر تول رکھا تھا وہ روئے بھی جا رہی تھی ، شرمندگی سے سر بھی جھکائے جا رہی تھی اورسسکیوں سے اس کا سارا بدن کانپ رہا تھا ۔ اس نے نارنجی اور کاسنی پھولوں والی قمیض پہنی ہوئی تھی ۔ سبز رنگ کی شلوار تھی اور پاؤں میں ہوائی سلیپر تھے جس میں سے ایک فرش پر ٹاکی مارتے ہوئے اتر گیا تھا ۔
ڈاکٹر صاحب کا فرش پرانی اینٹوں کا تھا جن کا پلستر جگہ جگہ سے اکھڑ چکا تھا ۔ کچھ اینٹیں نیچے کو ہو گئی تھیں، کچھ سیم کی وجہ سے اوپر کو ابھر آئی تھیں ۔ اس اونچ نیچ کے درمیان دوپٹے سے جگہ صاف کرنا مشکل کام تھا لیکن بانو نے اپنے روز مرہ تجربے کے زور پر ساری جگہ اچھی طرح سے صاف کر دی ۔ ڈاکٹر صاحب نے چور آنکھ سے اپنے فرش کو اس کی اصل حالت میں دیکھ کر کہا ” بابا تم کیسا لڑکی لوگ ہے ، سارا دوپٹہ خراب کر لیا ۔ اب اس کو باہر جا کر دھوؤ ۔ا چھی طرح سے صاف کرو، اس میں جراثیم چلا گیا ہے ۔ بچے کے پاس نہیں لانا یہ کپڑا ۔”
میں نے کہا ” ڈاکٹر صاحب باہر نلکا ہے ؟”
کہنے لگے ” کیوں نہیں ہے ۔ یہ ساتھ باجو میں گھوڑوں کے پانی پینے کا حوض ہے نئیں ، اس میں پانی ہی پانی ہے۔ جا کر دھوؤ ۔” میں بچے کو کندھے سے لگا کر کھڑا رہا ۔ بانو نے آدھا دوپٹہ کھیل میں ڈال کر کھنگال لیا ۔
ایسے وقت میں اور اس قدر شدید گرمی میں سڑک کنارے پیدل چلنا تو شاید اس قدر مشکل نہیں تھا لیکن ایک بیمار بچے کو کندھے سے لگا کر کلینک سے ذلیل و خوار ہو کر اور زمین سے بوٹ کے پرانے ڈبے کا گتا اٹھا کر اس سے مریض بچے کے چہرے کو چھاؤں کر کے چلنے میں ہم دونوں ایک دوسرے سے کچے پڑے ہوئے تھے اور شرمندگی کی وجہ سے ہمارے سر اوپر نہیں اٹھتے تھے ۔
سڑک پر کوئی سواری نہیں تھی اور ہمیں بس پکڑنے کے لئے ابھی بہت دور تک چلنا تھا ۔ بچے کا بخار گرمی کی وجہ سے بڑھ رہا تھا اور بانو بار بار اس کے ماتھے اور لٹکتی ہوئی بے جان ٹانگوں کو چھو رہی تھی کہ بخار ہو رہا ہے یا بڑھ رہا ہے ۔
اس دھوپ اور گرمی میں ہم اسی طرح سے چلتے رہے، تھکے تھکے، خوف زدہ، مایوس، بے مراد اور اکیلے ۔ بیمار بچے نے کئی مرتبہ آنکھیں کھولنے کی کوشش کی لیکن گرمی کی شدت اور روشنی کی چلکور نے اس کے پپوٹے کھلنے نہ دئیے ۔ ہم چلتے چلتے، سو چتے سو چتے، چپ چپاتے جی پی او کے پاس پہنچ گئے ۔ یہاں تار گھر کے پاس کئی تانگے کھڑے تھے۔ درخت کی چھاؤں تلے بیمار بچے نے آنکھیں کھول کر ایک سفید گھوڑے کو بڑی دلچسپی سے دیکھا اور اپنا ڈولتا ہوا سر ساکن کر لیا ۔ میں نے تا نگے میں بیٹھتے ہوئے کہا ” گورنمنٹ کالج ” اور بانو حیرانی سے میرا منہ تکنے لگی ۔
کالج چھٹیوں کی وجہ سے بند تھا ۔ پرندے شاخوں میں چھپے ہو ئے تھے ۔ اونچی بلڈنگ کے سائے دور دور تک پھیل کر درختوں کے سائے سے مل گئے تھے ۔ سارے میں ایک خوشگوار خاموشی کی خوشبو پھیلی ہوئی تھی ۔ ہم اپنے کلاس روم کی سیڑھیوں پر بیٹھ گئے ۔ انیق بانو کی گود میں لیٹا ہوا ایک اونچے درخت کی شاخوں کو دیکھ رہا تھا ۔ میں نے جھک کر اس کی آنکھوں کو قریب سے دیکھنا چاہا تو مجھے بانو کے دوپٹے سے کھٹی کھٹی بو سی آئی ۔ میں نے بچے کے چھوٹے سے ماتھے پر اپنا بڑا سا تھکا ماندہ چہرہ رکھا تو مجھے ایک بیمار سی ٹھنڈک کا احساس ہوا ۔ بچے نے مسکرا کر اپنی ماں کی طرف دیکھا تو ماں کی جنت گم گشتہ لوٹ کر اس کی جھولی میں آ گئی ۔ بانو نے اس کے پاؤں کو ، ماتھے کو اور گلے کو چھو کر خوشی سے میری طرف دیکھا اور کہا ” بالکل خواجہ منظور کی طرح مسکرایا ہے ” خواجہ صاحب اپنی ساری زندگی میں صرف ایک بار مسکرائے ہوں گے لیکن بانو کے ذہن میں ان کی مسکراہٹ ہمیشہ کے لئے سٹل ہو کر ایک فریم میں جڑی جا چکی تھی ۔ پھر ہمارے ذہنوں میں اپنے ایام طالب علمی کا ایکشن ری پلے شروع ہو گیا اور طوطے اپنی چونچوں میں ڈالیاں پکڑ کر ہاتھ چھوڑ کر کرتب دکھلانے لگے ۔
بیمار بچہ اپنی ماں کی گود سے پھسل کر پہلے ایک سیڑھی پر کھڑا ہوا ۔پھر ہاتھ پکڑ کر دوسری پر اترا اور پھر خود ڈگمگاتے قدموں سے روش پر چلا گیا ۔ وہ کوئی ڈیڑھ گز تک ایک طرف اور کوئی دو گز کے قریب دوسری جانب چلا اور پھر تھک کر زمین پر بیٹھ گیا ۔
ابھی ہمیں سیڑھیوں پر بیٹھے تھوڑی دیر ہی ہوئی تھی کہ نیلی پگڑی باندھے اور ہاتھ میں چابیوں کا مو ٹا سا گچھا اٹھا ئے ایک شخص ہمارے طرف آیا اور قریب آ کر پوچھنے لگا ” کون لوگ ہو تم ”
میں نے کہا “ہم لوگ ہیں ۔”
اس نے کہا ” یہاں آنے کا اور بیٹھنے کا حکم نہیں ہے ۔”
میں نے کہا ” کس کا حکم نہیں ؟”
” پرنسپل صاحب کا ” اس نے درشت لہجے میں کہا اور ہمیں ہاتھ کے اشارے سے اٹھانے لگا ۔ میں کہنے والا تھا کہ بانو نے ہاتھ کے اشارے سے مجھے منع کر دیا ۔ پھر اس نے آگے بڑھ کر زمین پر بیٹھے ہو ئے اپنے بچے کو اٹھایا اور آہستگی سے چلنے لگی ۔ میں بھی خاموشی سے اس کے ساتھ ہو لیا اور ہم تینوں آہستہ آہستہ پھاٹک کی طرف بڑھنے لگے ۔ ہم آگے کو جا رہے تھے اور گورنمنٹ کالج پیچھے کو ہٹا جا رہا تھا ۔ ہم نے پیچھے مڑ کر تو نہیں دیکھا لیکن ہمیں پتہ چل رہا تھا کہ ہمارے درمیان فاصلہ بڑھ رہا ہے ۔ کئی بے ہو دہ، نکمے، بد ہیت اور بے کار لوگ در گاہوں سے اٹھا دئیے جاتے ہیں اور ان کے بعد فرش دھلا دئیے جا تے ہیں —— لیکن ان کے دلوں کے فرش پر درگاہوں کی مورتیں ویسے ہی قائم رہتی ہیں ۔
اصل میں گورنمنٹ کالج تک پہنچنے کے کئی راستے ہیں ۔ اس کی طرف رخ نہ بھی ہو تو بھی یاتری اسی کی طرف کا سفر ہی کر رہے ہو تے ہیں ۔ کہتے ہیں جب Space Shuttle زمین سے چاند کی طرف چھوڑا جاتا ہے تو اس کا رخ چاند کی طرف نہیں ہوتا ، پھر بھی اس کا سفر چاند ہی کا ہوتا ہے اور اس کی منزل چاند ہی ہوتی ہے

۔
غبارہ
سعید جاوید مغل
گھر کے صحن کے اندر بچھی ہوئی چارپائی پر بیٹھا نوجوان کسی لمبی فکر میں ڈوبا ہوا تھا۔ پاس ہی اس کی نوجوان بیوی گھر کے کام کاج میں مصروف تھی۔ اچانک باہر گلی سے اس کی بچی دوڑی دوڑی صحن میں داخل ہوئی اور باپ کے گلے میں باہیں ڈال کر پیار سے کہا بابا باہر گلی میں غبارہ بیچنے والا آیا ہوا ہے آپ مجھے آٹھ آنے دیں میں نے غبارہ خریدنا ہے۔
باپ نے بچی کے رخسار پر پیار کیا اور کہا کہ ابھی تو میرے پاس آٹھ آنے نہیں ہیں مجھے تھوڑی دیر کے بعد ایک ضروری کام کو جانا ہے وہاں سے واپسی پر آکر آپ کو آٹھ آنے دوں گا تو پھرآپ اس سے اپنے لئے غبارہ خرید لینا۔ یہ بات کہہ کر جب وہ کھڑا ہونے لگا تو بچی پیچھے ہٹ گئی اور وہ باہرکے دروازہ کی طرف جب بڑھا۔ بیوی نے پیچھے سے آواز دی کہ آپ کہاں جا رہے ہیں تو اس کے باہر کی دروازہ کی کنڈی کو کھولتے ہو ئے کہا کہ ضروری کام کے لئے جا رہا ہوں ابھی تھوڑی دیر میں واپس آ جاؤں گا۔ بیوی یہ جواب سن کر دوبارہ گھر کے کام کاج میں مصروف میں مصروف ہو گئی۔ بچی دروازہ کو کھول کر باپ کو جاتے ہوئے دیکھ رہی تھی جب باپ اپنی گھرکی گلی پار کر گیا توبچی باہر کے دروازہ کوبند کر کے اپنی ماں کے پاس اپنی گڑیا سے کھیلنے لگی۔
کافی وقت گزر گیا لیکن نوجوان واپس نہ آیا۔ بیوی بار بار دروازے کی طرف دیکھتی جا رہی تھی۔ آج بچی بھی کافی بے چین تھی کیونکہ اس کا والد اتنی دیر باہر نہیں ٹھہرتا تھا ۔ وہ کتنی دفعہ باہر کا دروازہ کھول کر گلی میں جھانک چکی تھی کہ کہیں سے اس کو اس کا باپ آتا ہوا دکھائی دے۔شام ہونے کو قریب تھی کہ باہر کا دروازہ کھلا اور نوجوان گھر کے اندر داخل ہوا۔ آج وہ شکل سے بہت ہی تھکا ہوا لگ رہا تھا۔ بیوی بے شمار سوال کر رہی تھی کہ آپ کہاں تھے؟ اتنی دیر آپ نے کہاں لگائی ہے اور کھانا بھی آپ کے انتطار میں ٹھنڈا ہو گیا ہے ۔ بچی بھی آپ کے انتظار میں تھک کر سو گئی ہے۔ وہ ساری باتیں سن رہا تھا اور وہ اسی چارپائی پر بیٹھ گیا جس پر اس کی بچی سو رہی تھی۔ اس نے بچی کے سر پر ہاتھ پھیرا اور بیوی سے ایک گلاس پانی مانگا۔ بیوی فورا دوڑ ی گئی اور پانی کا گلاس لے کر اس کے پاس آ گئی۔ نوجوان نے بیوی کے ہاتھ سے گلاس پکڑ کر ابھی چند گھونٹ ہی پیئے تھے کہ چکرا کر زمین پر گر پڑا اور وہ بے ہوش ہو گیا۔ یہ دیکھ کر بیوی کی چیخیں نکل گئیں اور وہ بھاگی بھاگی ساتھ کے گھر کے اندرداخل ہوئی اور رو رو کر بتانے لگی، یہ گھر اس نوجوان کے بڑے بھائی کا تھا ۔ نوجوان کا بڑا بھائی فوراً ہی اپنی بھاوجہ کے ساتھ آیا اور لوگ بھی چیخ وپکار سن کر گلی میں جمع ہو گئے۔نوجو ان کا بھائی گھر سے باہر آکر بولا ہے کوئی جو اس گلی کی نکڑپر موجود کلینک کے ڈاکٹر کو بلا کر لا سکے، پاس کھڑے ایک لڑکے نے جواب دیا تایا میں جاتا ہوں اور وہ بھاگ کر ڈاکٹر کو بلانے چلا گیا اورڈاکڑ فورا ہی اس لڑکے ساتھ آگیا۔ ڈاکٹر نے اس جب اس کو چیک کیا تو بولا آپ اس کو فورامیو ہسپتال لے جائیں دیر نہ کریں۔ لوگ بھاگ کر گئے اور آٹورکشا لے آئے، نوجوان کو اس میں ڈالا اور میو ہسپتا ل کی طرف چلنے کے لئے رکشا ڈرائیور کو کہا، رکشا ڈرائیور ساری سیچوئیشن کو سمجھ گیا اور وہ اپنی پوری مہارت کا مظاہرہ کرتے ہوئے بغیر تاخیر کے اس کولے کر ہسپتال پہنچ گیا۔ ایمر جنسی میں مریض کو لیجایا گیا اور تھوڑی دیر کے بعد ڈاکٹروں نے اس کی موت کو کنفرم کر دیا۔بڑا بھائی جب چھوٹے بھائی کی میت کو لے کر ایمرجنسی سے باہر آیا تو کافی لوگ وہاں آ کر جمع ہو گئے کہ اچانک ان سے ایک بولا، اوئے لالہ حمید اس آدمی کو دیکھو جو فوت ہو گیا ہے، یار یہ پیشہ وار خون بیچنے والا ہے۔ یہ تو اکژ یہاں آکرضرورت مند لوگوں کے پاس خون بیچتا تھا۔ بڑے بھائی نے یہ سن کر غصہ سے کہا تم کیا بکواس کر رہے ہو؟یہ سن کر اس آدمی نے کہاآپ اس لالہ حمید سے خود پوچھ لیں۔ اس آدمی نے ایک آدمی کی طرف اشارہ کر کے کہا اور لالہ حمید نے بھی اس کی تصدیق کر دی۔ اس کے بعد ہر طرف خاموشی چھا گئی۔ بڑا بھائی چھوٹے بھائی کی میت کو لے کر جب گھر واپس آیا تو نوجوان کی بیوی پر سکتہ طاری ہو گیا اور وہ پاگلوں کی طرح ہر ایک کو گھور رہی تھی۔ لوگ نوجوان کے بھائی کو کہہ رہے تھے کہ جو اللہ کو منظور تھا۔
میت کو جب نہلانے کا وقت آیا تو نہلانے والوں نے دیکھا کہ میت کا ایک کا ایک ہاتھ تو کھلا ہوا ہے لیکن دائیں ہاتھ کی مٹھی بھینچی ہو ئی ہے انہوں نے ذرا زور لگا کر ہاتھ کو کھولا تو اس کے اندر آٹھ آنے کا سکہ تھا۔ یہ وہ سکہ تھا جو وہ اپنی بیٹی کو غبارہ خریدنے کے لئے نہ دے سکاتھا۔
اس دنیا سے رخصت ہونے والا یہ نوجوان سعودی عرب میں 8سال گزارنے کے بعد چند سال پیشتر ہی طائف سعودی عرب سے واپس پاکستان گیا تھا کیونکہ کمپنی کے پروجیکٹس مکمل ہو گئے تھے اورابھی نئے پروجیکٹس نہیں مل رہے تھے۔ اس لئے اس نے فیصلہ کیا کہ وہ وطن واپس چلا جاتا ہے۔ وہ رات دن یہاں کام کرتا رہا اور سمجھ رہا تھا کہ اب وہ اتنے پیسے پاکستان بھیج چکا ہے کہ واپس جاکر کوئی اچھا سا کام کر سکتا ہے لیکن جب وہ واپس پاکستان گیا تو اسے معلوم ہوا کہ س کے بھیجے ہو ئے روپئے اس کے بھائی کھاتے پیتے رہے ہیں اور ان کے پاس اس کے بھیجے ہوئے روپوں میں سے کچھ بھی باقی نہیں بچا ہے ۔ اس کے پاس جو کچھ جمع پونجی باقی بچی ہوئی تھی اس سے وہ کیا کام کرے اس کی اس کو خود سمجھ نہیں آ رہی تھی۔ چنانچہ چند سالوں میں جمع پونجی بھی خرچ ہو گئی اور نوبت یہاں آگئی کہ جب وہ گھر کے اخراجات سے وہ پریشان ہو تا تو اپنا خون میو ہسپتال کے باہر چند سو روپئے کے عوض ضرورت مندوں کے ہاتھوں بیچ کرگھر آ جاتا۔ اس کے ساتھ ہی اس کی کوشش بھی تھی کہ وہ ایک بار پھر باہر پردیس چلا جائے۔ اس کے لئے وہ اکژ ملک سے باہر بھیجنے والوں کے دفتر کے چکر کاٹتا رہتا تھا۔
منیڈیٹ بھی آیا، عوام کے سر چشمہ والی حکومت بھی آئی لیکن اورسیز پاکستانیوں کے لئے نہ تو کوئی اورسیزخواتین یونیورسٹی اور نہ ہی اورسیز میڈیکل کالج بنا۔ حکومتیں آئیں اوران اورسیز پاکستانیوں کے ہاتھوں میں لالی پاپ دے کر ان کے سر پر ہاتھ پھیرتی رہیں۔
ہم لوگ جو سال ہا سال سے اپنے ملک سے باہر محنت کر رہے ہیں، ملک کو زر مبادلہ بھیج رہے ہیں۔ کیا ہمارے لئے کوئی ایسا متبادل پروگرام کسی کے پاس نہیں کہ ہمارا مستقبل محفوظ ہو جائے اور ہمارے مٹھی میں اتنے پیسے ہوں کہ ہم اپنے بچوں کی خواہش پر ان کو آٹھ آنے کا غبارہ ہی خرید کر دے سکیں؟

Sunday, January 16, 2011

Three faces of love


Share this story!       
BOOK REVIEW: Three faces of love —by Mashal Sahir
Poet, Beloved and Philosopher

By Feza Aazmi

Translated by Farzana Ahmad

Academy Bazyaft; Pp 127; Rs 250


Farzana Ahmad is a short story writer who is routinely published in leading Urdu periodicals. She is the wife of Feza Aazmi, a writer, social and political analyst, lawyer, journalist and poet of great repute. He emerged as the founder of a new genre of poetry, i.e. a series of book-length poems on major national and global issues in their historical and analytical perspective, and has written seven book-length poems on wide ranging topics. The book Poet, Beloved and Philosopher is Farzana Ahmad’s translation of the captivating and lyrical book-length ghazal ‘Shair, Mehboob aur Falsafi’ by Feza Aazmi. Here, I would like to mention that it is extremely difficult translating a book, and that too a good book, into another language and when the book involved is one of poetry, this difficulty increases manifold. More often than not, when people have taken up this crucial task, they have ended up either falling short of the original texts or exceeding them. However, Farzana Ahmad has done a commendable job translating this ghazal and has succeeded in keeping the lyrical formation and meaning of the original text intact.

The book begins with a few reviews by Dr Farman Fatehpuri, Sardar Zaidi and Anis Ahmad. I agree with Dr Farman Fatehpuri’s opinion that unlike all other professions, there is no qualification, no education and no training that can turn one into a poet. Poetry is an art that one is born with — you either have it or you do not — and good poetry is the result of uncontrollable emotional tumult and sensitivity, and not of deliberate effort or acquired knowledge. Dr Farman states in his review that Feza Aazmi is a true poet and has quoted some of the verses from his ghazals to confirm his statement. One of my personal favourites among these verses was, “Mujh ko bhi ho chala tha wafa’on ka kuch yakeen/ Lekin wo muskura diye ehd-e-wafa ke baad” (On her pledge of love, Almost convinced was I/ But for her parting smile, that was winsome but wry). This verse was unique in nature as it was marked with simplicity yet it carried a deep meaning. I have always believed that a good poem is one that brings a smile to your face, one that you might not even be aware of or have a reason for but you just cannot resist the urge; let me just say that this particular verse did the trick.

The poem Poet, Beloved and Philosopher can best be described as a philosophy of life where Feza Aazmi has taken up the role of all three, poet, beloved and philosopher and has explained life through the perspectives of a romantic, idealist poet, a teasing, tantalising beloved and a curious and rational philosopher. How he has brilliantly switched from one role to the other throughout the poem is commendable. As a poet, lost in his own world of fantasies, he writes, “Mein uske paas hoon aur woh hai mere pasih-e-nazar/ Haseen, shoakh, dilaawaiz, misl-e-shams-o-qamar/ Hazar baar who khoya hai mujhsay mil kar/ Woh kaun hai, yeh khayalon ko hai har aan khabar/ Magar nazar se nehaan hai ke chha raha hai kaun” (So close in proximity her I behold/ Like the sun and moon her enchanting allure and charm unfold/ She crosses my path often yet I fail to capture, to hold/ Aware is my heart of a luminous presence untold/ But woebegone! My eyes are oblivious/ Of that which my heart is desirous). As is evident from this verse, Feza Aazmi’s ghazals have been composed in rhyme and meter, yet he has not fallen victim to replicating his thoughts, which proves his mastery over the art of ghazal writing. His use of idioms, e.g. the sun and moon, to describe his beloved’s beauty is a quality that only a real artist possesses and, together with the way he has expressed his desire for her, without appearing even slightly vulgar, is a trait that distinguishes him from many other poets of his time. Moving on to the role of an iconic, elusive beloved, he writes, “Tujhe talaash hai meri tou mein ayaan hojaon/ Teri nigaah mein khursheed ka nishan hojaoon/ Wagar na kehtay rehkar hazaar pardon mein/ Teray khayal ki khatir teri zaban hojaoon/ Hayat-e-zauq-e-nazar ke siwa mein kuch bhi nahin” (I will reveal myself surely, if you so desire/ Dazzle your eyes like the sun’s blinding fire/ Or make myself obscure behind a thousand veils/ And let your pen weave magic in your tragic tales/ I exist not but, as a treasure-house of life’s yearnings entire). Here, Feza Aazmi has exquisitely described the behaviour of a beloved who is cajoling her lover into proving his devotion to her, to tell her how much she is desired and, in the end, she humbly accepts that she is everything beautiful that life has to offer. Then suddenly, he transforms into a rational but thoughtful philosopher and writes, “Meri nazar ko tamanna hai teri kurbat ki/ Meri khirad ko zaroorat hai teri soorat ki/ Mere khayal sulajh jaa’engay tujhe paakar/ Ke inko aaj talab hai teri haqeeqat ki/ Nazar ke vaastay tera shabab leloonga” (My eyes in their search crave your vicinity/ My reason demands you be in close proximity/ The aura of your presence will calm my turbulent thoughts/ My contemplations command you surrender before my majestic mind’s onslaught/ Your charisma youthful I will steal to be the cynosure of my eyes).

The book under review is a brilliant cross-language translation and comprises poetry that one would enjoy reading.

The reviewer is a staff member and can be reached at mashalsr@hotmail.com

del.icio.us

Followers

Powered By Blogger